ٹیگ کے محفوظات: ماتم

وقت بھی ایسے زخموں کا مرہم نئیں ہوتا

تیرے زخمِ جدائی کا غم کم نئیں ہوتا
وقت بھی ایسے زخموں کا مرہم نئیں ہوتا
تیری رفاقت بھی کچھ لمحوں ہی کی نکلی
گگن سے چاند کا ساتھ بھی تو پیہم نئیں ہوتا
مجھ کو دکھ دینے پر اک آسیب لگا ہے
اور وہ اک آسیب کبھی بے دم نئیں ہوتا
ہنسنا، کھا کر زخم تو میری فطرت میں ہے
تم یہ سمجھتے ہو مجھ کو کوئی غم نئیں ہوتا
سینہ پیٹو، چیخو، دھاڑو، شور مچاؤ
یوں چپ بیٹھ کے رونے سے ماتم نئیں ہوتا
یاور ماجد

شہرِ وجود سے بابِ عدم تک ایک سا ہُو کا عالم ہے

ایک ملال تو ہونے کا ہے ایک نہ ہونے کا غم ہے
شہرِ وجود سے بابِ عدم تک ایک سا ہُو کا عالم ہے
کب تک راہ تکیں گے اُس کی کب تک اُس کو پکاریں گے
آنکھوں میں اب کتنا نم ہے سینے میں کتنا دم ہے
اُس کے ہوتے روز ہی آکر مجھے جگایا کرتی تھی
میری طرف اب بادِ صبا کا آنا جانا کم کم ہے
اب تعبیر نجانے کیا ہو خواب میں اتنا دیکھا تھا
ایک جلوس چلا جاتا ہے آگے خونیں پرچم ہے
تم لوگوں کی عادت ٹھہری جھوٹ کا شربت پینے کی
میرے پیالے سے مت پینا میرے پیالے میں سم ہے
ہاں ویسے تو حجرہءِ جاں میں بے ترتیبی ٹھیک نہیں
لیکن کیا ترتیب سے رکھوں سب کچھ درہم برہم ہے
درد کی پردہ پوشی ہے سب، کھل جائے گر غور کرو
آہوں کی تکرار ہیں سانسیں دل کی دھڑکن ماتم ہے
خوشبو کے پہلو میں بیٹھا رنگ سے ہم آغوش ہُوا
جب سے اُس کا قرب ملا ہے ہر احساس مجسم ہے
اب اظہار میں کوتاہی کی، کوئی دلیل نہیں صائب
آنکھوں کو ہے خون مہیّا دل کو درد فراہم ہے
شہرِ سخن کے ہنگامے میں کون سنے تیری عرفان
ایک تو باتیں الجھی الجھی پھر لپجہ بھی مدۤھم ہے
عرفان ستار

آنکھ میں نم زیادہ ہوتا ہے

جن دنوں غم زیادہ ہوتا ہے
آنکھ میں نم زیادہ ہوتا ہے
کچھ تو حَساس ہم زیادہ ہیں
کچھ وہ برہم زیادہ ہوتا ہے
دردِ دل کا بھی کوئی ٹھیک نہیں
خود بخود کم زیادہ ہوتا ہے
سب سے پہلے اُنہیں جھُکاتے ہیں
جن میں دم خم زیادہ ہوتا ہے
قیس پر ظلم تو ہُوا باصرِؔ
پھر بھی ماتم زیادہ ہوتا ہے
باصر کاظمی

رہا ہی ایک سا کب ہے مزاج موسم کا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 75
جلال کیوں نہ دکھائے یہ چشمِ برہم کا
رہا ہی ایک سا کب ہے مزاج موسم کا
فرازِ عرش پہ ترجیح فرش کو دینا
یہی تو ہے کہ عجوبہ ہے ابنِ آدم کا
رُتوں نے خاک اڑا کر ہے اب کے لوٹایا
ہوا پہ قرض تھا جتنا بھی چشمِ پر نم کا
خموشیاں ہیں سیہ پوشیاں ہیں ہر جانب
بہار ہے کہ یہ عشرہ ہے کوئی ماتم کا
سرور چال میں کِھلتی ہوئی رُتوں جیسا
نشہ نگاہ میں آہو کے ایک اک رم کا
نکالتا نہ ہمیں ذہن سے تو کیا کرتا
سخن میں یار کے پہلو تھے اک ہمیں ذم کا
ہزار پیاس سے تو ایڑیاں رگڑ ماجدؔ
ترے لیے کوئی چشمہ نہیں ہے زمزم کا
ماجد صدیقی

