ٹیگ کے محفوظات: ماہتاب

کیا کیا نہ عکس تیر رہے تھے سراب میں

اتریں عجیب روشنیاں رات خواب میں
کیا کیا نہ عکس تیر رہے تھے سراب میں
کب سے ہیں ایک حرف پہ نظریں جمی ہوئی
وہ پڑھ رہا ہوں جو نہیں لکھا کتاب میں
پانی نہیں کہ اپنے ہی چہرے کو دیکھ لوں
منظر زمیں کے ڈھونڈتا ہوں ماہتاب میں
پھر تیرگی کے خواب سے چونکا ہے راستہ
پھر روشنی سی دوڑ گئی ہے سحاب میں
کب تک رہے گا روح پہ پیراہنِ بدن
کب تک ہوا اسیر رہے گی حباب میں
یوں آئنہ بدست ملی پربتوں کی برف
شرما کے دھوپ لوٹ گئی آفتاب میں
جینے کے ساتھ موت کا ہے ڈر لگا ہوا
خشکی دکھائی دی ہے سمندر کو خواب میں
گزری ہے بار بار مرے سر سے موجِ خشک
ابھرا ہوا ہوں ڈوب کے تصویرِ آب میں
اک یاد ہے کہ چھین رہی ہے لبوں سے جام
اک عکس ہے کہ کانپ رہا ہے شراب میں
چوما ہے میرا نام لبِ سرخ سے شکیبؔ
یا پھول رکھ دیا ہے کسی نے کتاب میں
شکیب جلالی

ہَر اِک سوال پَر اُن کا جَواب دیکھا تھا؟

کِسی نے میرا وہ دَورِ عَذاب دیکھا تھا؟
ہَر اِک سوال پَر اُن کا جَواب دیکھا تھا؟
اَبھی اَبھی تَو یَہاں تھے وہ گفتگو بھی ہوئی
یَقین ہی نہیں آتا کہ خواب دیکھا تھا
کَہا ہے کِس نے کہ آباد و شاد ہے اَب تَو
کِسی نے کیا دِلِ خانہ خَراب دیکھا تھا
عَجیِب شَخص تھا ٹھَنڈَک بھی تھا تَمازَت بھی
وہ آفتاب تھا یا ماہتاب دیکھا تھا
شَرابِ حُسن سے گَر ہو نہ تِشنَگی سیراب
جَواز یہ ہے کہ تُو نے سَراب دیکھا تھا
عجیب دَور تھا ایک ایک پَل تھی نیند حَرام
اَور اُس پہ دونوں نے اِک مِل کَے خواب دیکھا تھا
خدا ہی جانے وہ دن تھا کہ رات تھی ضامنؔ
طُلُوعِ صُبح سے قَبل آفتاب دیکھا تھا
ضامن جعفری

جانے کیا اضطراب میں دیکھا

شعلہ سا پیچ و تاب میں دیکھا
جانے کیا اضطراب میں دیکھا
گل کدوں کے طلسم بھول گئے
وہ تماشا نقاب میں دیکھا
آج ہم نے تمام حسنِ بہار
ایک برگِ گلاب میں دیکھا
سر کھلے، پا برہنہ، کوٹھے پر
رات اُسے ماہتاب میں دیکھا
فرصتِ موسمِ نشاط نہ پوچھ
جیسے اِک خواب، خواب میں دیکھا
ناصر کاظمی

جو چاہیں آپ کہتے رہیں میرے باب میں

کہنا نہیں ہے جب مجھے کچھ بھی جواب میں
جو چاہیں آپ کہتے رہیں میرے باب میں
اب تو گنوا رہے ہو شب و روز خواب میں
پھر ڈھونڈتے پھرو گے جوانی خضاب میں
تھی روشنی کی جن کو ہوس راکھ ہو گئے
تھے بے خبر کہ آگ بھی ہے آفتاب میں
آنکھیں بُجھے ہوئے تو زمانہ ہوا مگر
دل کے لیے ہنوز کشش ہے سَراب میں
آؤ کہِگن سکوں گا نہ شامیں فراق کی
یہ انگلیاں تو ختم ہوئیں سب حساب میں
بیدار ہوں کہ سوئے رہیں اِس سے کیا غرض
رہنا ہے جب ہمیشہ ہمیں ایک خواب میں
ہم ہیں کہ بس سمیٹتے رہتے ہیں چاندنی
کچھ لوگ جا بسے ہیں دلِ ماہتاب میں
ہے مستقل سکون بھی اک وجہِ اضطراب
ممکن ہے کچھ سکون ملے اضطراب میں
آنکھیں بہانے ڈھونڈتی رہتی ہیں نیند کے
شاید وہ دلربا نظر آ جائے خواب میں
باصرِؔ کہاں تم اور کہاں اُس کی جستجو
بیٹھے بٹھائے پڑ گئے یہ کس عذاب میں
باصر کاظمی

