ٹیگ کے محفوظات: مدّعا

بتادوں؟ مجھ سے خود اپنا پتہ گُم ہو گیا ہے

سبھی یہ پوچھتے رہتے ہیں کیا گُم ہو گیا ہے
بتادوں؟ مجھ سے خود اپنا پتہ گُم ہو گیا ہے
تمہارے دن میں اک رُوداد تھی جو کھو گئی ہے
ہماری رات میں اک خواب تھا، گُم ہو گیا ہے
وہ جس کے پیچ و خم میں داستاں لپٹی ہوئی تھی
کہانی میں کہیں وہ ماجرا گُم ہو گیا ہے
ذرا اہلِ جُنوں آؤ، ہمیں رستہ سُجھاؤ
یہاں ہم عقل والوں کا خدا گُم ہو گیا ہے
نظر باقی ہے لیکن تابِ نظّارہ نہیں اب
سخن باقی ہے لیکن مدّعا گُم ہو گیا ہے
مجھے دکھ ہے، کہ زخم و رنج کے اِس جمگھٹے میں
تمہارا اور میرا واقعہ گُم ہو گیا ہے
یہ شدّت درد کی اُس کے نہ ہونے سے نہ ہوتی
یقیناً اور کچھ اُس کے سِوا گُم ہو گیا ہے
وہ جس کو کھینچنے سے ذات کی پرتیں کھُلیں گی
ہماری زندگی کا وہ سِرا گُم ہو گیا ہے
وہ در وا ہو نہ ہو، آزاد و خود بیں ہم کہاں کے
پلٹ آئیں تو سمجھو راستہ گُم ہو گیا ہے
عرفان ستار

اَگَر جَہاں میں نہ ہَم سا کوئی ہُوا ہوتا

نہ عِشق اُور نہ کوئی مُجرِمِ وَفا ہوتا
اَگَر جَہاں میں نہ ہَم سا کوئی ہُوا ہوتا
وقارِ عشق کو مِلتی نہ گر اَنا ہم سے
ہَر اِک حَسین بَزعمِ خُود اِک خُدا ہوتا
ضَمِیرِ عَصر کا یہ جَشنِ مَرگ ہے، وَرنہ
بھَرے جَہاں میں کِسی نے تَو کُچھ کَہا ہوتا
فَقَط بَشَر ہے وہ اس پر اَگَر یہ عالَم ہے
جو گُل کِھلاتا وہ کَم تھا، اَگَر خُدا ہوتا
وہ حُسن ہوتا نہ گَر حُسنِ مُنفَرِد ضاؔمن
لَبوں پہ بَن کے نہ یوں حَرفِ مُدّعا ہوتا
ضامن جعفری

دِل کو آنکھوں میں رَکھ لِیا کیجے

جَب کبھی اُن کا سامنا کیجے
دِل کو آنکھوں میں رَکھ لِیا کیجے
ٹھان ہی لی ہے اب تَو کیا کیجے
جائیے! عرضِ مدّعا کیجے
کہیِں نیچی نہ ہو نظَر صاحب
حالِ دل سب سے مت کہا کیجے
کوئی شعلہ نَفَس ہے محفل میں
میرے جینے کی بس دُعا کیجے
جُنبِشِ لَب نَظَر میں رہتی ہے
گفتگو آنکھ سے کِیا کیجے
جب اشارے کنائے ہیں موجود
جو کہیَں کھُل کے مت کَہا کیجے
ڈال کر پھر نَظَر اَجَل انداز
میرے حق میں کوئی دُعا کیجے
اُسی انداز میں وہی الفاظ
جب بھی موقع ہو کہہ دیا کیجے
میں ہُوں ضامنؔ مجھے تَو کم از کم
رازِ الفت سے آشنا کیجے
ضامن جعفری

ارماں پسِ چشم جو رُکا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 42
ہر آن بدن پہ بوجھ سا ہے
ارماں پسِ چشم جو رُکا ہے
جس میں نیا رنج روز اُترے
دِل ایسا ہی فرد آئنہ ہے
ہر سمت شروع میں سفر کے
دیکھا ہے جِدھر بھنور نیا ہے
رفعت کا ہے جو بھی اگلا زینہ
لاریب وُہ قوّت آزما ہے
اعصاب پڑے ہیں ماند جب سے
ہر تازہ سفر کٹھن سَوا ہے
بارش کو ترستا مُرغِ گِریاں
ماجِد! ترا حرفِ مُدّعا ہے
ماجد صدیقی

