ٹیگ کے محفوظات: لیا

دِل کو آنکھوں میں رَکھ لِیا کیجے

جَب کبھی اُن کا سامنا کیجے
دِل کو آنکھوں میں رَکھ لِیا کیجے
ٹھان ہی لی ہے اب تَو کیا کیجے
جائیے! عرضِ مدّعا کیجے
کہیِں نیچی نہ ہو نظَر صاحب
حالِ دل سب سے مت کہا کیجے
کوئی شعلہ نَفَس ہے محفل میں
میرے جینے کی بس دُعا کیجے
جُنبِشِ لَب نَظَر میں رہتی ہے
گفتگو آنکھ سے کِیا کیجے
جب اشارے کنائے ہیں موجود
جو کہیَں کھُل کے مت کَہا کیجے
ڈال کر پھر نَظَر اَجَل انداز
میرے حق میں کوئی دُعا کیجے
اُسی انداز میں وہی الفاظ
جب بھی موقع ہو کہہ دیا کیجے
میں ہُوں ضامنؔ مجھے تَو کم از کم
رازِ الفت سے آشنا کیجے
ضامن جعفری

دِل پریشان ہے کہ کیا ہو گا

آج پھر اُن سے سامنا ہو گا
دِل پریشان ہے کہ کیا ہو گا
گفتگو سے کریں گے وہ بھی گریز
دل ہمیں بھی سنبھالنا ہو گا
پھر کوئی بات ہو گئی ہو گی
کچھ نگاہوں نے کہہ دیا ہو گا
کیا ہُوا ہم جو ہمسَفَر نہ ہُوئے
شہر بھر ساتھ ہو لیا ہو گا
دوستی میں تَو یہ بھی ہوتا ہے
لڑکھڑائے تو تھامنا ہو گا
ہم نے سمجھا دیا تھا دیکھ اے دِل
زندگی بھر کا سلسلہ ہو گا
پھر خیالوں میں کھو گئے ضامنؔ
کوئی چپکے سے آ گیا ہو گا
ضامن جعفری

پھر تری یاد نے گھیر لیا تھا

تھوڑی دیر کو جی بہلا تھا
پھر تری یاد نے گھیر لیا تھا
یاد آئی وہ پہلی بارش
جب تجھے ایک نظر دیکھا تھا
ہرے گلاس میں چاند کے ٹکڑے
لال صراحی میں سونا تھا
چاند کے دل میں جلتا سورج
پھول کے سینے میں کانٹا تھا
کاغذ کے دل میں چنگاری
خس کی زباں پر انگارہ تھا
دل کی صورت کا اک پتا
تیری ہتھیلی پر رکھا تھا
شام تو جیسے خواب میں گزری
آدھی رات نشہ ٹوٹا تھا
شہر سے دُور ہرے جنگل میں
بارش نے ہمیں گھیر لیا تھا
صبح ہوئی تو سب سے پہلے
میں نے تیرا منہ دیکھا تھا
دیر کے بعد مرے آنگن میں
سرخ انار کا پھول کھلا تھا
دیر کے مرجھائے پیڑوں کو
خوشبو نے آباد کیا تھا
شام کی گہری اونچائی سے
ہم نے دریا کو دیکھا تھا
یاد آئیں کچھ ایسی باتیں
میں جنھیں کب کا بھول چکا تھا
ناصر کاظمی

میں ترا رستہ دیکھ رہا تھا

تو جب دوبارہ آیا تھا
میں ترا رستہ دیکھ رہا تھا
پھر وہی گھر ، وہی شام کا تارا
پھر وہی رات ، وہی سپنا تھا
تجھ کو لمبی تان کے سوتے
میں پہروں تکتا رہتا تھا
ایک انوکھے وہم کا جھونکا
تیری نیند اُڑا دیتا تھا
تیری ایک صدا سنتے ہی
میں گھبرا کر جاگ اٹھتا تھا
جب تک تجھ کو نیند نہ آتی
میں ترے پاس کھڑا رہتا تھا
نئی انوکھی بات سنا کر
میں تیرا جی بہلاتا تھا
یوں گزرا وہ ایک مہینہ
جیسے ایک ہی پل گزرا تھا
ایک وہ دن جب بیٹھے بیٹھے
تجھ کو وہم نے گھیر لیا تھا
صبح کی چائے سے پہلے اُس دن
تو نے رختِ سفر باندھا تھا
آنکھ کھلی تو تجھے نہ پا کر
میں کتنا بے چین ہوا تھا
اب نہ وہ گھر نہ وہ شام کا تارا
اب نہ وہ رات نہ وہ سپنا تھا
آج وہ سیڑھی سانپ بنی تھی
کل جہاں خوشبو کا پھیرا تھا
مرجھائے پھولوں کا گجرا
خالی کھونٹی پر لٹکا تھا
پچھلی رات کی تیز ہوا میں
کورا کاغذ بول رہا تھا
ناصر کاظمی

پہلے تیرا نام لکھا تھا

میں نے جب لکھنا سیکھا تھا
پہلے تیرا نام لکھا تھا
میں وہ صبرِ صمیم ہوں جس نے
بارِ امانت سر پہ لیا تھا
میں وہ اسمِ عظیم ہوں جس کو
جن و ملک نے سجدہ کیا تھا
تو نے کیوں مرا ہاتھ نہ پکڑا
میں جب رستے سے بھٹکا تھا
جو پایا ہے وہ تیرا ہے
جو کھویا وہ بھی تیرا تھا
تجھ بن ساری عمر گزاری
لوگ کہیں گے تو میرا تھا
پہلی بارش بھیجنے والے
میں ترے درشن کا پیاسا تھا
ناصر کاظمی

