ٹیگ کے محفوظات: محشر

اِک نظر اے کاش مڑ کر دیکھتے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 3
ہم تمہیں مہ کے برابر دیکھتے
اِک نظر اے کاش مڑ کر دیکھتے
جھانکتے اِک بار گر تم بام سے
دل میں برپا ہم بھی محشر دیکھتے
ہاں تمہارا لمس گر ہوتا بہم
سرسراتی ہاتھ میں زر دیکھتے
موج جیسے سبزۂ ساحل پہ ہو
تم ہمیں خود پر نچھاور دیکھتے
ماجد صدیقی

مَیں بدن کا ترے کھُلتا ہوا منظر دیکھوں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 28
جب بھی دیکھوں یہ فلک، اَبر ہٹا کر دیکھوں
مَیں بدن کا ترے کھُلتا ہوا منظر دیکھوں
گلشنِ حُسن پہ ہو راج اِسی کا جیسے
ان دنوں مرغِ طلب کو وُہ لگے پر دیکھوں
اوج کے لمس سے پہنچوں بہ سرِ چشمۂ لُطف
پر جو اِیدھر سے اُتر پاؤں تو اُودھر دیکھوں
میری حیرت سے کھلے تُجھ پہ ترا حُسن مگر
آئنوں سا میں جبھی تُجھ کو برابر دیکھوں
لب پہ رقصاں ہے مرے، ہے جو پسِ چشم اُدھر
اِس شرارت میں بپا کتنے ہی محشر دیکھوں
بِین سا سامنے جس کے ترا پیکر گونجے
خواب میں بھی ترے آنگن میں وہ اژدر دیکھوں
شعبدہ ہے، کہ تقاضا یہ تری دید کا ہے
ہر بُنِ مُو میں سمائے ہوئے اخگر دیکھوں
اِک لب و چشم تو کیا اِن کے سوا بھی ماجدؔ
جذبۂ شوق کے کیا کیا نہ کھلے در دیکھوں
ماجد صدیقی

کیوں کر نہ کروں شوخیِ دلبر کی شکایت

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 40
دشمن سے ہے میرے دلِ مضطر کی شکایت
کیوں کر نہ کروں شوخیِ دلبر کی شکایت
دیوانۂ اُلفت ادب آموزِ خرد ہے
سودے میں نہیں زلفِ معنبر کی شکایت
تاخیر نہ کر قتلِ شہیدانِ وفا میں
ہر ایک کو ہے تیزیِ خنجر کی شکایت
تاثیر ہو کیا، ان لب و دنداں کا ہوں بیمار
نے لعل کا شکوہ ہے نہ گوہر کی شکایت
کیوں بوالہوسوں سے دلِ عاشق کا گلہ ہے
غیروں سے بھی کرتا ہے کوئی گھر کی شکایت
اب ظلم سرشتوں کی نگہ سے ہوں مقابل
ہوتی تھی کبھی کاوشِ نشتر کی شکایت
یاں کانٹوں پہ بھی لوٹنے میں چین نہیں ہے
واں غیر سے ہے پھولوں کے بستر کی شکایت
تعلیم بد آموز کو ہم کرتے ہیں ، یعنی
ہے شکرِ وفا، جورِ ستم گر کی شکایت
بے پردہ وہ آئیں گے تو کیسے مجھے ہو گی
اے شیفتہ ہنگامۂ محشر کی شکایت
مصطفٰی خان شیفتہ

ہے گلہ اپنے حالِ ابتر کا

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 12
محو ہوں میں جو اس ستمگر کا
ہے گلہ اپنے حالِ ابتر کا
حال لکھتا ہوں جانِ مضطر کا
رگِ بسمل ہے تار مسطر کا
آنکھ پھرنے سے تیری، مجھ کو ہوا
گردشِ دہر دور ساغر کا
شعلہ رو یار، شعلہ رنگ شراب
کام یاں کیا ہے دامنِ تر کا
شوق کو آج بے قراری ہے
اور وعدہ ہے روزِ محشر کا
نقشِ تسخیرِ غیر کو اس نے
خوں لیا تو مرے کبوتر کا
میری ناکامی سے فلک کو حصول؟
کام ہے یہ اُسی ستم گر کا
اُس نے عاشق لکھا عدو کو لقب
ہائے لکھا مرے مقدر کا
آپ سے لحظہ لحظہ جاتے ہو
شیفتہ ہے خیال کس گھر کا
مصطفٰی خان شیفتہ

