ٹیگ کے محفوظات: مرتا

کوئی کہیں بھی قتل ہو، مرتا تو میں بھی ہوں

آندھی چلے کہیں بھی، بکھرتا تو میں بھی ہوں
کوئی کہیں بھی قتل ہو، مرتا تو میں بھی ہوں
مکر و فریب، کذب و تکبّر، منافقت
کہتا ہوں سب سے مت کرو، کرتا تو میں بھی ہوں
لب بستہ ہیں سبھی، کہ سبھی کو ہے جاں عزیز
سچ پوچھیے تو موت سے ڈرتا تو میں بھی ہوں
اپنے کہے کا پاس کسی کو نہیں، تو کیا
باتوں سے اپنی کہہ کے مکرتا تو میں بھی ہوں
کہتے ہیں سب کہ اُن کا نہیں ہے کوئی قصور
الزام دوسروں پہ ہی دھرتا تو میں بھی ہوں
کیا ہے جو اب کسی کو کسی کا نہیں خیال
آنکھیں چرا کے سب سے گزرتا تو میں بھی ہوں
عرفان، بے حسی کے سِوا کچھ نہیں وہاں
اکثر نشیبِ دل میں اترتا تو میں بھی ہوں
عرفان ستار

جانے کس کے جبر کا چرچا کرتا ہوں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 12
نِت یکجا ہوتا ہوں، روز بکھرتا ہوں
جانے کس کے جبر کا چرچا کرتا ہوں
استعمال سے اِن کے پھل بھی پاتا ہوں
میں جھولی میں پہلے کنکر بھرتا ہوں
سچ بھی جیسے اک ناجائز بچّہ ہے
میں جس کے اظہار سے ابتک ڈرتا ہوں
دہ چندا ہو ابر ہو یا ہو موجۂ مے
جو دم توڑے ساتھ اُسی کے مرتا ہوں
سوچُوں تو اک یہ صورت بھی ہے میری
میں سورج کے ساتھ بھی روز ابھرتا ہوں
باہم شکل بدلتے تخم و شجر سا میں
ہر پچیس برس کے بعد نکھرتا ہوں
دیکھ تو لُوں ماجدؔ ہے مقابل کون مرے
جور و جفا کی تہمت کس پر دھرتا ہوں
ماجد صدیقی

تنہا گئے کیوں؟ اب رہو تنہا کوئی دن اور

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 121
لازم تھا کہ دیکھو مرا رستہ کوئی دِن اور
تنہا گئے کیوں؟ اب رہو تنہا کوئی دن اور
مٹ جائےگا سَر ،گر، ترا پتھر نہ گھِسے گا
ہوں در پہ ترے ناصیہ فرسا کوئی دن اور
آئے ہو کل اور آج ہی کہتے ہو کہ ’جاؤں؟‘
مانا کہ ھمیشہ نہیں اچھا کوئی دن اور
جاتے ہوئے کہتے ہو ’قیامت کو ملیں گے‘
کیا خوب! قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور
ہاں اے فلکِ پیر! جواں تھا ابھی عارف
کیا تیرا بگڑ تا جو نہ مرتا کوئی دن اور
تم ماہِ شبِ چار دہم تھے مرے گھر کے
پھر کیوں نہ رہا گھر کا وہ نقشا کوئی دن اور
تم کون سے ایسے تھے کھرے داد و ستد کے
کرتا ملکُ الموت تقاضا کوئی دن اور
مجھ سے تمہیں نفرت سہی، نیر سے لڑائی
بچوں کا بھی دیکھا نہ تماشا کوئی دن اور
گزری نہ بہرحال یہ مدت خوش و ناخوش
کرنا تھا جواں مرگ گزارا کوئی دن اور
ناداں ہو جو کہتے ہو کہ ’کیوں جیتے ہیں غالب‘
قسمت میں ہے مرنے کی تمنا کوئی دن اور
مرزا اسد اللہ خان غالب

چین نہیں دیتا ہے ظالم جب تک عاشق مرتا ہے

دیوان پنجم غزل 1770
عشق ہمارا در پئے جاں ہے کیسی خصومت کرتا ہے
چین نہیں دیتا ہے ظالم جب تک عاشق مرتا ہے
شاید لمبے بال اس مہ کے بکھر گئے تھے بائو چلے
دل تو پریشاں تھا ہی میرا رات سے جی بھی بکھرتا ہے
صورت اس کی دیدئہ تر میں پھرتی ہے ہر روز و شب
ہے نہ اچنبھا یہ بھی کہیں پانی میں نقش ابھرتا ہے
کیا دشوار گذر ہے طریق عشق مسافر کش یارو
جی سے اپنے گذر جاتا ہے جو اس راہ گذرتا ہے
حال کسو بے تہ کا یاں مانا ہے حباب دریا سے
ٹک جو ہوا دنیا کی لگی تو یہ کم ظرف اپھرتا ہے
یاد خدا کو کرکے کہو ٹک پاس ہمارے ہوجاوے
صد سالہ غم دیکھے اس خوش چشم و رو کے بسرتا ہے
دامن دیدئہ تر کی وسعت دیکھے ہی بن آوے گی
ابر سیاہ و سفید جو ہو سو پانی ان کا بھرتا ہے
دل کی لاگ نہیں چھپتی ہے کوئی چھپاوے بہتیرا
زردی عشق سے بے الفت یہ رنگ کسو کا نکھرتا ہے
کھینچ کے تیغہ اپنا ہر دم کیا لوگوں کو ڈراتے ہو
میر جگر دار آدمی ہے وہ کب مرنے سے ڈرتا ہے
میر تقی میر