خالی رستہ بول رہا ہے

میں ہوں رات کا ایک بجا ہے
خالی رستہ بول رہا ہے
آج تو یوں خاموش ہے دنیا
جیسے کچھ ہونے والا ہے
کیسی اندھیری رات ہے دیکھو
اپنے آپ سے ڈر لگتا ہے
آج تو شہر کی روِش روِش پر
پتوں کا میلہ سا لگا ہے
آؤ گھاس پہ سبھا جمائیں
میخانہ تو بند پڑا ہے
پھول تو سارے جھڑ گئے لیکن
تیری یاد کا زخم ہرا ہے
تو نے جتنا پیار کیا تھا
دُکھ بھی مجھے اتنا ہی دیا ہے
یہ بھی ہے ایک طرح کی محبت
میں تجھ سے، تو مجھ سے جدا ہے
یہ تری منزل وہ مرا رستہ
تیرا میرا ساتھ ہی کیا ہے
میں نے تو اِک بات کہی تھی
کیا تو سچ مچ رُوٹھ گیا ہے
ایسا گاہک کون ہے جس نے
سکھ دے کر دُکھ مول لیا ہے
تیرا رستہ تکتے تکتے
کھیت گگن کا سوکھ چلا ہے
کھڑکی کھول کے دیکھ تو باہر
دیر سے کوئی شخص کھڑا ہے
ساری بستی سو گئی ناصر
تو اب تک کیوں جاگ رہا ہے
ناصر کاظمی

مُسکرا کر ہمیں مِلا کیجے

آپ برہم نہ یوں ہوا کیجے
مُسکرا کر ہمیں مِلا کیجے
خوب صورت اگر دِکھائی دیں
ہم پہ پتھّر اُٹھا لیا کیجے
حُسن حیرت کا پیش خیمہ ہے
اِس عقیدے پہ سر دُھنا کیجے
ہم تکلّف کو بھول جاتے ہیں
آپ بھی دل ذرا بڑا کیجے
یہ ہے دنیا یہاں شکاری ہیں
اپنے اندر ہی اب اُڑا کیجے
سب درختوں پہ بُور آنے لگے
یار! ایسی کوئی دُعا کیجے
بات کرنا اگر نہیں آتا
خامشی کو ہرا بھرا کیجے
افتخار فلک

میرا مطلب ہے جھوٹا خدا بچ گیا

اک خُدا مر گیا دوسرا بچ گیا
میرا مطلب ہے جھوٹا خدا بچ گیا
سات رنگوں سے بنتا رہا یہ جہاں
رنگ آخر میں صرف اک ہرا بچ گیا
بچ بچاؤ میں کچھ بھی نہیں بچ سکا
کارواں لُٹ گیا رہ نُما بچ گیا
میں مصیبت میں تھا دوستو! دشمنو!
نام مُرشد کا جونہی لیا، بچ گیا
میری تدفین میں دیر مت کیجیو!
میرے پیچھے مرا نقشِ پا بچ گیا
معجزہ یہ نہیں جان بخشی ہوئی
سچ تو یہ ہے ترا آسرا بچ گیا
افتخار فلک

کس دن کنجِ قفس دیکھا تھا یاد نہیں ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 46
راہوں میں کب جال بچھا تھا یاد نہیں ہے
کس دن کنجِ قفس دیکھا تھا یاد نہیں ہے
آناً فاناً ہی اِک حشر نظر میں اُٹھا
کاشانہ کس آن جلا تھا یاد نہیں ہے
چپّو چّپو کب گرداب بنے تھے پہلے
طوفاں نے کب گھیر لیا تھا یاد نہیں ہے
یاد ہے آنکھوں کے آگے اِک دُھند کا منظر
کس پل مجھ سے وُہ بچھڑا تھا یاد نہیں ہے
اپنوں ہی میں شاید کُچھ بیگانے بھی تھے
کس جانب سے تیر چلا تھا یاد نہیں ہے
طولِ شبِ ہجراں میں دل کے بانجھ اُفق پر
آس کا چندا کب ڈوبا تھا یاد نہیں ہے
تلخ ہوئی کب اُس کے لہجے کی شیرینی
سانسوں میں کب زہر گھُلا تھا یاد نہیں ہے
تنُد ہوا کو تیغوں جیسا تنتے ویکھا
پیڑ سے رشتہ کب ٹوٹا تھا یاد نہیں ہے
اُس سے اپنا ناتا جُڑتے تو دیکھا تھا
یہ دھاگا کیونکر اُلجھا تھا یاد نہیں ہے
جس پر اُس چنچل کے حکم کی چھاپ لگی تھی
مَیں نے وہ پھل کیوں چکّھا تھا یاد نہیں ہے
گھر گھر فریادی بانہوں کی فصل اُگی تھی
شہر کا موسم کیوں ایسا تھا یاد نہیں ہے
سجتی دیکھ کے سرمے سی شب آنکھوں آنکھوں
میں جانے کیوں چیخ پڑا تھا یاد نہیں ہے
نیل گگن کے نیچے ننھی آشاؤں کا
خیمہ کیسے خاک ہوا تھا یاد نہیں ہے
جگنو جگنو روشنیوں پر لُوٹ مچاتے
اُس کا ماتھا کب چمکا تھا یاد نہیں ہے
طیش میں آ کر جب وہ برسا تو آگے سے
ماجدؔ نے کیا اُس سے کہا تھا یاد نہیں ہے
ماجد صدیقی