مگر دل کی اداسی کم نہیں ہے

احمد فراز ۔ غزل نمبر 148
تری یادوں کا وہ عالم نہیں ہے
مگر دل کی اداسی کم نہیں ہے
ہمیں بھی یاد ہے مرگِ تمنّا
مگر اب فرصتِ ماتم نہیں ہے
ہوائے قربِ منزل کا بُرا ہو
فراقِ ہمسفر کا غم نہیں ہے
جنونِ پارسائی بھی تو ناصح
مری دیوانگی سے کم نہیں ہے
یہ کیا گلشن ہے جس گلشن میں لوگو
بہاروں کا کوئی موسم نہیں ہے
قیامت ہے کہ ہر مے خوار پیاسا
مگر کوئی حریفِ جم نہیں ہے
صلیبوں پر کھنچے جاتے ہیں لیکن
کسی کے ہاتھ میں پرچم نہیں ہے
فراز اس قحط زارِ روشنی میں
چراغوں کا دھواں بھی کم نہیں ہے
احمد فراز

شہرِ وجود سے بابِ عدم تک ایک سا ہُو کا عالم ہے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 75
ایک ملال تو ہونے کا ہے ایک نہ ہونے کا غم ہے
شہرِ وجود سے بابِ عدم تک ایک سا ہُو کا عالم ہے
کب تک راہ تکیں گے اُس کی کب تک اُس کو پکاریں گے
آنکھوں میں اب کتنا نم ہے سینے میں کتنا دم ہے
اُس کے ہوتے روز ہی آکر مجھے جگایا کرتی تھی
میری طرف اب بادِ صبا کا آنا جانا کم کم ہے
اب تعبیر نجانے کیا ہو خواب میں اتنا دیکھا تھا
ایک جلوس چلا جاتا ہے آگے خونیں پرچم ہے
تم لوگوں کی عادت ٹھہری جھوٹ کا شربت پینے کی
میرے پیالے سے مت پینا میرے پیالے میں سم ہے
ہاں ویسے تو حجرہءِ جاں میں بے ترتیبی ٹھیک نہیں
لیکن کیا ترتیب سے رکھوں سب کچھ درہم برہم ہے
درد کی پردہ پوشی ہے سب، کھل جائے گر غور کرو
آہوں کی تکرار ہیں سانسیں دل کی دھڑکن ماتم ہے
خوشبو کے پہلو میں بیٹھا رنگ سے ہم آغوش ہُوا
جب سے اُس کا قرب ملا ہے ہر احساس مجسم ہے
اب اظہار میں کوتاہی کی، کوئی دلیل نہیں صائب
آنکھوں کو ہے خون مہیّا دل کو درد فراہم ہے
شہرِ سخن کے ہنگامے میں کون سنے تیری عرفان
ایک تو باتیں الجھی الجھی پھر لپجہ بھی مدۤھم ہے
عرفان ستار

ہم نے مارا نہ آج تک دم بھی

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 103
تیرے طعنے سنے سہے غم بھی
ہم نے مارا نہ آج تک دم بھی
میری میت تو کیا اٹھاؤ گے
تم نہ ہو گے شریکِ ماتم بھی
باغباں برق کیا گلوں پہ گری
ترے گلشن میں لٹ گئے ہم بھی
جلتے رہتے ہیں تری محفل میں
یہ پتنگے بھی، شمع بھی، ہم بھی
کاروانِ رہِ عدم والو
ٹھہرو کپڑے بدل چکے ہیں ہم بھی
قمر جلالوی

کاش یہ آفت نہ ہوتی قالب آدم کے بیچ

دیوان ششم غزل 1821
دل یہی ہے جس کو دل کہتے ہیں اس عالم کے بیچ
کاش یہ آفت نہ ہوتی قالب آدم کے بیچ
چھاتی کٹتی سنگ ہی سے دل کے جانے میں نہیں
نعل سینوں پر جڑے جاتے ہیں اس ماتم کے بیچ
نقشہ اس کا مردم دیدہ میں میرے نقش ہے
یعنی صورت اس ہی کی پھرتی ہے چشم نم کے بیچ
شاد وے جو اب جواں تازہ ہوئے ہیں شہر میں
دل زدہ ہم شیب میں رہتے ہیں اپنے غم کے بیچ
دل نہ ایسا کر کہ پشت چشم وہ نازک کرے
سو بلائیں ہیں یہاں ان ابروؤں کے خم کے بیچ
حد سے افزوں اس گلی میں شور ہے عشاق کا
کون سنتا ہے کسو کی بات اس اودھم کے بیچ
رونق آبادی ملک سخن ہے اس تلک
ہوں ہزاروں دم الٰہی میر کے اک دم کے بیچ
میر تقی میر

