ٹیگ کے محفوظات: مداوا

کیوں میرے دردِ دل کا مُداوا کرے کوئی

وعدوں کو اپنے کس لیے ایفا کرے کوئی
کیوں میرے دردِ دل کا مُداوا کرے کوئی
کس طرح ان کے جَور کا شِکوہ کرے کوئی
توہینِ عشق کیسے گوارا کرے کوئی
پہلو ہزار عیش کے نکلیں گے رنج میں
یہ شرط ہے کہ رنج گوارا کرے کوئی
اے چشمِ شوق یاد بھی ہے داستانِ طُور
جلووں کا ان سے کیسے تقاضا کرے کوئی
اپنی حدوں سے آج گزرتا ہے ذوقِ دید
اب ہو سکے، شکیبؔ، تو پروا کرے کوئی
شکیب جلالی

میں ایسا چاہتا کب تھا پر ایسا ہو گیا ہے

مرے خواب سے اوجھل اُس کا چہرہ ہو گیا ہے
میں ایسا چاہتا کب تھا پر ایسا ہو گیا ہے
تعلق اب یہاں کم ہے ملاقاتیں زیادہ
ہجومِ شہر میں ہر شخص تنہا ہو گیا ہے
تری تکمیل کی خواہش تو پوری ہو نہ پائی
مگر اک شخص مجھ میں بھی ادھورا ہو گیا ہے
جو باغِ آرزو تھا اب وہی ہے دشتِ وحشت
یہ دل کیا ہونے والا تھا مگر کیا ہو گیا ہے
میں سمجھا تھا سیئے گی آگہی چاکِ جنوں کو
مگر یہ زخم تو پہلے سے گہرا ہو گیا ہے
میں تجھ سے ساتھ بھی تو عمر بھر کا چاہتا تھا
سو اب تجھ سے گلہ بھی عمر بھر کا ہو گیا ہے
ترے آنے سے آیا کون سا ایسا تغیر
فقط ترکِ مراسم کا مداوا ہو گیا ہے
مرا عالم اگر پوچھیں تو اُن سے عرض کرنا
کہ جیسا آپ فرماتے تھے ویسا ہو گیا ہے
میں کیا تھا اور کیا ہوں اور کیا ہونا ہے مجھ کو
مرا ہونا تو جیسے اک تماشا ہو گیا ہے
یقینا ہم نے آپس میں کوئی وعدہ کیا تھا
مگر اس گفتگو کو ایک عرصہ ہو گیا ہے
اگرچہ دسترس میں آ گئی ہے ساری دنیا
مگر دل کی طرف بھی ایک در وا ہو گیا ہے
یہ بے چینی ہمیشہ سے مری فطرت ہے لیکن
بقدرِ عمر اس میں کچھ اضافہ ہو گیا ہے
مجھے ہر صبح یاد آتی ہے بچپن کی وہ آواز
چلو عرفانؔ اٹھ جاؤ سویرا ہو گیا ہے
عرفان ستار

رُوح و بدن کا کوئی مداوا کیے بغیر

مَت جائیے علاجِ تمنّا کیے بغیر
رُوح و بدن کا کوئی مداوا کیے بغیر
حیرت ہے تُو سکون سے ہے اے مِرے طبیب
اپنے مریضِ ہجر کو اچّھا کیے بغیر
میرے خلوصِ عشق کی رفعت پَہ غور کر
دیکھا کِیا میں تجھ کو تمنّا کیے بغیر
یادوں کے اِک ہجوم میں ضامنؔ! وہ چھوڑ کر
تنہائی دے گیا مجھے تنہا کیے بغیر
ضامن جعفری

اور اِدھر عشق کہ یہ بات سَمَجھتا ہی نہیں

حُسن کو جراتِ اِظہارِ تمنّا ہی نہیں
اور اِدھر عشق کہ یہ بات سَمَجھتا ہی نہیں
اُس سے کہنا کہ ذَرا غَور سے دیکھے مُجھ کو
مُجھ کو وہ دُکھ تَو نہیں جِس کا مداوا ہی نہیں
تُم بھی اِظہارِ محبّت کو ہَوَس جانوگے
میں نے حَیرَت ہے اِس انداز سے سوچا ہی نہیں
گُفتُگو کرنے کو اَب اُس سے زباں کون سی ہو
میرا لہجہ مِرے اَلفاظ سَمَجھتا ہی نہیں
مُنتَظِر سَب تھے کہ احسان کریں گے مُجھ پَر
اہلِ ساحِل کو مَگَر میں نے پُکارا ہی نہیں
ناگواری کا ذرا سا بھی جو خَدشہ ہوتا
حالِ دِل آپ سے واللہ میں کہتا ہی نہیں
آنکھ رَکھتا ہُوں ، نَظَر رَکھتا ہُوں ، لیکن ضامنؔ
حاصِلِ حُسنِ نَظَر کوئی تماشا ہی نہیں
ضامن جعفری