مبادا خندۂ دنداں نما ہو صبح محشر کی

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 195
نِکوہِش ہے سزا فریادئِ بیدادِ دِلبر کی
مبادا خندۂ دنداں نما ہو صبح محشر کی
رگِ لیلیٰ کو خاکِ دشتِ مجنوں ریشگی بخشے
اگر بو دے بجائے دانہ دہقاں نوک نشتر کی
پرِ پروانہ شاید بادبانِ کشتئ مے تھا
ہوئی مجلس کی گرمی سے روانی دَورِ ساغر کی
کروں بیدادِ ذوقِ پَر فشانی عرض کیا قدرت
کہ طاقت اُڑ گئی، اڑنے سے پہلے، میرے شہپر کی
کہاں تک روؤں اُس کے خیمے کے پیچھے، قیامت ہے!
مری قسمت میں یا رب کیا نہ تھی دیوار پتھّر کی؟
مرزا اسد اللہ خان غالب

اوروں پہ ہے وہ ظلم کہ مجھ پر نہ ہوا تھا

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 100
تو دوست کسی کا بھی، ستمگر! نہ ہوا تھا
اوروں پہ ہے وہ ظلم کہ مجھ پر نہ ہوا تھا
چھوڑا مہِ نخشب کی طرح دستِ قضا نے
خورشید ہنوز اس کے برابر نہ ہوا تھا
توفیق بہ اندازۂ ہمت ہے ازل سے
آنکھوں میں ہے وہ قطرہ کہ گوہر نہ ہوا تھا
جب تک کہ نہ دیکھا تھا قدِ یار کا عالم
میں معتقدِ فتنۂ محشر نہ ہوا تھا
میں سادہ دل، آزردگیِ یار سے خوش ہوں
یعنی سبقِ شوقِ مکرّر نہ ہوا تھا
دریائے معاصیُتنک آبی سے ہوا خشک
میرا سرِ دامن بھی ابھی تر نہ ہوا تھا
جاری تھی اسدؔ! داغِ جگر سے مری تحصیل
آ تشکدہ جاگیرِ سَمَندر نہ ہوا تھا
مرزا اسد اللہ خان غالب

سر بھی اس کا کھپ گیا آخر کو یاں افسر سمیت

دیوان دوم غزل 785
ہے زباں زد جو سکندر ہو چکا لشکر سمیت
سر بھی اس کا کھپ گیا آخر کو یاں افسر سمیت
چشمے آب شور کے نکلا کریں گے واں جہاں
رکھیں گے مجھ تلخ کام غم کو چشم تر سمیت
ہم اٹھے روتے تو لی گردوں نے پھر راہ گریز
بیٹھ جاوے گا یہ ماتم خانہ بام و در سمیت
مستی میں شرم گنہ سے میں جو رویا ڈاڑھ مار
گر پڑا بے خود ہو واعظ جمعہ کو منبر سمیت
بعث اپنا خاک سے ہو گا گر اس شورش کے ساتھ
عرش کو سر پر اٹھالیوں گے ہم محشر سمیت
کب تلک یوں لوہو پیتے ہاتھ اٹھا کر جان سے
وہ کمر کولی میں بھرلی ہم نے کل خنجر سمیت
گنج قاروں کا سا یاں کس کے کنے تھا سو تو میر
خاک میں ملتا ہے اب تک اپنے مال و زر سمیت
میر تقی میر

یہاں ہر قدم پر ہے ٹھوکر سنبھل جا

مجید امجد ۔ غزل نمبر 33
یہ دنیا ہے اے قلبِ مضطر سنبھل جا
یہاں ہر قدم پر ہے ٹھوکر سنبھل جا
بڑے شوق سے پی، مگر پی کے مت گر
ہتھیلی پہ ہے تیری ساغر سنبھل جا
جہاں حق کی قسمت ہے سولی کا تختہ
یہاں جھوٹ ہے زیبِ منبر سنبھل جا
قیامت کہاں کی، جزا کیا، سزا کیا
ہے ہرسانس اک تازہ محشر سنبھل جا
وہ طوفاں نے پُرخوف جبڑوں کو کھولا
وہ بدلے ہواؤں کے تیور سنبھل جا
نہیں اس خرابات میں اذنِ لغزش
یہ دنیا ہے اے قلبِ مضطر سنبھل جا
مجید امجد

