ٹیگ کے محفوظات: مر

درونِ گردشِ دوراں ٹھہر کے دیکھتے ہیں

کسی سے ہو نہ سکا جو، وہ کر کے دیکھتے ہیں
درونِ گردشِ دوراں ٹھہر کے دیکھتے ہیں
پرندے میرے گلستاں کو ڈر کے دیکھتے ہیں
بُریدہ بازو وہ جب ہر شجر کے دیکھتے ہیں
یہ مدّ و جذر مرے دل کا تیری دید سے ہے
قمر کو جیسے سمندر بپھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے ایک جہاں رفتگاں کی منزل ہے
وہ چل بسا، تو اسے آؤ مر کے دیکھتے ہیں
حیات کیا ہے؟ پہر دو پہر کا میلہ ہے
تماشے آؤ پہر دو پہر کے دیکھتے ہیں
بسر کیا ہے ہمیں جس حیات نے اب تک
اسی حیات کو اب ہم بسر کے دیکھتے ہیں
نہ آسمان ملا ہم کو آنکھ بھر یاؔور
اسی لیے ہم اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
یاور ماجد

قربِ منزل کے لیے مر جانا

چوٹ ہر گام پہ کھا کر جانا
قربِ منزل کے لیے مر جانا
ہم بھی کیا سادہ نظر رکھتے تھے
سنگ ریزوں کو جواہر جانا
مشعلِ درد جو روشن دیکھی
خانہِ دل کو منّور جانا
رشتہِ غم کو رگِ جاں سمجھے
زخمِ خنداں کو گُلِ تر جانا
یہ بھی ہے کارِ نسیمِ سحری
پتّی پتّی کو جُدا کر جانا
اپنے حق میں وہی تلوار بنا
جسے اک پھول سا پیکر جانا
دشمنوں پر کبھی تکیہ کرنا
اپنے سائے سے کبھی ڈر جانا
کاسہِ سرکو نہ دی زخم کی بھیک
ہم کو مجنوں سے بھی کم تر جانا
اس لیے اور بھی خاموش تھے ہم
اہلِ محفل نے سخن ور جانا
شکیب جلالی

جو سانحے مرے دل پر گزر گئے ہوں گے

لہو کے ساتھ رگوں میں بکھر گئے ہوں گے
جو سانحے مرے دل پر گزر گئے ہوں گے
یہ دیکھ آج بھی آشفتہ سر وہی ہیں جو تھے
تو کیا سمجھتا تھا ہم تجھ سے ڈر گئے ہوں گے؟
گزشتہ شام نظر آئے تھے جو غم سے نڈھال
وہ آج صبح سبھی کام پر گئے ہوں گے
مکان جن کے جلائے گئے بنام_ خدا
خدا ہی جانے کہ وہ سب کدھر گئے ہوں گے
ثبوت کوئی فراہم نہ ہوسکے گا کبھی
گواہ اپنی نظر سے مکر گئے ہوں گے
کوئی بچا ہی نہیں گھر میں جو ہو چشم براہ
مکیں کو ڈھونڈنے کیا بام و در گئے ہوں گے
ہم اہلِ حرف سے بڑھ کر کہاں ہے کوئی نڈر
جو رن پڑا تو ہمی بے سپر گئے ہوں گے
میں جاگ جاگ کے کس کس کا انتظار کروں
جو لوگ گھر نہیں پہنچے وہ مر گئے ہوں گے
یہ سارا جوش تو تازہ غمی کا ہے عرفان
یہ سارے ولولے کل تک اتر گئے ہوں گے
عرفان ستار

آوارگانِ شہر کہاں جا کے مر گئے

بے رونقی سے کوچہ و بازار بھر گئے
آوارگانِ شہر کہاں جا کے مر گئے
آشوبِ آگہی میں گماں کی بساط کیا
وہ آندھیاں چلیں کہ یقیں تک بکھر گئے
میں خود ہی بد نُمو تھا کہ مٹی میں کھوٹ تھا
کھِل ہی نہیں سکا، مرے موسم گزر گئے
اب آئے جب میں حال سے بے حال ہو چکا
سب چاک میرے سِل گئے، سب زخم بھر گئے
جشنِ بہارِ نو کا ہُوا اہتمام جب
ہم ایسے چند لوگ بہ مژگانِ تر گئے
دل سا مکان چھوڑ کے دنیا کی سمت ہم
اچھا تو تھا یہی کہ نہ جاتے، مگر گئے
تنہا ہی کر گئی یہ بدلتی ہوئی سرشت
سب دل میں رہنے والے ہی دل سے اتر گئے
اب کچھ نہیں کریں گے خلافِ مزاج ہم
اکثر یہ خود سے وعدہ کیا، پھر مُکر گئے
اچھے دنوں کے میرے رفیقانِخوش دلی
اس بے دلی کے دور میں جانے کدھر گئے
اس عہد_ بد لحاظ میں ہم سے گداز قلب
زندہ ہی رہ گئے تو بڑا کام کر گئے
عرفان اب سناؤ گے جا کر کسے غزل
وہ صاحبانِ ذوق، وہ اہلِ نظر گئے
عرفان ستار

کس مشکل سے نیند ٓتی ہے، پھر ہم خواب میں مر جاتے ہیں

کتنی زندہ یادیں لے کر، رات کو بستر پر جاتے ہیں
کس مشکل سے نیند ٓتی ہے، پھر ہم خواب میں مر جاتے ہیں
کوی رنج نہیں ہوتا ہے، کوی آہ نہیں اٹھتی ہے
اب دل سے یادوں کے لشکر یوں چپ چاپ گزر جاتے ہیں
جتنے بھی ہیں کام ضروری، سارے عجلت میں نمٹا لو
اوروں کے دکھ سہنے والے، اکثر جلدی مر جاتے ہیں
بھاگم بھاگ یہ ساری خلقت، جانے کس جانب جاتی ہے
میں بس پوچھتا رہ جاتا ہوں، یہ سب لوگ کدھر جاتے ہیں
ایسے حال میں ناممکن ہے، کوءی چیز ٹھکانے سے ہو
آنکھ میں خون اتر آتا ہے، دل میں آنسو بھر جاتے ہیں
اور بتاو اس کے علاوہ بے گھر ہونا کیا ہوتا ہے
تم بھی اپنے گھر جاتے ہو، ہم بھی اپنے گھر جاتے ہیں
دنیا میں ساری بربادی، اہلِ خرد نے پھیلای ہے
لیکن سب الزام ہمیشہ، اہلِ جنوں کے سر جاتے ہیں
کبھی کبھار جو یاد آجاءے، اپنا یوں بے مصرف ہونا
کچھ دن بے چینی رہتی ہے، پھر کچھ سال گزر جاتے ہیں
تار و پود بکھر جاتے ہیں، ٹکڑے چننے کے چکر میں
ٹکڑے چننے کے چکر میں، تار و پود بکھر جاتے ہیں
ہجر کی ساعت آخری دم تک، عمر کے ساتھ سفر کرتی ہے
وصل کے لمحے آناً فاناً، وقت کے پار اتر جاتے ہیں
تم عرفان کی فکر نہ کرنا، اس کی بات بنی رہتی ہے
آتی آفت ٹل جاتی ہے، بگڑے کام سنور جاتے ہیں
عرفان ستار

خُلوص و مہر و وفا در بَدَر گئے ہَوں گے

ہمارے بعد، نہ جانے کِدَھر گئے ہَوں گے
خُلوص و مہر و وفا در بَدَر گئے ہَوں گے
وہ میرا حلقہِ احباب کیا ہُوا ہو گا
وہ میرے لعل و جواہر بکھر گئے ہَوں گے
جو شوق و عجلتِ منزل میں تھے نہ ڈھونڈ اُن کو
وہ قافلے تو کبھی کے گذر گئے ہَوں گے
نہ معذرت نہ ندامت، تم اپنی فکر کرو
تمہارے ہاتھ مرے خوں میں بھر گئے ہَوں گے
کوئی تَو منزلِ جاناں پہ سرخ رُو پہنچا
نہیں تھے ہم نہ سہی، ہَمسَفَر گئے ہَوں گے
ہر ایک تاج محل میں ہے دفن یہ بھی سوال
نجانے کتنوں کے دستِ ہُنَر گئے ہَوں گے
یونہی تو سر نہ ہوئی ہو گی منزلِ مقصود
ہزاروں راہِ طَلَب ہی میں مر گئے ہَوں گے
ہمارے بعد سکوں سب کو ہو گیا ہو گا
چڑھے ہوئے تھے جو دریا اُتَر گئے ہَوں گے
فرازِ دار سے ضامنؔ! نظر نہ آیا کوئی
سکونِ قلب سے احباب گھر گئے ہَوں گے
ضامن جعفری

میرا کمال یہ ہے میں مَر تَو نہیں گیا

گو دِل شکستگی کا اثر تَو نہیں گیا
میرا کمال یہ ہے میں مَر تَو نہیں گیا
تا حَشر دیکھ بھال کی ایک ایک زَخم کی
دَھڑکا لگا رَہا کہیِں بَھر تَو نہیں گیا
وحشَت کی لاج رَکّھی ہے میں نے تمام عُمر
کیا کیا نَہ خاک اُڑائی پَہ گھر تَو نہیں گیا
رَستے میں کوئی چاک گریباں نہیں مِلا
لینا خَبَر کہیِں وہ سُدَھر تَو نہیں گیا
حُسنِ بُتاں ! یہ واقفِ خُوئے بُتاں بھی ہے
دِل پُوچھتا رَہا میں اُدَھر تَو نہیں گیا
آواز کس طرح کی یہ سینے سے آئی ہے
ضامنؔ! دِلِ شکستہ بِکھر تَو نہیں گیا
ضامن جعفری

