ٹیگ کے محفوظات: ماہ

آنا تو خوب ہے ترا پر گاہ گاہ کا

ہر دم نہیں دماغ ہمیں تیری چاہ کا
آنا تو خوب ہے ترا پر گاہ گاہ کا
تو اور آئنے میں ترا عکس رُوبرُو
نظّارہ ایک وقت میں خورشید و ماہ کا
ہے خانۂ خدا بھی وہاں بت کدے کی شکل
غلبہ ہو جس زمیں پہ کسی بادشاہ کا
گو شرع و دین سب کے لیے ایک ہیں مگر
ہر شخص کا الگ ہے تصور گناہ کا
اِک گوشۂ بِساط سے پورس نے دی صدا
میں ہو گیا شکار خود اپنی سپاہ کا
باصرؔ توعہد شِکنی کا موقع نہ دے اُسے
ویسے بھی کم ہے اُس کا ارادہ نباہ کا
باصر کاظمی

تری جُدائی کا منظر ابھی نگاہ میں ہے

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 123
دُعا کا ٹوٹا ہُوا حرف، سرد آہ میں ہے
تری جُدائی کا منظر ابھی نگاہ میں ہے
ترے بدلنے کے با وصف تجھ کو چاہا ہے
یہ اعتراف بھی شامل مرے گناہ میں ہے
اب دے گا تو پھر مجھ کو خواب بھی دے گا
میں مطمئن ہوں ،مرا دل تری پناہ میں ہے
بکھر چُکا ہے مگر مُسکراکے ملتا ہے
وہ رکھ رکھاؤ ابھی میرے کج کلاہ میں ہے
جسے بہار کے مہمان خالی چھوڑ گئے
وہ اِک مکا ن ابھی تک مکیں کی چاہ میں ہے
یہی وہ دن تھے جب اِ ک دوسرے کو پایا تھا
ہماری سالگرہ ٹھیک اب کے ماہ میں ہے
میں بچ بھی جاؤں تو تنہائی مار ڈالے گی
مرے قبیلے کا ہر فرد قتل گاہ میں ہے!
پروین شاکر

مجھ کو بھی پوچھتے رہو تو کیا گناہ ہو

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 144
تم جانو، تم کو غیر سے جو رسم و راہ ہو
مجھ کو بھی پوچھتے رہو تو کیا گناہ ہو
بچتے نہیں مواخذۂ روزِ حشر سے
قاتل اگر رقیب ہے تو تم گواہ ہو
کیا وہ بھی بے گنہ کش و حق نا شناس@ ہیں
مانا کہ تم بشر نہیں خورشید و ماہ ہو
ابھرا ہوا نقاب میں ہے ان کے ایک تار
مرتا ہوں میں کہ یہ نہ کسی کی نگاہ ہو
جب مے کدہ چھٹا تو پھر اب کیا جگہ کی قید
مسجد ہو، مدرسہ ہو، کوئی خانقاہ ہو
سنتے ہیں جو بہشت کی تعریف، سب درست
لیکن خدا کرے وہ ترا جلوہ گاہ ہو
غالب بھی گر نہ ہو تو کچھ ایسا ضرر نہیں
دنیا ہو یا رب اور مرا بادشاہ ہو
@حق ناسپاس نسخۂ نظامی میں ہےٍ، حق نا شناس۔ حسرت، مہراور عرشی میں۔ ’ناسپاس‘ کتابت کی غلطی بھی ممکن ہے۔
مرزا اسد اللہ خان غالب

صوفی ہوا کو دیکھ کے کاش آوے راہ پر

دیوان ششم غزل 1825
آیا ہے ابر قبلہ چلا خانقاہ پر
صوفی ہوا کو دیکھ کے کاش آوے راہ پر
وہ آنکھ اٹھا کے شرم سے کب دیکھے ہے ولے
ہوتے ہیں خون نیچی بھی اس کی نگاہ پر
بالفرض چاہتا ہے گنہ لیک میری جاں
واجب ہے خون کرنا کہاں اس گناہ پر
کیا بحث میرے وقر سے میں ہوں فقیر محض
ہے اس گلی میں حرف و سخن عزشاہ پر
تہ سے سخن کے لوگ نہ تھے آشنا عبث
جاگہ سے تم گئے انھوں کی واہ واہ پر
ڈر چشم شور چرخ سے گل پھول یک طرف
آنکھ اس دنی کی دوڑے ہے اک برگ کاہ پر
دیکھی ہے جن نے یار کے رخسار کی جھمک
اس کی نظر گئی نہ شب مہ میں ماہ پر
ہم جاں بہ لب پتنگوں کی سدھ لیجیو شتاب
موقوف اپنا جانا ہے اب ایک آہ پر
کہتے تو ہیں کہ ہم بھی تمھیں چاہتے ہیں میر
پر اعتماد کس کو ہے خوباں کی چاہ پر
میر تقی میر