بہت عالم کرے گا غم ہمارا

دیوان ششم غزل 1808
سخن مشتاق ہے عالم ہمارا
بہت عالم کرے گا غم ہمارا
پڑھیں گے شعر رورو لوگ بیٹھے
رہے گا دیر تک ماتم ہمارا
نہیں ہے مرجع آدم اگر خاک
کدھر جاتا ہے قد خم ہمارا
زمین و آسماں زیر و زبر ہے
نہیں کم حشر سے اودھم ہمارا
کسو کے بال درہم دیکھتے میر
ہوا ہے کام دل برہم ہمارا
میر تقی میر

بس اب تو کھل گئیں ہیں آنکھیں دیکھا ہم نے دنیا کو

دیوان پنجم غزل 1708
کیا غیرت سے دل پر تنگ رنج و غم نے دنیا کو
بس اب تو کھل گئیں ہیں آنکھیں دیکھا ہم نے دنیا کو
رہا ہے ایک عالم اور دنیاداروں میں اس کا
کیا ہے بے وفا معلوم سب عالم نے دنیا کو
ہمیشہ رونا کڑھنا سینہ کوبی ہر زماں کرنا
عزاخانہ کیا دل کے مرے ماتم نے دنیا کو
سنا میں نے کہ آخر ہاتھ اٹھایا اس نے دنیا سے
اگر پایا بھی محنت کر کسو ہمدم نے دنیا کو
زمیں سے آسماں تک میر ہے شور جنوں میرا
تہ و بالا کیا دونوں میں اس اودھم نے دنیا کو
میر تقی میر

کون ایسے محروم غمیں کا ہم راز و محرم ہے اب

دیوان پنجم غزل 1581
دل کے گئے بیکس کہلائے ایسا کہاں ہمدم ہے اب
کون ایسے محروم غمیں کا ہم راز و محرم ہے اب
سینہ زنی سے غم زدگی ہے سر دھننا ہے رونا ہے
دل جو ہمارا خون ہوا ہے اس سے بلا ماتم ہے اب
سن کر حال کسو کے دل کا رونا ہی مجھ کو آتا تھا
یعنی کبھو جو کڑھتا تھا میں وہ رونا ہر دم ہے اب
زردی چہرہ تن کی نزاری بیماری پھر چاہت ہے
دل میں غم ہے مژگاں نم ہیں حال بہت درہم ہے اب
دیکھیں دن کٹتے ہیں کیونکر راتیں کیونکے گذرتی ہیں
بیتابی ہے زیادہ زیادہ صبر بہت کم کم ہے اب
عشق ہمارا آہ نہ پوچھو کیا کیا رنگ بدلتا ہے
خون ہوا دل داغ ہوا پھر درد ہوا پھر غم ہے اب
ملنے والو پھر ملیے گا ہے وہ عالم دیگر میں
میر فقیر کو سکر ہے یعنی مستی کا عالم ہے اب
میر تقی میر

آٹھ پہر رہتا ہے رونا اس کی دوری کے غم کا

دیوان پنجم غزل 1571
کچھ اندیشہ ہم کو نہیں ہے اپنے حال درہم کا
آٹھ پہر رہتا ہے رونا اس کی دوری کے غم کا
روتے کڑھتے خاک میں ملتے جیتے رہے ہم دنیا میں
دس دن اپنی عمر کے گویا عشرہ تھا یہ محرم کا
کشتی ہماری عشق میں کیا تھی ہاتھ ملاتے پاک ہوئی
پاے ثبات نہ ٹھہرا دم بھر اس میدان میں رستم کا
عالم نیستی کیا عالم تھا غم دنیا و دیں کا نہ تھا
ہوش آیا ہے جب سے سر میں شوق رہا اس عالم کا
یاں واجب ہے ہم کو تم کو دم لیویں تو شمردہ لیں
دینا ہو گا حساب کسو کو یک دم ہی میں دم دم کا
چھاتی کوٹی منھ نوچا سر دے دے مارا پتھر پر
دل کے خوں ہونے میں ہمارا یہی طریق ہے ماتم کا
لڑکے شوخ بہت ہیں لیکن ویسا میر نہیں کوئی
دھوم قیامت کی سی ہے ہنگامہ اس کے اودھم کا
میر تقی میر

ہم نے کھینچی کمان رستم بھی

دیوان چہارم غزل 1491
زورکش ہیں گے عشق کے ہم بھی
ہم نے کھینچی کمان رستم بھی
ہے بلا دھوم دل تڑپنے کی
ایسا ہوتا نہیں ہے اودھم بھی
کچھ نہیں اور دیکھیں ہیں کیا کیا
خواب کا سا ہے یاں کا عالم بھی
حیف دل جاتے پڑ گئی جی کی
ورنہ غم کرتے لیتے ماتم بھی
حرم کعبہ کا نہ پایا بھید
نہ ملا واں کا ایک محرم بھی
خشک نے سا تھا شیخ حیف موا
یوں تو یار اس کو دیتے تھے دم بھی
کھپ ہی جاتا ہے آدمی اے میر
آفت جاں ہے عشق کا غم بھی
میر تقی میر

