خردفریبِ نظاروں کی کوئی بات کرو
جنوں نواز بہاروں کی کوئی بات کرو
کسی کی وعدہ خلافی کا ذکر خوب نہیں
مرے رفیق ستاروں کی کوئی بات کرو
زمانہ ساز زمانے کی بات رہنے دو
خلوصِ دوست کے ماروں کی کوئی بات کرو
گھٹا کی اوٹ سے چھپ کر جو دیکھتے تھے ہمیں
انھی شریر ستاروں کی کوئی بات کرو
زمانہ ذکرِ حوادث سے کانپ اٹھتا ہے
سُکوں بدوش کناروں کی کوئی بات کرو
نہیں ہے حدِّ نظر تک، وجود ساحل کا
فضا مُہیب ہے، دھاروں کی کوئی بات کرو
سلامِ شوق لیے تھے کسی نے، جن سے، شکیبؔ
انھی لطیف اشاروں کی کوئی بات کرو
شکیب جلالی