ٹیگ کے محفوظات: مسئلہ

مہک اُداسی ہے، بادِ صبا اُداسی ہے

عجب ہے رنگِ چمن، جا بجا اُداسی ہے
مہک اُداسی ہے، بادِ صبا اُداسی ہے
نہیں نہیں، یہ بھلا کس نے کہہ دیا تم سے؟
میں ٹھیک ٹھاک ہوں، ہاں بس ذرا اُداسی ہے
میں مبتلا کبھی ہوتا نہیں اُداسی میں
میں وہ ہوں جس میں کہ خود مبتلا اُداسی ہے
طبیب نے کوئی تفصیل تو بتائی نہیں
بہت جو پوچھا تو اتنا کہا، اُداسی ہے
گدازِ قلب خوشی سے بھلا کسی کو ملا؟
عظیم وصف ہی انسان کا اُداسی ہے
شدید درد کی رو ہے رواں رگِ جاں میں
بلا کا رنج ہے، بے انتہا اُداسی ہے
فراق میں بھی اُداسی بڑے کمال کی تھی
پسِ وصال تو اُس سے سِوا اُداسی ہے
تمہیں ملے جو خزانے، تمہیں مبارک ہوں
مری کمائی تو یہ بے بہا اُداسی ہے
چھپا رہی ہو مگر چھپ نہیں رہی مری جاں
جھلک رہی ہے جو زیرِ قبا اُداسی ہے
مجھے مسائلِ کون و مکاں سے کیا مطلب
مرا تو سب سے بڑا مسئلہ اُداسی ہے
فلک ہے سر پہ اُداسی کی طرح پھیلا ہُوا
زمیں نہیں ہے مرے زیرِ پا، اُداسی ہے
غزل کے بھیس میں آئی ہے آج محرمِ درد
سخن کی اوڑھے ہوئے ہے ردا، اُداسی ہے
عجیب طرح کی حالت ہے میری بے احوال
عجیب طرح کی بے ماجرا اُداسی ہے
وہ کیفِ ہجر میں اب غالباً شریک نہیں
کئی دنوں سے بہت بے مزا اُداسی ہے
وہ کہہ رہے تھے کہ شاعر غضب کا ہے عرفان
ہر ایک شعر میں کیا غم ہے، کیا اُداسی ہے
عرفان ستار

یقین مانو، کسی سے کوئی گلہ نہیں ہے

اُداس بس عادتاً ہوں، کچھ بھی ہُوا نہیں ہے
یقین مانو، کسی سے کوئی گلہ نہیں ہے
ادھیڑ کر سی رہا ہوں برسوں سے اپنی پرتیں
نتیجتاً ڈھونڈنے کو اب کچھ بچا نہیں ہے
ذرا یہ دل کی امید دیکھو، یقین دیکھو
میں ایسے معصوم سے یہ کہہ دوں خدا نہیں ہے؟
میں اپنی مٹی سے اپنے لوگوں سے کٹ گیا ہوں
یقیناً اس سے بڑا کوئی سانحہ نہیں ہے
تو کیا کبھی مل سکیں گے یا بات ہو سکے گی؟
نہیں نہیں جاوٗ تم کوئی مسئلہ نہیں ہے
وہ راز سینے میں رکھ کے بھیجا گیا تھا مجھ کو
وہی جو اک راز مجھ پہ اب تک کھُلا نہیں ہے
میں بغض، نفرت، حسد، محبت کے ساتھ رکھوں؟
نہیں میاں میرے دل میں اتنی جگہ نہیں ہے
چہار جانب یہ بے یقینی کا گھپ اندھیرا
یہ میری وحشت کا انخلا ہے، خلا نہیں ہے
اسی کی خوشبو سے آج تک میں مہک رہا ہوں
وہ مجھ سے بچھڑا ہُوا ہے لیکن جدا نہیں ہے
لکھا ہوا ہے تمہارے چہرہ پہ غم تمہارا
ہماری حالت بھی ایسی بے ماجرا نہیں ہے
یہ تازہ کاری ہے طرزِ احساس کا کرشمہ
مرے لغت میں تو لفظ کوئی نیا نہیں ہے
نیا ہنر سیکھ، فی زمانہ ہو جس کی وقعت
سخن کی نسبت سے اب کوئی پوچھتا نہیں ہے
جسے ہو عرفانِ ذات وہ کیا تری سنے گا؟
او ناصحا، چھوڑدے، کوئی فائدہ نہیں ہے
عرفان ستار