ناز و غرور بہت ہے اس کا لطف نہیں ہے کم کم بھی

دیوان چہارم غزل 1487
میں تو تنک صبری سے اپنی رہ نہیں سکتا اک دم بھی
ناز و غرور بہت ہے اس کا لطف نہیں ہے کم کم بھی
جامۂ احرام آخر تہ کر دل کی اور توجہ کی
در پہ حرم کے اس لیے تھے ہم کوئی ملے گا محرم بھی
دیکھ ہوا کو طائر گلشن کس حسرت سے کہتے تھے
گل ہی چلے جاتے نہیں یاں سے چلنے کو بیٹھے ہیں ہم بھی
کیا کیا میں بیتاب رہا ہوں رنج و الم سے محبت کے
ہے عالم کچھ اور ہی میرے دل کے مرض کا عالم بھی
پنبہ و داغ کیا ہے کیا کیا اچھے ہونے والے نہ تھے
زخموں پر چھاتی کے میری رکھ دیکھو نہ مرہم بھی
گرم ہوا ہے ہو گا جوہر سیر چمن کی کر لیجے
پھول بکھرتے جاتے ہیں کچھ آخر ہے اب موسم بھی
نعل جڑے سینے کو کوٹا چہرے نچے پر خاک ملی
میر کیا ہے میں نے نہایت دل جانے کا ماتم بھی
میر تقی میر

دل کا ہنگامہ قیامت خاک کے عالم میں تھا

دیوان چہارم غزل 1350
تھا محبت سے کبھو ہم میں کبھو یہ غم میں تھا
دل کا ہنگامہ قیامت خاک کے عالم میں تھا
کیا ہوا پہلو سے دل کیا جانو کیا جانوں ہوں میں
ایک قطرہ خوں جھمکتا صبح چشم نم میں تھا
میر گذرے دونوں یاں عید و محرم ایک سے
یعنی دس دن جینے کے میں اپنے ہی ماتم میں تھا
میر تقی میر

درویش کتنے ماتم باہم کیا کریں ہیں

دیوان سوم غزل 1218
تکیے میں اپنے دل کا ہم غم کیا کریں ہیں
درویش کتنے ماتم باہم کیا کریں ہیں
جب نام دل کا کوئی لے بیٹھتا ہے ناگہ
منھ دیکھ ہم دگر کا ماتم کیا کریں ہیں
مستوں کی بات کیا ہے جو کوئی اس پہ جاوے
ہم گفتگو نشے میں درہم کیا کریں ہیں
حکم فسانہ سازی پیدا کریں ہیں شب کو
افسوں ہم اس کے اوپر جو دم کیا کریں ہیں
کچھ چال میر جی کی آتی نہیں سمجھ میں
ہم بھی سلوک ان سے اب کم کیا کریں ہیں
میر تقی میر

ایسی جنت گئی جہنم میں

دیوان سوم غزل 1202
جائے ہے جی نجات کے غم میں
ایسی جنت گئی جہنم میں
نزع میں میرے ایک دم ٹھہرو
دم ابھی ہیں ہزار اک دم میں
نعل ہم چھاتیوں پہ جڑ کے پھرے
اپنے خوں گشتہ دل کے ماتم میں
ہے بہت جیب چاکی ہی جوں صبح
کیا کیا جائے فرصت کم میں
پرکے تھی بے کلی قفس میں بہت
دیکھیے اب کے گل کے موسم میں
آپ میں ہم نہیں تو کیا ہے عجب
دور اس سے رہا ہے کیا ہم میں
بے خودی پر نہ میر کی جائو
تم نے دیکھا ہے اور عالم میں
میر تقی میر

دل کے جانے کا بڑا ماتم ہوا

دیوان سوم غزل 1076
سینہ کوبی ہے طپش سے غم ہوا
دل کے جانے کا بڑا ماتم ہوا
آنکھیں دوڑیں خلق جا اودھر گری
اٹھ گیا پردہ کہاں اودھم ہوا
کیا لکھوں رویا جو لکھتے جوں قلم
سب مرے نامے کا کاغذ نم ہوا
ہم جو اس بن خوار ہیں حد سے زیاد
یار یاں تک آن کر کیا کم ہوا
آگیا یوں ہی خراماں وہ تو پھر
حشر کا ہنگامہ ہی برہم ہوا
درہمی سے برہمی سے دیکھیو
دونوں عالم کا عجب عالم ہوا
جسم خاکی کا جہاں پردہ اٹھا
ہم ہوئے وہ میر سب وہ ہم ہوا
میر تقی میر

