ٹیگ کے محفوظات: لہر

جینے کی دوا پائی اُسی زہر میں ہم نے

کھینچا تھا کبھی غم جو تِرے شہر میں ہم نے
جینے کی دوا پائی اُسی زہر میں ہم نے
جانا یہ بالآخر کہ نبھانا نہیں ممکن
وہ عہد کیا ہو گا کسی لہر میں ہم نے
جو اِتنی کٹھن رات کی کاوش کا ثمر تھی
اُس صبح کو دیکھا نہیں دوپہر میں ہم نے
ہے کونسا گوشہ جو نظر میں نہیں اپنی
اک عُمر گزاری ہے اِسی شہر میں ہم نے
گھبرا گئے بس تم تو کنارے ہی پہ باصرِؔ
ہاں تیرنا سیکھا تھا اِسی نہر میں ہم نے
باصر کاظمی

دل خرابہ جیسے دلی شہر ہے

دیوان پنجم غزل 1775
دیدئہ گریاں ہمارا نہر ہے
دل خرابہ جیسے دلی شہر ہے
آندھی آئی ہو گیا عالم سیاہ
شور نالوں کا بلاے دہر ہے
دل جو لگتا ہے تڑپنے ہر زماں
اک قیامت ہے غضب ہے قہر ہے
بہ نہیں ہوتا ہے زخم اس کا لگا
آب تیغ یار یکسر زہر ہے
یاد زلف یار جی مارے ہے میر
سانپ کے کاٹے کی سی یہ لہر ہے
میر تقی میر

جیسے ماہی ہے مجھے سیر و سفر پانی میں

دیوان دوم غزل 874
اشک کے جوش سے ہوں شام و سحر پانی میں
جیسے ماہی ہے مجھے سیر و سفر پانی میں
شب نہاتا تھا جو وہ رشک قمر پانی میں
گتھی مہتاب سے اٹھتی تھی لہر پانی میں
ساتھ اس حسن کے دیتا تھا دکھائی وہ بدن
جیسے جھمکے ہے پڑا گوہر تر پانی میں
رونے سے بھی نہ ہوا سبز درخت خواہش
گرچہ مرجاں کی طرح تھا یہ شجر پانی میں
موج گریہ کی وہ شمشیر ہے جس کے ڈر سے
جوں کشف خصم چھپا زیر سپر پانی میں
بیٹھنے سے کسو دل صاف کے سر مت تو چڑھے
خوب سا کر لے تامل تو اتر پانی میں
آتش عشق نے راون کو جلا کر مارا
گرچہ لنکا سا تھا اس دیو کا گھر پانی میں
جوشش اشک میں شب دل بھی گیا سینے سے
کچھ نہ معلوم ہوا ہائے اثر پانی میں
بردباری ہی میں کچھ قدر ہے گو جی ہو فنا
عود پھر لکڑی ہے ڈوبے نہ اگر پانی میں
چشم تر ہی میں رہے کاش وہ روے خوش رنگ
پھول رہتا ہے بہت تازہ و تر پانی میں
روئوں تو آتش دل شمع نمط بجھتی نہیں
مجھ کو لے جاکے ڈبو دیویں مگر پانی میں
گریۂ زار میں بیتابی دل طرفہ نہیں
سینکڑوں کرتے ہیں پیراک ہنر پانی میں
برگ گل جوں گذر آب سے آتے ہیں چلے
رونے سے ووہیں مرے لخت جگر پانی میں
محو کر آپ کو یوں ہستی میں اس کی جیسے
بوند پانی کی نہیں آتی نظر پانی میں
وہ گہر آنکھ سے جاوے تو تھمے آنسو میر
اتنا رویا ہوں کہ ہوں تا بہ کمر پانی میں
میر تقی میر

صورت حال تجھے آپھی نظر آوے گی

دیوان اول غزل 459
میری پرسش پہ تری طبع اگر آوے گی
صورت حال تجھے آپھی نظر آوے گی
محو اس کا نہیں ایسا کہ جو چیتے گا شتاب
اس کے بے خود کی بہت دیر خبر آوے گی
کتنے پیغام چمن کو ہیں سو دل میں ہیں گرہ
کسو دن ہم تئیں بھی باد سحر آوے گی
ابر مت گور غریباں پہ برس غافل آہ
ان دل آزردوں کے جی میں بھی لہر آوے گی
میر میں جیتوں میں آئوں گا اسی دن جس دن
دل نہ تڑپے گا مرا چشم نہ بھر آوے گی
میر تقی میر

اُترے وُہ آفتاب لہو کے سپہر سے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 65
سایوں سے ہو کر برہنہ زمیں جس کے قہر سے
اُترے وُہ آفتاب لہو کے سپہر سے
نشے کے شہ نشین پہ کچھ دیر بیٹھ کر
آؤ نا انتقام لیا جائے دیر سے
ہرچند دی خرام کی مہلت ہواؤں نے
لیکن خراجِ مرگ لیا لہر لہر سے
بنجر پڑی ہوئی ہے زمیں جسم و جان کی
سیراب کر اسے کبھی سانسوں کی نہر سے
کب تک بچے گا اپنے تعاقب سے دیکھئے
لے کر مزاجِ شہر، وُہ نکلا ہے شہر سے
ہے جامِ خوابِ عشرت فردا بہت، مجھے
میں مر نہیں سکا ہوں کسی دکھ کے زہر سے
آفتاب اقبال شمیم