اب تو بس معلوم کرنا ہے کہ کیا موجود ہے

یہ خبر ہے، مجھ میں کچھ میرے سِوا موجود ہے
اب تو بس معلوم کرنا ہے کہ کیا موجود ہے
ایک میں ہوں، جس کا ہونا ہو کے بھی ثابت نہیں
ایک وہ ہے جو نہ ہو کر جابجا موجود ہے
ہاں خدا ہے، اس میں کوئی شک کی گنجائش نہیں
اس سے تم یہ مت سمجھ لینا خدا موجود ہے
حل کبھی ہوتا نہیں یہ جسم سے چھوٹے بغیر
میں ابھی زندہ ہوں سو یہ مسئلہ موجود ہے
تاب آنکھیں لا سکیں اُس حسن کی، ممکن نہیں
میں تو حیراں ہوں کہ اب تک آئینہ موجود ہے
رات کٹتی ہے مزے میں چین سے ہوتی ہے صبح
چاندنی موجود ہے بادِ صبا موجود ہے
روشنی سی آرہی ہے اِس طرف چھنتی ہوئی
اور وہ حدۤت بھی جو زیرِ قبا موجود ہے
ایک پل فرصت کہاں دیتے ہیں مجھ کو میرے غم
ایک کو بہلا دیا تو دوسرا موجود ہے
درد کی شدۤت میں بھی چلتی ہے میرے دل کے ساتھ
اک دھڑکتی روشنی جو ہر جگہ موجود ہے
معتبر تو قیس کا قصہ بھی ہے اس ضمن میں
اس حوالے سے مرا بھی واقعہ موجود ہے
خواب میں اک زخم دیکھا تھا بدن پر جس جگہ
صبح دیکھا تو وہاں اک داغ سا موجود ہے
ایک ہی شعلہ سے جلتے آرہے ہیں یہ چراغ
میر سے مجھ تک وہی اک سلسلہ موجود ہے
یوں تو ہے عرفان ہر احساس ہی محدود سا
اک کسک سی ہے کہ جو بے انتہا موجود ہے
عرفان ستار

مجھ کو کہاں خبر تھی کہ اتنا برا ہوں میں

احباب کا کرم ہے کہ خود پر کھلا ہوں میں
مجھ کو کہاں خبر تھی کہ اتنا برا ہوں میں
خود سے مجھے جو ہے وہ گلہ کس سے میں کروں
مجھ کو منائے کون کہ خود سے خفا ہوں میں
اٹھے جو اس طرف وہ نظر ہی کہیں نہیں
اک شہرِ کم نگاہ میں کھویا ہُوا ہوں میں
تجھ سے نہیں کہوں گا تو کس سے کہوں گا یار؟
پہلے سمجھ تو جاوٗں کہ کیا چاہتا ہوں میں؟
کیا اور چاہتے ہیں یہ دیدہ ورانِ عصر؟
عادی منافقت کا تو ہو ہی گیا ہوں میں
مل جائیں گے بہت سے تجھے مصلحت پسند
مجھ سے نہ سر کھپا کہ بہت سر پھرا ہوں میں
اب آئینہ بھی پوچھ رہا ہے، تو کیا کہوں
حسرت بھری نگاہ سے کیا دیکھتا ہوں میں
باہر ہے زندگی کی ضرورت میں زندگی
اندر سے ایک عمر ہوئی مر چکا ہوں میں
رہتا ہے اک ہجوم یہاں گوش بر غزل
سنتا ہے کون درد سے جب چیختا ہوں میں
ہیں حل طلب تو مسئلے کچھ اور بھی مگر
اپنے لیے تو سب سے بڑا مسئلہ ہوں میں
میں نے ہی تجھ جمال کو تجھ پر عیاں کیا
اے حسنِ خود پرست، ترا ائینہ ہوں میں
جب تک میں اپنے ساتھ رہا تھا، ترا نہ تھا
اب تیرے ساتھ یوں ہوں کہ خود سے جدا ہوں میں
پہلے میں بولتا تھا بہت، سوچتا تھا کم
اب سوچتا زیادہ ہوں، کم بولتا ہوں میں
عرفان کیا تجھے یہ خبر ہے کہ ان دنوں
ہر دم فنا کے باب میں کیوں سوچتا ہوں میں؟
عرفان ستار