یاں تلف ہوتا ہے عالم واں سو عالم اور ہے

دیوان دوم غزل 1036
زلف ہی درہم نہیں ابرو بھی پرخم اور ہے
یاں تلف ہوتا ہے عالم واں سو عالم اور ہے
پیٹ لینا سر لیے دل کے شروع عشق تھا
سینہ کوبی متصل ہے اب یہ ماتم اور ہے
جوں کف دریا کو دریا سے ہے نسبت دور کی
ابر بھی ووں اور کچھ ہے دیدئہ نم اور ہے
رہتے رہتے منتظر آنکھوں میں جی آیا ندان
دم غنیمت جان اب مہلت کوئی دم اور ہے
جی تو جانے کا ہمیں اندوہ ہی ہے لیک میر
حشر کو اٹھنا پڑے گا پھر یہ اک غم اور ہے
میر تقی میر

کیسے کیسے ہائے اپنے دیکھتے موسم گئے

دیوان دوم غزل 1012
گل گئے بوٹے گئے گلشن ہوئے برہم گئے
کیسے کیسے ہائے اپنے دیکھتے موسم گئے
ہنستے رہتے تھے جو اس گلزار میں شام و سحر
دیدئہ تر ساتھ لے وے لوگ جوں شبنم گئے
گر ہوا اس باغ کی ہے یہ تو اے بلبل نہ پھول
کوئی دن میں دیکھیو واں وے گئے یاں ہم گئے
کیا کم اس خورشیدرو کی جستجو یاروں نے کی
لوہو روتے جوں شفق پورب گئے پچھم گئے
جی گیا یاں بے دماغی سے انھوں کی اور واں
نے جبیں سے چیں گئی نے ابروئوں سے خم گئے
شاید اب ٹکڑوں نے دل کے قصد آنکھوں کا کیا
کچھ سبب تو ہے جو آنسو آتے آتے تھم گئے
گرچہ ہستی سے عدم تک اک مسافت تھی بعید
پر اٹھے جو ہم یہاں سے واں تلک اک دم گئے
کیا معاش اس غم کدے میں ہم نے دس دن کی بہم
اٹھ کے جس کے ہاں گئے دل کا لیے ماتم گئے
سبزہ و گل خوش نشینی اس چمن کی جن کو تھی
سو بھی تو دیکھا گریباں چاک و مژگاں نم گئے
مردم دنیا بھی ہوتے ہیں سمجھ کس مرتبہ
آن بیٹھے نائوں کو تو یاں نگیں سے جم گئے
ربط صاحب خانہ سے مطلق بہم پہنچا نہ میر
مدتوں سے ہم حرم میں تھے پہ نامحرم گئے
میر تقی میر

چاہ یوسفؑ تھا ذقن سو چاہ رستم ہو گیا

دیوان دوم غزل 677
خط سے وہ زور صفاے حسن اب کم ہو گیا
چاہ یوسفؑ تھا ذقن سو چاہ رستم ہو گیا
سینہ کوبی سنگ سے دل خون ہونے میں رہی
حق بجانب تھا ہمارے سخت ماتم ہو گیا
ایک سا عالم نہیں رہتا ہے اس عالم کے بیچ
اب جہاں کوئی نہیں یاں ایک عالم ہو گیا
آنکھ کے لڑتے تری آشوب سا برپا ہوا
زلف کے درہم ہوئے اک جمع برہم ہو گیا
اس لب جاں بخش کی حسرت نے مارا جان سے
آب حیواں یمن طالع سے مرے سم ہو گیا
وقت تب تک تھا تو سجدہ مسجدوں میں کفر تھا
فائدہ اب جب کہ قد محراب سا خم ہو گیا
عشق ان شہری غزالوں کا جنوں کو اب کھنچا
وحشت دل بڑھ گئی آرام جاں رم ہو گیا
جی کھنچے جاتے ہیں فرط شوق سے آنکھوں کی اور
جن نے دیکھا ایک دم اس کو سو بے دم ہو گیا
ہم نے جو کچھ اس سے دیکھا سو خلاف چشم داشت
اپنا عزرائیل وہ جان مجسم ہو گیا
کیا کہوں کیا طرحیں بدلیں چاہ نے آخر کو میر
تھا گرہ جو درد چھاتی میں سو اب غم ہو گیا
میر تقی میر

