ٹیگ کے محفوظات: محرم

تم سر بسر خوشی تھے مگر غم ملے تمہیں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 128
شرمندگی ہے ہم کو بہت ہم ملے تمہیں
تم سر بسر خوشی تھے مگر غم ملے تمہیں
میں اپنے آپ میں نہ ملا اس کا غم نہیں
غم تو یہ ہے کہ تم بھی بہت کم ملے تمہیں
ہے جو ہمارا ایک حساب اُس حساب سے
آتی ہے ہم کو شرم کہ پیہم ملے تمہیں
تم کو جہانِ شوق و تمنا میں کیا ملا
ہم بھی ملے تو درہم و برہم ملے تمہیں
اب اپنے طور ہی میں نہیں سو کاش کہ
خود میں خود اپنا طور کوئی دم ملے تمہیں
اس شہرِ حیلہ جُو میں جو محرم ملے مجھے
فریادِ جانِ جاں وہی محرم ملے تمہیں
دیتا ہوں تم کو خشکیِ مژ گاں کی میں دعا
مطلب یہ ہے کہ دامنِ پرنم ملے تمہیں
میں اُن میں آج تک کبھی پایا نہیں گیا
جاناں ! جو میرے شوق کے عالم ملے تمہیں
تم نے ہمارے دل میں بہت دن سفر کیا
شرمندہ ہیں کہ اُس میں بہت خم ملے تمہیں
یوں ہو کہ اور ہی کوئی حوا ملے مجھے
ہو یوں کہ اور ہی کوئی آدم ملے تمہیں
جون ایلیا

تم ہوئے رعنا جواں بالفرض لیکن ہم کہاں

دیوان ششم غزل 1855
دم ہے مہلت شیب میں جانے کا اپنے غم کہاں
تم ہوئے رعنا جواں بالفرض لیکن ہم کہاں
عالم عالم جمع تھے خوباں جہاں صافا ہوا
گرچہ عالم اور ہے اب واں پہ وہ عالم کہاں
تھی بلا شوخی شرارت یار کی ہنگامہ ساز
شور یوں تو اوروں کا بھی ہے پہ وہ اودھم کہاں
کیا جنوں ہے تم کو جو تم طالب ویرانہ ہو
جس کو فردوس بریں کہتے ہیں واں آدم کہاں
حبس دم میں شیخ جو کرتا نہیں حرف و سخن
حق طرف ہے اس کے اس بیہودہ گو میں دم کہاں
ہو سو ہو میں میر اب تو دم بخود ہوں ہجر میں
کیا لکھوں تہ دل کی باتیں کاغذ و محرم کہاں
میر تقی میر

اس طور اس طرح کے ایسے کم آشنا ہیں

دیوان ششم غزل 1854
ناآشنا کے اپنے جیسے ہم آشنا ہیں
اس طور اس طرح کے ایسے کم آشنا ہیں
باہم جو یاریاں ہیں اور آشنائیاں ہیں
سب ہیں نظر میں اپنی ہم عالم آشنا ہیں
ماتم کدہ ہے تکیہ کیا تازہ کچھ ہمارا
یک جا فقیر کب سے ہم سب غم آشنا ہیں
تحریر راز دل کی مشکل ہے کیونکے کریے
کاغذ قلم ہمارے کب محرم آشنا ہیں
یاری جہانیوں کی کیا میر معتبر ہے
ناآشنا ہیں یک دم یہ اک دم آشنا ہیں
میر تقی میر

کون ایسے محروم غمیں کا ہم راز و محرم ہے اب

دیوان پنجم غزل 1581
دل کے گئے بیکس کہلائے ایسا کہاں ہمدم ہے اب
کون ایسے محروم غمیں کا ہم راز و محرم ہے اب
سینہ زنی سے غم زدگی ہے سر دھننا ہے رونا ہے
دل جو ہمارا خون ہوا ہے اس سے بلا ماتم ہے اب
سن کر حال کسو کے دل کا رونا ہی مجھ کو آتا تھا
یعنی کبھو جو کڑھتا تھا میں وہ رونا ہر دم ہے اب
زردی چہرہ تن کی نزاری بیماری پھر چاہت ہے
دل میں غم ہے مژگاں نم ہیں حال بہت درہم ہے اب
دیکھیں دن کٹتے ہیں کیونکر راتیں کیونکے گذرتی ہیں
بیتابی ہے زیادہ زیادہ صبر بہت کم کم ہے اب
عشق ہمارا آہ نہ پوچھو کیا کیا رنگ بدلتا ہے
خون ہوا دل داغ ہوا پھر درد ہوا پھر غم ہے اب
ملنے والو پھر ملیے گا ہے وہ عالم دیگر میں
میر فقیر کو سکر ہے یعنی مستی کا عالم ہے اب
میر تقی میر