اَب ذَوق نہیں ہے کہ تَماشا نہیں ہوتا

اے حُسنِ نَظَر کیوں تِرا چَرچا نہیں ہوتا
اَب ذَوق نہیں ہے کہ تَماشا نہیں ہوتا
تجسیمِ تصوّر کی کرامات تَو دیکھو
عاشق شبِ ہجراں میں بھی تَنہا نہیں ہوتا
کیا تَذکرۂ مہر و وفا بیٹھے ہو لے کر
پہلے کبھی ہوتا تھا اب ایسا نہیں ہوتا
یہ رَشک ہے دُنیا اِسے مانے کہ نہ مانے
رُسوا جِسے کہتے ہیں وہ رُسوا نہیں ہوتا
تُم دَردِ محبّت سے گُذَر لو تَو یقیں آئے
یہ دَرد ہے وہ جس کا مداوا نہیں ہوتا
ضامنؔ! اُنہیں اِصرار ہے جو چاہیں کہیَں ہم
اُور ہم سے سرِ بزم تقاضا نہیں ہوتا
ضامن جعفری

اُداسیوں کا مُداوا نہ کر سکے تو بھی

خیالِ ترکِ تمنا نہ کر سکے تو بھی
اُداسیوں کا مُداوا نہ کر سکے تو بھی
کبھی وہ وقت بھی آئے کہ کوئی لمحۂ عیش
مرے بغیر گوارا نہ کر سکے تو بھی
خدا وہ دن نہ دکھائے تجھے کہ میری طرح
مری وفا پہ بھروسا نہ کر سکے تو بھی
میں اپنا عقدۂ دل تجھ کو سونپ دیتا ہوں
بڑا مزا ہو اگر وا نہ کر سکے تو بھی
تجھے یہ غم کہ مری زندگی کا کیا ہو گا
مجھے یہ ضد کہ مداوا نہ کر سکے تو بھی
نہ کر خیالِ تلافی کہ میرا زخمِ وفا
وہ زخم ہے جسے اچھا نہ کر سکے تو بھی
ناصر کاظمی

اتنا میٹھا ہے کہ کڑوا لاگے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 32
کیا کہیں کیسا وُہ اچّھا لاگے
اتنا میٹھا ہے کہ کڑوا لاگے
جُھوٹ اُس نہج کو پہنچا ہے کہ اَب
حق سرائی بھی تماشا لاگے
ہاتھ شہ رگ پہ بھی رکھتا ہے مدام
وُہ کہ ظاہر میں مسیحا لاگے
دردمیں اَب کے وُہ شدّت اُتری
آنچ بھی جس کا مداوا لاگے
جیسے اپنا ہی چلن ہو ماجدؔ
مکر اس طور سے دیکھا لاگے
ماجد صدیقی

میں ایسا چاہتا کب تھا پر ایسا ہو گیا ہے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 81
مرے خواب سے اوجھل اُس کا چہرہ ہو گیا ہے
میں ایسا چاہتا کب تھا پر ایسا ہو گیا ہے
تعلق اب یہاں کم ہے ملاقاتیں زیادہ
ہجومِ شہر میں ہر شخص تنہا ہو گیا ہے
تری تکمیل کی خواہش تو پوری ہو نہ پائی
مگر اک شخص مجھ میں بھی ادھورا ہو گیا ہے
جو باغِ آرزو تھا اب وہی ہے دشتِ وحشت
یہ دل کیا ہونے والا تھا مگر کیا ہو گیا ہے
میں سمجھا تھا سیئے گی آگہی چاکِ جنوں کو
مگر یہ زخم تو پہلے سے گہرا ہو گیا ہے
میں تجھ سے ساتھ بھی تو عمر بھر کا چاہتا تھا
سو اب تجھ سے گلہ بھی عمر بھر کا ہو گیا ہے
ترے آنے سے آیا کون سا ایسا تغیر
فقط ترکِ مراسم کا مداوا ہو گیا ہے
مرا عالم اگر پوچھیں تو اُن سے عرض کرنا
کہ جیسا آپ فرماتے تھے ویسا ہو گیا ہے
میں کیا تھا اور کیا ہوں اور کیا ہونا ہے مجھ کو
مرا ہونا تو جیسے اک تماشا ہو گیا ہے
یقینا ہم نے آپس میں کوئی وعدہ کیا تھا
مگر اس گفتگو کو ایک عرصہ ہو گیا ہے
اگرچہ دسترس میں آ گئی ہے ساری دنیا
مگر دل کی طرف بھی ایک در وا ہو گیا ہے
یہ بے چینی ہمیشہ سے مری فطرت ہے لیکن
بقدرِ عمر اس میں کچھ اضافہ ہو گیا ہے
مجھے ہر صبح یاد آتی ہے بچپن کی وہ آواز
چلو عرفانؔ اٹھ جاؤ سویرا ہو گیا ہے
عرفان ستار

کہو تم سو دل کا مداوا کریں

دیوان چہارم غزل 1458
تھکے چارہ جوئی سے اب کیا کریں
کہو تم سو دل کا مداوا کریں
گلستاں میں ہم غنچہ ہیں دیر سے
کہاں ہم کو پروا کہ پروا کریں
نہیں چاہتا جی کچھ اب سیر ہیں
ہوس دل کو ہو تو تمنا کریں
بخود جستجو میں نہ اس کی رہے
ہم آپھی ہیں گم کس کو پیدا کریں
غضب ہے یہ انداز رفتار عشق
چلے جائیں جی ہم تماشا کریں
بلا شور ہے سر میں ہم کب تلک
قیامت کا ہنگامہ برپا کریں
کہیں دل کی مرغان گلشن سے کیا
یہ بے حوصلہ ہم کو رسوا کریں
کھپا عشق کا جوش دل میں بھلا
کہ بدنام ہوویں جو سودا کریں
برے حال اس کی گلی میں ہیں میر
جو اٹھ جائیں واں سے تو اچھا کریں
میر تقی میر