جو میں ہر اک مژہ دیکھوں کہ یہ تر ہے کہ یہ نم ہے

دیوان اول غزل 524
توجہ تیری اے حیرت مری آنکھوں پہ کیا کم ہے
جو میں ہر اک مژہ دیکھوں کہ یہ تر ہے کہ یہ نم ہے
کرے ہے مو پریشاں غم وفا تو تعزیہ تو لے
حیا کر حق صحبت کی کہ اس بیکس کا ماتم ہے
دورنگی دہر کی پیدا ہے یاں سے دل اٹھا اپنا
کسو کے گھر میں شادی ہے کہیں ہنگامۂ غم ہے
کہیں آشفتگاں سے میر مقصد ہووے ہے حاصل
جو زلفیں اس کی درہم ہیں مرا بھی کام برہم ہے
میر تقی میر

پر نہ اتنا بھی کہ ڈوبے شہر کم کم رویئے

دیوان اول غزل 503
خوب ہے اے ابر اک شب آئو باہم رویئے
پر نہ اتنا بھی کہ ڈوبے شہر کم کم رویئے
وقت خوش دیکھا نہ اک دم سے زیادہ دہر میں
خندئہ صبح چمن پر مثل شبنم رویئے
شادی و غم میں جہاں کی ایک سے دس کا ہے فرق
عید کے دن ہنسیے تو دس دن محرم رویئے
دیکھا ماتم خانۂ عالم کو ہم مانند ابر
ہرجگہ پر جی میں یوں آیا دمادم رویئے
ہو جدا فردوس سے یعنی گلی سے یار کی
مدتوں تک کیجیے غم مثل آدم رویئے
اب سے یوں کریے مقرر اٹھیے جب کہسار سے
وادی مجنوں پہ بھی اے ابر اک دم رویئے
عشق میں تقریب گریہ گو نہیں درکار میر
ایک مدت صبر ہی کا رکھیے ماتم رویئے
میر تقی میر

کسو سے کام نہیں رکھتی جنس آدم کی

دیوان اول غزل 468
بغیر دل کہ یہ قیمت ہے سارے عالم کی
کسو سے کام نہیں رکھتی جنس آدم کی
کوئی ہو محرم شوخی ترا تو میں پوچھوں
کہ بزم عیش جہاں کیا سمجھ کے برہم کی
ہمیں تو باغ کی تکلیف سے معاف رکھو
کہ سیر و گشت نہیں رسم اہل ماتم کی
تنک تو لطف سے کچھ کہہ کہ جاں بلب ہوں میں
رہی ہے بات مری جان اب کوئی دم کی
گذرنے کو تو کج و واکج اپنی گذرے ہے
جفا جو ان نے بہت کی تو کچھ وفا کم کی
گھرے ہیں درد و الم میں فراق کے ایسے
کہ صبح عید بھی یاں شام ہے محرم کی
قفس میں میر نہیں جوش داغ سینے پر
ہوس نکالی ہے ہم نے بھی گل کے موسم کی
میر تقی میر

اس زمانے میں گئی ہے برکت غم سے بھی

دیوان اول غزل 431
دل کو تسکین نہیں اشک دمادم سے بھی
اس زمانے میں گئی ہے برکت غم سے بھی
ہم نشیں کیا کہوں اس رشک مہ تاباں بن
صبح عید اپنی ہے بدتر شب ماتم سے بھی
کاش اے جان المناک نکل جاوے تو
اب تو دیکھا نہیں جاتا یہ ستم ہم سے بھی
آخرکار محبت میں نہ نکلا کچھ کام
سینہ چاک و دل پژمردہ مژہ نم سے بھی
آہ ہر غیر سے تاچند کہوں جی کی بات
عشق کا راز تو کہتے نہیں محرم سے بھی
دوری کوچہ میں اے غیرت فردوس تری
کام گذرا ہے مرا گریۂ آدم سے بھی
ہمت اپنی ہی تھی یہ میر کہ جوں مرغ خیال
اک پرافشانی میں گذرے سرعالم سے بھی
میر تقی میر

