ٹیگ کے محفوظات: ماتے

باعث ترک ملاقات بتاتے بھی نہیں

داغ دہلوی ۔ غزل نمبر 41
عذر آنے میں بھی ہے اور بلاتے بھی نہیں
باعث ترک ملاقات بتاتے بھی نہیں
منتظر ہیں دمِ رخصت کہ یہ مر جائے تو جائیں
پھر یہ احسان کہ ہم چھوڑ کے جاتے بھی نہیں
سر اٹھاؤ تو سہی آنکھ ملاؤ تو سہی
نشۂ مے بھی نہیں نیند کے ماتے بھی نہیں
کیا کہا؟، پھر تو کہو، “ہم نہیں سنتے تیری“
نہیں سنتے تو ہم ایسوں کو سناتے بھی نہیں
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
مجھ سے لاغر تری آنکھوں میں کھٹکتے تو رہے
تجھ سے نازک مری نظروں میں سماتے بھی نہیں
دیکھتے ہی مجھے محفل میں یہ ارشاد ہوا
کون بیٹھا ہے اسے لوگ اٹھاتے بھی نہیں
ہو چکا قطع تعلق تو جفائیں کیوں ہوں
جن کو مطلب نہیں رہتا وہ ستاتے بھی نہیں
زیست سے تنگ ہو اے داغ تو کیوں جیتے ہو؟
جان پیاری بھی نہیں، جان سے جاتے بھی نہیں
داغ دہلوی

بوسۂ کنج لب سے پھر بھی ذائقے اپنے بناتے تھے

دیوان پنجم غزل 1753
ہائے جوانی وصل میں اس کے کیا کیا لذت پاتے تھے
بوسۂ کنج لب سے پھر بھی ذائقے اپنے بناتے تھے
کیا کیا تم نے فریب کیے ہیں سادگی میں دل لینے کو
ٹیڑھی کرکے کلاہ آتے تھے مے ناخوردہ ماتے تھے
ہائے جدائی ایک ہی جاگہ مار کے ہم کو توڑ رکھا
وے دن یاد آتے ہیں اب جب ان کے آتے جاتے تھے
غیروں کی تم سنتے رہے سو غیرت سے ہم سہتے رہے
وے تو تم کو لگا جاتے تھے تم آہم کو جلاتے تھے
رنج و الم غم عشق ہی کے اعجاز سے کھنچتے تھے ورنہ
حوصلہ کتنا اپنا جس میں یہ آزار سماتے تھے
وے دن کیسے سالتے ہیں جو آکر سوتے پاتے کبھو
آنکھوں سے ہم سہلا سہلا تلوے اس کو جگاتے تھے
چاہت روگ برا ہے جی کا میر اس سے پرہیز بھلا
اگلے لوگ سنا ہے ہم نے دل نہ کسو سے لگاتے تھے
میر تقی میر

چکر مارو جیسے بگولا خاک اڑاتے آتے رہو

دیوان پنجم غزل 1706
عاشق ہو تو اپنے تئیں دیوانہ سب میں جاتے رہو
چکر مارو جیسے بگولا خاک اڑاتے آتے رہو
دوستی جس کو لوگ کہیں ہیں جان سے اس کو خصومت ہے
ہوجاوے جو تم کو کسی سے تا مقدور چھپاتے رہو
دل لگنے کی چوٹ بری ہے اس صدمے سے خدا حافظ
بارے سعی و کشش کوشش سے جی کو اپنے بچاتے رہو
آئی بہار جنوں ہو مبارک عشق اللہ ہمارے لیے
نعل جڑے سینوں پہ پھرو تم داغ سروں پہ جلاتے رہو
شاعر ہو مت چپکے رہو اب چپ میں جانیں جاتی ہیں
بات کرو ابیات پڑھو کچھ بیتیں ہم کو بتاتے رہو
ابر سیہ قبلے سے آیا تم بھی شیخو پاس کرو
تخفیفے ٹک لٹ پٹے باندھو ساختہ ہی مدھ ماتے رہو
کیا جانے وہ مائل ہووے کب ملنے کا تم سے میر
قبلہ و کعبہ اس کی جانب اکثر آتے جاتے رہو
میر تقی میر