یا دِل میں اُتَر جانا یا دِل سے اُتَر جانا

اَے عِشق نہیں ممکن اَب لَوٹ کَے گھر جانا
یا دِل میں اُتَر جانا یا دِل سے اُتَر جانا
ہَنستا گُلِ تَر کوئی جَب دیکھا تَو یاد آیا
تاریخ میں صَدیوں کا لَمحوں میں گُذَر جانا
ہَر ذَرَّہِ خاکی میں اِک عِشق کی دُنیا تھی
تُم نے تَو ہَمیَں جاناں ! بَس خاک بَسَر جانا
ہو جَذب کی جَب مَنزِل ہَستی و عَدَم کیسے؟
کیا پار اُتَرنا اُور کیا ڈُوب کَے مَر جانا
ہے آتشِ اُلفَت سے یہ طُرفہ سُلوک اُن کا
آنکھوں سے ہَوا دینا ہونٹوں سے مُکَر جانا
ہَر سانس کے آنے سے ہَر سانس کے جانے تَک
ہَستی کو سَدا ضامنؔ مُہلَت کا سَفَر جانا
ضامن جعفری

عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کر گیا وہ

گئے دِنوں کا سراغ لے کر کدھر سے آیا کدھر گیا وہ
عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کر گیا وہ
بس ایک موتی سی چھب دکھا کر بس ایک میٹھی سی دُھن سنا کر
ستارئہ شام بن کے آیا برنگِ خوابِ سحر گیا وہ
خوشی کی رُت ہو کہ غم کا موسم نظر اُسے ڈھونڈتی ہے ہر دم
وہ بوئے گل تھا کہ نغمہِ جاں مرے تو دل میں اُتر گیا وہ
نہ اب وہ یادوں کا چڑھتا دریا نہ فرصتوں کی اداس برکھا
یونہی ذرا سی کسک ہے دل میں جو زخم گہرا تھا بھر گیا وہ
کچھ اب سنبھلنے لگی ہے جاں بھی بدل چلا دَورِ آسماں بھی
جو رات بھاری تھی ٹل گئی ہے جو دن کڑا تھا گزر گیا وہ
بس ایک منزل ہے بوالہوس کی ہزار رستے ہیں اہلِ دل کے
یہی تو ہے فرق مجھ میں اس میں گزر گیا میں ٹھہر گیا وہ
شکستہ پا راہ میں کھڑا ہوں گئے دِنوں کو بلا رہا ہوں
جو قافلہ میرا ہمسفر تھا مثالِ گردِ سفر گیا وہ
مرا تو خوں ہو گیا ہے پانی ستمگروں کی پلک نہ بھیگی
جو نالہ اُٹھا تھا رات دل سے نہ جانے کیوں بے اثر گیا وہ
وہ میکدے کو جگانے والا وہ رات کی نیند اُڑانے والا
یہ آج کیا اس کے جی میں آئی کہ شام ہوتے ہی گھر گیا وہ
وہ ہجر کی رات کا ستارہ وہ ہم نفس ہم سخن ہمارا
سدا رہے اس کا نام پیارا سنا ہے کل رات مر گیا وہ
وہ جس کے شانے پہ ہاتھ رکھ کر سفر کیا تو نے منزلوں کا
تری گلی سے نہ جانے کیوں آج سر جھکائے گزر گیا وہ
وہ رات کا بے نوا مسافر وہ تیرا شاعر وہ تیرا ناصر
تری گلی تک تو ہم نے دیکھا تھا پھر نہ جانے کدھر گیا وہ
ناصر کاظمی

رات کا جادُو بکھر کر رہ گیا

صبح کا تارا اُبھر کر رہ گیا
رات کا جادُو بکھر کر رہ گیا
ہمسفر سب منزلوں سے جا ملے
میں نئی راہوں میں مر کر رہ گیا
کیا کہوں اب تجھ سے اے جوئے کم آب
میں بھی دریا تھا اُتر کر رہ گیا
ناصر کاظمی

کچھ وہ بھی ہیں جو کہتے ہیں سَر بھی گئے تو کیا

ہم جیسے تیغِ ظلم سے ڈر بھی گئے تو کیا
کچھ وہ بھی ہیں جو کہتے ہیں سَر بھی گئے تو کیا
اُٹھتی رہیں گی درد کی ٹیسیں تمام عُمر
ہیں زخم تیرے ہاتھ کے بھر بھی گئے تو کیا
ہیں کونسا بہار کے دن اپنے منتظر
یہ دن کسی طرح سے گزر بھی گئے تو کیا
ہم تو اِسی طرح سے پھریں گے خراب حال
یہ شعر تیرے دل میں اُتر بھی گئے تو کیا
باصِرؔ تمہیں یہاں کا ابھی تجربہ نہیں
بیمار ہو پڑے رہو مَر بھی گئے تو کیا
باصر کاظمی

وقت کا کیا ہے، گزرتا ہے گزر جائے گا

احمد فراز ۔ غزل نمبر 19
آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اتر جائے گا
وقت کا کیا ہے، گزرتا ہے گزر جائے گا
اتنا مانوس نہ ہو خلوتِ غم سے اپنی
تو کبھی خود کو بھی دیکھے گا تو ڈر جائے گا
تم سرِ راہِ وفا دیکھتے رہ جاؤ گے
اور وہ بامِ رفاقت سے اتر جائے گا
زندگی تیری عطا ہے تو یہ جانے والا
تیری بخشش تری دہلیز پہ دھر جائے گا
ڈوبتے ڈوبتے کشتی کو اچھالا دے دوں
میں نہیں، کوئی تو ساحل پہ اتر جائے گا
ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فراز
ظالم اب کے بھی نہ روۓ گا تو مر جائے گا
احمد فراز

سفر ، میرا تعاقب کر رہا ہے

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 118
کہاں آرام لمحہ بھر رہا ہے
سفر ، میرا تعاقب کر رہا ہے
رہی ہوں بے اماں موسم کی زد پر
ہتھیلی پر ہَوا کی ، سر رہا ہے
میں اِک نو زائیدہ چڑیا ہوں لیکن
پُرانا باز ، مُجھ سے ڈر رہا ہے
پذیرائی کو میری شھرِ گل میں
صبا کے ہاتھ میں پتّھر رہا ہے
ہَوائیں چُھو کے رستہ بُھول جائیں
مرے تن میں کوئی منتر رہا ہے
میں اپنے آپ کو ڈسنے لگی ہوں
مجھے اب زہر اچھا کر رہا ہے
کھلونے پا لیے ہیں میں نے لیکن
مرے اندر کا بچہ مر رہا ہے
پروین شاکر

جب تک مرے وجود کے اندر اُتر نہ جائے

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 91
خوشبو ہے وہ تو چُھو کے بدن کو گزر نہ جائے
جب تک مرے وجود کے اندر اُتر نہ جائے
خود پُھول نے بھی ہونٹ کیے اپنے نیم وا
چوری تمام رنگ کی ، تتلی کے سر نہ جائے
ایسا نہ ہو کہ لمس بدن کی سزا بنے
جی پُھول کا ، ہَوا کی محبت سے بھر نہ جائے
اس خوف سے وہ ساتھ نبھانے کے حق میں ہے
کھو کر مجھے،یہ لڑکی کہیں دُکھ سے مر نہ جائے
شدّت کی نفرتوں میں سدا جس نے سانس لی
شدّت کا پیار پاکے خلا میں بکھر نہ جائے
اُس وقت تک کناروں سے ندّی چڑھی رہے
جب تک سمندر کے بدن میں اُتر نہ جائے
پلکوں کو اُس کی ، اپنے دوپٹے سے پونچھ دوں
کل کے سفر کی گردِ سفر نہ جائے
میں کس کے ہاتھ بھیجوں اُسے آج کی دُعا
قاصد، ہوا،ستارہ کوئی اُس کے گھر نہ جائے
پروین شاکر

کھائی ٹھوکر گر پڑے گر کر اٹھے اٹھ کر چلے

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 123
یوں تمھارے ناتوان منزل بھر چلے
کھائی ٹھوکر گر پڑے گر کر اٹھے اٹھ کر چلے
چھوڑ کر بیمار کو یہ کیا قیامت کر چلے
دم نکلنے بھی نہ پایا آپ اپنے گھر چلے
ہو گیا صیاد برہم ہے اے اسیرانِ قفس
بند اب یہ نالہ و فریاد، ورنہ پر چلے
کس طرح طے کی ہے منزل عشق کی ہم نے نہ پوچھ
تھک گئے جب پاؤں ترا نام لے لے کر چلے
آ رہے ہیں اشک آنکھوں میں اب اے ساقی نہ چھیڑ
بس چھلکنے کی کسر باقی ہے ساغر بھر چلے
جب بھی خالی ہاتھ تھے اور اب بھی خالی ہاتھ ہیں
لے کے کیا آئے تھے اور لے کر کیا چلے
حسن کو غم گین دیکھے عشق یہ ممکن نہیں
روک لے اے شمع آنسو اب پتنگے مر چلے
اس طرف بھی اک نظر ہم بھی کھڑے ہیں دیر سے
مانگنے والے تمھارے در سے جھولی بھر چلے
اے قمر شب ختم ہونے کو ہے انتظار
ساحلِ شب سے ستارے بھی کنارہ کر چلے
قمر جلالوی

صرف زندہ رہے ہم تو مر جائیں گے

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 191
بےدلی کیا یونہی دن گذر جائیں گے
صرف زندہ رہے ہم تو مر جائیں گے
رقص ہے رنگ پر رنگ ہم رقص ہے
سب بچھڑ جائیں گے، سب بکھر جائیں گے
یہ خراباتیانِ خرد باختہ
صبح ہوتے ہی سب کام پر جائیں گے
کتنے دلکش ہو تم، کتنے دل جو ہیں ہم
کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے
ہے غنیمت کہ اَسرارِ ہستی سے ہم
بے خبر آئیں گے، بے خبر جائیں گے
جون ایلیا