مہلت ہمیں بسان شرر کم بہت ہے یاں

دیوان اول غزل 346
آجائیں ہم نظر جو کوئی دم بہت ہے یاں
مہلت ہمیں بسان شرر کم بہت ہے یاں
یک لحظہ سینہ کوبی سے فرصت ہمیں نہیں
یعنی کہ دل کے جانے کا ماتم بہت ہے یاں
حاصل ہے کیا سواے ترائی کے دہر میں
اٹھ آسماں تلے سے کہ شبنم بہت ہے یاں
مائل بہ غیر ہونا تجھ ابرو کا عیب ہے
تھی زور یہ کماں ولے خم چم بہت ہے یاں
ہم رہروان راہ فنا دیر رہ چکے
وقفہ بسان صبح کوئی دم بہت ہے یاں
اس بت کدے میں معنی کا کس سے کریں سوال
آدم نہیں ہے صورت آدم بہت ہے یاں
عالم میں لوگ ملنے کی گوں اب نہیں رہے
ہر چند ایسا ویسا تو عالم بہت ہے یاں
ویسا چمن سے سادہ نکلتا نہیں کوئی
رنگینی ایک اور خم و چم بہت ہے یاں
اعجاز عیسوی سے نہیں بحث عشق میں
تیری ہی بات جان مجسم بہت ہے یاں
میرے ہلاک کرنے کا غم ہے عبث تمھیں
تم شاد زندگانی کرو غم بہت ہے یاں
دل مت لگا رخ عرق آلود یار سے
آئینے کو اٹھا کہ زمیں نم بہت ہے یاں
شاید کہ کام صبح تک اپنا کھنچے نہ میر
احوال آج شام سے درہم بہت ہے یاں
میر تقی میر

اس میں حیراں ہوں بہت کس کس کا میں ماتم کروں

دیوان اول غزل 317
صبر و طاقت کو کڑھوں یا خوش دلی کا غم کروں
اس میں حیراں ہوں بہت کس کس کا میں ماتم کروں
موسم حیرت ہے دل بھر کر تو رونا مل چکا
اتنے بھی آنسو بہم پہنچیں کہ مژگاں نم کروں
ہوں سیہ مست سر زلف صنم معذور رکھ
شیخ اگر کعبے سے آوے گفتگو درہم کروں
ریزئہ الماس یا مشت نمک ہے کیا برا
جو میں اپنے ایسے زخم سینہ کو مرہم کروں
گرچہ کس گنتی میں ہوں پر ایک دم مجھ تک تو آ
یا ادھر ہوں یا ادھر کب تک شمار دم کروں
بس بہت رسوا ہوا میں اب نہیں مقدور کچھ
وہ طرح ڈھونڈوں ہوں جس میں ربط تجھ سے کم کروں
گودھواں اٹھنے لگا دل سے مرے پر پیچ و تاب
میر اس پر قطع ربط زلف خم در خم کروں
میر تقی میر

ہیں مژہ دستور سابق ہی یہ میری نم ہنوز

دیوان اول غزل 235
ہوچکا خون جگر رونا نہیں کچھ کم ہنوز
ہیں مژہ دستور سابق ہی یہ میری نم ہنوز
دل جلوں پر روتے ہیں جن کو ہے کچھ سوز جگر
شمع رکھتی ہے ہماری گور پر ماتم ہنوز
وضع یکساں اس زمانے میں نہیں رہتی کہیں
قد ترا چوگاں رہا ہے کس طرح سے خم ہنوز
آرہا ہے جی مرا آنکھوں میں اک پل اور ہوں
پر نہیں جاتا کسی کے دیکھنے کا غم ہنوز
وہ جو عالم اس کے اوپر تھا سو خط نے کھو دیا
مبتلا ہے اس بلا میں میر اک عالم ہنوز
میر تقی میر

دل کے جانے کا نہایت غم رہا

دیوان اول غزل 102
غم رہا جب تک کہ دم میں دم رہا
دل کے جانے کا نہایت غم رہا
حسن تھا تیرا بہت عالم فریب
خط کے آنے پر بھی اک عالم رہا
دل نہ پہنچا گوشۂ داماں تلک
قطرئہ خوں تھا مژہ پر جم رہا
سنتے ہیں لیلیٰ کے خیمے کو سیاہ
اس میں مجنوں کا مگر ماتم رہا
جامۂ احرام زاہد پر نہ جا
تھا حرم میں لیک نامحرم رہا
زلفیں کھولیں تو تو ٹک آیا نظر
عمر بھر یاں کام دل برہم رہا
اس کے لب سے تلخ ہم سنتے رہے
اپنے حق میں آب حیواں سم رہا
میرے رونے کی حقیقت جس میں تھی
ایک مدت تک وہ کاغذ نم رہا
صبح پیری شام ہونے آئی میر
تو نہ چیتا یاں بہت دن کم رہا
میر تقی میر