دہن صدف کا فلک کی جانب کھلا ہوا رہ گیا ہو جیسے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 55
عجیب صورت ہے نامرادی ابرِ نیساں چھٹا ہو جیسے
دہن صدف کا فلک کی جانب کھلا ہوا رہ گیا ہو جیسے
مرے خدااس جہاں میں میرے لیے ہی قحط الرّجال کیوں ہے
مری زباں کو سمجھنے والا نہ کوئی رمز آشنا ہو جیسے
تُلا کھڑا ہے شکم اُڑانے پہ یوں پرخچے مری انا کے
پلنگ بعدِ شکار اپنے شکار سے کھیلتا ہو جیسے
شجر امیدوں کا سیلِ اشکِ الم سے یوں کھوکھلا ہوا ہے
جڑوں کو روتا درخت کوئی کنارِ دریا کھڑا ہو جیسے
بہ دشتِ خواہش دکھائی دینے لگی ہے یورش وہ وسوسوں کی
کہ زہر دانتوں میس اپنے مارِسیاہ نے بھر لیا ہو جیسے
کوئی مسیحا نفس ہو مجھ کو وہ اِس ترحمّ ے دیکھتا ہے
خدا نکردہ وہی بروئے زمین میرا خدا ہو جیسے
گمان کیا تھا مگر تمنّا کا حال ماجدؔ یہ کیا ہُوا ہے
کہ تودۂ برف کوئی اوجِ ہمالیہ سے گرا ہو جیسے
ماجد صدیقی