جو اپنے گھر سے آئے تھے وہ اپنے گھر گئے

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 167
اے کوئے یار تیرے زمانے گزر گئے
جو اپنے گھر سے آئے تھے وہ اپنے گھر گئے
اب کون زخم و زہر سے رکھے گا سلسلے
جینے کی اب ہوس ہے ہمیں ہم تو مر گئے
اب کیا کہوں کے سارا محلہ ہے شرم سار
میں ہوں عذاب میں کہ میرے زخم بھی گئے
ہم نے بھی زندگی کو تماشہ بنا دیا
اس سے گزر گئے کبھی خود سے گزر گئے
تھا رن بھی زندگی کا عجب طرفہ معاملہ
یعنی اٹھے تو پاؤں مگر جون سر گئے
جون ایلیا

سب کے دل سے اتر گیا ہوں میں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 112
اک ہنر ہے جو کر گیا ہوں میں
سب کے دل سے اتر گیا ہوں میں
کیسے اپنی ہنسی کو ضبط کروں
سن رہا ہوں کہ گھر گیا ہوں میں
کیا بتاؤں کہ مر نہیں پاتا
جیتے جی جب سے مر گیا ہوں میں
اب ہے اپنا سامنا درپیش
ہر کسی سے گزر گیا ہوں میں
وہی ناز و ادا، وہی غمزے
سر بہ سر آپ پر گیا ہوں میں
جون ایلیا

میں کام نہ کر کے تھک گیا ہوں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 93
خود میں ہی گزر کے تھک گیا ہوں
میں کام نہ کر کے تھک گیا ہوں
اُوپر سے اُتر کے تازہ دم تھا
نیچے سے اُتر کے تھک گیا ہوں
اب تم بھی تو جی کے تھک رہے ہو
اب میں بھی تو مر کے تھک گیا ہوں
میں یعنی ازل کا آرمیدہ
لمحوں میں بِکھر کے تھک گیا ہوں
اب جان کا میری جسم شَل ہے
میں خود سے ہی ڈر کے تھک گیا ہوں
جون ایلیا

تو اس بستی میں رہیو پر نہ رہیو

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 79
کسی سے عہد و پیماں کر نہ رہیو
تو اس بستی میں رہیو پر نہ رہیو
سفر ہے آخر دو پلک بیچ
سفر لمبا ہے بستر نہ رہیو
ہر ایک حالت کے بیری میں یہ لمحے
کسی غم کے بھروسے پر نہ رہیو
سہولت سے گزر جاؤ مری جاں
کہیں جینے کی خاطر مر نہ رہیو
ہمارا عمر بھر کا ساتھ ٹھہرا
سو میرے ساتھ تو دن بھر نہ رہیو
بہت دشوار ہو جائے گا جینا
یہاں تو ذات کے اندر نہ رہیو
سویرے ہی سے گر آ جائیو آج
ہے روزِ واقعہ باہر نہ رہیو
کہیں چھپ جاؤ تہہ خانوں میں جا کر
شبِ فتنہ ہے اپنے گھر نہ رہیو
نظر پر بار ہو جاتے ہیں منظر
جہاں رہیو وہاں اکثر نہ رہیو
جون ایلیا

مجھ سے ہو کر گزر گئے مرے دن

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 59
مجھ کو بیگانہ کر گئے مرے دن
مجھ سے ہو کر گزر گئے مرے دن
اب نہ کوئی دن مرے گھر جائے گا
جانے کس کے گھر گئے مرے دن
اب نہیں ہیں مرے کوئی دن رات
کہ مجھ ہی کو بسر گئے مرے دن
ساری راتیں گئیں مری بے حال
مرے دن ! بے اثر گئے مرے دن
خوشا اب انتظار ہے نہ امید
یار یاراں ! سدھر گئے مرے دن
اب میں بس رہ گیا ہوں راتوں میں
مر گئے جون ! مر گئے مرے دن
جون ایلیا

سارا نشہ اُتر گیا جانم

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 55
دل تمنا سے ڈر گیا جانم
سارا نشہ اُتر گیا جانم
اک پلک بیچ رشتہء جاں سے
ہر زمانہ گزر گیا جانم
تھا غضب فیصلے کا اِک لمحہ
کون پھر اپنے گھرگیا جانم
جانے کیسی ہوا چلی اک بار
دل کا دفتر بِکھر گیا جانم
اپنی خواب و خیال دنیا کو
کون برباد کر گیا جانم
تھی ستم ہجر کی مسیحائی
آخرش زخم بھر گیا جانم
اب بَھلا کیا رہا ہے کہنے کو
یعنی میں بے اثر گیا جانم
نہ رہا دل نہ داستاں دل کی
اب تو سب کچھ بسر گیا جانم
زہر تھا اپنے طور سے جینا
کوئی اِک تھا جو مر گیا جانم
جون ایلیا

پاؤں نہیں تھے درمیاں ، آج بڑا سفر رہا

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 36
دل کا دیارِ خواب میں ، دور تلک گُزر رہا
پاؤں نہیں تھے درمیاں ، آج بڑا سفر رہا
ہو نہ سکا کبھی ہمیں اپنا خیال تک نصیب
نقش کسی خیال کا ، لوِح خیال پر رہا
نقش گروں سے چاہیے ، نقش و نگار کا حساب
رنگ کی بات مت کرو، رنگ بہت بکھر رہا
جانے گماں کی وہ گلی، ایسی جگہ ہے کون سی
دیکھ رہے ہو تم کہ میں پھر وہیں جا کے مر رہا
دل مرے دل مجھے بھی تم اپنے خواص میں رکھو
یاراں تمہارے باب میں، میں ہی نہ معتبر رہا
شہرِ فراقِ یار سے آئی ہے اک خبر مجھے
کوچہ ءِ یادِ یار سے ، کوئی نہیں اُبھر رہا
جون ایلیا

وقت پہلے گزر گیا ہو گا

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 22
آدمی وقت پر گیا ہو گا
وقت پہلے گزر گیا ہو گا
خود سے مایوس ہو کر بیٹھا ہوں
آج ہر شخص مر گیا ہو گا
شام تیرے دیار میں آخر
کوئی تو اپنے گھر گیا ہو گا
مرہمِ ہجر تھا عجب اکسیر
اب تو ہر زخم بھر گیا ہو گا
جون ایلیا

قیس تو اپنے گھر گیا کب کا

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 20
زخمِ اُمید بھر گیا کب کا
قیس تو اپنے گھر گیا کب کا
اب تو منہ اپنا مت دکھاؤ مجھے
نا صحو میں سُدھر گیا کب کا
آپ اب پوچھنے کو آئے ہیں
دل میری جان مر گیا کب کا
آپ اک اور نیند لے لیجئے
قافلہ کوچ کر گیا کب کا
میرا فہرست سے نکال دو نام
میں تو خود سے مُکر گیا کب کا
جون ایلیا

میداں بزن گہوں کے کشتوں سے بھر رہا ہے

دیوان ششم غزل 1908
کیا عشق بے محابا ستھرائو کر رہا ہے
میداں بزن گہوں کے کشتوں سے بھر رہا ہے
غیرت سے دلبری کی ڈر چاندنی نہ دیکھی
مہتابی ہی رخ اس کا پیش نظر رہا ہے
خوں ریز ناتواں میں اتنا نہ کوئی بولا
کیا مارتا ہے اس کو یہ آپھی مر رہا ہے
پائیز کب کرے ہے افسردہ خستہ اتنا
تو بھی جدا کسو سے اے گل مگر رہا ہے
خجلت سے آج کل کیا ان نے کیا کنارہ
دریا ہمیشہ میرے گریے سے تر رہا ہے
میں اک نگاہ گاہے خوش رو کوئی نہ دیکھا
الفت رہی ہے جس سے اس ہی کا ڈر رہا ہے
رہتا نہیں ہے رکھے تھمتا نہیں تھمائے
دل اب تڑپ تڑپ کر اک ظلم کر رہا ہے
یہ کارواں سرا تو رہنے کی گوں نہ نکلی
ہر صبح یاں سے ہم کو عزم سفر رہا ہے
بعد از نماز سجدہ اس شکر کا کروں ہوں
روزوں کا چاند پیدا سب بے خبر رہا ہے
کیا پھر نظر چڑھا ہے اے میر کوئی خوش رو
یہ زرد زرد چہرہ تیرا اتر رہا ہے
میر تقی میر

دل کوئی لے گیا ہے تو میر ٹک جگر کر

دیوان ششم غزل 1827
زانو پہ سر ہے اکثر مت فکر اس قدر کر
دل کوئی لے گیا ہے تو میر ٹک جگر کر
خورشید و ماہ دونوں آخر نہ دل سے نکلے
آنکھوں میں پھر نہ آئے جی سے مرے اتر کر
یوسف عزیز دلہا جا مصر میں ہوا تھا
ذلت جو ہو وطن میں تو کوئی دن سفر کر
اے ہمنشیں غشی ہے میں ہوش میں نہیں ہوں
مجھ کو مری زبانی سو بار اب خبر کر
کیا حال زار عاشق کریے بیاں نہ پوچھو
کرتا ہے بات کوئی دل کی تو چشم تر کر
دیتے نہیں ہیں سونے ٹک آہ و نالے اس کے
یارب شب جدائی عاشق کی بھی سحر کر
اتنا ہی منھ چھپایا شوخ اس کے محرموں نے
جو بچھ گئی ہیں زلفیں اس چہرے پر بکھر کر
کیا پھیر پھیر گردن باتیں کرے ہے سب میں
جاتے ہیں غش کیے ہم مشتاق منھ ادھر کر
بن دیکھے تیرے میں تو بیمار ہو گیا ہوں
حال تبہ میں میرے تو بھی تو ٹک نظر کر
رخنے کیے جو تو نے پتھر کی سل میں تو کیا
اے آہ اس صنم کے دل میں بھی ٹک اثر کر
مارے سے غل کیے سے جاتا نہیں ہے ہرگز
نکلے گا اس گلی سے شاید کہ میر مرکر
میر تقی میر