ہوئی ہے مدّت ہی ہاتھ میں وہ کتاب آئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 10
وُہ رُوئے روشن، وُہ حسن کا انتخاب آئے
ہوئی ہے مدّت ہی ہاتھ میں وہ کتاب آئے
سوال جو بھی کرو گے اس گنبدِ فلک میں
تمہارا اپنا کہا ہی بن کر جواب آئے
وُہ گل بہ شاخِ نظر ہو یا آس کا ثمر ہو
جِسے بھی آنا ہے پاس اپنے شتاب آئے
کھِنچا کھنچا سا لگے وُہ سانسوں میں بسنے والا
برس ہوئے ہیں ہمِیں پہ اِک یہ عتاب آئے
جھُلانے آئیں نہ رات کی رانیوں سی نیندیں
نہ لوریوں کو کہیں کوئی ماہتاب آئے
فلک سے اُتری ہے برق کب بُوند بُوند ماجدؔ
زدستِ انساں ہی خاک پر ہر عذاب آئے
ماجد صدیقی

ہوتے ہیں ابتدا ہی سے کانٹے گلاب میں

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 71
بنتا نہیں ہے حسن ستمگر شباب میں
ہوتے ہیں ابتدا ہی سے کانٹے گلاب میں
جلوے ہوئے نہ جذب رخِ بے نقاب میں
کرنیں سمٹ کے آ نہ سکیں آفتاب میں
بچپن میں یہ سوال قیامت کب آئے گی
بندہ نواز آپ کے عہدِ شباب میں
صیاد آج میرے نشیمن کی خیر ہو
بجلی قفس پہ ٹوٹتی دیکھی ہے خواب میں
آغازِ شوق دید میں اتنی خطا ہوئی
انجام پر نگاہ نہ کی اضطراب میں
اب چھپ رہے ہو سامنے آ کر خبر بھی ہے
تصویر کھنچ گئی نگہِ انتخاب میں
کشتی کسی غریب کی ڈوبی ضرور ہے
آنسو دکھائے دیتا ہے چشمِ حباب میں
محشر میں ایک اشکِ ندامت نے دھو دیئے
جتنے گناہ تھے مری فردِ حساب میں
اس وقت تک رہے گی قیامت رکی ہوئی
جب تک رہے گا آپ کا چہرہ نقاب میں
ایسے میں وہ ہوں، باغ ہو، ساقی ہو اے قمر
لگ جائیں چار چاند شبِ ماہتاب میں
قمر جلالوی

دل کی حالت بہت خراب نہیں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 131
کیا یہ آفت نہیں عذاب نہیں
دل کی حالت بہت خراب نہیں
بُود پَل پَل کی بے حسابی ہے
کہ محاسب نہیں حساب نہیں
خوب گاؤ بجاؤ اور پیو
ان دنوں شہر میں جناب نہیں
سب بھٹکتے ہیں اپنی گلیوں میں
تا بہ خود کوئی باریاب نہیں
تُو ہی میرا سوال ازل سے ہے
اور ساجن تیرا جواب نہیں
حفظ ہے شمسِ بازغہ مجھ کو
پر میسر وہ ماہتاب نہیں
تجھ کو دل درد کا نہیں احساس
سو میری پنڈلیوں کو داب نہیں
نہیں جُڑتا خیال کو بھی خیال
خواب میں بھی تو کوئی خواب نہیں
جون ایلیا