لب پہ لانے لگی پھر سخن پیار کا، رقص کرتی ہوا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 13
سن ذرا اے صنم! گنگناتی ہے کیا، رقص کرتی ہوا
لب پہ لانے لگی پھر سخن پیار کا، رقص کرتی ہوا
چُھو کے تیر ا بدن تیری لہراتی زلفیں ترا پیرہن
تجھ سے کہتی ہے کیا کیا مرا مدّعا ،رقص کرتی ہوا
ساتھ لاتی ہے کیا کیا تم ایسے نہ گھونگھٹ بناتی ہوئی
تیرا رنگِ حیا تیرا رنگِ قبا رقص کرتی ہوا
ماجد صدیقی

دشت پر سے بادل کو لے اُڑے ہوا جیسے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 5
ہو چلی ہے ہر آشا یُوں گریز پا جیسے
دشت پر سے بادل کو لے اُڑے ہوا جیسے
کھِل نہیں سکی اُس کے سامنے کلی دل کی
دب گیا ہے ہونٹوں میں حرفِ مدّعا جیسے
چشم و لب کے آنگن میں ہو غرض کا موسم تو
بن کے بیٹھ رہتا ہے ہر کوئی خُدا جیسے
حال ہے کچھ ایسا ہی آج کے مؤرخ کا
داستاں لکھے اپنی کوئی بیسوا جیسے
رو پڑا ہے کیوں، دیکھو، ہاتھ میں سے بچّے کے
گِر گیا ہے، لگتا ہے، پھر سے جھنجھنا جیسے
اِس زمیں کا ہر خطّہ حرص کے حوالوں سے
یُوں لگے کہ ہونا ہو دشتِ کربلا جیسے
دل کی بات بھی ماجدؔ کھوکھلی ہوئی ایسی
زیرِ آب سے اُٹھے موجۂ صدا جیسے
ماجد صدیقی

درِ زنداں ہمیں پر ہی کھُلا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 27
نجانے کس جنم کی یہ سزا ہے
درِ زنداں ہمیں پر ہی کھُلا ہے
شکستِ آرزو کا رنج دل میں
زباں پر منجمد حرفِ دُعا ہے
وہی ہونا ہے، ہیں آثار جس کے
یہ دل کن وسوسوں میں مبتلا ہے
کسی پیاسے کو جیسے موج دیکھے
کُچھ ایسے ہی ہمیں وُہ دیکھتا ہے
ترستا ہے کسی دستِ طلب کو
گلاب اِک باڑھ سے نت جھانکتا ہے
اُسے چھیڑیں نہ ہم اُکتا کے اُس سے
یہی اُس شوخ کا بھی مُدّعا ہے
عِناں جب ہاتھ میں دل کی ہے اُس کے
وُہ جو کچھ بھی کرے ماجدؔ! روا ہے
ماجد صدیقی

ہے نشہ اُس کی یاد کا اور میں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 118
جھومتے ہیں یہ گل، ہوا اور مَیں
ہے نشہ اُس کی یاد کا اور میں
کھوجتے ہیں اسی کی خوشبو کو
مل کے باہم سحر، صبا اور میں
کس کی رہ دیکھتے ہیں ہم دونوں
موسموں سے دُھلی فضا اور میں
صورتِ موج، مضطرب ٹھہرے
اس سے ملنے کا مدّعا اور مَیں
صید ہیں کب سے نامرادی کے
کلبلاتی ہوئی دعا اور میں
زندگی بطن میں ہے کیا ماجدؔ
جانتے ہیں یہ ہم، خدا اور مَیں
ماجد صدیقی

کسی پہ راز ہمارا ابھی کھُلا ہی نہیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 8
ہیں لب کشا بھی مگر جیسے کچھ کہا ہی نہیں
کسی پہ راز ہمارا ابھی کھُلا ہی نہیں
بھنور بھی جھاگ سی بس سطحِ آب پر لایا
جو تہہ میں ہے وُہ ابھی تک اُبھر سکا ہی نہیں
ہمیں جو ہوش میں لائے تو زلزلہ ہی کوئی
وہ بے حسی کا نشہ ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں
یہ کیسا عام ہے اعلانِ صحتِ یاراں
ہمیں جو روگ تھا وہ تو ابھی گیا ہی نہیں
شکستِ دل بھی شکستِ حباب تھی جیسے
فضائے دہر میں اُٹھی کوئی صدا ہی نہیں
کسی پہ حال ہمارا عیاں ہو کیا ماجدؔ
کھُلا کسی پہ کبھی حرفِ مدّعا ہی نہیں
ماجد صدیقی