آنا یک سو کب دیکھو ہو ایدھر آتے جاتے تم

دیوان پنجم غزل 1677
ڈول لگائے بہتیرے پر ڈھب پہ کبھو نہیں آتے تم
آنا یک سو کب دیکھو ہو ایدھر آتے جاتے تم
ہر صورت کو دیکھ رہو ہو ہر کوچے کو جھانکو ہو
آگے عشق کیا ہوتا تو پھرتے جی نہ کھپاتے تم
چاہت آفت الفت کلفت مہر و وفا و رنج وبلا
عشق ہی کے سب نام ہیں یہ دل کاش کہیں نہ لگاتے تم
شائق ہو مرغان قفس کے آئے گھر صیادوں کے
پھول اک دو تسکین کو ان کی کاش چمن سے لاتے تم
دونوں طرف سے کشش رہتی تھی نیا نیا تھا عشق اپنا
دھوپ میں آتے داغ ہوئے تو گرمی سے گل کھاتے تم
کیدھر اب وہ یک رنگی جو دیکھ نہ سکتے دل تنگی
رکتے پاتے ٹک جو ہمیں تو دیر تلک گھبراتے تم
کیا کیا شکلیں محبوبوں کی پردئہ غیب سے نکلی ہیں
منصف ہو ٹک اے نقاشاں ایسے چہرے بناتے تم
شاید شب مستی میں تمھاری گرم ہوئی تھیں آنکھیں کہیں
پیش از صبح جو آئے ہو تو آئے راتے ماتے تم
کب تک یہ دزدیدہ نگاہیں عمداً آنکھیں جھکا لینا
دلبر ہوتے فی الواقع تو آنکھیں یوں نہ چھپاتے تم
بعد نماز دعائیں کیں سو میر فقیر ہوئے تم تو
ایسی مناجاتوں سے آگے کاشکے ہاتھ اٹھاتے تم
میر تقی میر

آتے ہو تمکین سے ایسے جیسے کہیں کو جاتے ہو

دیوان چہارم غزل 1474
ناز کی کوئی یہ بھی ٹھسک ہے جی کاہے کو کڑھاتے ہو
آتے ہو تمکین سے ایسے جیسے کہیں کو جاتے ہو
غیر کی ہمراہی کی عزت جی مارے ہے عاشق کا
پاس کبھو جو آتے ہو تو ساتھ اک تحفہ لاتے ہو
مست نہیں پر بال ہیں بکھرے پیچ گلے میں پگڑی کے
ساختہ ایسے بگڑے رہو ہو تم جیسے مدھ ماتے ہو
پردہ ہم سے کر لیتے ہو جب آتے ہو مجلس میں
آنکھیں سب سے ملاتے ہو کچھ ہم ہی سے شرماتے ہو
سوچ نہیں یہ فقیر ہے اپنا جیب دریدہ دیوانہ
ٹھوکر لگتے دامن کو کس ناز سے تم یاں آتے ہو
رفتۂ عشق کسو کا یارو راہ چلے ہے کس کے کہے
کون رہا ہے آپ میں یاں تم کس کے تئیں سمجھاتے ہو
صبر بلا پر کرتے صاحب بیتابی کا حاصل کیا
کوئی مقلب قلبوں کا ہے میر عبث گھبراتے ہو
میر تقی میر

کس کس ناز سے وے آتے پر آنکھ نہ ان سے ملاتے ہم

دیوان چہارم غزل 1443
صبر بہت تھا ایک سمیں میں جا سے اپنی نہ جاتے ہم
کس کس ناز سے وے آتے پر آنکھ نہ ان سے ملاتے ہم
کعبے سے کر نذر اٹھے سو خرج راہ اے وائے ہوئے
ورنہ صنم خانے میں جا زنار گلے سے بندھاتے ہم
ہاتھی مست بھی آوے چلا تو اس سے منھ کو پھیر نہ لیں
پھرتے ہیں سرمست محبت مے ناخوردہ ماتے ہم
ہائے جوانی وہ نہ گلے لگتا تو خشم عشقی سے
نعل جڑی جاتی چھاتی پر گل ہاتھوں پر کھاتے ہم
عشق تو کارخوب ہے لیکن میر کھنچے ہے رنج بہت
کاش کے عالم ہستی میں بے عشق و محبت آتے ہم
میر تقی میر

آنکھ اٹھاکر جب دیکھے ہیں اوروں میں ہنستے جاتے ہو

دیوان اول غزل 391
ہم سے تو تم کو ضد سی پڑی ہے خواہ نخواہ رلاتے ہو
آنکھ اٹھاکر جب دیکھے ہیں اوروں میں ہنستے جاتے ہو
جب ملنے کا سوال کروں ہوں زلف و رخ دکھلاتے ہو
برسوں مجھ کو یوں ہی گذرے صبح و شام بتاتے ہو
بکھری رہیں ہیں منھ پر زلفیں آنکھ نہیں کھل سکتی ہے
کیونکے چھپے مے خواری شب جب ایسے رات کے ماتے ہو
سرو تہ و بالا ہوتا ہے درہم برہم شاخ گل
ناز سے قد کش ہوکے چمن میں ایک بلا تم لاتے ہو
صبح سے یاں پھر جان و دل پر روز قیامت رہتی ہے
رات کبھو آ رہتے ہو تو یہ دن ہم کو دکھلاتے ہو
جن نے تم کو نہ دیکھا ہووے اس سے آنکھیں مارو تم
ایک نگاہ مفتن کر تم سو سو فتنے اٹھاتے ہو
چشم تو ہے اک دید کی جا پر کب تکلیف کے لائق ہے
دل جو ہے دلچسپ مکاں تم اس میں کب کب آتے ہو
راحت پہنچی ٹک تم سے تو رنج اٹھایا برسوں تک
سر سہلاتے ہو جو کبھو تو بھیجا بھی کھا جاتے ہو
ہو کے گداے کوے محبت زور صدا یہ نکالی ہے
اب تو میر جی راتوں کو تم ہر در پر چلاتے ہو
میر تقی میر