ان کی نقاب ہی رہے حُسنِ طلب اٹھا کے ہم
جرأتِ جذبِ ذوقِ دید مانے تو آزما کے ہم
جن کو یقین ہی نہ ہو، ان سے اَلم کا ذکر کیا
پُرسشِ حالِ زار پر رہ گئے مسکرا کے ہم
فرطِ خوشی ہے یا فقط وہم و خیال کا سراب
منزلِ زیست کے نشاں کھو سے گئے ہیں پآ کے ہم
خطرہِ برق و باد ہے اور نہ فکرِ آشیاں
بیٹھ گئے ہیں آشیاں اپنا ہی خود جلا کے ہم
زیست کی غم سے نسبتیں کام ہی آج آگئیں
’’ہر غمِ بے پناہ پر رہ گئے مسکرا کے ہم،،
ایسے بھی داغ عشق نے بخشے ہیں قلبِ زار کو
چاہیں بھی گر شکیبؔ تو، رکھ نہ سکیں چھپا کے ہم
شکیب جلالی