آٹھ پہر رہتا ہے رونا اس کی دوری کے غم کا

دیوان پنجم غزل 1571
کچھ اندیشہ ہم کو نہیں ہے اپنے حال درہم کا
آٹھ پہر رہتا ہے رونا اس کی دوری کے غم کا
روتے کڑھتے خاک میں ملتے جیتے رہے ہم دنیا میں
دس دن اپنی عمر کے گویا عشرہ تھا یہ محرم کا
کشتی ہماری عشق میں کیا تھی ہاتھ ملاتے پاک ہوئی
پاے ثبات نہ ٹھہرا دم بھر اس میدان میں رستم کا
عالم نیستی کیا عالم تھا غم دنیا و دیں کا نہ تھا
ہوش آیا ہے جب سے سر میں شوق رہا اس عالم کا
یاں واجب ہے ہم کو تم کو دم لیویں تو شمردہ لیں
دینا ہو گا حساب کسو کو یک دم ہی میں دم دم کا
چھاتی کوٹی منھ نوچا سر دے دے مارا پتھر پر
دل کے خوں ہونے میں ہمارا یہی طریق ہے ماتم کا
لڑکے شوخ بہت ہیں لیکن ویسا میر نہیں کوئی
دھوم قیامت کی سی ہے ہنگامہ اس کے اودھم کا
میر تقی میر

ہم نے کھینچی کمان رستم بھی

دیوان چہارم غزل 1491
زورکش ہیں گے عشق کے ہم بھی
ہم نے کھینچی کمان رستم بھی
ہے بلا دھوم دل تڑپنے کی
ایسا ہوتا نہیں ہے اودھم بھی
کچھ نہیں اور دیکھیں ہیں کیا کیا
خواب کا سا ہے یاں کا عالم بھی
حیف دل جاتے پڑ گئی جی کی
ورنہ غم کرتے لیتے ماتم بھی
حرم کعبہ کا نہ پایا بھید
نہ ملا واں کا ایک محرم بھی
خشک نے سا تھا شیخ حیف موا
یوں تو یار اس کو دیتے تھے دم بھی
کھپ ہی جاتا ہے آدمی اے میر
آفت جاں ہے عشق کا غم بھی
میر تقی میر

ناز و غرور بہت ہے اس کا لطف نہیں ہے کم کم بھی

دیوان چہارم غزل 1487
میں تو تنک صبری سے اپنی رہ نہیں سکتا اک دم بھی
ناز و غرور بہت ہے اس کا لطف نہیں ہے کم کم بھی
جامۂ احرام آخر تہ کر دل کی اور توجہ کی
در پہ حرم کے اس لیے تھے ہم کوئی ملے گا محرم بھی
دیکھ ہوا کو طائر گلشن کس حسرت سے کہتے تھے
گل ہی چلے جاتے نہیں یاں سے چلنے کو بیٹھے ہیں ہم بھی
کیا کیا میں بیتاب رہا ہوں رنج و الم سے محبت کے
ہے عالم کچھ اور ہی میرے دل کے مرض کا عالم بھی
پنبہ و داغ کیا ہے کیا کیا اچھے ہونے والے نہ تھے
زخموں پر چھاتی کے میری رکھ دیکھو نہ مرہم بھی
گرم ہوا ہے ہو گا جوہر سیر چمن کی کر لیجے
پھول بکھرتے جاتے ہیں کچھ آخر ہے اب موسم بھی
نعل جڑے سینے کو کوٹا چہرے نچے پر خاک ملی
میر کیا ہے میں نے نہایت دل جانے کا ماتم بھی
میر تقی میر