آوارگی کی شام مجھے گھر نے آ لیا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 118
ٹوٹے ہوئے کواڑ کے منظر نے آ لیا
آوارگی کی شام مجھے گھر نے آ لیا
میں جا رہا تھا زخم کا تحفہ لیے بغیر
پھر یوں ہوا کہ راہ کے پتھر نے آ لیا
میں سن رہا ہوں اپنے ہی اندر کی سسکیاں
کیا پھر کسی عمل کے مجھے ڈرنے آ لیا
گزرا کہیں سے اور یہ آنکھیں چھلک پڑیں
یادش بخیر ! یادِ ستم گر نے آ لیا
وہ جس جگہ پہ اُس سے ملاقات ہونی تھی
پہنچا وہاں تو داورِ محشر نے آ لیا
منصور چل رہا تھا ابھی کہکشاں کے پاس
یہ کیا ہوا کہ پاؤں کی ٹھوکر نے آ لیا
منصور آفاق

ہوتا تھا آسماں کا کوئی در بنا ہوا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 61
اِس جا نمازِ خاک کے اوپر بنا ہوا
ہوتا تھا آسماں کا کوئی در بنا ہوا
دیوار بڑھ رہی ہے مسلسل مری طرف
اور ہے وبالِ دوش مرا سر بنا ہوا
آگے نہ جا کہ دل کا بھروسہ نہیں کوئی
اس وقت بھی ہے غم کا سمندر بنا ہوا
اک زخم نوچتا ہوا بگلا کنارِ آب
تمثیل میں تھا میرا مقدر بنا ہوا
ممکن ہے کوئی جنتِ فرضی کہیں پہ ہو
دیکھا نہیں ہے شہر ہوا پر بنا ہوا
گربہ صفت گلی میں کسی گھونسلے کے بیچ
میں رہ رہا ہوں کوئی کبوتر بنا ہوا
ہر لمحہ ہو رہا ہے کوئی اجنبی نزول
لگتا ہے آسماں کا ہوں دلبر بنا ہوا
پردوں پہ جھولتے ہوئے سُر ہیں گٹار کے
کمرے میں ہے میڈونا کا بستر بنا ہوا
یادوں کے سبز لان میں پھولوں کے اس طرف
اب بھی ہے آبشار کا منظر بنا ہوا
ٹینس کا کھیل اور وہ بھیگی ہوئی شعاع
تھا انگ انگ کورٹ کا محشر بنا ہوا
منصور آفاق

تیور نہیں آتے ہیں کہ چکر نہیں آتا

امیر مینائی ۔ غزل نمبر 1
پرسش کو مری کون مرے گھر نہیں آتا
تیور نہیں آتے ہیں کہ چکر نہیں آتا
تم لاکھ قسم کھاتے ہو ملنے کی عدو سے
ایمان سے کہو دوں مجھے بارو نہیں آتا
ڈرتا ہے کہیں آپ نہ پڑ جائے بلا میں
کوچے میں ترے فتنہ محشر نہیں آتا
جو مجھ پر گزرتی ہے کبھی دیکھ لے ظالم
پھر دیکھوں کے رونا تجھے کیونکر نہیں آتا
کہتے ہیں یہ اچھی ہے تڑپ دل کی تمھارے
سینے سے ٹرپ کر کبھی باہر نہیں آتا
دشمن کو کبھی ہوتی ہے دل پہ مرے رقت
پر دل یہ ترا ہے کہ کبھی بھر نہیں آتا
کب آنکھ اٹھاتا ہوں کہ آتے نہیں تیور
کب یہ بیٹھ کے اٹھتا ہوں کہ چکر نہیں آتا
غربت کدۂ دہر میں صدمے سے ہیں صدمے
اس پر بھی کبھی یاد ہمیں گہر نہیں آتا
ہم جس کی ہوس میں ہیں امیر آپ سے باہر
وہ پردہ نشین گھر سے باہر نہیں آتا
امیر مینائی