شب ہائے ہجر کو بھی رکھوں گر حساب میں

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 168
کب سے ہُوں، کیا بتاؤں جہانِ خراب میں
شب ہائے ہجر کو بھی رکھوں گر حساب میں
ملتی ہے خُوئے یار سے نار التہاب میں
کافر ہوں گر نہ ملتی ہو راحت عزاب میں
تا پھر نہ انتظار میں نیند آئے عمر بھر
آنے کا عہد کر گئے آئے جو خواب میں
قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں
مجھ تک کب ان کی بزم میں آتا تھا دورِ جام
ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں
جو منکرِ وفا ہو فریب اس پہ کیا چلے
کیوں بدگماں ہوں دوست سے دشمن کے باب میں
میں مضطرب ہُوں وصل میں خوفِ رقیب سے
ڈالا ہے تم کو وہم نے کس پیچ و تاب میں
میں اور حظِّ وصل خدا ساز بات ہے
جاں نذر دینی بھول گیا اضطراب میں
ہے تیوری چڑھی ہوئی اندر نقاب کے
ہے اک شکن پڑی ہوئی طرفِ نقاب میں
لاکھوں لگاؤ ایک چُرانا نگاہ کا
لاکھوں بناؤ ایک بگڑنا عتاب میں
وہ نالہ دل میں خس کے برابر جگہ نہ پائے
جس نالے سے شگاف پڑے آفتاب میں
وہ سحر مدعا طلبی میں کام نہ آئے
جس سِحر سے سفینہ رواں ہو سراب میں
غالب چُھٹی شراب پر اب بھی کبھی کبھی
پیتا ہوں روزِ ابر و شبِ ماہتاب میں
مرزا اسد اللہ خان غالب

کھولو منھ کو کہ پھر خطاب کرو

دیوان ششم غزل 1864
ٹک نقاب الٹو مت عتاب کرو
کھولو منھ کو کہ پھر خطاب کرو
آنکھیں غصے میں ہو گئی ہیں لال
سر کو چھاتی پہ رکھ کے خواب کرو
فرصت بود و باش یاں کم ہے
کام جو کچھ کرو شتاب کرو
محو صورت نہ آرسی میں رہو
اہل معنی سے ٹک حجاب کرو
جھوٹ اس کا نشاں نہ دو یارو
ہم خرابوں کو مت خراب کرو
منھ کھلے اس کے چاندنی چھٹکی
دوستو سیر ماہتاب کرو
میر جی راز عشق ہو گا فاش
چشم ہر لحظہ مت پرآب کرو
میر تقی میر

نہ گلے سے میرے اترا کبھو قطرہ آب تجھ بن

دیوان اول غزل 357
یہ غلط کہ میں پیا ہوں قدح شراب تجھ بن
نہ گلے سے میرے اترا کبھو قطرہ آب تجھ بن
یہی بستی عاشقوں کی کبھو سیر کرنے چل تو
کہ محلے کے محلے پڑے ہیں خراب تجھ بن
میں لہو پیوں ہوں غم میں عوض شراب ساقی
شب میغ ہو گئی ہے شب ماہتاب تجھ بن
گئی عمر میری ساری جیسے شمع بائو کے بیچ
یہی رونا جلنا گلنا یہی اضطراب تجھ بن
سبھی آتشیں ہیں نالے سبھی زمہریری آہیں
مری جان پر رہا ہے غرض اک عذاب تجھ بن
ترے غم کا شکر نعمت کروں کیا اے مغبچے میں
نہ ہوا کہ میں نہ کھایا جگر کباب تجھ بن
نہیں جیتے جی تو ممکن ہمیں تجھ بغیر سونا
مگر آنکہ مر کے کیجے تہ خاک خواب تجھ بن
برے حال ہوکے مرتا جو درنگ میر کرتا
یہ بھلا ہوا ستمگر کہ موا شتاب تجھ بن
میر تقی میر

یہ خط ضرور ہے مگر جواب کے لیے نہیں

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 203
غزل کسی کے نام انتساب کے لیے نہیں
یہ خط ضرور ہے مگر جواب کے لیے نہیں
اب اس زمیں پہ شہ سوار لوٹ کر نہ آئیں گے
سو یہ سفر غبارِ ہم رکاب کے لیے نہیں
یہ ساعتِ وصال کس جتن سے ہاتھ آئی ہے
متاعِ دست برد ہے حساب کے لیے نہیں
نکل رہی ہیں طاق و در سے سایہ سایہ صورتیں
سنو! یہ بام سیرِ ماہتاب کے لیے نہیں
میں کیا بتاؤں جاگتا ہوں رات رات کس لیے
نہیں، کسی کی چشمِ نیم خواب کے لیے نہیں
تو اور کوئی راز ہے مرے سخن کا‘ صاحبو!
کہ یہ عذاب جاں فقط ثواب کے لیے نہیں
عرفان صدیقی