اُس پر کیا لکھا جانا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 160
کورا کاغذ سوچ رہا ہے
اُس پر کیا لکھا جانا ہے
نرخ نہیں گو ایک سے لیکن
ہر انسان یہاں بِکتا ہے
کون ہے گالی سُن کر جس کے
ہونٹوں سے امرت ٹپکا ہے
دشتِ طلب میں بِن کُتّوں کے
کس کے ہاتھ شکار لگا ہے
اپنی چال سلامت رکھنے
شیر ہرن پر ٹوٹ پڑا ہے
کُود کے جلتی آگ میں دیکھو
پروانہ گلزار بنا ہے
ٹھیک ہے گر بیٹا یہ سوچے
اُس نے باپ سے کیا پایا ہے
پکڑا جانے والا ہی کیوں
تنہا دم مجرم ٹھہرا ہے
جس نے بھی جاں بچتی دیکھی
تنکوں تک پر وہ اٹکا ہے
مجرم نے پچھلی پیشی پر
جو بھی کہا اُس سے مُکرا ہے
خالق اپنی خلق سے کھنچ کر
عرش پہ جانے کیا کرتا ہے
بہلانے مجھ بچّے کو وہ
جنت کا لالچ دیتا ہے
پیڑ زبانوں کو لٹکائے
دشت سے جانے کیا کہتا ہے
دیواروں سے ڈرتا ہو گا
کہنے والا کیوں ٹھٹکا ہے
موجِ الم نے کھول کے بازو
مجھ کو جیسے بھنچ لیا ہے
اُتنا ہی قد کاٹھ ہے اُس کا
جتنا جس کو ظرف ملا ہے
کس کو اَب لوٹانے جائیں
گردن میں جو طوق پڑا ہے
ٹہنی عاق کرے خود اُس کو
پھول وگرنہ کب جھڑتا ہے
جینے والا جانے کیونکر
موت کے در پر آن کھڑا ہے
صحرا کی بے درد ہوا نے
بادل کو کب رُکنے دیا ہے
دیکھوں اور بس دیکھو اُس کو
جانے اُس تصویر میں کیا ہے
کہنے کی باتیں ہیں ساری
زخمِ رگِ جاں کب بھرتا ہے
رُت کی خرمستی یہ جانے
پودا کیسے پیڑ بنا ہے
برق اور رعد کے لطف و کرم سے
گلشن کو کب فیض ملا ہے
لوٹایا اِک ڈنک میں سارا
سانپ نے جتنا دُودھ پیا ہے
ربط نہیں اُس سے اتنا بھی
شہر میں جتنا کچھ چرچا ہے
بند کلی چُپ رہنا اُس کا
لب کھولے تو پھولوں سا ہے
برگ و ثمر آنے سے پہلے
شاخ نے کیا کیا جبر سہا ہے
گُل برساتا ہے اوروں پر
وُہ جو زخم مجھے دیتا ہے
کوہِ قاف سے اِس جانب وہ
ڈھونڈوں بھی تو کب ملتا ہے
اُس کی دو رنگی مت پُوچھو
کالر پر جو پھول سجا ہے
رسّی کی شِشکار ہے پیچھے
کھیت کنارے جال بِچھا ہے
ڈس لیتا ہے سانپ جسے بھی
رَسّی تک سے وہ ڈرتا ہے
قبرپہ جل مرنے والے کی
ایک دیا اب تک جلتا ہے
بانس انار سے آنکھ ملائے
اپنی قامت ناپ رہا ہے
موسیٰ ہر فرعون کی خاطر
مشکل سے نت نت آتا ہے
سارے ہونٹ سلے ہیں پھر بھی
گلیوں میں اک حشر بپا ہے
دھڑکن دھرکن ساز جدا ہیں
کس نے کس کا دُکھ بانٹا ہے
کرنا آئے مکر جسے بھی
زر کے ساتھ وُہی تُلتا ہے
خون میں زہر نہیں اُترا تو
آنکھوں سے پھر کیا رِستا ہے
ہم اُس سے منہ موڑ نہ پائے
پیار سے جس نے بھی دیکھا ہے
کون ہے وہ جو محرومی کی
تہمت اپنے سر لیتا ہے
کھُلتی ہے ہر آنکھ اُسی پر
غنچہ جب سے پھول بنا ہے
انساں اپنا زور جتانے
چاند تلک پر جا نکلا ہے
دل نے پھر گُل کھِل اُٹھنے پر
نام کسی کا دہرایا ہے
وقت صفائی مانگ کے ہم سے
کاہے کو مُنہ کھُلواتا ہے
ہم شبنم کے قطروں پرہی
سورج داتا کیوں جھپٹا ہے
فصلِ سکوں پر بُغض یہ کس کا
مکڑی بن کر آ ٹوٹا ہے
دل تتلی کا پیچھا کرتے
کن کانٹوں میں جا اُلجھا ہے
زخم اگر بھر جائے بھی تو
نقش کہاں اُس کا مٹتا ہے
انجانوں سا مجھ سے وُہ پوچھے
اُس سے مرا دل مانگتا کیاہے
پھول جھڑیں یا پتے سُوکھیں
موسم نے یہ کب دیکھا ہے
اَب تو دل کی بات اٹھاتے
لفظ بھی چھلنی سے چھنتاہے
تجھ بن جو منظر بھی دیکھیں
آنکھ میں کانٹوں سا چُبھتا ہے
کانوں کے دَر کھُل جائیں تو
پتھر تک گویا لگتا ہے
آنکھوں کی اِس جھیل میں جانے
کون کنول سا لہراتا ہے
دور فلک پر کاہکشاں کا
رنگ ترے سپنوں جیسا ہے
گلشن والے کب جانیں یہ
پنجرے میں دن کب ڈھلتا ہے
صبح اُسی کے صحن میں اُتری
جس کا دامن چاک ملا ہے
جانے کس خرمن پر پہنچے
تابہ اُفق جو کھیت ہرا ہے
مَیں وہ غار تمّنا کا ہوں
سورج جس سے رُوٹھ گیا ہے
جانے کیا کیا زہر نہ پی کر
انساں نے جینا سیکھا ہے
بحر پہ پُورے چاند کے ہوتے
پانی کیوں ٹھہرا ٹھہرا ہے
وہ کب سایہ سینت کے رکھے
رستے میں جو پیڑ اُگا ہے
اُس کا حسن برابر ہو تو
حرف زباں پر کب آتا ہے
دیکھنے پر اُس آئنہ رُو کے
پھولوں کا بھی رنگ اُڑا ہے
پھل اُترا جس ٹہنی پر بھی
پتھر اُس پر آن پڑا ہے
کب اوراق پُرانے پلٹے
وُہ کہ مجھے جو بھول چکا ہے
اپنی اپنی قبر ہے سب کی
کون کسی کے ساتھ چلا ہے
اَب تو اُس تک جانے والا
گستاخی کا ہی رستہ ہے
اُونٹ چلے ڈھلوان پہ جیسے
ایسا ہی کچھ حال اپنا ہے
لُٹ کے کہے یہ شہد کی مکھی
محنت میں بھی کیا رکھا ہے
کس نے آتا دیکھ کے مجھ کو
بارش میں در بھینچ لیا ہے
اُس سے حرفِ محبت کہنے
ہم نے کیا کیا کچھ لکھا ہے
دامن سے اُس شوخ نے مجھ کو
گرد سمجھ کر جھاڑ دیا ہے
فرق ہے کیوں انسانوں میں جب
سانس کا رشتہ اِک جیسا ہے
فرصت ہی کب پاس کسی کے
کون رُلانے بھی آتا ہے
یادوں کے اک ایک ورق پر
وُہ کلیوں سا کھِل اُٹھتا ہے
شیر بھی صید ہُوا تو آخر
دیواروں پر آ لٹکا ہے
نُچنے سے اِک برگ کے دیکھو
پیڑ ابھی تک کانپ رہا ہے
ایک ذرا سی چنگاری نے
سارا جنگل پھونک دیا ہے
لفظ سے پاگل سا برتاؤ
ساگر ناؤ سے کرتا ہے
بہلا ہے دل درد سے جیسے
بچہ کانچ سے کھیل رہا ہے
کڑوے پھل دینے والے کا
رشتہ باغ سے کب ملتا ہے
خدشوں میں پلنے والوں نے
سوچا ہے جو، وُہی دیکھا ہے
اپنے اپنے انت کو پانے
جس کو دیکھو دوڑ رہا ہے
زور آور سبزے نے دیکھو
بادل سے حق مانگ لیا ہے
کس رُت کے چھننے سے جانے
صحنِ گلستاں دشت ہوا ہے
ہونٹ گواہی دیں نہ کچھ اُس کی
دل میں جتنا زہر بھرا ہے
لفظ کے تیشے سے ابھرے جو
زخم وہی گہرا ہوتا ہے
آنکھ ٹھہرتی ہے جس پر بھی
منظر وُہ چھالوں جیسا ہے
بن کر کالی رات وہ دیکھو
کّوا چڑیا پر جھپٹا ہے
جتنا اپنے ساتھ ہے کوئی
اُتنا اُس کے ساتھ خُدا ہے
اونچی کر دے لو زخموں کی
پرسش وُہ بے رحم چِتا ہے
ساکت کر دے جو قدموں کو
جیون وُہ آسیب ہُوا ہے
دشت تھا اُس کا ہجر پہ ہم نے
یہ صحرا بھی پاٹ لیا ہے
مجھ سے اُس کا ذکر نہ چھیڑو
وہ جیسا بھی ہے اچّھا ہے
ساتھ ہمارے ہے وہ جب سے
اور بھی اُس کا رنگ کھُلا ہے
شاہی بھی قربان ہو اُس پر
ماجدؔ کو جو فقر ملا ہے
ماجد صدیقی