چھیڑ رکھی ہے تم نے کیا ہم سے

دیوان اول غزل 582
ہنستے ہو روتے دیکھ کر غم سے
چھیڑ رکھی ہے تم نے کیا ہم سے
مند گئی آنکھ ہے اندھیرا پاک
روشنی ہے سو یاں مرے دم سے
تم جو دلخواہ خلق ہو ہم کو
دشمنی ہے تمام عالم سے
درہمی آگئی مزاجوں میں
آخر ان گیسوان درہم سے
سب نے جانا کہیں یہ عاشق ہے
بہ گئے اشک دیدئہ نم سے
مفت یوں ہاتھ سے نہ کھو ہم کو
کہیں پیدا بھی ہوتے ہیں ہم سے
اکثر آلات جور اس سے ہوئے
آفتیں آئیں اس کے مقدم سے
دیکھ وے پلکیں برچھیاں چلیاں
تیغ نکلی اس ابروے خم سے
کوئی بیگانہ گر نہیں موجود
منھ چھپانا یہ کیا ہے پھر ہم سے
وجہ پردے کی پوچھیے بارے
ملیے اس کے کسو جو محرم سے
درپئے خون میر ہی نہ رہو
ہو بھی جاتا ہے جرم آدم سے
میر تقی میر

پر نہ اتنا بھی کہ ڈوبے شہر کم کم رویئے

دیوان اول غزل 503
خوب ہے اے ابر اک شب آئو باہم رویئے
پر نہ اتنا بھی کہ ڈوبے شہر کم کم رویئے
وقت خوش دیکھا نہ اک دم سے زیادہ دہر میں
خندئہ صبح چمن پر مثل شبنم رویئے
شادی و غم میں جہاں کی ایک سے دس کا ہے فرق
عید کے دن ہنسیے تو دس دن محرم رویئے
دیکھا ماتم خانۂ عالم کو ہم مانند ابر
ہرجگہ پر جی میں یوں آیا دمادم رویئے
ہو جدا فردوس سے یعنی گلی سے یار کی
مدتوں تک کیجیے غم مثل آدم رویئے
اب سے یوں کریے مقرر اٹھیے جب کہسار سے
وادی مجنوں پہ بھی اے ابر اک دم رویئے
عشق میں تقریب گریہ گو نہیں درکار میر
ایک مدت صبر ہی کا رکھیے ماتم رویئے
میر تقی میر

کسو سے کام نہیں رکھتی جنس آدم کی

دیوان اول غزل 468
بغیر دل کہ یہ قیمت ہے سارے عالم کی
کسو سے کام نہیں رکھتی جنس آدم کی
کوئی ہو محرم شوخی ترا تو میں پوچھوں
کہ بزم عیش جہاں کیا سمجھ کے برہم کی
ہمیں تو باغ کی تکلیف سے معاف رکھو
کہ سیر و گشت نہیں رسم اہل ماتم کی
تنک تو لطف سے کچھ کہہ کہ جاں بلب ہوں میں
رہی ہے بات مری جان اب کوئی دم کی
گذرنے کو تو کج و واکج اپنی گذرے ہے
جفا جو ان نے بہت کی تو کچھ وفا کم کی
گھرے ہیں درد و الم میں فراق کے ایسے
کہ صبح عید بھی یاں شام ہے محرم کی
قفس میں میر نہیں جوش داغ سینے پر
ہوس نکالی ہے ہم نے بھی گل کے موسم کی
میر تقی میر

اس زمانے میں گئی ہے برکت غم سے بھی

دیوان اول غزل 431
دل کو تسکین نہیں اشک دمادم سے بھی
اس زمانے میں گئی ہے برکت غم سے بھی
ہم نشیں کیا کہوں اس رشک مہ تاباں بن
صبح عید اپنی ہے بدتر شب ماتم سے بھی
کاش اے جان المناک نکل جاوے تو
اب تو دیکھا نہیں جاتا یہ ستم ہم سے بھی
آخرکار محبت میں نہ نکلا کچھ کام
سینہ چاک و دل پژمردہ مژہ نم سے بھی
آہ ہر غیر سے تاچند کہوں جی کی بات
عشق کا راز تو کہتے نہیں محرم سے بھی
دوری کوچہ میں اے غیرت فردوس تری
کام گذرا ہے مرا گریۂ آدم سے بھی
ہمت اپنی ہی تھی یہ میر کہ جوں مرغ خیال
اک پرافشانی میں گذرے سرعالم سے بھی
میر تقی میر

گوش گل سے لگتے تھے جاکے سو وہ موسم نہیں

دیوان اول غزل 364
نالۂ قید قفس سے چھوٹ اب اک دم نہیں
گوش گل سے لگتے تھے جاکے سو وہ موسم نہیں
ہم پہ کھینچی تیغ تو غیروں کو ٹک لگنے نہ دے
وے اگر ہوویں گے اس کے درمیاں تو ہم نہیں
بت برہمن کوئی نامحرم نہیں اللہ کا
ہے حرم میں شیخ لیکن میر وہ محرم نہیں
میر تقی میر