یہ سب سُن کے مجھ کو بھی لگنے لگا ہے کہ میں واقعی اک بُرا آدمی ہوں

مجھے کیا خبر تھی، مجھے دوسروں نے بتایا میں کیسا ہوں، کیا آدمی ہوں
یہ سب سُن کے مجھ کو بھی لگنے لگا ہے کہ میں واقعی اک بُرا آدمی ہوں
کسی کو سروکار کیا مجھ میں پھیلی ہوئی اس قیامت کی بے چارگی سے
اگر کوئی مجھ سے تعلق بھی رکھتا ہے تو یوں کہ میں کام کا آدمی ہوں
تمہیں یہ گلہ ہے کہ میں وہ نہیں جس سے تم نے محبت کے پیماں کیے تھے
مجھے بھی یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ میں وہ نہیں، دوسرا آدمی ہوں
سبھی حسبِ خواہش، بقدرِضرورت مجھے جانتے ہیں، مجھے چھانتے ہیں
کسی کو کہاں اتنی فرصت جو دیکھے کہ میں کتنا ٹوٹا ہُوا آدمی ہوں
میں اپنی حقیقت کو صندوق میں بند کرکے ہر اک صبح جاتا ہوں دفتر
کبھی شام کے بعد دیکھو کہ میں کیسا پُرحال، پُر ماجرا آدمی ہوں
میں سچ بولتا ہوں، کبھی ٹوکتا ہوں، تو کیوں آپ ایسے برا مانتے ہیں
عزیزانِ من آپ سمجھیں تو مجھ کو کہ میں اصل میں آپ کا آدمی ہوں
نجانے میں اقلیم کے اور تقویم کے کس غلط راستے سے یہاں آگیا تھا
میں اِس دور میں جی رہا ہوں تو بس یہ سمجھ لو کہ میں معجزہ آدمی ہوں
تمہیں سب خبر ہے، یہ دنیا ہے کیا، اور دنیا کو قابو میں رکھنا ہے کیسے
مری بات پر دھیان دینا بھی مت کیونکہ میں تو بس اک سرپھرا آدمی ہوں
اندھیرا، تحیؔر، خموشی، اُداسی، مجرؔد ہیولے، جنوں، بے قراری
یہ تفصیل سُن کر سمجھ تو گئے ہومیں دن کا نہیں، رات کا آدمی ہوں
تمہاری سمجھ میں نہیں آسکا تو یہ کوئی نیا واقعہ تو نہیں ہے
تمہاری مدد کیا کروں گا کہ میں خود بھی اپنے لیے مسئلہ آدمی ہوں
یہ کیا زندگی ہے، یہ کیسا تماشا ہے، میں اس تماشے میں کیا کررہا ہوں
میں روزِ ازل سے کچھ ایسے سوالوں کی تکلیف میں مبتلا آدمی ہوں
وہ اک رنگ جو تم سبھی دیکھتے ہو، وہ میرا نہیں، میرے ملبوس کا ہے
کبھی اُس سے پوچھو جو سب جانتی ہے کہ میں کیسا رنگوں بھرا آدمی ہوں
مری بددماغی منافق رویؔوں سے محفوظ رہنے کا ہے اک طریقہ
مرے پاس آؤ، مرے پاس بیٹھوکہ میں تو سراپا دعا آدمی ہوں
میں اپنے تصور میں تخلیق کرتا ہوں ایک ایسی دنیا، جو ہے میری دنیا
مری اپنی مرضی کی اک زندگی ہے، میں تنہائیوں میں خدا آدمی ہوں
مرا کیا تعارف، مرا نام عرفان ہے اور میری ہے اتنی کہانی
میں ہر دور کا واقعہ آدمی ہوں، میں ہر عہد کا سانحہ آدمی ہوں
عرفان ستار