ترا حُسن دستِ عیسیٰ ، تری یاد رُوئے مریم

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 16
یہ جفائے غم کا چارہ ، وہ نَجات دل کا عالم
ترا حُسن دستِ عیسیٰ ، تری یاد رُوئے مریم
دل و جاں فدائے راہے کبھی آکے دیکھ ہمدم
سرِ کوئے دل فگاراں شبِ آرزو کا عالم
تری دِید سے سوا ہے ترے شوق میں بہاراں
وہ چمن جہاں گِری ہے ترے گیسوؤں کی شبنم
یہ عجب قیامتیں ہیں تری رہگزر میں گزراں
نہ ہُوا کہ مَرمِٹیں ہم ، نہ ہُوا کہ جی اُٹھیں ہم
لو سُنی گئی ہماری ، یُوں پِھرے ہیں دن کہ پھر سے
وہی گوشۂ قفس ہے ، وہی فصلِ گُل کا ماتم
لاہورجیل
فیض احمد فیض

اچھی لگتی ہے ندی دیدہ ء پرنم کی یونہی

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 495
بانسری بانس کے جنگل سے سنوں غم کی یونہی
اچھی لگتی ہے ندی دیدہ ء پرنم کی یونہی
کوئی امکان بظاہر تو بچھڑنے کا نہیں
یاد آئی ہے مجھے ہجر کے موسم کی یونہی
دشت کی دھوپ کوئی چیز نہیں میرے غزال
گفتگو تجھ سے ہوئی سایہ ء شیشم کی یونہی
میں نے جانا نہیں برفاب تہوں میں اس کی
بات سنتا ہوں میں بہتے ہوئے جہلم کی یونہی
برف گرتی ہے تو آتی ہے نظر خوابوں میں
اک پری زاد مجھے وادی ء نیلم کی یونہی
صبر کرتا رہا قربان حسین ابن علی
ظلم کہتا رہا حرمت ہے محرم کی یونہی
مجھ کو معلوم نہیں کون کہاں روتا ہے
بات کی سبزہ پہ بکھری ہوئی شبنم کی یونہی
اک موبائل سے بنا لینے دو تصویر مجھے
پہنے رکھو ذرا پوشاک یہ ریشم کی یونہی
ذکر ہوتا رہے لیلائے وطن کا منصور
آگ جلتی رہے بس نوحۂ ماتم کی یونہی
منصور آفاق

یعنی ہے ایک کوچۂ ماتم میں زندگی

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 470
گزری تمام ماہِ محرم میں زندگی
یعنی ہے ایک کوچۂ ماتم میں زندگی
کیسا عجب تھا اس کی اچٹتی نظر کا فیض
ساری بدل گئی ہے مری دم میں زندگی
صحرا کی دو پہر سے مسلسل میں ہم کلام
پھرتی ہے دشت دشت شبِ غم میں زندگی
کچھ کچھ سرکتی ہے کوئی ٹوٹی ہوئی چٹان
چلتی نہیں فراق کے موسم میں زندگی
ہرشام ایک مرثیہ ہر صبح ایک بین
اک چیخ ہے شعور کے عالم میں زندگی
منصور دوگھروں میں ہے آباد ایک جسم
تقسیم آدھی آدھی ہوئی ہم میں زندگی
منصور آفاق

پھر کربلا میں شامِ محرم گزار خیر

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 178
جاری ہے پھر حسین کا ماتم گزار خیر
پھر کربلا میں شامِ محرم گزار خیر
پھٹ ہی نہ جائے کوئی یہاں بم گزار خیر
اک چھت تلے ہے فیملی باہم گزار خیر
خودکش دھماکے ہونے لگے ہیں گلی گلی
برپا جگہ جگہ پہ ہے ماتم گزار خیر
پھرتی ہے موت ظلم کے گرد و غبار میں
آیا ہے خاک و خون کا موسم گزار خیر
میرے وطن میں آگ لگی ہے اک ایک کوس
وہ سرنگوں ہے دین کا پرچم گزار خیر
منصور پہ کرم ہو خصوصی خدائے پاک
لگتی نہیں گزرتی شبِ غم گزار خیر
منصور آفاق

آیت الکرسی پڑھی اور دم کیا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 120
نیند کی ناراضگی کو کم کیا
آیت الکرسی پڑھی اور دم کیا
اس نے شانوں پر بکھیرے اپنے بال
اور شیتل شام کا موسم کیا
پہلے رنگوں کو اتارا اور پھر
اس نے ہیٹر کو ذرا مدہم کیا
ایک آمر کی ہلاکت پر کہو
سرنگوں کیوں ملک کا پرچم کیا
صبح آنسو پونچھ کے ہم سو گئے
روشنی کا رات بھر ماتم کیا
مان لی ہم نے کہانی رات کی
اس نے پلکوں کو ذرا سانم کیا
عاشقی کی داد چاہی شہر سے
ہیٹ اتارا اور سر کو خم کیا
دار پر کھینچا مرے منصور کو
اور سارے شہر کو برہم کیا
منصور آفاق