سجدۂ بے بسی ادا کیجے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 48
شاخ سے ایک اِک جھڑا کیجے
سجدۂ بے بسی ادا کیجے
دستِ گلچین و برق و ابر و ہوا
کس سے بچئے کسے خدا کیجے
زخم بن جائے جو سماعت کا
بات ایسی نہ تم کیا کیجے
اُس کو حرفوں میں ڈھالنے کے لئے
انگلیوں میں قلم لیا کیجے
خواہشِ اَوج کی سزا ہے یہی
ہوکے شعلہ بہ سر بُجھا کیجے
کُیوں دُکھے دل دُکھائیے ماجدؔ
چُپ نہ رہئے تو اور کیا کیجے
ماجد صدیقی

جس کا کھِلنا یا مرجھانا بس سے مرے باہر بھی نہ تھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 9
ہر لمحہ اِک بند کلی اور بول مرے تھے بادِ صبا
جس کا کھِلنا یا مرجھانا بس سے مرے باہر بھی نہ تھا
پھول کھِلے تو مَیں خود چھپ کر بیٹھ رہا ویرانوں میں
بِیت گیا جب موسمِ گل تو اُجڑے بن میں کُود پڑا
مَیں مجرم ہوں مَیں نے زہر سمویا اپنی سانسوں میں
اے جیون اے عادلِ دوراں،للہ مجھ پر رحم نہ کھا
اے جینے کے رستے مجھ پر اور بھی کچھ ہو بند ابھی
مَیں کہ نہیں ہوں اندھا بھی تُو میری آنکھیں کھول ذرا
ٹُنڈ شجر اور شاخیں، اُجڑی آنکھیں جیسے بیوہ کی
کس موسم کا ماتھا ماجدؔ مَیں نے بڑھ کر چوم لیا
ماجد صدیقی

نذرِ صرصر بھی ہمیں برگ ہُوا کرتے ہیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 20
موسموں کو نئے عنوان دیا کرتے ہیں
نذرِ صرصر بھی ہمیں برگ ہُوا کرتے ہیں
اپنے احساس نے اِک رُوپ بدل رکھا ہے
بُت کی صورت جِسے ہم پُوج لیا کرتے ہیں
اُن سے شکوہ؟ مری توبہ! وہ دلوں کے مالک
جو بھی دیتے ہیں بصد ناز دیا کرتے ہیں
ہم کہ شیرینیِ لب جن سے ہے ماجدؔ منسُوب
کون جانے کہِ ہمیں زہر پِیا کرتے ہیں
ماجد صدیقی

مَیں پھر بھی تُجھ سے تیرا پتہ پوچھتا رہا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 64
تو پھُول تھا، مہک تھا صدا کی ادا بھی تھا
مَیں پھر بھی تُجھ سے تیرا پتہ پوچھتا رہا
جل بُجھ کے رہ گیا ہوں بس اپنی ہی آگ میں
کِس زاویے پہ آ کے مقابل ترے ہوا
شب بھر ترے جمال سے چُنتا رہا وہ پھُول
پھُوٹی سحر تو میں بھی سحر کی مثال تھا
مَیں ہی تو تھا کہ جس نے دکھایا جہان کو
تیشے سے اِک پہاڑ کا سینہ چِھدا ہوا
بدلا ہے گلستاں نے نیا پیرہن اگر
گُدڑی پہ ہم نے بھی نیا ٹانکا لگا لیا
مَیں تھا اور اُس کا وقتِ سفر تھا اور ایک دھند
ہاں اُس کے بعد پھر کبھی دیکھا نہ زلزلہ
بعدِ خزاں ہے جب سے تہی دست ہو گئی
سہلا رہی ہے شاخِ برہنہ کو پھر ہوا
مَیں تو ہوا تھا تِیر کے لگتے ہی غرقِ آب
تالاب بھر میں خون مرا پھیلتا گیا
ہر اِک نظر پہ کھول دیا تُو نے اپنا آپ
دل کا جو بھید تھا اُسے ماتھے پہ لکھ لیا
واضح ہیں ہر کسی پہ ترے جسم کے خطوط
تُو تو چھپی سی چیز تھی تُو نے یہ کیا کیا
اِک بات یہ بھی مان کہ ماجدؔ غم و الم
پیروں کی خاک میں نہ اِنہیں سر پہ تو اُٹھا
ماجد صدیقی