رنج ویسے ہی ہیں نباہ کے بیچ

دیوان ششم غزل 1819
لطف جیسے ہیں اس کی چاہ کے بیچ
رنج ویسے ہی ہیں نباہ کے بیچ
ذوق صید اس کو تھا تو خیل ملک
دھوم رکھتے تھے دام گاہ کے بیچ
کب مزہ ہے نماز صبح میں وہ
جو صبوحی کے ہے گناہ کے بیچ
اس غصیلے کی سرخ آنکھیں دیکھ
اٹھے آشوب خانقاہ کے بیچ
جان و دل دونوں کرگئے تھے غش
دیکھ اس رشک مہ کو راہ کے بیچ
اس کی چشم سیہ ہے وہ جس نے
کتنے جی مارے اک نگاہ کے بیچ
سانجھ ہی رہتی پھر اگر ہوتا
کچھ اثر نالۂ پگاہ کے بیچ
کیا رہیں جور سے بتوں کے ہم
رکھ لے اپنی خدا پناہ کے بیچ
منھ کی دو جھائیوں سے مت شرما
جھائیں ہوتی ہے روے ماہ کے بیچ
میر بیمار ہے کہ فرق نہیں
متصل اس کے آہ آہ کے بیچ
میر تقی میر

آسماں پر گیا ہے ماہ تو کیا

دیوان پنجم غزل 1558
اس کی سی جو چلے ہے راہ تو کیا
آسماں پر گیا ہے ماہ تو کیا
لڑ کے ملنا ہے آپ سے بے لطف
یار ہووے نہ عذرخواہ تو کیا
کب رخ بدر روشن ایسا ہے
ایک شب کا ہے اشتباہ تو کیا
بے خرد خانقہ میں ہیں گو مست
وہ کرے مست یک نگاہ تو کیا
اس کے پرپیچ گیسو کے آگے
ہووے کالا کوئی سیاہ تو کیا
حسن والے ہیں کج روش سارے
ہوئے دو چار روبراہ تو کیا
دل رہے وصل جو مدام رہے
مل گئے اس سے گاہ گاہ تو کیا
ایک اللہ کا بہت ہے نام
جمع باطل ہوں سو الٰہ تو کیا
میر کیا ہے فقیر مستغنی
آوے اس پاس بادشاہ تو کیا
میر تقی میر

ہو تخت کچھ دماغ تو ہم پادشاہ ہیں

دیوان سوم غزل 1212
افیوں ہی کے تو دل شدہ ہم رو سیاہ ہیں
ہو تخت کچھ دماغ تو ہم پادشاہ ہیں
یاں جیسے شمع بزم اقامت نہ کر خیال
ہم دل کباب پردے میں سرگرم راہ ہیں
کہنا نہ کچھ کبھو کھڑے حسرت سے دیکھنا
ہم کشتنی ہیں واقعی گر بے گناہ ہیں
گہ مہرباں ہوں دور سے گہ آنکھیں پھیر لیں
معشوق آفتاب ہیں عشاق ماہ ہیں
آنکھیں ہماری پائوں تلے کیوں نہ وہ ملے
ہم بھی تو میر کشتۂ طرز نگاہ ہیں
میر تقی میر

مارا ہے بے گناہ و گناہ اس طرف ہنوز

دیوان سوم غزل 1140
ہے تند و تیز اس کی نگاہ اس طرف ہنوز
مارا ہے بے گناہ و گناہ اس طرف ہنوز
سر کاٹ کر ہم اس کے قدم کے تلے رکھا
ٹیڑھی ہے اس کی طرف کلاہ اس طرف ہنوز
مدت سے مثل شب ہے مرا تیرہ روزگار
آتا نہیں وہ غیرت ماہ اس طرف ہنوز
پتھرا گئیں ہیں آنکھیں مری نقش پا کے طور
پڑتی نہیں ہے یار کی راہ اس طرف ہنوز
جس کی جہت سے مرنے کے نزدیک پہنچے ہم
پھرتا نہیں وہ آن کے واہ اس طرف ہنوز
آنکھیں ہماری مند چلیں ہیں جس بغیر یاں
وہ دیکھتا بھی ٹک نہیں آہ اس طرف ہنوز
برسوں سے میر ماتم مجنوں ہے دشت میں
روتا ہے آ کے ابر سیاہ اس طرف ہنوز
میر تقی میر