خونِ تمنا دریا دریا، دریا دریا عیش کی لہر

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 3
زنداں زنداں شورِ انالحق، محفل محفل قلقلِ مے
خونِ تمنا دریا دریا، دریا دریا عیش کی لہر
دامن دامن رُت پھولوں کی، آنچل آنچل اشکوں کی
قریہ قریہ جشن بپا ہے، ماتم شہر بہ شہر
قطعہ
فیض احمد فیض

اسے بھی چھوڑ دیا شہر کی طرح میں نے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 563
سلوک خود سے کیا دھر کی طرح میں نے
اسے بھی چھوڑ دیا شہر کی طرح میں نے
گزار دی ہے طلب کی سلگتی گلیوں میں
تمام زندگی دوپہر کی طرح میں نے
اُس ایک لفظ سے نیلاہٹیں ابھرآئی
اتار دل میں لیا زہر کی طرح میں نے
بسر کیا ہے جدائی کی تلخ راتوں میں
اسے بھی مرگ نما قہر کی طرح میں نے
وہ بند توڑنے والا تھا ، چشمۂ احساس
بہا دیا ہے کسی نہر کی طرح میں نے
وہ چل رہی تھی سمندرکی ریت پر منصور
جسے سمیٹ لیا لہر کی طرح میں نے
منصور آفاق

موج میں لہر میں ہم برہنہ ہوئے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 507
کشف کے قہر میں ہم برہنہ ہوئے
موج میں لہر میں ہم برہنہ ہوئے
رنگ گرتے رہے رقصِ مجذوب پر
نور کی نہر میں ہم برہنہ ہوئے
دیکھنے والا کوئی دکھائی نہ دے
اس لئے شہر میں ہم برہنہ ہوئے
واعظِ سگ بیاں سے نکلتی ہوئی
جھاگ کے زہر میں ہم برہنہ ہوئے
اک ابھی خاک سے شخص ڈھانپا گیا
اور پھر دہر میں ہم برہنہ ہوئے
اسم اللہ کا بس تصور کیا
پھر اُسی سحر میں ہم برہنہ ہوئے
ایک چہرہ اچانک گریزاں ہوا
غم کی دوپہر میں ہم برہنہ ہوئے
اور کیا کہتے منصور طوفان سے
شورشِ بحر میں ہم برہنہ ہوئے
منصور آفاق

یا فر اوہدے قد تے، دھوکا سی کجھ لہر دا

ماجد صدیقی (پنجابی کلام) ۔ غزل نمبر 117
ہے سی ٹھاٹھاں مار دا، جوبن چڑھیا قہر دا
یا فر اوہدے قد تے، دھوکا سی کجھ لہر دا
ایہہ کی میں پیا ویکھناں، گُجھے درد حبیب توں
بازی لے لے جاوندا، دُکھڑا اک اک دہر دا
لگدا سی کر دئے گا، تھالی جنج دریاں نوں
پانی کنڈھیاں نال سی، مڑ مڑ کے اِنج کھیہر دا
اکھیاں وچ برسات جیہی، سرتے کالی رات جیہی
دل وچ اوہدی جھات جیہی، نقشہ بھری دوپہر دا
اکو سوہجھ خیال سی، چلدا نالوں نال سی
فکراں وچ ابال سی، قدم نئیں سی ٹھہر دا
سینے دے وچ چھیک سی‘ ڈاہڈا مِٹھڑا سیک سی
دل نوں اوہدی ٹیک سی، رنگ ائی ہورسی شہر دا
آئی تے اوہدے نال سی، پھُٹڈی پوہ وساکھ دی
گئی تے ماجدُ مکھ تے، سماں سی پچھلے پہر دا
ماجد صدیقی (پنجابی کلام)

جیئوڑا کلھیوں سہکدا، نپیا کیہڑے قہر نُوں

ماجد صدیقی (پنجابی کلام) ۔ غزل نمبر 37
جنگل سی اِک چُپ دا، راہ نئیں سی کوئی شہر نُوں
جیئوڑا کلھیوں سہکدا، نپیا کیہڑے قہر نُوں
انگ نہ میرے ٹولنا، میں ہاں اگ شباب دی
جپھیاں پا پا گھتیا، جھولی بھری دُپہر نُوں
ورقہ سی اِک کڑکنا، جس تے وَج وجائیکے کے
ہتھاں نال لکیریا، دل چوں اُٹھدی لہر نُوں
ہوٹھاں دی اِک سانجھ سی، مِہنہ بن گئی روز دا
راہی سی کوئی راہ جاوندا، رُکیا پہر دُپہر نُوں
تُوں کنڈھا ایں ماجداُ، دُھپاں پالے ساڑیا
رُل گئی وچ سمندراں، لبھدا سَیں جس لہر نُوں
ماجد صدیقی (پنجابی کلام)