ایک گھر برق کو ہر سال دیا کرتے ہیں

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 77
کیا کوئی باغ میں ہم مفت رہا کرتے ہیں
ایک گھر برق کو ہر سال دیا کرتے ہیں
رخ اِدھر آنکھ ادھر آپ یہ کیا کرتے ہیں
پھر نہ کہنا مرے تیر خطا کرتے ہیں
اب تو پردے کو اٹھا دو مری لاش اٹھتی ہے
دیکھو اس وقت میں منہ دیکھ لیا کرتے ہیں
تیرے بیمار کی حالت نہیں دیکھی جاتی
اب تو احباب بھی مرنے کی دعا کرتے ہیں
صبحِ فرقت بھی قمر آنکھ کے آنسو رکے
یہ وہ تارے ہیں جو دن میں بھی گرا کرتے ہیں
قمر جلالوی

کچھ بھی ہو پر اب حد ادب میں رہا نہ جائے

جون ایلیا ۔ قطعہ نمبر 27
ہر طنز کیا جائے، ہر اک طعنہ دیا جائے
کچھ بھی ہو پر اب حد ادب میں رہا نہ جائے
تاریخ نے قوموں کو دیا ہے یہی بیغام
حق مانگنا توہین ہے حق چھین لیا جائے
قطعہ
جون ایلیا

آپ ملتے نہیں ہے کیا کیجے

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 176
کس سے اظہارِ مدعا کیجے
آپ ملتے نہیں ہے کیا کیجے
ہو نا پایا یہ فیصلہ اب تک
آپ کیا کیجیے تو کیا کیجے
آپ تھے جس کے چارہ گر وہ جواں
سخت بیمار ہے دعا کیجے
ایک ہی فن تو ہم نے سیکھا ہے
جن سے ملیے اسے خفا کیجے
ہے تقاضا مری طبیعت کا
ہر کسی کو چراغ پا کیجے
ہے تو بارے یہ عالمِ اسباب
بے سبب چیخنے لگا کیجے
آج ہم کیا گلا کریں اس سے؟
گلہ تنگیِ قبا کیجے
فطق حیوان پر گراں ہے ابھی
گفتگو کم سے کم کیا کیجے
حضرتِ زلفِ غالیہ افشاں
نام اپنا صبا صبا کیجے
زندگی کا عجب معاملہ ہے
ایک لمحے میں فیصلہ کیجے
مجھ کو عادت ہے روٹھ جانے کی
آپ مجھ کو منا لیا کیجے
ملتے رہیے اسی تپاک کے ساتھ
بیوفائی کی انتہا کیجے
کوہکن کو ہے خودکشی خواہش
شاہ بانو سے التجا کیجے
مجھ سے کہتی تھیں وہ شراب آنکھیں
آپ وہ زہر مت پیا کیجے
رنگ ہر رنگ میں ہے دوا غالب
خون تھوکوں تو واہ وا کیجے
جون ایلیا

جانے ہم خود میں کہ ناخود میں رہا کرتے ہیں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 119
کب پتا یار کو ہم اپنے لکھا کرتے ہیں
جانے ہم خود میں کہ ناخود میں رہا کرتے ہیں
اب تم شہرکے آداب سمجھ لو جانی
جو مِلا ہی نہیں کرتے وہ مِلا کرتے ہیں
جہلا علم کی تعظیم میں برباد گئے
جہل کا عیش جو ہے وہ علما کرتے ہیں
لمحے لمحے میں جیو جان اگر جینا ہے
یعنی ہم حرصِ بقا کو بھی فنا کرتے ہیں
جانے اس کوچہء حالت کا ہے کیا حال کہ ہم
اپنے حجرے سے بہ مشکل ہی اُٹھا کرتے ہیں
میں جو کچھ بھی نہیں کرتا ہوں یہ ہے میرا سوال
اور سب لوگ جو کرتے ہیں وہ کیا کرتے ہیں
اب یہ ہے حالتِ احوال کہ اک یاد سے ہم
شام ہوتی ہے تو بس رُوٹھ لیا کرتے ہیں
جس کو برباد کیا اس کے فداکاروں نے
ہم اب اس شہر کی رُوداد سنا کرتے ہیں
شام ہو یا کہ سحر اب خس و خاشاک کو ہم
نزرِ پُرمایگئ جیبِ صبا کرتے ہیں
جن کو مُفتی سے کدورت ہو نہ ساقی سے گِلہ
وہی خوش وقت مری جان رہا کرتے ہیں
ایک پہنائے عبث ہے جسے عالم کہیے
ہو کوئی اس کا خدا ہم تو دعا کرتے ہیں
جون ایلیا

اس سے رشتہ ہی کیا رہا میرا

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 9
ذکر بھی اس سے کیا بَھلا میرا
اس سے رشتہ ہی کیا رہا میرا
آج مجھ کو بہت بُرا کہہ کر
آپ نے نام تو لیا میرا
آخری بات تم سے کہنا ہے
یاد رکھنا نہ تم کہا میرا
اب تو کچھ بھی نہیں ہوں میں ویسے
کبھی وہ بھی تھا مبتلا میرا
وہ بھی منزل تلک پہنچ جاتا
اس نے ڈھونڈا نہیں پتا میرا
تُجھ سے مُجھ کو نجات مِل جائے
تُو دُعا کر کہ ہو بَھلا میرا
کیا بتاؤں بچھڑ گیا یاراں
ایک بلقیس سے سَبا میرا
جون ایلیا

