ٹیگ کے محفوظات: محراب

چشمِ صدف سے گوہرِ نایاب لے گیا

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 31
آنکھوں سے میری، کون مرے خواب لے گیا
چشمِ صدف سے گوہرِ نایاب لے گیا
اِس شہرِ خوش جمال کو کِس کی لگی ہے آہ
کِس دل زدہ کا گریہ خونناب لے گیا
کُچھ نا خدا کے فیض سے ساحل بھی دُور تھا
کُچھ قسمتوں کے پھیر میں گرداب لے گیا
واں شہر ڈُوبتے ہیں ، یہاں بحث کہ اُنہیں
خُم لے گیا ہے یا خمِ محراب لے گیا
کچھ کھوئی کھوئی آنکھیں بھی موجوں کے ساتھ تھیں
شاید اُنہیں بہا کے کوئی خواب لے گیا
طوفان اَبر و باد میں سب گیت کھو گئے
جھونکا ہَوا کا ہاتھ سے مِضراب لے گیا
غیروں کی دشمنی نے نہ مارا،مگر ہمیں
اپنوں کے التفات کا زہر اب لے گیا
اے آنکھ!اب تو خواب کی دُنیا سے لوٹ آ
’’مژگاں تو کھول!شہر کو سیلاب لے گیا!
پروین شاکر

چہرہ تمام زرد زر ناب سا ہوا

دیوان دوم غزل 680
دل فرط اضطراب سے سیماب سا ہوا
چہرہ تمام زرد زر ناب سا ہوا
شاید جگر گداختہ یک لخت ہو گیا
کچھ آب دیدہ رات سے خوناب سا ہوا
وے دن گئے کہ اشک سے چھڑکائو سا کیا
اب رونے لگ گئے ہیں تو تالاب سا ہوا
اک دن کیا تھا یار نے قد ناز سے بلند
خجلت سے سرو جوے چمن آب سا ہوا
کیا اور کوئی روئے کہ اب جوش اشک سے
حلقہ ہماری چشم کا گرداب سا ہوا
قصہ تو مختصر تھا ولے طول کو کھنچا
ایجاز دل کے شوق سے اطناب سا ہوا
عمامہ ہے موذن مسجد کہ بارخر
قد تو ترا خمیدہ ہو محراب سا ہوا
بات اب تو سن کہ جاے سخن حسن میں ہوئی
خط پشت لب کا سبزئہ سیراب سا ہوا
چل باغ میں بھی سوتے سے اٹھ کر کبھو کہ گل
تک تک کے راہ دیدئہ بے خواب سا ہوا
سمجھے تھے ہم تو میر کو عاشق اسی گھڑی
جب سن کے تیرا نام وہ بیتاب سا ہوا
میر تقی میر

ٹپکا کرے ہے آنکھوں سے خونناب روز و شب

دیوان اول غزل 175
اب وہ نہیں کہ آنکھیں تھیں پرآب روز و شب
ٹپکا کرے ہے آنکھوں سے خونناب روز و شب
اک وقت رونے کا تھا ہمیں بھی خیال سا
آئی تھی آنکھوں سے چلی سیلاب روز و شب
اس کے لیے نہ پھرتے تھے ہم خاک چھانتے
رہتا تھا پاس وہ در نایاب روز و شب
قدرت تو دیکھ عشق کی مجھ سے ضعیف کو
رکھتا ہے شاد بے خور و بے خواب روز و شب
سجدہ اس آستاں کا نہیں یوں ہوا نصیب
رگڑا ہے سر میانۂ محراب روز و شب
اب رسم ربط اٹھ ہی گئی ورنہ پیش ازیں
بیٹھے ہی رہتے تھے بہم احباب روز و شب
دل کس کے رو و مو سے لگایا ہے میر نے
پاتے ہیں اس جوان کو بیتاب روز و شب
میر تقی میر

برقع سے گر نکلا کہیں چہرہ ترا مہتاب سا

دیوان اول غزل 20
گل شرم سے بہ جائے گا گلشن میں ہوکر آب سا
برقع سے گر نکلا کہیں چہرہ ترا مہتاب سا
گل برگ کا یہ رنگ ہے مرجاں کا ایسا ڈھنگ ہے
دیکھو نہ جھمکے ہے پڑا وہ ہونٹ لعل ناب سا
وہ مایۂ جاں تو کہیں پیدا نہیں جوں کیمیا
میں شوق کی افراط سے بیتاب ہوں سیماب سا
دل تاب ہی لایا نہ ٹک تا یاد رہتا ہم نشیں
اب عیش روز وصل کا ہے جی میں بھولا خواب سا
سناہٹے میں جان کے ہوش و حواس و دم نہ تھا
اسباب سارا لے گیا آیا تھا اک سیلاب سا
ہم سرکشی سے مدتوں مسجد سے بچ بچ کر چلے
اب سجدے ہی میں گذرے ہے قد جو ہوا محراب سا
تھی عشق کی وہ ابتدا جو موج سی اٹھی کبھو
اب دیدئہ تر کو جو تم دیکھو تو ہے گرداب سا
بہکے جو ہم مست آگئے سو بار مسجد سے اٹھا
واعظ کو مارے خوف کے کل لگ گیا جلاب سا
رکھ ہاتھ دل پر میر کے دریافت کر کیا حال ہے
رہتا ہے اکثر یہ جواں کچھ ان دنوں بیتاب سا
میر تقی میر

کہ نیند شرط نہیں خواب دیکھنے کے لیے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 353
اٹھو یہ منظرِ شب تاب دیکھنے کے لیے
کہ نیند شرط نہیں خواب دیکھنے کے لیے
عجب حریف تھا میرے ہی ساتھ ڈوب گیا
مرے سفینے کو غرقاب دیکھنے کے لیے
وہ مرحلہ ہے کہ اب سیلِ خوں پہ راضی ہیں
ہم اس زمین کو شاداب دیکھنے کے لیے
جو ہو سکے تو ذرا شہ سوار لوٹ کے آئیں
پیادگاں کو ظفریاب دیکھنے کے لیے
کہاں ہے تو کہ یہاں جل رہے ہیں صدیوں سے
چراغ‘ دیدہ و محراب دیکھنے کے لیے
عرفان صدیقی

چاند ہے تُو رات کے اسباب سے باہر نہ آ

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 17
پانیوں میں رقص کر، تالاب سے باہر نہ آ
چاند ہے تُو رات کے اسباب سے باہر نہ آ
سرسراتے سانپ ہیں گہری سنہری گھاس میں
جنگلوں میں پابرہنہ خواب سے باہر نہ آ
ہجر کے تاریک منظر میں یہی امکان گاہ
چاندنی سے قریہ ء مہتاب سے باہر نہ آ
اک وہی رہنے دے اپنی آنکھ میں تصویر بس
ساعتِ بھرپور سے شاداب سے باہر نہ آ
آگ دوزخ کی ہے سورج کی نگاہِ ناز میں
اور کچھ دن حجلہ ء برفاب سے باہر نہ آ
لاکھ دے دشنام شیخِ بدنسب کے کام کو
زندگی تُو ، منبر و محراب سے باہر نہ آ
ذات کی پاتال میں ہو گی بلندی عرش کی
ڈوب جا منصور کے گرداب سے باہر نہ آ
منصور آفاق