ہمیشہ رہے نام اللہ کا

دیوان سوم غزل 1065
گیا حسن خوبان بد راہ کا
ہمیشہ رہے نام اللہ کا
پشیماں ہوا دوستی کر کے میں
بہت مجھ کو ارمان تھا چاہ کا
جگر کی سپر پھوٹ جانے لگی
بلا توڑ ہے ناوک آہ کا
اسیری کا دیتا ہے مژدہ مجھے
مرا زمزمہ گاہ و بیگاہ کا
رہوں جا کے مر حضرت یار میں
یہی قصد ہے بندہ درگاہ کا
کہا ہو دم قتل کچھ تو کہے
جواب اس کو کیا میرے خونخواہ کا
عدم کو نہیں مل کے جاتے ہیں لوگ
غم اس راہ میں کیا ہے ہمراہ کا
نظر خواب میں اس کے منھ پر پڑی
بہت خوب ہے دیکھنا ماہ کا
لگونہی اگر آنکھ تیری ہو میر
تماشا کر اس کی نظرگاہ کا
میر تقی میر

یا اب کی وے ادائیں جو دل سے آہ نکلے

دیوان دوم غزل 994
یا پہلے وے نگاہیں جن سے کہ چاہ نکلے
یا اب کی وے ادائیں جو دل سے آہ نکلے
کیونکر نہ چپکے چپکے یوں جان سے گذریے
کہیے بتھا جو اس سے باتوں کی راہ نکلے
زردی رنگ و رونا دونوں دلیل کشتن
خوش طالعی سے میری کیا کیا گواہ نکلے
اے کام جاں ہے تو بھی کیا ریجھ کا پچائو
مر جایئے تو منھ سے تیرے نہ واہ نکلے
خوبی و دلکشی میں صدچند ہے تو اس سے
تیرے مقابلے کو کس منھ سے ماہ نکلے
یاں مہر تھی وفا تھی واں جور تھے ستم تھے
پھر نکلے بھی تو میرے یہ ہی گناہ نکلے
غیروں سے تو کہے ہے اچھی بری سب اپنی
اے یار کب کے تیرے یہ خیر خواہ نکلے
رکھتے تو ہو مکدر پر اس گھڑی سے ڈریو
جب خاک منھ پہ مل کر یہ روسیاہ نکلے
اک خلق میر کے اب ہوتی ہے آستاں پر
درویش نکلے ہے یوں جوں بادشاہ نکلے
میر تقی میر

چاہ وہ ہے جو ہو نباہ کے ساتھ

دیوان دوم غزل 941
لطف کیا ہر کسو کی چاہ کے ساتھ
چاہ وہ ہے جو ہو نباہ کے ساتھ
وقت کڑھنے کے ہاتھ دل پر رکھ
جان جاتی رہے نہ آہ کے ساتھ
عشق میں ترک سر کیے ہی بنے
مشورت تو بھی کر کلاہ کے ساتھ
ہو اگرچند آسماں پہ ولے
نسبت اس مہ کو کیا ہے ماہ کے ساتھ
سفری وہ جو مہ ہوا تا دیر
چشم اپنی تھی گرد راہ کے ساتھ
جاذبہ تو ان آنکھوں کا دیکھا
جی کھنچے جاتے ہیں نگاہ کے ساتھ
میر سے تم برے ہی رہتے ہو
کیا شرارت ہے خیرخواہ کے ساتھ
میر تقی میر

سانپ سا چھاتی پہ پھر جاتا ہے آہ

دیوان دوم غزل 936
یاد جب آتی ہے وہ زلف سیاہ
سانپ سا چھاتی پہ پھر جاتا ہے آہ
کھل گیا منھ اب تو اس محجوب کا
کچھ سخن کی بھی نکل آوے گی راہ
شرم کرنی تھی مرا سر کاٹ کر
سو تو ان نے اور ٹیڑھی کی کلاہ
یار کا وہ ناز اپنا یہ نیاز
دیکھیے ہوتا ہے کیونکر یوں نباہ
دین میں اس کافر بے رحم کے
اجر اک رکھتا ہے خون بے گناہ
پتھروں سے سینہ کوبی میں نے کی
دل کے ماتم میں مری چھاتی سراہ
مول لے چک مجھ کو آنکھیں موند کر
دیکھ تو قیمت ہے میری اک نگاہ
لذت دنیا سے کیا بہرہ ہمیں
پاس ہے رنڈی ولے ہے ضعف باہ
روٹھ کر کیا آپ سے ملنے میں لطف
ہووے وہ بھی تو کبھو ٹک عذر خواہ
ضبط بہتیرا ہی کرتے ہیں ولے
آہ اک منھ سے نکل جاتی ہے گاہ
اس کے رو کے رفتہ ہی آئے ہیں یاں
آج سے تو کچھ نہیں یہ جی کی چاہ
دیکھ رہتے دھوکے اس رخسار کے
دایہ منھ دھوتے جو کہتی ماہ ماہ
شیخ تونے خوب سمجھا میر کو
واہ وا اے بے حقیقت واہ واہ
میر تقی میر

