ایسے منظر سے خوف آتا ہے
ہر کھلے در سے خوف آتا ہے
جس پہ ممکن نہیں کوئی گردش
ایسے محور سے خوف آتا ہے
آئنے سے ورا، جو ہے موجود
اس کے پیکر سے خوف آتا ہے
صبح تارا ازل کا ہے جھوٹا
اس پیمبر سے خوف آتا ہے
میرے صیاد تجھ کو پنجرے کے
ایک بے پر سے خوف آتا ہے
یہ زمانہ ہے وہ دلیر جسے
مجھ سے لاغر سے خوف آتا ہے
جب ہے تقدیر پر یقیں تو پھر
کیوں مقدر سے خوف آتا ہے
خوف کی انتہا ہے یہ یاؔور
اپنے اندر سے خوف آتا ہے
یاور ماجد