جب سے کلاہ سر پہ رکھی در بہ در رہے

دیوان چہارم غزل 1531
اب ترک کر لباس توکل ہی کر رہے
جب سے کلاہ سر پہ رکھی در بہ در رہے
اس دشت سے غبار ہمارا نہ ٹک اٹھا
ہم خانماں خراب نہ جانا کدھر رہے
آنے سے اس طرف کے ترے میں نے غش کیا
شکوہ بھی اس سے کیجیے جس کو خبر رہے
دونوں طرف سے دیدہ درائی نہیں ہے خوب
اس چاہ کا ہے لطف جو آپس میں ڈر رہے
جب تک ہو خون دل میں جگر میں مژہ ہوں نم
تہ کچھ بھی جو نہ ہووے تو کیا چشم تر رہے
رہنا گلی میں اس کی نہ جیتے جی ہوسکا
ناچار ہوکے واں جو گئے اب سو مر رہے
عاشق خراب حال ترے ہیں گرے پڑے
جوں لشکر شکستہ پریشاں اتر رہے
عیب آدمی کا ہے جو رہے اس دیار میں
مطلق جہاں نہ میر رواج ہنر رہے
میر تقی میر

رفتہ وارفتہ اس کا مر گذرے

دیوان چہارم غزل 1527
رنج کی اس کے جو خبر گذرے
رفتہ وارفتہ اس کا مر گذرے
ایک پل بھی نہ اس سے آنسو پنچھے
روتے مجھ کو پہر پہر گذرے
جوے خوں آنکھوں سے بہی شاید
خون سے میرے بھی وے درگذرے
راہ جاناں سے ہے گذر مشکل
جان ہی سے کوئی مگر گذرے
مارے غیروں کو یا مرے عاشق
کچھ نہ کچھ چاہیے کہ کر گذرے
غنچہ ہو شرم سے ان آنکھوں کی
گل نرگس اگر نظر گذرے
سر کا جانا ہی ہر قدم ہے میر
کیا کوئی اس کی راہ پر گذرے
میر تقی میر

تعب ایسی گذری کہ مر مر گئے

دیوان چہارم غزل 1505
ہم اس مرتبہ پھر بھی لشکر گئے
تعب ایسی گذری کہ مر مر گئے
نظر اک سپاہی پسر سے لڑی
قریب اس کے تلوار کر کر گئے
بہم مہر ورزی کے سرگرم تھے
خدا جانے وہ لوگ کیدھر گئے
لہو میری آنکھوں میں آتا نہیں
جگر کے مگر زخم سب بھر گئے
رباط کہن میں نہیں میرجی
ہوا جو لگی وے بھی باہر گئے
میر تقی میر

کارواں جاتا رہا ہم خواب ہی میں مر گئے

دیوان چہارم غزل 1488
نقد دل غفلت سے کھویا راہ کھوٹی کر گئے
کارواں جاتا رہا ہم خواب ہی میں مر گئے
کیا کہیں ان نے جو پھیرا اپنے در پر سے ہمیں
مر گئے غیرت سے ہم بھی پر نہ اس کے گھر گئے
واعظ ناکس کی باتوں پر کوئی جاتا ہے میر
آئو میخانے چلو تم کس کے کہنے پر گئے
میر تقی میر

کاش رہتے کسو طرف مر ہم

دیوان چہارم غزل 1439
حال زخم جگر سے ہے درہم
کاش رہتے کسو طرف مر ہم
دلبروں کو جو بر میں کھینچا ٹک
اس ادا سے بہت ہوئے برہم
آپ کو اب کہیں نہیں پاتے
بے خودی سے گئے ہیں کیدھر ہم
دیر و کعبہ گئے ہیں ہم اکثر
یعنی ڈھونڈا ہے اس کو گھر گھر ہم
کہہ سکے کون ہم کو ناہموار
اب تو ہیں خاک سے برابر ہم
کوفت سی کوفت اپنے دل پر ہے
چھاتی کوٹا کیے ہیں اکثر ہم
ابر کرتا ہے اب کمی سی میر
دیکھیں ہیں سوے دیدئہ تر ہم
میر تقی میر

راہ خرابے سے نکلی نہ گھر کی بستی میں کیوں کر جاویں ہم

دیوان چہارم غزل 1432
بن میں چمن میں جی نہیں لگتا یارو کیدھر جاویں ہم
راہ خرابے سے نکلی نہ گھر کی بستی میں کیوں کر جاویں ہم
کیسی کیسی خرابی کھینچی دشت و در میں سر مارا
خانہ خراب کہاں تک پھریے ایسا ہو گھر جاویں ہم
عشق میں گام اول اپنے جی سے گذرنا پیش آیا
اس میدان میں رکھ کے قدم کیا مرنے سے ڈر جاویں ہم
خواہ نماز خضوع سے ہووے خواہ نیاز اک سوے دل
وقت رہا ہے بہت کم اب تو بارے کچھ کر جاویں ہم
کب تک میر فراق میں اس کے لوہو پی پی جیتے رہیں
بس چلتا نہیں آہ اپنا کچھ ورنہ ابھی مر جاویں ہم
میر تقی میر

عشق میں کس حسن سے فرہاد ظالم مر گیا

دیوان چہارم غزل 1330
صورت شیریں کے آگے کام اپنا کر گیا
عشق میں کس حسن سے فرہاد ظالم مر گیا
خانہ آبادی ہمیں بھی دل کی یوں ہے آرزو
جیسے جلوے سے ترے گھر آرسی کا بھر گیا
میر سختی کش تھا غافل پر خدا نے خیر کی
حادثے کا کیسا اس کے سر پہ سے پتھر گیا
میر تقی میر

دیکھ اس کو بے دماغ نشہ سب اتر گیا

دیوان چہارم غزل 1324
ہم مست عشق جس کے تھے وہ روٹھ کر گیا
دیکھ اس کو بے دماغ نشہ سب اتر گیا
جاں بخشی اس کے ہونٹوں کی سن آب زندگی
ایسا چھپا کہیں کہ کہا جائے مر گیا
کہتے ہیں میر کعبے گیا ترک عشق کر
راہ دل شکستہ کدھر وہ کدھر گیا
میر تقی میر

سب خراشوں ہی سے جبہے بھر گئے

دیوان سوم غزل 1311
دست بستہ کام ناخن کر گئے
سب خراشوں ہی سے جبہے بھر گئے
بت کدے سے تو چلے کعبے ولے
دس قدم ہم دل کو کر پتھر گئے
کیا جو اڑتی سی سنی آئے ہیں گل
ہم اسیروں کے تو بال و پر گئے
مجلسوں کی مجلسیں برہم ہوئیں
لوگ وے پل مارتے کیدھر گئے
تھے لب جو پر جو گرم دید یار
سبزے کے سے رنگ مژگاں تر گئے
خانوادے ہو گئے کیا کیا خراب
خانہ ساز دین کیسے مر گئے
دست افشاں پاے کوباں شوق میں
صومعے سے میر بھی باہر گئے
میر تقی میر

یار بن لگتا نہیں جی کاشکے ہم مر رہیں

دیوان سوم غزل 1179
جائیں تو جائیں کہاں جو گھر رہیں کیا گھر رہیں
یار بن لگتا نہیں جی کاشکے ہم مر رہیں
دل جو اکتاتا ہے یارب رہ نہیں سکتے کہیں
کیا کریں جاویں کہاں گھر میں رہیں باہر رہیں
وہ نہیں جو تیغ سے اس کی گلا کٹوائیے
تنگ آئے ہیں بہت اب آپھی جوہو کر رہیں
بے دماغی بے قراری بے کسی بے طاقتی
کیا جیے وہ جس کے جی کو روگ یہ اکثر رہیں
مضطرب ہو ایک دو دم تو تدارک بھی ہو کچھ
متصل تڑپے ہے کب تک ہاتھ لے دل پر رہیں
زندگی دوبھر ہوئی ہے میر آخر تاکجا
دل جگر جلتے رہیں آنکھیں ہماری تر رہیں
میر تقی میر

بلا پر چلے آئے ہر ہر قدم

دیوان سوم غزل 1169
گئے عشق کی راہ سر کر قدم
بلا پر چلے آئے ہر ہر قدم
عجب راہ پرخوف و مشکل گذر
اٹھایا گیا ہم سے مر مر قدم
بہت مستی عشق پالغز تھی
خدا جانے پڑتا تھا کیدھر قدم
ہوا ہو گا خالی بدن جاں سے جب
چلے ہوں گے یہ راہ جو بھر قدم
وہ عیار یوں چشم تر سے گیا
کہ ہرگز نہ اس کا ہوا تر قدم
جگر کو ہے ان سر سے گذروں کے عشق
گئے جو ہمارے قدم بر قدم
جو کچھ آوے سالک کے آگے ہے خیر
رکھا ہم نے اب گھر سے باہر قدم
ہمیں سرکشی سربلندی سے کیا
رہے ضعف میں ہم تو سر در قدم
کہیں کیا کف پا میں میر آبلے
چلیں ہم سروں پر مگر دھر قدم
میر تقی میر

