ٹیگ کے محفوظات: محل

جیسے بلقیس سلیماں کے محل میں آئے

یوں ترے حسن کی تصویر غزل میں آئے
جیسے بلقیس سلیماں کے محل میں آئے
جبر سے ایک ہوا ذائقہِ ہجر و وصال
اب کہاں سے وہ مزا صبر کے پھل میں آئے
ہمسفر تھی جہاں فرہاد کے تیشے کی صدا
وہ مقامات بھی کچھ سیرِ جبل میں آئے
یہ بھی آرائشِ ہستی کا تقاضا تھا کہ ہم
حلقہِ فکر سے میدانِ عمل میں آئے
ہر قدم دست و گریباں ہے یہاں خیر سے شر
ہم بھی کس معرکہِ جنگ و جدل میں آئے
زِندگی جن کے تصوّر سے جلا پاتی تھی
ہائے کیا لوگ تھے جو دامِ اجل میں آئے
ناصر کاظمی

مجھے گماں بھی نہ ہو اور تم بدل جانا

احمد فراز ۔ غزل نمبر 13
جو چل سکو تو کوئی ایسی چال چل جانا
مجھے گماں بھی نہ ہو اور تم بدل جانا
یہ شعلگی ہو بدن کی تو کیا کیا جائے
سو لازمی تھا ترے پیرہن کا جل جانا
تمہیں کرو کوئی درماں، یہ وقت آ پہنچا
کہ اب تو چارہ گروں کو بھی ہاتھ مل جانا
ابھی ابھی تو جدائی کی شام آئی تھی
ہمیں عجیب لگا زندگی کا ڈھل جانا
سجی سجائی ہوئی موت زندگی تو نہیں
مورّخوں نے مقابر کو بھی محل جانا
یہ کیا کہ تو بھی اسی ساعتِ زوال میں ہے
کہ جس طرح ہے سبھی سورجوں کو ڈھل جانا
ہر ایک عشق کے بعد اور اس کے عشق کے بعد
فراز اتنا بھی آساں نہ تھا سنبھل جانا
احمد فراز

مجنوں کے دماغ میں خلل تھا

دیوان سوم غزل 1057
میرا ہی مقلد عمل تھا
مجنوں کے دماغ میں خلل تھا
دل ٹوٹ گیا تو خوں نہ نکلا
شیشہ یہ بہت ہی کم بغل تھا
تھیں سب کی نظر میں اس کی بھوویں
افسوس یہ شعر مبتذل تھا
کیا قدر ہے ریختے کی گو میں
اس فن میں نظیرؔی کا بدل تھا
تھا نزع میں دست میر دل پر
شاید غم کا یہی محل تھا
میر تقی میر

اجل کو جانتا ہوں میں ، ازل سے ساتھ ساتھ ہے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 625
دماغِ کائنات کے خلل سے ساتھ ساتھ ہے
اجل کو جانتا ہوں میں ، ازل سے ساتھ ساتھ ہے
فلک ہے مجھ پہ مہرباں کہ ماں کی ہے دعا مجھے
زمیں مرے ہرے بھرے عمل سے ساتھ ساتھ ہے
یہ کس نے وقت کو اسیر کر لیا ہے خواب میں
یہ آج کس طرح گذشتہ کل سے ساتھ ساتھ ہے
قدم قدم پہ کھینچتی ہے مجھ کو رات کی طرف
یہ روشنی جو شاہ کے محل سے ساتھ ساتھ ہے
جو گا رہی ہے کافیاں لہو میں شاہ حسین کی
وہ مادھو لال آگ گنگا جل سے ساتھ ساتھ ہے
کہے، کہاں نظامِ زر تغیرات کا امیں ؟
وہ جدلیات جو جدل جدل سے ساتھ ساتھ ہے
کچھ اس کے ہونے کا سبب بھی ہونا چاہیے کہیں
وہ جو نمودِ علت و علل سے ساتھ ساتھ ہے
جہاں پہ پہلے علم تھا کہ کیا عمل کروں گا میں
یہ حال اُس مقامِ ماحصل سے ساتھ ساتھ ہے
ابھی فلک کی زد میں ہے سری نگر کا راستہ
یہ برف پوش رُت تراڑ کھل سے ساتھ ساتھ ہے
منصور آفاق