تو میں بتاوں گا خود کو کہ کیا بنا میرا

اگر بحال ہوا خود سے رابطہ میرا
تو میں بتاوں گا خود کو کہ کیا بنا میرا
ہر ایک روز کہیں چھت مرے مکاں کی گری
ہر ایک روز کوئی شخص مر گیا میرا
کوئی بھی قبر نہیں جس میں میری لاش نہ ہو
کوئی گلی نہیں جس میں نہ خوں بہا میرا
میں روشنی کے سوا کچھ بھی کر نہیں سکتا
ہے اک چراغ کی نسبت سے سلسلہ میرا
میں حل نکال ہی لوں گا کسی طریقے سے
مری سمجھ میں جو آجائے مسئلہ میرا
میں ایک صبح بکھر جاؤں گا مہک بن کر
سراغ ڈھونڈتی رہ جائے گی صبا میرا
تجھے میں خود سے بھی ملواؤں گا مگر پہلے
کسی سے جا کے پتہ پوچھ کر تو آ میرا
عرفان ستار

مہک اُداسی ہے، بادِ صبا اُداسی ہے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 97
عجب ہے رنگِ چمن، جا بجا اُداسی ہے
مہک اُداسی ہے، بادِ صبا اُداسی ہے
نہیں نہیں، یہ بھلا کس نے کہہ دیا تم سے؟
میں ٹھیک ٹھاک ہوں، ہاں بس ذرا اُداسی ہے
میں مبتلا کبھی ہوتا نہیں اُداسی میں
میں وہ ہوں جس میں کہ خود مبتلا اُداسی ہے
طبیب نے کوئی تفصیل تو بتائی نہیں
بہت جو پوچھا تو اتنا کہا، اُداسی ہے
گدازِ قلب خوشی سے بھلا کسی کو ملا؟
عظیم وصف ہی انسان کا اُداسی ہے
شدید درد کی رو ہے رواں رگِ جاں میں
بلا کا رنج ہے، بے انتہا اُداسی ہے
فراق میں بھی اُداسی بڑے کمال کی تھی
پسِ وصال تو اُس سے سِوا اُداسی ہے
تمہیں ملے جو خزانے، تمہیں مبارک ہوں
مری کمائی تو یہ بے بہا اُداسی ہے
چھپا رہی ہو مگر چھپ نہیں رہی مری جاں
جھلک رہی ہے جو زیرِ قبا اُداسی ہے
مجھے مسائلِ کون و مکاں سے کیا مطلب
مرا تو سب سے بڑا مسئلہ اُداسی ہے
فلک ہے سر پہ اُداسی کی طرح پھیلا ہُوا
زمیں نہیں ہے مرے زیرِ پا، اُداسی ہے
غزل کے بھیس میں آئی ہے آج محرمِ درد
سخن کی اوڑھے ہوئے ہے ردا، اُداسی ہے
عجیب طرح کی حالت ہے میری بے احوال
عجیب طرح کی بے ماجرا اُداسی ہے
وہ کیفِ ہجر میں اب غالباً شریک نہیں
کئی دنوں سے بہت بے مزا اُداسی ہے
وہ کہہ رہے تھے کہ شاعر غضب کا ہے عرفان
ہر ایک شعر میں کیا غم ہے، کیا اُداسی ہے
عرفان ستار