دم کھینچ تہ دل سے کوئی ٹکڑے جگر کر

دیوان سوم غزل 1132
اے مرغ چمن صبح ہوئی زمزمہ سر کر
دم کھینچ تہ دل سے کوئی ٹکڑے جگر کر
وہ آئینہ رو باغ کے پھولوں میں جو دیکھا
ہم رہ گئے حیران اسی منھ پہ نظر کر
ہے بے خبری مجھ کو ترے دیکھے سے ساقی
ہر لحظہ مری جان مجھے میری خبر کر
جس جاے سراپا میں نظر جاتی ہے اس کے
آتا ہے مرے جی میں یہیں عمر بسر کر
فرہاد سے پتھر پہ ہوئیں صنعتیں کیا کیا
دل جا کے جگرکاوی میں کچھ تو بھی ہنر کر
پڑتے نگہ اس شوخ کی ہوتا ہے وہ احوال
رہ جاوے ہے جیسے کہ کوئی بجلی سے ڈر کر
معشوق کا کیا وصل ورے ایسا دھرا ہے
تاشمع پتنگا بھی جو پہنچے ہے تو مر کر
یک شب طرف اس چہرئہ تاباں سے ہوا تھا
پھر چاند نظر ہی نہ چڑھا جی سے اتر کر
کسب اور کیا ہوتا عوض ریختے کے کاش
پچھتائے بہت میر ہم اس کام کو کر کر
میر تقی میر

پیش جاتے کچھ نہ دیکھی چشم تر کر رہ گیا

دیوان سوم غزل 1084
میر کل صحبت میں اس کی حرف سرکر رہ گیا
پیش جاتے کچھ نہ دیکھی چشم تر کر رہ گیا
خوبی اپنے طالع بد کی کہ شب وہ رشک ماہ
گھر مرے آنے کو تھا سو منھ ادھر کر رہ گیا
طنز و تعریض بتان بے وفا کے در جواب
میں بھی کچھ کہتا خدا سے اپنے ڈر کر رہ گیا
سرگذشت اپنی سبب ہے حیرت احباب کی
جس سے دل خالی کیا وہ آہ بھر کر رہ گیا
میر کو کتنے دنوں سے رہتی تھی بے طاقتی
رات دل تڑپا بہت شاید کہ مر کر رہ گیا
میر تقی میر

ہمیں عشق ہے تو اثر کر رہے گا

دیوان سوم غزل 1083
کبھو وہ توجہ ادھر کر رہے گا
ہمیں عشق ہے تو اثر کر رہے گا
ہمارا ہے احوال حیرت کی جاگہ
جو دیکھے گا وہ بھی نظر کر رہے گا
نہیں اس طرف میر جانے سے رہتا
رہے گا تو اودھر ہی مر کر رہے گا
میر تقی میر

ایک سنّاہٹا گذر جا ہے

دیوان دوم غزل 1023
جب نسیم سحر ادھر جا ہے
ایک سنّاہٹا گذر جا ہے
کیا اس آئینہ رو سے کہیے ہائے
وہ زباں کر کے پھر مکر جا ہے
جب سے سمجھا کہ ہم چلائو ہیں
حال پرسی ٹک آ کے کر جا ہے
وہ کھلے بال سووے ہے شاید
رات کو جی مرا بکھر جا ہے
دور اگرچہ گیا ہوں میں جی سے
کب وطن میرے یہ خبر جا ہے
وہ اگر چت چڑھا رہا ایسا
آج کل جی سے مہ اتر جا ہے
جی نہیں میر میں نہ بولو تند
بات کہتے ابھی وہ مر جا ہے
میر تقی میر

زندگانی حیف ہے مر جایئے

دیوان دوم غزل 1018
پر نہیں جو اڑ کے اس در جایئے
زندگانی حیف ہے مر جایئے
کچھ نہیں تو شعر ہی کی فکر کر
آئے ہیں جو یاں تو کچھ کر جایئے
قصد ہے کعبے کا لیکن سوچ ہے
کیا ہے منھ جو اس کے در پر جایئے
خانماں آباد جو ہے سو خراب
کس کے اٹھ کر شہر میں گھر جایئے
بیم مردن اس قدر یہ کیا ہے میر
عشق کریے اور پھر ڈر جایئے
میر تقی میر

آخر کو پھوٹ پھوٹ بہے قہر کر رہے

دیوان دوم غزل 1003
یک عمر دیدہ ہاے ستم دیدہ تر رہے
آخر کو پھوٹ پھوٹ بہے قہر کر رہے
ہم نے بھی نذر کی ہے پھریں گے چمن کے گرد
آنے تئیں بہار کے گر بال و پر رہے
کیا کہیے تیرے واسطے اے مایۂ حیات
کیا کیا عزیز اپنے تئیں مار مر رہے
مرتے بھی اپنے ہائے وہ حاضر نہ ہوسکا
ہم اشتیاق کش تو بہت محتضر رہے
مرغان باغ رہتے ہیں اب گھیرے یوں مجھے
ماتم زدوں کے حلقے میں جوں نوحہ گر رہے
آغوش اس سے خالی رہی شب تو تا سحر
جیب و کنار گریۂ خونیں سے بھر رہے
نقش قدم کے طور ترے ہم ہیں پائمال
غالب ہے یہ کہ دیر ہمارا اثر رہے
اب صبر و ہوش و عقل کی میرے یہ ہے معاش
جوں قافلہ لٹا کہیں آکر اتر رہے
لاکھوں ہمارے دیکھتے گھر بار سے گئے
کس خانماں خراب کے وے جا کے گھر رہے
آتا کبھو تو ناز سے دکھلائی دے بھی جا
دروازے ہی کی اور کہاں تک نظر رہے
رکھنا تمھارے پائوں کا کھوتا ہے سر سے ہوش
یہ چال ہے تو اپنی کسے پھر خبر رہے
کیا بدبلا ہے لاگ بھی دل کی کہ میر جی
دامن سوار لڑکوں کے ہو کر نفر رہے
میر تقی میر

چلتے اس کوچے سے ہم پر سینکڑوں پتھر چلے

دیوان دوم غزل 993
سختیاں کھینچیں سو کھینچیں پھر بھی جو اٹھ کر چلے
چلتے اس کوچے سے ہم پر سینکڑوں پتھر چلے
مارگیری سے زمانے کی نہ دل کو جمع رکھ
چال دھیمی اس کی ایسی ہے کہ جوں اجگر چلے
کیونکے ان کا کوئی وارفتہ بھلا ٹھہرا رہے
جنبش ان پلکوں کو ہوتی ہے کہ جوں خنجر چلے
اب جو وہ سرمایۂ جاں یاں تلک آیا تو کیا
راہ تکتے تکتے اس کی ہم تو آخر مر چلے
میں نہ کہتا تھا دم بسمل مرے مت آئیو
لوٹتے دامن کی اپنے زہ لہو میں بھر چلے
چھوڑ جانا جاں بہ لب ہم کو کہاں کا ہے سلوک
گھر کے گھر یاں بیٹھے جاتے ہیں تم اٹھ کر گھر چلے
صاف سارا شہر اس انبوہ خط میں لٹ گیا
کچھ نہیں رہتا ہے واں جس راہ ہو لشکر چلے
پائوں میں مارا ہے تیشہ میں نے راہ عشق میں
ہو سو ہو اب گوکہ آرا بھی مرے سر پر چلے
لائے تھے جاکر ابھی تو اس گلی میں سے پکار
چپکے چپکے میر جی تم اٹھ کے پھر کیدھر چلے
میر تقی میر

جی چاہتا ہے جا کے کسو اور مر رہیں

دیوان دوم غزل 892
یوں قیدیوں سے کب تئیں ہم تنگ تر رہیں
جی چاہتا ہے جا کے کسو اور مر رہیں
اے کاش ہم کو سکر کی حالت رہے مدام
تا حال کی خرابی سے ہم بے خبر رہیں
رہتے ہیں یوں حواس پریشاں کہ جوں کہیں
دو تین آ کے لوٹے مسافر اتر رہیں
وعدہ تو تب ہو صبح کا جب ہم بھی جاں بلب
جیسے چراغ آخر شب تا سحر رہیں
آوارگی کی سب ہیں یہ خانہ خرابیاں
لوگ آویں دیکھنے کو بہت ہم جو گھر رہیں
ہم نے بھی نذر کی ہے کہ پھریے چمن کے گرد
یارب قفس کے چھوٹنے تک بال و پر رہیں
ان دلبروں کی آنکھ نہیں جاے اعتماد
جب تک رہیں یہ چاہیے پیش نظر رہیں
فردا کی فکر آج نہیں مقتضاے عقل
کل کی بھی دیکھ لیویں گے کل ہم اگر رہیں
تیغ و تبر رکھا نہ کرو پاس میر کے
ایسا نہ ہو کہ آپ کو ضائع وے کر رہیں
میر تقی میر

ہم لوگ تیرے اوپر سو جی سے مر رہے ہیں

دیوان دوم غزل 891
گو جان کر تجھے سب تعبیر کر رہے ہیں
ہم لوگ تیرے اوپر سو جی سے مر رہے ہیں
کھنچتا چلا ہے اب تو تصدیق کو تصور
ہر لحظہ اس کے جلوے پیش نظر رہے ہیں
نکلے ہوس جو اب بھی ہو وارہی قفس سے
شائستۂ پریدن دوچار پر رہے ہیں
کل دیکھتے ہمارے بستے تھے گھر برابر
اب یہ کہیں کہیں جو دیوار و در رہے ہیں
کیا آج ڈبڈبائی دیکھو ہو تم یہ آنکھیں
جوں چشمہ یوں ہی برسوں ہم چشم تر رہے ہیں
نے غم ہے ہم کو یاں کا نے فکر کچھ ہے واں کا
صدقے جنوں کے کیا ہم بے درد سر رہے ہیں
پاس ایک دن بھی اپنا ان نے نہیں کیا ہے
ہم دور اس سے بے دم دو دو پہر رہے ہیں
کیا یہ سراے فانی ہے جاے باش اپنی
ہم یاں مسافرانہ آکر اتر رہے ہیں
ایسا نہ ہو کہ چھیڑے یک بار پھوٹ بہیے
ہم پکے پھوڑے کے اب مانند بھر رہے ہیں
اس میکدے میں جس جا ہشیار چاہیے تھے
رحمت ہے ہم کو ہم بھی کیا بے خبر رہے ہیں
گو راہ عشق میں ہو شمشیر کے دم اوپر
وسواس کیا ہے ہم تو جی سے گذر رہے ہیں
چل ہم نشیں بنے تو ایک آدھ بیت سنیے
کہتے ہیں بعد مدت میر اپنے گھر رہے ہیں
میر تقی میر