بنی ہے جان پہ جو کچھ بھی برملا کہئیے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 25
مثالِ برگِ خزاں اپنا ماجرا کہئیے
بنی ہے جان پہ جو کچھ بھی برملا کہئیے
بہ دامِ موج وُہ اُلجھا گیا ہے کیا کہئیے
نہنگ جانئیے اُس کو کہ ناخدا کہئیے
ہمارے دم سے سہی اَب تو سربلند ہے وُہ
اسے بھی عجز کا اپنے ہی اِک صلا کہئیے
جھڑی ہے دُھول شجر سے اگر بجائے ثمر
تو کیوں نہ وقت کی اِس کو بھی اِک عطا کہئیے
زباں کے زخم پُرانے یہی سُجھاتے ہیں
کہ اب کسی سے بھی دل کا نہ مدّعا کہئیے
بہ شاخِ نطق یہ بے بال و پر پرندے ہیں
نہ شعر کہئیے اِنہیں حرفِ نارسا کہئیے
نگاہ رکھئے زمینِ چمن پہ بھی ماجدؔ
خزاں کو محض نہ آوردۂ صبا کہئیے
ماجد صدیقی

ہوا نے اپنا ارادہ بتا دیا ہے مجھے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 82
تبر بہ دست بھی ہے جس کا آسرا ہے مجھے
ہوا نے اپنا ارادہ بتا دیا ہے مجھے
رہِ سفر کا مرے رُخ ہی موڑ دے نہ کہیں
یہ دستِ غیب سے پتّھر جو آ پڑا ہے مجھے
جو دے تو میری گواہی وہ شاخِ سبز ہی دے
پنہ میں جس کی یہ تیرِ قضا لگا ہے مجھے
عجب عذاب ہے یہ تہ رسی نگاہوں کی
چٹک کلی کی بھی اب خاک کی صدا ہے مجھے
میں اُس مقام پہ ماجدؔ پہنچ گیا ہوں جہاں
یہ خامشی بھی تری حرفِ مدّعا ہے مجھے
ماجد صدیقی

کھُل جائے گا حرفِ مدّعا بھی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 25
لے ہاتھ سے ہاتھ اَب مِلا بھی
کھُل جائے گا حرفِ مدّعا بھی
کیا ہم سے مِلا سکے گا آنکھیں
ہو تجھ سے کبھی جو سامنا بھی
سہمی تھی مہک گلوں کے اندر
ششدر سی مِلی ہمیں ہوا بھی
جس شخص سے جی بہل چلا تھا
وہ شخص تو شہر سے چلا بھی
کیوں نام ترا نہ لیں کسی سے
اَب قید یہ ہم سے تُو اُٹھا بھی
ماجدؔ کو علاوہ اِس سخن کے
ہے کسبِ معاش کی سزا بھی
ماجد صدیقی

بتادوں؟ مجھ سے خود اپنا پتہ گُم ہو گیا ہے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 82
سبھی یہ پوچھتے رہتے ہیں کیا گُم ہو گیا ہے
بتادوں؟ مجھ سے خود اپنا پتہ گُم ہو گیا ہے
تمہارے دن میں اک رُوداد تھی جو کھو گئی ہے
ہماری رات میں اک خواب تھا، گُم ہو گیا ہے
وہ جس کے پیچ و خم میں داستاں لپٹی ہوئی تھی
کہانی میں کہیں وہ ماجرا گُم ہو گیا ہے
ذرا اہلِ جُنوں آؤ، ہمیں رستہ سُجھاؤ
یہاں ہم عقل والوں کا خدا گُم ہو گیا ہے
نظر باقی ہے لیکن تابِ نظّارہ نہیں اب
سخن باقی ہے لیکن مدّعا گُم ہو گیا ہے
مجھے دکھ ہے، کہ زخم و رنج کے اِس جمگھٹے میں
تمہارا اور میرا واقعہ گُم ہو گیا ہے
یہ شدّت درد کی اُس کے نہ ہونے سے نہ ہوتی
یقیناً اور کچھ اُس کے سِوا گُم ہو گیا ہے
وہ جس کو کھینچنے سے ذات کی پرتیں کھُلیں گی
ہماری زندگی کا وہ سِرا گُم ہو گیا ہے
وہ در وا ہو نہ ہو، آزاد و خود بیں ہم کہاں کے
پلٹ آئیں تو سمجھو راستہ گُم ہو گیا ہے
عرفان ستار