کس قدر مغرور ہے اللہ تو

دیوان دوم غزل 912
ملتفت ہوتا نہیں ہے گاہ تو
کس قدر مغرور ہے اللہ تو
مجھ سے کتنے جان سے جاتے رہے
کس کی میت کے گیا ہمراہ تو
بے خودی رہتی ہے اب اکثر مجھے
حال سے میرے نہیں آگاہ تو
اس کے دل میں کام کرنا کام ہے
یوں فلک پر کیوں نہ جا اے آہ تو
فرش ہیں آنکھیں ہی تیری راہ میں
آہ ٹک تو دیکھ کر چل راہ تو
جی تلک تو منھ نہ موڑیں تجھ سے ہم
کر جفا و جور خاطر خواہ تو
کاہش دل بھی دو چنداں کیوں نہ ہو
آنکھ میں آوے نہ دو دو ماہ تو
دل دہی کیا کی ہے یوں ہی چاہیے
اے زہے تو آفریں تو واہ تو
میر تو تو عاشقی میں کھپ گیا
مت کسی کو چند روز اب چاہ تو
میر تقی میر

گل اک دل ہے جس میں تری چاہ ہے

دیوان اول غزل 482
چمن یار تیرا ہواخواہ ہے
گل اک دل ہے جس میں تری چاہ ہے
سراپا میں اس کے نظر کرکے تم
جہاں دیکھو اللہ اللہ ہے
تری آہ کس سے خبر پایئے
وہی بے خبر ہے جو آگاہ ہے
مرے لب پہ رکھ کان آواز سن
کہ اب تک بھی یک ناتواں آہ ہے
گذر سر سے تب عشق کی راہ چل
کہ ہر گام یاں اک خطر گاہ ہے
کبھو وادی عشق دکھلایئے
بہت خضر بھی دل میں گمراہ ہے
جہاں سے تو رخت اقامت کو باندھ
یہ منزل نہیں بے خبر راہ ہے
نہ شرمندہ کر اپنے منھ سے مجھے
کہا میں نے کب یہ کہ تو ماہ ہے
یہ وہ کارواں گاہ دلکش ہے میر
کہ پھر یاں سے حسرت ہی ہمراہ ہے
میر تقی میر

ناحق ہماری جان لی اچھے ہو واہ واہ

دیوان اول غزل 426
جز جرم عشق کوئی بھی ثابت کیا گناہ
ناحق ہماری جان لی اچھے ہو واہ واہ
اب کیسا چاک چاک ہو دل اس کے ہجر میں
گتھواں تو لخت دل سے نکلتی ہے میری آہ
شام شب وصال ہوئی یاں کہ اس طرف
ہونے لگا طلوع ہی خورشید رو سیاہ
گذرا میں اس سلوک سے دیکھا نہ کر مجھے
برچھی سی لاگ جا ہے جگر میں تری نگاہ
دامان و جیب چاک خرابی و خستگی
ان سے ترے فراق میں ہم نے کیا نباہ
بیتابیوں کو سونپ نہ دینا کہیں مجھے
اے صبر میں نے آن کے لی ہے تری پناہ
خوں بستہ بارے رہنے لگی اب تو یہ مژہ
آنسو کی بوند جس سے ٹپکتی تھی گاہ گاہ
گل سے شگفتہ داغ دکھاتا ہوں تیرے تیں
گر موافقت کرے ہے تنک مجھ سے سال و ماہ
گر منع مجھ کو کرتے ہیں تیری گلی سے لوگ
کیونکر نہ جائوں مجھ کو تو مرنا ہے خوامخواہ
ناحق الجھ پڑا ہے یہ مجھ سے طریق عشق
جاتا تھا میر میں تو چلا اپنی راہ راہ
میر تقی میر