بگڑے تھے کچھ سنور گئے شاید

دیوان دوم غزل 800
لڑ کے پھر آئے ڈر گئے شاید
بگڑے تھے کچھ سنور گئے شاید
سب پریشاں دلی میں شب گذری
بال اس کے بکھر گئے شاید
کچھ خبر ہوتی تو نہ ہوتی خبر
صوفیاں بے خبر گئے شاید
ہیں مکان و سرا و جا خالی
یار سب کوچ کر گئے شاید
آنکھ آئینہ رو چھپاتے ہیں
دل کو لے کر مکر گئے شاید
لوہو آنکھوں میں اب نہیں آتا
زخم اب دل کے بھر گئے شاید
اب کہیں جنگلوں میں ملتے نہیں
حضرت خضر مر گئے شاید
بے کلی بھی قفس میں ہے دشوار
کام سے بال و پر گئے شاید
شور بازار سے نہیں اٹھتا
رات کو میر گھر گئے شاید
میر تقی میر

اڑا کیے مرے پرکالۂ جگر صیاد

دیوان دوم غزل 799
اسیر کر کے نہ لی تو نے تو خبر صیاد
اڑا کیے مرے پرکالۂ جگر صیاد
پھریں گے لوٹتے صحن چمن میں بائو کے ساتھ
موئے گئے بھی مرے مشت بال و پر صیاد
رہے گی ایسی ہی گر بے کلی ہمیں اس سال
تو دیکھیو کہ رہے ہم قفس میں مر صیاد
چمن کی باؤ کے آتے خبر نہ اتنی رہی
کہ میں کدھر ہوں کدھر ہے قفس کدھر صیاد
شکستہ بالی کو چاہے تو ہم سے ضامن لے
شکار موسم گل میں ہمیں نہ کر صیاد
ہوا نہ وا درگلزار اپنے ڈھب سے کبھو
کھلا سو منھ پہ ہمارے قفس کا در صیاد
سنا ہے بھڑکی ہے اب کی بہت ہی آتش گل
چمن میں اپنے بھی ہیں خار و خس کے گھر صیاد
لگی بہت رہیں چاک قفس سے آنکھیں لیک
پڑا نہ اب کے کوئی پھول گل نظر صیاد
اسیر میر نہ ہوتے اگر زباں رہتی
ہوئی ہماری یہ خوش خوانی سحر صیاد
میر تقی میر

سگ یار آدم گری کر گیا

دیوان دوم غزل 750
شب رفتہ میں اس کے در پر گیا
سگ یار آدم گری کر گیا
شکستہ دل عشق کی جان کیا
نظر پھیری تونے تو وہ مر گیا
ہوئے یار کیا کیا خراب اس بغیر
وہ کس خانہ آباد کے گھر گیا
کشندہ تھا لڑکا ہی ناکردہ خوں
مجھے دیکھ کر محتضر ڈر گیا
بہت رفتہ رہتے ہو تم اس کے اب
مزاج آپ کا میر کیدھر گیا
میر تقی میر

زیر لب جب کچھ کہا وہ مر گیا

دیوان دوم غزل 701
تیغ لے کر کیوں تو عاشق پر گیا
زیر لب جب کچھ کہا وہ مر گیا
تڑپے زیر تیغ ہم بے ڈول آہ
دامن پاک اس کا خوں میں بھر گیا
خاک ہے پکڑے اگر سونا بھی پھر
ہاتھ سے جس کے وہ سیمیں بر گیا
کیا بندھا ہے اس کے کوچے میں طلسم
پھر نہ آیا جو کوئی اودھر گیا
خانداں اس بن ہوئے کیا کیا خراب
آج تک وہ شوخ کس کے گھر گیا
ابرو و مژگاں ہی میں کاٹی ہے عمر
کیا سنان و تیغ سے میں ڈر گیا
کہتے ہیں ضائع کیا اپنے تئیں
میر تو دانا تھا یہ کیا کر گیا
میر تقی میر

رونا مرا سنوگے کہ طوفان کر رہا

دیوان دوم غزل 695
جوں ابرقبلہ دل ہے نہایت ہی بھر رہا
رونا مرا سنوگے کہ طوفان کر رہا
شب میکدے سے وارد مسجد ہوا تھا میں
پر شکر ہے کہ صبح تئیں بے خبر رہا
مل جس سے ایک بار نہ پھر تو ہوا دوچار
رک رک کے وہ ستم زدہ ناچار مر رہا
تسکین دل ہو تب کہ کبھو آگیا بھی ہو
برسوں سے اس کا آنا یہی صبح پر رہا
اس زلف و رخ کو بھولے مجھے مدتیں ہوئیں
لیکن مرا نہ گریۂ شام و سحر رہا
رہتے تو تھے مکاں پہ ولے آپ میں نہ تھے
اس بن ہمیں ہمیشہ وطن میں سفر رہا
اب چھیڑ یہ رکھی ہے کہ پوچھے ہے بار بار
کچھ وجہ بھی کہ آپ کا منھ ہے اتر رہا
اک دم میں یہ عجب کہ مرے سر پہ پھر گیا
جو آب تیغ برسوں تری تا کمر رہا
کاہے کو میں نے میر کو چھیڑا کہ ان نے آج
یہ درد دل کہا کہ مجھے درد سر رہا
میر تقی میر

یعنی کہ فرط شوق سے جی بھی ادھر چلا

دیوان دوم غزل 686
میں غش کیا جو خط لے ادھر نامہ بر چلا
یعنی کہ فرط شوق سے جی بھی ادھر چلا
سدھ لے گئی تری بھی کوئی زلف مشک بو
گیسوے پیچدار جو منھ پربکھر چلا
لڑکا ہی تھا نہ قاتل ناکردہ خوں ہنوز
کپڑے گلے کے سارے مرے خوں میں بھر چلا
اے مایۂ حیات گیا جس کنے سے تو
آفت رسیدہ پھر وہ کوئی دم میں مر چلا
تیاری آج رات کہیں رہنے کی سی ہے
کس خانماں خراب کے اے مہ تو گھر چلا
دیکھوگے کوئی گوشہ نشیں ہو چکا غریب
تیرمژہ اس ابرو کماں کا اگر چلا
بے مے رہا بہار میں ساری ہزار حیف
لطف ہوا سے شیخ بہت بے خبر چلا
ہم سے تکلف اس کا چلا جائے ہے وہی
کل راہ میں ملا تھا سو منھ ڈھانپ کر چلا
یہ چھیڑ دیکھ ہنس کے رخ زرد پر مرے
کہتا ہے میر رنگ تو اب کچھ نکھر چلا
میر تقی میر

بس اے تب فراق کہ گرمی میں مر گئے

دیوان اول غزل 589
آتش کے شعلے سر سے ہمارے گذر گئے
بس اے تب فراق کہ گرمی میں مر گئے
منزل نہ کر جہاں کو کہ ہم نے سفر سے آہ
جن کا کیا سراغ سنا وے گذر گئے
مشت نمک سے بھی تو کبھو یاد کر ہمیں
اب داغ کھاتے کھاتے فلک جی تو بھر گئے
ناصح نہ روویں کیونکے محبت کے جی کو ہم
اے خانماں خراب ہمارے تو گھر گئے
تلوار آپ کھینچیے حاضر ہے یاں بھی سر
بس عاشقی کی ہم نے جو مرنے سے ڈر گئے
کر دیں گے آسمان و زمیں ایک حشر کو
اس معرکے میں یارجی ہم بھی اگر گئے
یہ راہ و رسم دل شدگاں گفتنی نہیں
جانے دے میر صاحب و قبلہ جدھر گئے
روز وداع اس کی گلی تک تھے ہم بھی ساتھ
جب دردمند ہم کو وے معلوم کر گئے
کر یک نگاہ یاس کی ٹپ دے سے رو دیا
پھر ہم ادھر کو آئے میاں وے ادھر گئے
میر تقی میر

رومال دو دو دن تک جوں ابرتر رہے ہے

دیوان اول غزل 537
جب رونے بیٹھتا ہوں تب کیا کسر رہے ہے
رومال دو دو دن تک جوں ابرتر رہے ہے
آہ سحر کی میری برچھی کے وسوسے سے
خورشید کے منھ اوپر اکثر سپر رہے ہے
آگہ تو رہیے اس کی طرز رہ و روش سے
آنے میں اس کے لیکن کس کو خبر رہے ہے
ان روزوں اتنی غفلت اچھی نہیں ادھر سے
اب اضطراب ہم کو دو دو پہر رہے ہے
آب حیات کی سی ساری روش ہے اس کی
پر جب وہ اٹھ چلے ہے ایک آدھ مر رہے ہے
تلوار اب لگا ہے بے ڈول پاس رکھنے
خون آج کل کسو کا وہ شوخ کر رہے ہے
در سے کبھو جو آتے دیکھا ہے میں نے اس کو
تب سے ادھر ہی اکثر میری نظر رہے ہے
آخر کہاں تلک ہم اک روز ہوچکیں گے
برسوں سے وعدئہ شب ہر صبح پر رہے ہے
میر اب بہار آئی صحرا میں چل جنوں کر
کوئی بھی فصل گل میں نادان گھر رہے ہے
میر تقی میر