وار جب کرتے ہیں منھ پھیر لیا کرتے ہیں

دیوان ششم غزل 1853
طرفہ خوش رو دم خوں ریز ادا کرتے ہیں
وار جب کرتے ہیں منھ پھیر لیا کرتے ہیں
عشق کرنا نہیں آسان بہت مشکل ہے
چھاتی پتھر کی ہے ان کی جو وفا کرتے ہیں
شوخ چشمی تری پردے میں ہے جب تک تب تک
ہم نظر باز بھی آنکھوں کی حیا کرتے ہیں
نفع بیماری عشقی کو کرے سو معلوم
یار مقدور تلک اپنی دوا کرتے ہیں
آگ کا لائحہ ظاہر نہیں کچھ لیکن ہم
شمع تصویر سے دن رات جلا کرتے ہیں
اس کے قربانیوں کی سب سے جدا ہے رہ و رسم
اول وعدہ دل و جان فدا کرتے ہیں
رشک ایک آدھ کا جی مارتا ہے عاشق کا
ہر طرف اس کو تو دو چار دعا کرتے ہیں
بندبند ان کے جدا دیکھوں الٰہی میں بھی
میرے صاحب کو جو بندے سے جدا کرتے ہیں
دل کو جانا تھا گیا رہ گیا ہے افسانہ
روز و شب ہم بھی کہانی سی کہا کرتے ہیں
واں سے یک حرف و حکایت بھی نہیں لایا کوئی
یاں سے طومار کے طومار چلا کرتے ہیں
بودو باش ایسے زمانے میں کوئی کیونکے کرے
اپنی بدخواہی جو کرتے ہیں بھلا کرتے ہیں
حوصلہ چاہیے جو عشق کے آزار کھنچیں
ہر ستم ظلم پہ ہم صبر کیا کرتے ہیں
میر کیا جانے کسے کہتے ہیں واشد وے تو
غنچہ خاطر ہی گلستاں میں رہا کرتے ہیں
میر تقی میر

پیر فقیر اس بے دنداں کو ان نے دنداں مزد دیا

دیوان ششم غزل 1806
آج اس خوش پرکار جواں مطلوب حسین نے لطف کیا
پیر فقیر اس بے دنداں کو ان نے دنداں مزد دیا
آنسو کی بوند آنکھوں سے دونوں اب تو نکلتی ایک نہیں
دل کے طپیدن روز و شب نے خوب جگر کا لوہو پیا
مرتے جیسے صبر کیا تھا ویسی ہی بے صبری کی
ہائے دریغ افسوس کوئی دن اور نہ یہ بیمار جیا
ہاتھ رکھے رہتا ہوں دل پر برسوں گذرے ہجراں میں
ایک دن ان نے گلے سے مل کر ہاتھ میں میرا دل نہ لیا
میر تقی میر

کیا کیا کڑھایا جی سے مارا لوہو پیا افسوس افسوس

دیوان پنجم غزل 1633
کیا کیا تم نے ہم سے کہا تھا کچھ نہ کیا افسوس افسوس
کیا کیا کڑھایا جی سے مارا لوہو پیا افسوس افسوس
نور چراغ جان میں تھا کچھ یوں ہی نہ آیا لیکن وہ
گل ہو ہی گیا آخر کو یہ بجھتا سا دیا افسوس افسوس
رخصت میں پابوس کی سب کے جی جاتا تھا سوان نے
ہاتھ میں عاشق وارفتہ کا دل نہ لیا افسوس افسوس
میر کی آنکھیں مندنے پر وہ دیکھنے آیا تھا ظالم
اور بھی یہ بیمار محبت ٹک نہ جیا افسوس افسوس
میر تقی میر

تب دل کے تئیں خوگر اندوہ کیا ہے

دیوان دوم غزل 1029
کئی برسوں جگر کا ہی لہو اپنا پیا ہے
تب دل کے تئیں خوگر اندوہ کیا ہے
ڈر کیوں نہ محلے میں رہے رونے سے میرے
سیلاب نے اس کوچے میں گھر مول لیا ہے
افسوس ہے نشمردہ قدم تم جو رکھو یاں
اس راہ میں سر یاروں نے ہر گام دیا ہے
کاہش ہے عبث تم کو مرے جینے کی خاطر
بیمار بھلا ایسا کوئی آگے جیا ہے
پلکوں سے رفو ان نے کیا چاک دل میر
کس زخم کو کس نازکی کے ساتھ سیا ہے
میر تقی میر

کیا کہہ کے تجھ کو روویں یہ کیا کیا پیارے

دیوان دوم غزل 968
میر ایک دم نہ اس بن تو تو جیا پیارے
کیا کہہ کے تجھ کو روویں یہ کیا کیا پیارے
رنگین ہم تو تجھ کو ایسا نہ جانتے تھے
تو نے تو عاشقوں کا لوہو پیا پیارے
دل کے تو زخم کا کچھ ہوتا نہیں تدارک
گو چاک سینہ تو نے میرا سیا پیارے
اس دام گاہ میں ہم جوں صید نیم بسمل
تڑپے بہت پہ تو نے کب دل لیا پیارے
ہو داغ میر تجھ بن مر بھی گیا ولے تو
آیا نہ گور پر ٹک لے کر دیا پیارے
میر تقی میر