کج طبیعت جو مخالف ہیں انھوں سے جا سمجھ

دیوان دوم غزل 942
ہم سے کیوں الجھا کرے ہے آ سمجھ اے ناسمجھ
کج طبیعت جو مخالف ہیں انھوں سے جا سمجھ
یار کی ان بھولی باتوں پر نہ جا اے ہم نشیں
ایک فتنہ ہے وہ اس کو آہ مت لڑکا سمجھ
خوبرو عشاق سے بد پیش آتے ہی سنے
گرچہ خوش ظاہر ہیں یہ پر ان کو مت اچھا سمجھ
باغباں بے رحم گل بے دید موسم بے وفا
آشیاں اس باغ میں بلبل نے باندھا کیا سمجھ
میں جو نرمی کی تو دونا سر چڑھا وہ بدمعاش
کھانے ہی کو دوڑتا ہے اب مجھے حلوا سمجھ
دور سے دیکھی جو بدحالی وہیں سے ٹل گیا
دو قدم آگے نہ آیا مجھ کو وہ مرتا سمجھ
میر کی عیاریاں معلوم لڑکوں کو نہیں
کرتے ہیں کیا کیا ادائیں اس کو سادہ سا سمجھ
میر تقی میر

تجھ پر کوئی اے کام جاں دیکھا نہ یوں مرتا ہوا

دیوان دوم غزل 714
عاشق ترے لاکھوں ہوئے مجھ سا نہ پھر پیدا ہوا
تجھ پر کوئی اے کام جاں دیکھا نہ یوں مرتا ہوا
مدت ہوئی الفت گئی برسوں ہوئے طاقت گئی
دل مضطرب ایسا نہ تھا کیا جانیے اب کیا ہوا
کل صبح سیر باغ میں دل اور میرا رک گیا
بلبل نہ بولا منھ سے کچھ گل ٹک نہ مجھ سے وا ہوا
وے دن گئے جو یاں کبھو اٹھتا تھا دل سے جوش سا
اب لگ گئے رونے جہاں پل مارتے دریا ہوا
کتنوں کے دل بے جاں ہوئے کتنے نہ جانا کیا ہوئے
چلنے میں اس کے دو قدم ہنگامہ اک برپا ہوا
مستی میں لغزش ہو گئی معذور رکھا چاہیے
اے اہل مسجد اس طرف آیا ہوں میں بہکا ہوا
جوں حسن ہے اک فتنہ گر توں عشق بھی ہے پردہ در
وہ شہرئہ عالم ہوا میں خلق میں رسوا ہوا
فرہاد و مجنوں ووں گئے ہم اور وامق یوں چلے
اس عارضے سے چاہ کے وہ کون سا اچھا ہوا
یا حرف خط ہے درمیاں یا گیسوئوں کا ہے بیاں
کیا میر صاحب کے تئیں پھر ان دنوں سودا ہوا
میر تقی میر

میری توبہ کا جان ڈرتا ہے

دیوان اول غزل 628
جوں جوں ساقی تو جام بھرتا ہے
میری توبہ کا جان ڈرتا ہے
سیر کر عاشقوں کی جانبازی
کوئی سسکتا ہے کوئی مرتا ہے
میر ازبسکہ ناتواں ہوں میں
جی مرا سائیں سائیں کرتا ہے
میر تقی میر

سو وہ سر بریدہ بھی پشت فرس سے اُترتا نہیں

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 193
جو گرتا نہیں ہے اسے کوئی پامال کرتا نہیں
سو وہ سر بریدہ بھی پشت فرس سے اُترتا نہیں
بس اب اپنے پیاروں کو اپنے دلاروں کو رخصت کرو
کہ اس امتحاں سے فرشتوں کا لشکر گزرتا نہیں
کبھی زرد ریتی کبھی خشک شاخوں پہ ہنستا ہوا
ہمارا لہو کس قدر سخت جاں ہے کہ مرتا نہیں
تری تیغ تو میری ہی فتح مندی کا اعلان ہے
یہ بازو نہ کٹتے اگر میرا مشکیزہ بھرتا نہیں
MERGED جو گرتا نہیں ہے اسے کوئی پامال کرتا نہیں
سو وہ سربریدہ بھی پشتِ فرس سے اترتا نہیں
کبھی زرد ریتی، کبھی سرد شاخوں پہ ہنستا ہوا
ہمارا لہو کس قدر سخت جاں ہے کہ مرتا نہیں
بس اب اپنے پیاروں کو، اپنے دُلاروں کو یکجا کرو
سنو، اس طرف سے فرشتوں کا لشکر گزرتا نہیں
سماعت کہ جنگل کا انعام تھا اک سزا بن گئی
اگر میں وہ انجان چیخیں نہ سنتا تو ڈرتا نہیں
عرفان صدیقی