پھر دل ستم رسیدہ اک ظلم کر رہا ہے

دیوان اول غزل 531
طاقت نہیں ہے جی میں نے اب جگر رہا ہے
پھر دل ستم رسیدہ اک ظلم کر رہا ہے
مارا ہے کس کو ظالم اس بے سلیقگی سے
دامن تمام تیرا لوہو میں بھر رہا ہے
پہنچا تھا تیغ کھینچے مجھ تک جو بولے دشمن
کیا مارتا ہے اس کو یہ آپھی مر رہا ہے
آنے کہا ہے میرے خوش قد نے رات گذرے
ہنگامۂ قیامت اب صبح پر رہا ہے
چل ہم نشیں کہ دیکھیں آوارہ میر کو ٹک
خانہ خراب وہ بھی آج اپنے گھر رہا ہے
میر تقی میر

مذکور ہوچکا ہے مرا حال ہر کہیں

دیوان اول غزل 309
سن گوش دل سے اب تو سمجھ بے خبر کہیں
مذکور ہوچکا ہے مرا حال ہر کہیں
اب فائدہ سراغ سے بلبل کے باغباں
اطراف باغ ہوں گے پڑے مشت پر کہیں
خطرے سے ہونٹ سوکھ ہی جاتے تھے دیکھ کر
آتا نظر ہمیں جو کوئی چشم تر کہیں
عاشق ترے ہوئے تو ستم کچھ نہ ہو گیا
مرنا پڑا ہے ہم کو خدا سے تو ڈر کہیں
کچھ کچھ کہوں گا روز یہ کہتا تھا دل میں میں
آشفتہ طبع میر کو پایا اگر کہیں
سو کل ملا مجھے وہ بیاباں کی سمت کو
جاتا تھا اضطراب زدہ سا ادھر کہیں
لگ چل کے میں برنگ صبا یہ اسے کہا
کاے خانماں خراب ترا بھی ہے گھر کہیں
آشفتہ جا بہ جا جو پھرے ہے تو دشت میں
جاگہ نہیں ہے شہر میں تجھ کو مگر کہیں
خوں بستہ اپنی کھول مژہ پوچھتا بھی گر
رکھ ٹک تو اپنے حال کو مدنظر کہیں
آسودگی سی جنس کو کرتا ہے کون سوخت
جانے ہے نفع کوئی بھی جی کا ضرر کہیں
موتی سے تیرے اشک ہیں غلطاں کسو طرف
یاقوت کے سے ٹکڑے ہیں لخت جگر کہیں
تاکے یہ دشت گردی و کب تک یہ خستگی
اس زندگی سے کچھ تجھے حاصل بھی مر کہیں
کہنے لگا وہ ہو کے پرآشفتہ یک بیک
مسکن کرے ہے دہر میں مجھ سا بشر کہیں
آوارگوں کا ننگ ہے سننا نصیحتیں
مت کہیو ایسی بات تو بار دگر کہیں
تعیئن جا کو بھول گیا ہوں پہ یہ ہے یاد
کہتا تھا ایک روز یہ اہل نظر کہیں
بیٹھے اگرچہ نقش ترا تو بھی دل اٹھا
کرتا ہے جاے باش کوئی رہگذر کہیں
کتنے ہی آئے لے کے سر پر خیال پر
ایسے گئے کہ کچھ نہیں ان کا اثر کہیں
میر تقی میر

گل کب رکھے ہے ٹکڑے جگر اس قدر کہ ہم

دیوان اول غزل 276
کیا بلبل اسیر ہے بے بال و پر کہ ہم
گل کب رکھے ہے ٹکڑے جگر اس قدر کہ ہم
خورشید صبح نکلے ہے اس نور سے کہ تو
شبنم گرہ میں رکھتی ہے یہ چشم تر کہ ہم
جیتے ہیں تو دکھادیں گے دعواے عندلیب
گل بن خزاں میں اب کے وہ رہتی ہے مر کہ ہم
یہ تیغ ہے یہ طشت ہے یہ ہم ہیں کشتنی
کھیلے ہے کون ایسی طرح جان پر کہ ہم
تلواریں تم لگاتے ہو ہم ہیں گے دم بخود
دنیا میں یہ کرے ہے کوئی درگذر کہ ہم
اس جستجو میں اور خرابی تو کیا کہیں
اتنی نہیں ہوئی ہے صبا در بہ در کہ ہم
جب جا پھنسا کہیں تو ہمیں یاں ہوئی خبر
رکھتا ہے کون دل تری اتنی خبر کہ ہم
جیتے ہیں اور روتے ہیں لخت جگر ہے میر
کرتے سنا ہے یوں کوئی قیمہ جگر کہ ہم
میر تقی میر

ہم آنکھوں میں لے گئے بسر رات

دیوان اول غزل 183
پلکوں پہ تھے پارئہ جگر رات
ہم آنکھوں میں لے گئے بسر رات
اک دن تو وفا بھی کرتے وعدہ
گذری ہے امیدوار ہر رات
مکھڑے سے اٹھائیں ان نے زلفیں
جانا بھی نہ ہم گئی کدھر رات
تو پاس نہیں ہوا تو روتے
رہ رہ گئی ہے پہر پہر رات
کیا دن تھے کہ خون تھا جگر میں
رو اٹھتے تھے بیٹھ دوپہر رات
واں تم تو بناتے ہی رہے زلف
عاشق کی بھی یاں گئی گذر رات
ساقی کے جو آنے کی خبر تھی
گذری ہمیں ساری بے خبر رات
کیا سوز جگر کہوں میں ہمدم
آیا جو سخن زبان پر رات
صحبت یہ رہی کہ شمع روئی
لے شام سے تا دم سحر رات
کھلتی ہے جب آنکھ شب کو تجھ بن
کٹتی نہیں آتی پھر نظر رات
دن وصل کا یوں کٹا کہے تو
کاٹی ہے جدائی کی مگر رات
کل تھی شب وصل اک ادا پر
اس کی گئے ہوتے ہم تو مر رات
جاگے تھے ہمارے بخت خفتہ
پہنچا تھا بہم وہ اپنے گھر رات
کرنے لگا پشت چشم نازک
سوتے سے اٹھا جو چونک کر رات
تھی صبح جو منھ کو کھول دیتا
ہر چند کہ تب تھی اک پہر رات
پر زلفوں میں منھ چھپا کے پوچھا
اب ہووے گی میر کس قدر رات
میر تقی میر

تو کیا یہ رات ٹلے گی نہیں مرے مر سے!

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 64
لگے کہ آنکھ تراشی گئی ہے پتھر سے
تو کیا یہ رات ٹلے گی نہیں مرے مر سے!
وُہ اور دَور تھا، لاؤں کہاں سے وہ راتیں
کہ چھت پہ سوئے ہوئے مجھ پہ چاندنی برسے
وُہ اپنے خواب سفینے کا ناخدا ٹھہرا
گیا تو تھا ابھی لوٹا نہیں سمندر سے
خدا یہاں بھی ہے، یہ خلقتیں سوال کریں
تو کیوں نہ وعظ عطا ہو گلی کے منبر سے
یہ عین وقت ہے شمع معاش جلنے کا
اُڑے ہیں دن کے پتنگے نکل کے گھر گھر سے
بلا کا دشمنِ آتش ہے آب پروردہ
کرن کی کرچیاں گرتی ہیں دستِ گوہر سے
پھر اس کے بعد سنانے کی آرزو نہ رہے
سُنون وہ شعر کسی دن کسی سخنور سے
آفتاب اقبال شمیم

جینے کا جب شوق نہیں تھا، مر جاتے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 53
ہم خود دار کبھی یہ جرأت کر جاتے
جینے کا جب شوق نہیں تھا، مر جاتے
دجلۂ خاک میں خواہش کی طغیانی تھی
جسم سفینے کیسے پار اُتر جاتے
آنکھوں کی تربیت ہم پر لازم تھی
اپنے آپ سے ورنہ خود ہی ڈر جاتے
آفتاب اقبال شمیم

یعنی شب کو جاگئے صبح کو دفتر جائیے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 34
روز کی یکساں مسافت پر مکرر جائیے
یعنی شب کو جاگئے صبح کو دفتر جائیے
یہ زمانے بھر کی باتیں ختم ہوتی ہیں کہاں
رات کافی ہو چکی اب جائیے گھر جائیے
بیٹھئے سر تان کر گاہے صلیبوں کے تلے
اور گاہے آپ اپنی چاپ سے ڈر جائیے
تب ہو آغاز سفر جب آنکھ لو دینے لگے
اس شبِ تاریک میں ہو کر منور جائیے
آنکھ کو حسرت کہ بہرِ دید سو عمریں ملیں
اور دل چاہے کہ اُس بے مہر پر مر جائیے
ایک ان سلجھی پہیلی ہے جسے دنیا کہیں
آئیے اوسان لے کر اور ششدر جائیے
نا امیدی میں بھی وابستہ رہیں اُمید سے
ہو سکے تو اُسکی خاطر کچھ نہ کچھ کر جائیے
آفتاب اقبال شمیم

کسی آس پر، کسی یاس میں کبھی جی اُٹھا کبھی مر گیا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 28
میں بھی کتنا سادہ مزاج تھا کہ یقیں گمان پہ کر گیا
کسی آس پر، کسی یاس میں کبھی جی اُٹھا کبھی مر گیا
چلو یارِ وعدہ نواز سے کسی روز جا کے پتہ کریں
وہ جو اُس کے در کا اسیر تھا، اُسے کیا ہوا، وہ کدھر گیا
وہ شبِ عجیب گزر گئی، سو گزر گئی مگر اِس طرح
کہ سحر کا آئینہ دیکھ کر میں تو اپنے آپ سے ڈر گیا
تری آس کیا، کہ ہے ابر کا تو ہوا کے رُخ سے معاملہ
جو سنور گیا تو سنور گیا، جو بکھر گیا تو بکھر گیا
میری رہگزار میں رہ گئی یہی باز گشت صداؤں کی
کوئی بے نمود سا شخص تھا وُہ گزر گیا، وُہ گزر گیا
ہوئے منکشف مری آنکھ پر کئی اور زاویے دید کے
کوئی اشکِ ضبط اگر کبھی پسِ چشم آ کے ٹھہر گیا
آفتاب اقبال شمیم