گل پھول دیکھنے کو بھی ٹک اٹھ چلا کرو

دیوان دوم غزل 928
جوں غنچہ میر اتنے نہ بیٹھے رہا کرو
گل پھول دیکھنے کو بھی ٹک اٹھ چلا کرو
جوں نے نہ زارنالی سے ہم ایک دم رہیں
تم بند بند کیوں نہ ہمارا جدا کرو
سوتے کے سوتے یوں ہی نہ رہ جائیں ہم کبھو
آنکھیں ادھر سے موند نہ اپنی لیا کرو
سودے میں اس کے بک گئے ایسے کئی ہزار
یوسفؑ کا شور دور ہی سے تم سنا کرو
ہوتے ہو بے دماغ تو دیکھو ہو ٹک ادھر
غصے ہی ہم پہ کاش کے اکثر رہا کرو
یہ اضطراب دیکھ کہ اب دشمنوں سے بھی
کہتا ہوں اس کے ملنے کی کچھ تم دعا کرو
دم رکتے ہیں سیاہی مژگاں ہی دیکھ کر
سرمہ لگا کے اور ہمیں مت خفا کرو
پورا کریں ہیں وعدے کو اپنے ہم آج کل
وعدے کے تیں وصال کے تم بھی وفا کرو
دشمن ہیں اپنے جی کے تمھارے لیے ہوئے
تم بھی حقوق دوستی کے کچھ ادا کرو
اپنا چلے تو آپھی ستم سب اٹھایئے
تم کون چاہتا ہے کسو پر جفا کرو
ہر چند ساتھ جان کے ہے عشق میر لیک
اس درد لاعلاج کی کچھ تو دوا کرو
میر تقی میر

اشک فقط کا جھمکا آنکھوں سے لگ رہا تھا

دیوان اول غزل 119
لخت جگر تو اپنے یک لخت روچکا تھا
اشک فقط کا جھمکا آنکھوں سے لگ رہا تھا
دامن میں آج دیکھا پھر لخت میں لے آیا
ٹکڑا کوئی جگر کا پلکوں میں رہ گیا تھا
اس قید جیب سے میں چھوٹا جنوں کی دولت
ورنہ گلا یہ میرا جوں طوق میں پھنسا تھا
مشت نمک کی خاطر اس واسطے ہوں حیراں
کل زخم دل نہایت دل کو مرے لگا تھا
اے گرد باد مت دے ہر آن عرض وحشت
میں بھی کسو زمانے اس کام میں بلا تھا
بن کچھ کہے سنا ہے عالم سے میں نے کیا کیا
پر تونے یوں نہ جانا اے بے وفا کہ کیا تھا
روتی ہے شمع اتنا ہر شب کہ کچھ نہ پوچھو
میں سوز دل کو اپنے مجلس میں کیوں کہا تھا
شب زخم سینہ اوپر چھڑکا تھا میں نمک کو
ناسور تو کہاں تھا ظالم بڑا مزہ تھا
سر مار کر ہوا تھا میں خاک اس گلی میں
سینے پہ مجھ کو اس کا مذکور نقش پا تھا
سو بخت تیرہ سے ہوں پامالی صبا میں
اس دن کے واسطے میں کیا خاک میں ملا تھا
یہ سرگذشت میری افسانہ جو ہوئی ہے
مذکور اس کا اس کے کوچے میں جابجا تھا
سن کر کسی سے وہ بھی کہنے لگا تھا کچھ کچھ
بے درد کتنے بولے ہاں اس کو کیا ہوا تھا
کہنے لگا کہ جانے میری بلا عزیزاں
احوال تھا کسی کا کچھ میں بھی سن لیا تھا
آنکھیں مری کھلیں جب جی میر کا گیا تب
دیکھے سے اس کو ورنہ میرا بھی جی جلا تھا
میر تقی میر

لیکن اٹھی نہیں کوئی چشمِ سوالیا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 2
مدت کے بعد گاؤں میں آیا ہے ڈاکیا
لیکن اٹھی نہیں کوئی چشمِ سوالیا
رہنے کو آئی تھی کوئی زہرہ جبیں مگر
دل کا مکان درد نے خالی نہیں کیا
جو زندگی کی آخری ہچکی پہ گل ہوئی
اک شخص انتظار کی اس رات تک جیا
پوچھی گئی کسی سے جب اس کی کوئی پسند
آہستگی سے اس نے مرا نام لے لیا
تارے بجھے تمام، ہوئی رات راکھ راکھ
لیکن مزارِ چشم پہ جلتا رہا دیا
تکیے پہ بُن رہا ہے ترا شاعرِ فراق
منصور موتیوں سے محبت کا مرثیہ
منصور آفاق

تُساں تے بس ذہن وچ، اپنا آپ ائی پالیا

ماجد صدیقی (پنجابی کلام) ۔ غزل نمبر 91
ماجدُ جیہے فقیر نوں، تُساں کدوں خیالیا
تُساں تے بس ذہن وچ، اپنا آپ ائی پالیا
بنجر خشک زمین سی، دل دا ویہڑا موکلا
زخماں سیڑی اکھ نوں، واواں وچ اُچھالیا
ہریاں بھریاں کھیتیاں، تینوں تک لِلہاوندیاں
کدے نہ کُھل کے وسیوں، مستیا بدلا کالیا
اُڈ اُڈ جاندی ریت سی، کھُل کھُل جاندا بھیت سی
تیز ہوا دے زور وچ کنّھوں کول بٹھا لیا
دکھ دی رات پہاڑ جیہی، اوہدی تاہنگ اجاڑ جیہی
گرمی سی کجھ ہاڑ جیہی، جو کونہ وی بھالیا
سِکھّاں کیہڑی جھوک توں، میں ابجد تدبیر دی
کجھ تے منہ تے لیان دے ہوٹھیں وجیا تالیا
سُنداواں توں بوہڑدائیں، سولی چڑھے مسیحؑ نوں
میری وی لج رکھ لَے، کرماں بھرماں والیا
ماجد صدیقی (پنجابی کلام)