افلاک پہ بھی شامِ محرم ہے عجب ہے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 608
قاتل بھی شریکِ صفِ ماتم ہے عجب ہے
افلاک پہ بھی شامِ محرم ہے عجب ہے
بہتے ہیں کئی طرح کے افسوس نظر سے
یہ آنکھ بھی دریاؤں کا سنگم ہے عجب ہے
پھولوں کے مراسم ہیں کہیں آتشیں لب سے
شعلوں کی مصاحب کہیں شبنم ہے عجب ہے
کل تک وہی شداد تھا نمرود تھا لیکن
اب وہی مسیحاوہی گوتم ہے عجب ہے
منظر ہے وہی لوگ مگر اور کوئی ہیں
دیکھو وہی دریا وہی شیشم ہے عجب ہے
وہ جس نے نکالا تھا بہشت آباد سے ہم کو
خوابوں میں وہی دانہ ء گندم ہے عجب ہے
ہم ڈھونڈتے نکلے تھے جسے عرشِ بریں پر
گلیوں میں وہی حسنِ مجسم ہے عجب ہے
منصور مجھے چھوڑا ہے اک شخص نے لیکن
ہر آنکھ میں انکار کا موسم ہے عجب ہے
منصور آفاق

گزرتے ہی نہیں جاں سے محرم مانگنے والے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 557
ذرا سا زخم آئے تو یہ مرہم مانگنے والے
گزرتے ہی نہیں جاں سے محرم مانگنے والے
بناتے پھرتے ہیں کیسے تعلق قیس سے اپنا
بدن کے واسطے کمخواب و ریشم مانگنے والے
سب اُس بازار کے دلال ہیں رشتوں زمینوں تک
یہ استعمال کی چیزوں پہ کسٹم مانگنے والے
بھلا کیسے یہ ہوسکتے ہیں خادم کعبہ اللہ کے
یہ حج کو بیچنے والے یہ درہم مانگنے والے
کبھی منصور جا کر پوچھتے احوال کانٹوں کا
گلستان کیلئے پھولوں کا موسم مانگنے والے
منصور آفاق

اچھی لگتی ہے ندی دیدہ ء پرنم کی یونہی

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 495
بانسری بانس کے جنگل سے سنوں غم کی یونہی
اچھی لگتی ہے ندی دیدہ ء پرنم کی یونہی
کوئی امکان بظاہر تو بچھڑنے کا نہیں
یاد آئی ہے مجھے ہجر کے موسم کی یونہی
دشت کی دھوپ کوئی چیز نہیں میرے غزال
گفتگو تجھ سے ہوئی سایہ ء شیشم کی یونہی
میں نے جانا نہیں برفاب تہوں میں اس کی
بات سنتا ہوں میں بہتے ہوئے جہلم کی یونہی
برف گرتی ہے تو آتی ہے نظر خوابوں میں
اک پری زاد مجھے وادی ء نیلم کی یونہی
صبر کرتا رہا قربان حسین ابن علی
ظلم کہتا رہا حرمت ہے محرم کی یونہی
مجھ کو معلوم نہیں کون کہاں روتا ہے
بات کی سبزہ پہ بکھری ہوئی شبنم کی یونہی
اک موبائل سے بنا لینے دو تصویر مجھے
پہنے رکھو ذرا پوشاک یہ ریشم کی یونہی
ذکر ہوتا رہے لیلائے وطن کا منصور
آگ جلتی رہے بس نوحۂ ماتم کی یونہی
منصور آفاق

پھر کربلا میں شامِ محرم گزار خیر

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 178
جاری ہے پھر حسین کا ماتم گزار خیر
پھر کربلا میں شامِ محرم گزار خیر
پھٹ ہی نہ جائے کوئی یہاں بم گزار خیر
اک چھت تلے ہے فیملی باہم گزار خیر
خودکش دھماکے ہونے لگے ہیں گلی گلی
برپا جگہ جگہ پہ ہے ماتم گزار خیر
پھرتی ہے موت ظلم کے گرد و غبار میں
آیا ہے خاک و خون کا موسم گزار خیر
میرے وطن میں آگ لگی ہے اک ایک کوس
وہ سرنگوں ہے دین کا پرچم گزار خیر
منصور پہ کرم ہو خصوصی خدائے پاک
لگتی نہیں گزرتی شبِ غم گزار خیر
منصور آفاق