ٹیگ کے محفوظات: مستعار

یاد تھے یادگار تھے ہم تو

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 64
آپ اپنا غبار تھے ہم تو
یاد تھے یادگار تھے ہم تو
پردگی! ہم سے کیوں رکھا پردہ
تیرے ہی پردہ دار تھے ہم تو
وقت کی دھوپ میں تمہارے لیے
شجرِ سایہ دار تھے ہم تو
اُڑتے جاتے ہیں دُھول کے مانند
آندھیوں پر سوار تھے ہم تو
ہم نے کیوں خود پہ اعتبار کیا
سخت بے اعتبار تھے ہم تو
شرم ہے اپنی بار باری کی
بے سبب بار بار تھے ہم تو
کیوں ہمیں کر دیا گیا مجبور
خود ہی بے اختیار تھے ہم تو
تم نے کیسے بُلا دیا ہم کو
تم سے ہی مستعار تھے ہم تو
خوش نہ آیا ہمیں جیے جانا
لمحے لمحے پہ بار تھے ہم تو
سہہ بھی لیتے ہمارے طعنوں کو
جانِ من جاں نثار تھے ہم تو
خود کو دورانِ حال میں اپنے
بے طرح ناگوار تھے ہم تو
تم نے ہم کو بھی کر دیا برباد
نادرِ روزگار تھے ہم تو
ہم کو یاروں نے یاد بھی نہ رکھا
جون یاروں کے یار تھے ہم تو
جون ایلیا

کہا کہ ایسے تو میں مفت مار لایا ہوں

دیوان اول غزل 313
کیا جو عرض کہ دل سا شکار لایا ہوں
کہا کہ ایسے تو میں مفت مار لایا ہوں
کہے تو نخل صنوبر ہوں اس چمن میں میں
کہ سر سے پائوں تلک دل ہی بار لایا ہوں
جہاں میں گریہ نہ پہنچا بہم مجھے دلخواہ
پہ نوحؑ کے سے تو طوفاں ہزار لایا ہوں
نہ تنگ کر اسے اے فکر روزگار کہ میں
دل اس سے دم کے لیے مستعار لایا ہوں
کسی سے مانگا ہے میں آج تک کہ جی لیوے
یہ احتیاج تجھی تک اے یار لایا ہوں
پھر اختیار ہے آگے ترا یہ ہے مجبور
کہ دل کو تجھ تئیں بے اختیار لایا ہوں
یہ جی جو میرے گلے کا ہے ہار تو ہی لے
ترے گلے کے لیے میں یہ ہار لایا ہوں
چلا نہ اٹھ کے وہیں چپکے چپکے پھر تو میر
ابھی تو اس کی گلی سے پکار لایا ہوں
میر تقی میر

وہ حوصلہ رہا نہیں صبر و قرار کا

الطاف حسین حالی ۔ غزل نمبر 19
اک خوشی ہو گئی ہے تحمل کی ورنہ اب
وہ حوصلہ رہا نہیں صبر و قرار کا
آؤ مٹا بھی دو خلش آرزوئے قتل
کیا اعتبار زندگی مستعار کا
سمجھو مجھے اگر ہے تمہیں آدمی کی قدر
میرا اک التفات نہ مرنا ہزار کا
گر صبح تک وفا نہ ہوا وعدہ وصال
سن لیں گے وہ مآل شب انتظار کا
ہر سمت گرد ناقۂ لیلیٰ بلند ہے
پہنچے جو حوصلہ ہو کسی شہسوار کا
حالیؔ بس اب یقین ہے کہ دلی کے ہو رہے
ہے ذرہ ذرہ مہر فزا اس دیار کا
الطاف حسین حالی

غم سے بے اختیار سا ہے کچھ

امیر مینائی ۔ غزل نمبر 35
دل جو سینے میں زار سا ہے کچھ
غم سے بے اختیار سا ہے کچھ
رخت ہستی بدن پہ ٹھیک نہیں
جامۂ مستعار سا ہے کچھ
چشم نرگس کہاں وہ چشم کہاں
نشہ کیسا خمار سا ہے کچھ
نخل اُمید میں نہ پھول نہ پھل
شجرِ بے بہار سا ہے کچھ
ساقیا ہجر میں یہ ابر نہیں
آسمان پر غبار سا ہے کچھ
کل تو آفت تھی دل کی بیتابی
آج بھی بے قرار سا ہے کچھ
مردہ ہے دل تو گور ہے سینہ
داغ شمع مزار سا ہے کچھ
اِس کو دنیا کی اُس کو خلد کی حرص
رند ہے کچھ نہ پارسا ہے کچھ
پہلے اس سے تھا ہوشیار امیر
اب بے اختیار سا ہے کچھ
امیر مینائی