کیا پوچھتے ہو الحمدللہ

دیوان اول غزل 424
اب حال اپنا اس کے ہے دل خواہ
کیا پوچھتے ہو الحمدللہ
مر جائو کوئی پروا نہیں ہے
کتنا ہے مغرور اللہ اللہ
پیر مغاں سے بے اعتقادی
استغفر اللہ استغفر اللہ
کہتے ہیں اس کے تو منھ لگے گا
ہو یوں ہی یارب جوں ہے یہ افواہ
حضرت سے اس کی جانا کہاں ہے
اب مر رہے گا یاں بندہ درگاہ
سب عقل کھوئے ہے راہ محبت
ہو خضر دل میں کیسا ہی گمراہ
مجرم ہوئے ہم دل دے کے ورنہ
کس کو کسو سے ہوتی نہیں چاہ
کیا کیا نہ ریجھیں تم نے پچائیں
اچھا رجھایا اے مہرباں آہ
گذرے ہے دیکھیں کیونکر ہماری
اس بے وفا سے نے رسم نے راہ
تھی خواہش دل رکھنا حمائل
گردن میں اس کی ہر گاہ و بیگاہ
اس پر کہ تھا وہ شہ رگ سے اقرب
ہرگز نہ پہنچا یہ دست کوتاہ
ہے ماسوا کیا جو میر کہیے
آگاہ سارے اس سے ہیں آگاہ
جلوے ہیں اس کے شانیں ہیں اس کی
کیا روز کیا خور کیا رات کیا ماہ
ظاہر کہ باطن اول کہ آخر
اللہ اللہ اللہ اللہ
میر تقی میر

اکثر نہیں تو تجھ کو میں گاہ گاہ دیکھوں

دیوان اول غزل 296
راضی ہوں گوکہ بعد از صد سال و ماہ دیکھوں
اکثر نہیں تو تجھ کو میں گاہ گاہ دیکھوں
جی انتظار کش ہے آنکھوں میں رہگذر پر
آجا نظر کہ کب تک میں تیری راہ دیکھوں
آنکھیں جو کھل رہی ہیں مرنے کے بعد میری
حسرت یہ تھی کہ اس کو میں اک نگاہ دیکھوں
یہ دل وہ جا ہے جس میں دیکھا تھا تجھ کو بستے
کن آنکھوں سے اب اجڑا اس گھر کو آہ دیکھوں
دیکھوں تو چاند اب کا گذرے ہے مجھ کو کیسا
دل ہے کہ تیرے منھ پر بے مہر ماہ دیکھوں
بخت سیہ تو اپنے رہتے ہیں خواب ہی میں
اے رشک یوسف مصر پھر کس کو چاہ دیکھوں
چشم و دل و جگر یہ سارے ہوئے پریشاں
کس کس کی تیرے غم میں حالت تباہ دیکھوں
آنکھیں تو تونے دی ہیں اے جرم بخش عالم
کیا تیری رحمت آگے اپنے گناہ دیکھوں
تاریک ہوچلا ہے آنکھوں میں میری عالم
ہوتا ہے کیونکے دل بن میرا تباہ دیکھوں
مرنا ہے یا تماشا ہر اک کی ہے زباں پر
اس مجہلے کو چل کر میں خوانخواہ دیکھوں
دیکھوں ہوں آنکھ اٹھاکر جس کو تو یہ کہے ہے
ہوتا ہے قتل کیونکر یہ بے گناہ دیکھوں
ہوں میں نگاہ بسمل گو اک مژہ تھی فرصت
تا میر روے قاتل تا قتل گاہ دیکھوں
میر تقی میر

خاک افتادہ ہوں میں بھی اک فقیر اللہ کا

دیوان اول غزل 35
مت ہو دشمن اے فلک مجھ پائمال راہ کا
خاک افتادہ ہوں میں بھی اک فقیر اللہ کا
سینکڑوں طرحیں نکالیں یار کے آنے کی لیک
عذر ہی جا ہے چلا اس کے دل ناخواہ کا
گر کوئی پیرمغاں مجھ کو کرے تو دیکھے پھر
میکدہ سارے کا سارا صرف ہے اللہ کا
کاش تیرے غم رسیدوں کو بلاویں حشر میں
ظلم ہے یک خلق پرآشوب ان کی آہ کا
جو سنا ہشیار اس میخانے میں تھا بے خبر
شوق ہی باقی رہا ہم کو دل آگاہ کا
باندھ مت رونے کا تار اے ناقباحت فہم چشم
اس سے پایا جائے ہے سر رشتہ جی کی چاہ کا
شیخ مت کر ذکر ہر ساعت قیامت کا کہ ہے
عرصۂ محشر نمونہ اس کی بازی گاہ کا
شہر میں کس منھ سے آوے سامنے تیرے کہ شوخ
جھائیوں سے بھر رہا ہے سارا چہرہ ماہ کا
سرفرو لاتی نہیں ہمت مری ہر اک کے پاس
ہوں گداے آستاں میں میر حضرت شاہ کا
میر تقی میر