یقین مانو، کسی سے کوئی گلہ نہیں ہے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 92
اُداس بس عادتاً ہوں، کچھ بھی ہُوا نہیں ہے
یقین مانو، کسی سے کوئی گلہ نہیں ہے
ادھیڑ کر سی رہا ہوں برسوں سے اپنی پرتیں
نتیجتاً ڈھونڈنے کو اب کچھ بچا نہیں ہے
ذرا یہ دل کی امید دیکھو، یقین دیکھو
میں ایسے معصوم سے یہ کہہ دوں خدا نہیں ہے؟
میں اپنی مٹی سے اپنے لوگوں سے کٹ گیا ہوں
یقیناً اس سے بڑا کوئی سانحہ نہیں ہے
تو کیا کبھی مل سکیں گے یا بات ہو سکے گی؟
نہیں نہیں جاوٗ تم کوئی مسئلہ نہیں ہے
وہ راز سینے میں رکھ کے بھیجا گیا تھا مجھ کو
وہی جو اک راز مجھ پہ اب تک کھُلا نہیں ہے
میں بغض، نفرت، حسد، محبت کے ساتھ رکھوں؟
نہیں میاں میرے دل میں اتنی جگہ نہیں ہے
چہار جانب یہ بے یقینی کا گھپ اندھیرا
یہ میری وحشت کا انخلا ہے، خلا نہیں ہے
اسی کی خوشبو سے آج تک میں مہک رہا ہوں
وہ مجھ سے بچھڑا ہُوا ہے لیکن جدا نہیں ہے
لکھا ہوا ہے تمہارے چہرہ پہ غم تمہارا
ہماری حالت بھی ایسی بے ماجرا نہیں ہے
یہ تازہ کاری ہے طرزِ احساس کا کرشمہ
مرے لغت میں تو لفظ کوئی نیا نہیں ہے
نیا ہنر سیکھ، فی زمانہ ہو جس کی وقعت
سخن کی نسبت سے اب کوئی پوچھتا نہیں ہے
جسے ہو عرفانِ ذات وہ کیا تری سنے گا؟
او ناصحا، چھوڑدے، کوئی فائدہ نہیں ہے
عرفان ستار

اب تو بس معلوم کرنا ہے کہ کیا موجود ہے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 84
یہ خبر ہے، مجھ میں کچھ میرے سِوا موجود ہے
اب تو بس معلوم کرنا ہے کہ کیا موجود ہے
ایک میں ہوں، جس کا ہونا ہو کے بھی ثابت نہیں
ایک وہ ہے جو نہ ہو کر جابجا موجود ہے
ہاں خدا ہے، اس میں کوئی شک کی گنجائش نہیں
اس سے تم یہ مت سمجھ لینا خدا موجود ہے
حل کبھی ہوتا نہیں یہ جسم سے چھوٹے بغیر
میں ابھی زندہ ہوں سو یہ مسئلہ موجود ہے
تاب آنکھیں لا سکیں اُس حسن کی، ممکن نہیں
میں تو حیراں ہوں کہ اب تک آئینہ موجود ہے
رات کٹتی ہے مزے میں چین سے ہوتی ہے صبح
چاندنی موجود ہے بادِ صبا موجود ہے
روشنی سی آرہی ہے اِس طرف چھنتی ہوئی
اور وہ حدۤت بھی جو زیرِ قبا موجود ہے
ایک پل فرصت کہاں دیتے ہیں مجھ کو میرے غم
ایک کو بہلا دیا تو دوسرا موجود ہے
درد کی شدۤت میں بھی چلتی ہے میرے دل کے ساتھ
اک دھڑکتی روشنی جو ہر جگہ موجود ہے
معتبر تو قیس کا قصہ بھی ہے اس ضمن میں
اس حوالے سے مرا بھی واقعہ موجود ہے
خواب میں اک زخم دیکھا تھا بدن پر جس جگہ
صبح دیکھا تو وہاں اک داغ سا موجود ہے
ایک ہی شعلہ سے جلتے آرہے ہیں یہ چراغ
میر سے مجھ تک وہی اک سلسلہ موجود ہے
یوں تو ہے عرفان ہر احساس ہی محدود سا
اک کسک سی ہے کہ جو بے انتہا موجود ہے
عرفان ستار