کہیے کہیے مجھے برا کہیے

داغ دہلوی ۔ غزل نمبر 48
ناروا کہیے ناسزا کہیے
کہیے کہیے مجھے برا کہیے
تجھ کو بد عہد و بے وفا کہیے
ایسے جھوٹے کو اور کیا کہیے
پھر نہ رکیے جو مدّعا کہیے
ایک کے بعد دوسرا کہیے
آپ اب میرا منہ نہ کھلوائیں
یہ نہ کہیے کہ مدّعا کہیے
وہ مجھے قتل کر کے کہتے ہیں
مانتا ہی نہ تھا یہ کیا کہیے
دل میں رکھنے کی بات ہے غمِ عشق
اس کو ہرگز نہ برملا کہیے
تجھ کو اچھا کہا ہے کس کس نے
کہنے والوں کو اور کیا کہیے
وہ بھی سن لیں گے یہ کبھی نہ کبھی
حالِ دل سب سے جابجا کہیے
مجھ کو کہیے برا نہ غیر کے ساتھ
جو ہو کہنا جدا جدا کہیے
انتہا عشق کی خدا جانے
دمِ آخر کو ابتدا کہیے
میرے مطلب سے کیا غرض مطلب
آپ اپنا تو مدّعا کہیے
صبر فرقت میں آ ہی جاتا ہے
پر اسے دیر آشنا کہیے
آ گئی آپ کو مسیحائی
مرنے والوں کو مرحبا کہیے
آپ کا خیر خواہ میرے سوا
ہے کوئی اور دوسرا کہیے
ہاتھ رکھ کر وہ اپنے کانوں پر
مجھ سے کہتے ہیں ماجرا کہیے
ہوش جاتے رہے رقیبوں کے
داغ کو اور با وفا کہیے
داغ دہلوی

آخر اس درد کی دوا کیا ہے

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 271
دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے؟
آخر اس درد کی دوا کیا ہے؟
ہم ہیں مشتاق اور وہ بےزار
یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟
میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں
کاش پوچھو کہ مدّعا کیا ہے
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟
یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں؟
غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے؟
شکنِ زلفِ عنبریں کیوں ہے@
نگہِ چشمِ سرمہ سا کیا ہے؟
سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں؟
ابر کیا چیز ہے؟ ہوا کیا ہے؟
ہم کو ان سے وفا کی ہے امّید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے؟
ہاں بھلا کر ترا بھلا ہو گا
اَور درویش کی صدا کیا ہے؟
جان تم پر نثار کرتا ہوں
میں نہیں جانتا دعا کیا ہے؟
میں نے مانا کہ کچھ نہیں غالب
مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے
@ ہیں۔ نسخۂ مہر
مرزا اسد اللہ خان غالب

صبحِ وطن ہے خندۂ دنداں نما مجھے

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 239
ہے آرمیدگی میں نکوہش بجا مجھے
صبحِ وطن ہے خندۂ دنداں نما مجھے
ڈھونڈے ہے اس مغنّیِ آتش نفس کو جی
جس کی صدا ہو جلوۂ برقِ فنا مجھے
مستانہ طے کروں ہوں رہِ وادیِ خیال
تا باز گشت سے نہ رہے مدّعا مجھے
کرتا ہے بسکہ باغ میں تو بے حجابیاں
آنے لگی ہے نکہتِ گل سے حیا مجھے
کھلتا کسی پہ کیوں مرے دل کا معاملہ
شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے
مرزا اسد اللہ خان غالب

بوسے کو پُوچھتا ہوں مَیں، منہ سےمجھے بتا کہ یُوں

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 160
غنچۂ ناشگفتہ کو دور سے مت دکھا، کہ یُوں
بوسے کو پُوچھتا ہوں مَیں، منہ سےمجھے بتا کہ یُوں
پُرسشِ طرزِ دلبری کیجئے کیا؟ کہ بن کہے
اُس کے ہر اک اشارے سے نکلے ہے یہ ادا کہ یُوں
رات کے وقت مَے پیے ساتھ رقیب کو لیے
آئے وہ یاں خدا کرے، پر نہ خدا کرے کہ یُوں
’غیر سے رات کیا بنی‘ یہ جو کہا تو دیکھیے
سامنے آن بیٹھنا، اور یہ دیکھنا کہ یُوں
بزم میں اُس کے روبرو کیوں نہ خموش بیٹھیے
اُس کی تو خامُشی میں بھی ہے یہی مدّعا کہ یُوں
میں نے کہا کہ “ بزمِ ناز چاہیے غیر سے تہی“
سُن کر ستم ظریف نے مجھ کو اُٹھا دیا کہ یُوں ؟
مجھ سے کہا جو یار نے ’جاتے ہیں ہوش کس طرح‘
دیکھ کے میری بیخودی، چلنے لگی ہوا کہ یُوں
کب مجھے کوئے یار میں رہنے کی وضع یاد تھی
آئینہ دار بن گئی حیرتِ نقشِ پا کہ یُوں
گر ترے دل میں ہو خیال، وصل میں شوق کا زوال
موجِ محیطِ آب میں مارے ہے دست و پا کہ یُوں
جو یہ کہے کہ ریختہ کیوں کر@ ہو رشکِ فارسی
گفتۂ غالب ایک بار پڑھ کے اُسے سُنا کہ یُوں
@ نسخۂ مہر میں ‘کہ’
مرزا اسد اللہ خان غالب