ٹیگ کے محفوظات: ماری

پِیا جی کی سواری جا رہی ہے

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 231
چلو بادِ بہاری جا رہی ہے
پِیا جی کی سواری جا رہی ہے
شمالِ جاودانِ سبز جاں سے
تمنا کی عماری جا رہی ہے
فغاں اے دشمنی دارِ دل و جاں
مری حالت سُدھاری جا رہی ہے
جو اِن روزوں مراغم ہے وہ یہ ہے
کہ غم سے بُردباری جا رہی ہے
ہے سینے میں عجب اک حشر برپا
کہ دل سے بے قراری جا رہی ہے
میں پیہم ہار کر یہ سوچتا ہے
وہ کیا شہ ہے جو ہاری جا رہی ہے
دل اُس کے رُوبرو ہے اور گُم صُم
کوئی عرضی گزاری جا رہی ہے
وہ سید بچہ ہو اور شیخ کے ساتھ
میاں عزت ہماری جا رہی ہے
ہے برپا ہر گلی میں شورِ نغمہ
مری فریاد ماری جا رہی ہے
وہ یاد اب ہو رہی ہے دل سے رُخصت
میاں پیاروں کی پیاری جا رہی ہے
دریغا ! تیری نزدیکی میاں جان
تری دوری پہ واری جا رہی ہے
بہت بدحال ہیں بستی ترے لوگ
تو پھر تُو کیوں سنواری جا رہی ہے
تری مرہم نگاہی اے مسیحا!
خراشِ دل پہ واری جا رہی ہے
خرابے میں عجب تھا شور برپا
دلوں سے انتظاری جا رہی ہے
جون ایلیا

اب تعلق میں بردباری چھوڑ

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 256
وحشتیں اوڑھ، انتظاری چھوڑ
اب تعلق میں بردباری چھوڑ
دیکھنا چاند کیا سلاخوں سے
کج نظر سارتر سے یاری چھوڑ
دستِ ابلیس سے ثواب نہ پی
یہ تہجد کی بادہ خواری چھوڑ
زندہ قبروں پہ پھول رکھنے آ
مرنے والوں کی غم گساری چھوڑ
مردہ کتے کا دیکھ لے انجام
مشورہ مان، شہریاری چھوڑ
کچھ تو اعمال میں مشقت رکھ
یہ کرم کی حرام کاری چھوڑ
صبح کی طرح چل! برہنہ ہو
یہ اندھیرے کی پردہ داری چھوڑ
توڑ دے ہجر کے کواڑوں کو
اب دریچوں سے چاند ماری چھوڑ
بھونک اب جتنا بھونک سکتا ہے
ظلم سے التجا گزاری چھوڑ
آج اس سے تُو معذرت کر لے
یہ روایت کی پاس داری چھوڑ
رکھ بدن میں سکوت مٹی کا
یہ سمندر سی بے قراری چھوڑ
چھوڑ آسانیاں مصائب میں
دشت میں اونٹ کی سواری چھوڑ
یہ سفیدی پھری ہوئی قبریں
چھوڑ عیسیٰ کے یہ حواری چھوڑ
شہرِ غالب سے بھاگ جا منصور
میر جیسی غزل نگاری چھوڑ
منصور آفاق