مجھ کو کہاں خبر تھی کہ اتنا برا ہوں میں

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 38
احباب کا کرم ہے کہ خود پر کھلا ہوں میں
مجھ کو کہاں خبر تھی کہ اتنا برا ہوں میں
خود سے مجھے جو ہے وہ گلہ کس سے میں کروں
مجھ کو منائے کون کہ خود سے خفا ہوں میں
اٹھے جو اس طرف وہ نظر ہی کہیں نہیں
اک شہرِ کم نگاہ میں کھویا ہُوا ہوں میں
تجھ سے نہیں کہوں گا تو کس سے کہوں گا یار؟
پہلے سمجھ تو جاوٗں کہ کیا چاہتا ہوں میں؟
کیا اور چاہتے ہیں یہ دیدہ ورانِ عصر؟
عادی منافقت کا تو ہو ہی گیا ہوں میں
مل جائیں گے بہت سے تجھے مصلحت پسند
مجھ سے نہ سر کھپا کہ بہت سر پھرا ہوں میں
اب آئینہ بھی پوچھ رہا ہے، تو کیا کہوں
حسرت بھری نگاہ سے کیا دیکھتا ہوں میں
باہر ہے زندگی کی ضرورت میں زندگی
اندر سے ایک عمر ہوئی مر چکا ہوں میں
رہتا ہے اک ہجوم یہاں گوش بر غزل
سنتا ہے کون درد سے جب چیختا ہوں میں
ہیں حل طلب تو مسئلے کچھ اور بھی مگر
اپنے لیے تو سب سے بڑا مسئلہ ہوں میں
میں نے ہی تجھ جمال کو تجھ پر عیاں کیا
اے حسنِ خود پرست، ترا ائینہ ہوں میں
جب تک میں اپنے ساتھ رہا تھا، ترا نہ تھا
اب تیرے ساتھ یوں ہوں کہ خود سے جدا ہوں میں
پہلے میں بولتا تھا بہت، سوچتا تھا کم
اب سوچتا زیادہ ہوں، کم بولتا ہوں میں
عرفان کیا تجھے یہ خبر ہے کہ ان دنوں
ہر دم فنا کے باب میں کیوں سوچتا ہوں میں؟
عرفان ستار

مسئلہ

’’پتھر کی زباں ‘‘ کی شاعرہ نے

اک محفلِ شعر و شاعری میں

جب نظم سُناتے مُجھ کو دیکھا

کُچھ سوچ کے دل میں ،مُسکرائی!

جب میز پر ہم مِلے تو اُس نے

بڑھ کر مرے ہاتھ ایسے تھامے

جیسے مجھے کھوجتی ہو کب سے

پھر مجھ سے کہا کہ۔۔۔۔آج،پروین!

جب شعر سناتے تم کو دیکھا

میں خود کو بہت یہ یاد آئی!

وہ وقت،کہ جب تمھاری صُورت

میں بھی یونہی شعر کہہ رہی تھی

لکھتی تھی اِس طرح کی نظمیں

پر اب تو وہ ساری نظمیں ،غزلیں

گزرے ہُوئے خواب کی ہیں باتیں !

میں سب کو ڈِس اون کر چکی ہوں !

’’پتھر کی زباں ‘‘کی شاعرہ کے

چنبیلی سے نرم ہاتھ تھامے

’’خوشبو‘‘کی سفیر سوچتی تھی

در پیش ہواؤں کے سفر میں

پل پل کی رفیقِ راہ۔۔میرے

اندر کی یہ سادہ لوح ایلس

حیرت کی جمیل وادیوں سے

وحشت کے مہیب جنگلوں میں

آئے گی۔۔۔۔تو اُس کا پُھول لہجہ

کیا جب بھی صبا نفس رہے گا!؟

وہ خود کو ڈس اون کرسکے گی!؟

پروین شاکر