بے نشاں ہو گئے جب شہر تو گھر جائیں گے

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 12
ہم مسافر یونہی مصروفِ سفر جائیں گے
بے نشاں ہو گئے جب شہر تو گھر جائیں گے
کس قدر ہو گا یہاں مہر و وفا کا ماتم
ہم تری یاد سے جس روز اتر جائیں گے
جوہری بند کیے جاتے ہیں بازارِ سخن
ہم کسے بیچنے الماس و گہر جائیں گے
نعمتِ زیست کا یہ قرض چکے گا کیسے
لاکھ گھبرا کے یہ کہتے رہیں، مر جائیں گے
شاید اپنا بھی کوئی بیت حُدی خواں بن کر
ساتھ جائے گا مرے یار جدھر جائیں گے
فیض آتے ہیں رہِ عشق میں جو سخت مقام
آنے والوں سے کہو ہم تو گزر جائیں گے
فیض احمد فیض

عہد و پیماں سے گزر جانے کو جی چاہتا ہے

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 20
ضبط کا عہد بھی ہے شوق کا پیمان بھی ہے
عہد و پیماں سے گزر جانے کو جی چاہتا ہے
درد اتنا ہے کہ ہر رگ میں ہے محشر برپا
اور سکوں ایسا کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے
قطعہ
فیض احمد فیض

اِتنی زنجیروں میں مت جکڑو، بکھر جائیں گے لوگ

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 129
موجِ خوں بن کر کناروں سے گزر جائیں گے لوگ
اِتنی زنجیروں میں مت جکڑو، بکھر جائیں گے لوگ
قاتلوں کے شہر میں بھی زندگی کرتے رہے
لوگ شاید یہ سمجھتے تھے کہ مر جائیں گے لوگ
اَن گنت منظر ہیں اور دِل میں لہو دو چار بوُند
رَنگ آخر کتنی تصوِیروں میں بھر جائیں گے لوگ
جسم کی رعنائیوں تک خواہشوں کی بھیڑ ہے
یہ تماشا ختم ہو جائے تو گھر جائیں گے لوگ
جانے کب سے ایک سنّاٹا بسا ہے ذہن میں
اَب کوئی اُن کو پکارے گا تو ڈر جائیں گے لوگ
بستیوں کی شکل و صوُرت مختلف کتنی بھی ہو
آسماں لیکن وہی ہو گا جدھر جائیں گے لوگ
سُرخ رو ہونے کو اِک سیلابِ خوُں دَرکار ہے
جب بھی یہ دَریا چڑھے گا پار اُترجائیں گے لوگ
عرفان صدیقی

آج اقرار کریں زخم کے بھر جانے کا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 38
ہو چکا کھیل بہت جی سے گزر جانے کا
آج اقرار کریں زخم کے بھر جانے کا
ہم بھی زندہ تھے مسیحا نفسوں کے ہوتے
سچ تو یہ ہے کہ وہی وقت تھا مر جانے کا
بے سروکار فلک بے در و دیوار زمیں
سر میں سودا ہے مری جان کدھر جانے کا
ہم یہاں تک خس و خاشاک بدن کو لے آئے
آگے اب کوئی بھی موسم ہو بکھر جانے کا
کوئی دشوار نہیں شیوۂ شوریدہ سری
ہاں اگر ہے تو ذرا خوف ہے سر جانے کا
اب تلک بزم میں آنا ہی تھا اک کار ہنر
ہم نے آغاز کیا کار ہنر جانے کا
عرفان صدیقی

کہ مرنا تو ہے محبت میں مر گئے ہوتے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 526
کہا جو ہوتا تو جاں سے گزر گئے ہوتے
کہ مرنا تو ہے محبت میں مر گئے ہوتے
کسی شراب کدے نکل کے پچھلی رات
یہ چاہئے تھا ہمیں اپنے گھر گئے ہوتے
اکیلگی نے ہمیں اپنی جوڑ رکھا ہے
سمیٹ لیتا کوئی تو بکھر گئے ہوتے
تُو ایک بار برس پڑتا میری روہی پر
تو سارے پیاس کے تالاب بھر گئے ہوتے
ہمیں زمین نے رکھا گرفت میں منصور
جو پاؤں اٹھتے تو افلاک پر گئے ہوتے
منصور آفاق

پھر کہیں اور مر رہا ہوں میں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 336
پھر وہی بھول کر رہا ہوں میں
پھر کہیں اور مر رہا ہوں میں
جانتا ہوں منافقت کے گُر
شہر میں معتبر رہا ہوں میں
رابطے سانپ بنتے جاتے تھے
رخنے مٹی سے بھر رہا ہوں میں
رات کچھ اور انتظار مرا
آسماں پر ابھر رہا ہوں میں
ایک اندھا کنواں ہے چاروں اور
زینہ زینہ اتر رہا ہوں میں
آخری بس بھی جانے والی ہے
اور تاخیر کر رہا ہوں میں
ساتھ چھوڑا تھا جس جگہ تُو نے
بس اسی موڑ پر رہا ہوں میں
جانتا ہے تُو میری وحشت بھی
تیرے زیرِ اثر رہا ہوں میں
تتلیاں ہیں مرے تعاقب میں
کیسا گرمِ سفر رہا ہوں میں
کچھ بدلنے کو ہے کہیں مجھ میں
خود سے منصور ڈر رہا ہوں میں
منصور آفاق

تجھے میں آنکھ کے دربند کر کے دیکھوں گا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 74
کرشمے تیری گرفتِ نظر کے دیکھوں گا
تجھے میں آنکھ کے دربند کر کے دیکھوں گا
پتہ کروں گا نہ ہونے میں کیسا ہونا ہے
مقامِ صفر پہ کچھ دن ٹھہر کے دیکھوں گا
نکل کے کمرے سے جاؤں گا صحن میں اپنے
مناظر اپنے شکستہ سے گھر کے دیکھوں گا
رکھا درخت کے بالکل ہے سامنے سورج
ابھی میں پھیلتے سائے اُدھر کے دیکھوں گا
جہاں جہاں ترے پہلو میں کھل اٹھا تھا بدن
میں بار بار وہیں سے گزر کے دیکھوں گا
سہار د ستِ دعانے تو لی ہے چھت لیکن
مگر فلک کی طرف روز ڈر کے دیکھوں گا
ہے ہمکلام بھی مائل بھی اور اکیلا بھی
سوہاتھ زانوئے جاناں پہ دھر کے دیکھوں گا
سناہے اسکے لبوں سے جھڑے مسیحائی
سومیں بھی یار کی چوکھٹ پہ مر کے دیکھوں گا
اے چشمِ یار کی تیرہ سواد کاجلی شب
تجھے میں آنکھ میں مہتاب بھر کے دیکھوں گا
بنا ہوا ہوں ازل سے زمین کا قیدی
میں سارے دائرے دا مِ سفر کے دیکھوں گا
ذرا سی اور ٹھہر جائے رات پہلو میں
سبھی چراغ بجھا کر سحر کے دیکھوں گا
ہوا وصال میں مہکے توچاندنی !تجھ سے
میں کھول کھول کے سائے شجر کے دیکھوں گا
مجھے یقیں ہے کہ تیرا سروپ ہے اسمیں
اب آئینہ بھی ہمیشہ سنور کے دیکھوں گا
تم اپنے خول سے باہر نکل کے آ ؤ تو
فرازِ عرش سے میں بھی اتر کے دیکھوں گا
مرے لبوں کو بھی تتلی کی نرمیاں چھو لیں
گلاب کی طرح میں بھی نکھر کے دیکھوں گا
خود اپنی آنکھ سے اپنی سویر کی کرنیں
کسی کے بامِ افق پر ابھر کے دیکھوں گا
یہ اور بات کہ موسم بدل نہیں سکتا
میں برگ برگ ہوا میں بکھر کے دیکھوں گا
ابھی لکھوں گا قصیدہ کسی کے چہرے کا
تماشا اپنے ہی حسنِ نظر کے دیکھوں گا
وہ گنگنائے گی اک دن مری غزل منصور
عجب وصال میں اپنے ہنر کے دیکھوں گا
منصور آفاق

اﷲ رے حادثے سفر کے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 229
منزل کے رہے نہ رہگزر کے
اﷲ رے حادثے سفر کے
وعدہ نہ دلاؤ یاد ان کا
نادم ہیں ہم اعتبار کر کے
خاموش ہیں یوں اسیر جیسے
جھگڑے تھے تمام بال و پر کے
کیا کم ہے یہ سادگی ہماری
ہم آ گئے کام رہبر کے
یوں موت کے منتظر ہیں باقیؔ
مل جائے گا چین جیسے مر کے
باقی صدیقی

کیوں تجھ سے گریز کر گئے ہم

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 85
کیا دور جہاں سے ڈر گئے ہم
کیوں تجھ سے گریز کر گئے ہم
حیرت ہے کہ سامنے سے تیرے
غیروں کی طرح گزر گئے ہم
وہ دور بھی زندگی میں آیا
محسوس ہوا کہ مر گئے ہم
اے دشت حیات کے بگولو
ڈھونڈو تو سہی کدھر گئے ہم
آئی یہ کدھر سے تیری آواز
چلتے چلتے ٹھہر گئے ہم
گزری ہے صبا قفس سے ہو کے
لینا غم بال و پر گئے ہم
ساحل کا مرحلہ ہے باقیؔ
طوفاں سے تو پار اتر گئے ہم
باقی صدیقی