پھر اس کے بعد زمانوں کو روند چل چل کے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 580
تُو پہلے لوح پہ لکھا ہوا بدل چل کے
پھر اس کے بعد زمانوں کو روند چل چل کے
اکیلا دیکھ کے تالاب کے کنارے پر
تسلی دینے مجھے آ گیا کنول چل کے
مجھے دکھا نہ دہکتے ہوئے پہر کا جلال
جا اپنی شام کی عبرت سرا میں ڈھل چل کے
صداؤں سے وہ سفینہ پلٹ نہیں سکتا
اِسی جزیرہ وحشت میں ہاتھ مل چل کے
نکال دشتِ تعلق سے اپنی تنہائی
کسی حبیب کے گھر جا، ذرا سنبھل چل کے
وہ سنگ زاد پگھلتا نہیں مگر پھر بھی
اسے سنا کوئی جلتی ہوئی غزل چل کے
طلوعِ حسن کی ساعت پہ تبصرہ کیا ہو
نکل رہا ہے کوئی آسماں کے بل چل کے
مزاجِ خانہء درویش کو خراب نہ کر
چراغ! اپنے حریمِ حرم میں جل چل کے
فسادِ خلقِ خدا پہ امید صبحوں کی
بغاوتوں کی کرن ہیں تماشے ہلچل کے
رکی ہے چرخ کی چرخی کسی خرابی سے
نکال وقت کے پہیے سے اب خلل چل کے
مثالِ تیر لپکتے ہوئے تعاقب میں
ابد میں ہو گیا پیوست خود ازل چل کے
اب اس کے بعد کہانی ترے کرم کی ہے
خود آ گیا ہے یہاں تک تو بے عمل چل کے
ندی کی پیاس بجھا ریت کے سمندر سے
کسی پہاڑ کی چوٹی سے پھر ابل چل کے
سنا ہے کھڑکیاں کھلتی ہیں چاند راتوں میں
کسی کو دیکھ مرے دل، کہیں مچل چل کے
مجھے بھی آتے دنوں کا شعور حاصل ہو
پڑھوں کہیں پہ گذشتہ کا ماحصل چل کے
بس ایک فون کی گھنٹی، بس ایک ڈور کی بیل
کسی کی آگ میں پتھر بدن !پگھل چل کے
عجب ہے حسنِ تناسب کی داستاں منصور
بنا ہے ‘ تاج محل‘ موت کا محل چل کے
منصور آفاق

زندگی ساتھ چل محبت کے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 577
پاس ہیں چار پل محبت کے
زندگی ساتھ چل محبت کے
نت نئے دائرے بناتے ہیں
پانیوں میں کنول محبت کے
کیسے کیسے گلاب کھلتے ہیں
کیا ہیں سندر عمل محبت کے
شاہزادی نکلنے والی ہے
سج چکے ہیں محل محبت کے
جب بھی نروان کے سفر پہ نکل
داغ لے کے نکل محبت کے
یہی خونِ جگرکا حاصل ہے
ہے لبوں پر غزل محبت کے
اب کہانی کو موڑ دے منصور
زاویے کچھ بدل محبت کے
منصور آفاق

نہیں ہے اور کہ میرا نہیں بدل کوئی

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 433
مجھ ایسا غیر پسندیدہ بے محل کوئی
نہیں ہے اور کہ میرا نہیں بدل کوئی
گزار اعمرنہ سنجیدگی کے صحرا میں
ضروری ہے تری محفل میں بیربل کوئی
پھٹی ہوئی کسی چادر سے ڈھانپ دیتے ہیں
تلاش کرتے نہیں مسئلے کا حل کوئی
فنانژاد علاقہ ہے میری مٹی کا
نکال سکتا نہیں خاک سے اجل کوئی
یہ پوچھتا تھا کوئی اور بھی ہے میرے سوا
ملاتھا دشتِ جنوں میں مجھے پنل کوئی
اسی جریدۂ کون و مکاں کی سطروں میں
چھپی ہوئی ہے مرے واسطے غزل کوئی
نجانے کون شہادت سے سرفراز ہوا
کنارِ چشمۂ کوثر بنا محل کوئی
ٹھہر گیا ہے ستم ناک وقت میرے لئے
یا کائنات کی گردش میں ہے خلل کوئی
مری شکست کے اسباب پوچھتے کیا ہو
ہے کھیل ہی کے قواعد گیا بدل کوئی
اجل حیات کا پہلا سرا نہیں منصور
مراجعت کی مسافت کا ہے عمل کوئی
منصور آفاق