ٹیگ کے محفوظات: لہرانے

زاغ جُتے دیکھے، پس خوردہ کھانے میں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 28
فرق نہ سمجھیں کچھ دھُتکارے جانے میں
زاغ جُتے دیکھے، پس خوردہ کھانے میں
پیڑ بحالِ ضعف بھی ہے مسرور لگا
خشک زبانوں کے پرچم لہرانے میں
پر ٹُوٹے اور ساتھ ہوا نے چھوڑ دیا
سطر بڑھا دو یہ بھی اب افسانے میں
لو اس کو بھی تکڑی تول جو رکھتا تھا
وقت نے دیر نہ کی عادل ٹھہرانے میں
اپنی جگہ امید سے پیروکار سبھی
رہبر محو ہے ماجد، مال بنانے میں
ماجد صدیقی

وہ ستمگر پھر ڈگر پہلی سی اپنانے لگا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 36
زچ ہوئے پر جو ذرا سا تھا بدل جانے لگا
وہ ستمگر پھر ڈگر پہلی سی اپنانے لگا
بچ کے پچھلے دشت میں نکلے تھے جس کے سِحر سے
پھر نگاہوں میں وہی اژدر ہے لہرانے لگا
کر کے بوندوں کو بہ فرطِ سرد مہری منجمد
دیکھ لو نیلا گگن پھر زہر برسانے لگا
جُود جتلانے کو اپنی شاہ ہنگامِ سخا
عیب کیا کیا کچھ نہ ناداروں کے دِکھلانے لگا
سُرخرُو اس نے بھی زورآور کو ہی ٹھہرا دیا
حفظِ منصب کو ستم عادل بھی یہ ڈھانے لگا
دل میں تھا ماجدؔ جو سارے دیوتاؤں کے خلاف
اب زباں پر بھی وہ حرفِ احتجاج آنے لگا
ماجد صدیقی

آسماں کیوں ٹوٹ کر نیچے نہیں آنے لگا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 44
دستِ شفقت کیوں بہ حقِ جور بن جانے لگا
آسماں کیوں ٹوٹ کر نیچے نہیں آنے لگا
کھیت جلنے پر بڑھا کر عمر، اپنے سود کی
کس طرح بنیا، کسانوں کو ہے بہلانے لگا
جانے کیا طغیانیاں کرنے لگیں گھیرے درست
گھونسلوں تک میں بھی جن کا خوف دہلانے لگا
خون کس نے خاک پر چھڑکا تھا جس کی یاد میں
اِک پھریرا سا فضاؤں میں ہے لہرانے لگا
مہد میں مٹی کے جھونکا برگِ گل کو ڈال کر
کس صفائی سے اُسے رہ رہ کے سہلانے لگا
ماجد صدیقی

ہم کیوں اپنے ہونے پر شرمانے لگے ہیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 4
جبر وہ کیا ہے جس سے آنکھ چرانے لگے ہیں
ہم کیوں اپنے ہونے پر شرمانے لگے ہیں
نیل کا فرعونوں سے ہُوا جب سے سمجھوتہ
جتنے حقائق تھے سارے افسانے لگے ہیں
غاصب اُس کے ہاتھوں میں بارود تھما کر
لَا وارث بچے کو لو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بہلانے لگے ہیں
دھونس جما کر ہاں ۔ ۔ ۔ ریوڑ سے دُور بھگا کر
بھیڑ یے بھیڑ پہ اپنی دھاک بٹھانے لگے ہیں
وہ جب چاہیں میں اُن کا لقمہ بن جاؤں
جابر مجھ سے عہد نیا ٹھہرانے لگے ہیں
پیروں تلے مسل کے مری رائے کی پرچی
زور آور اپنا پرچم لہرانے لگے ہیں
چندا تو کیا گردشِ وقت کے ہاتھوں اب کے
چاند نگر تک بھی ماجد گہنانے لگے ہیں
ماجد صدیقی

عمر ڈھل جانے لگی اور قرض بڑھ جانے لگے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 35
سر پہ کیا کیا بوجھ روز افزوں نظر آنے لگے
عمر ڈھل جانے لگی اور قرض بڑھ جانے لگے
بحر میں حالات کے، بے رحم موجیں دیکھ کر
اژدہے کچھ اور ہی آنکھوں میں لہرانے لگے
مِہر کے ڈھلنے، نکلنے پر کڑکتی دھوپ سے
گرد کے جھونکے ہمیں کیا کیا نہ سہلانے لگے
تُند خوئی پر ہواؤں کی، بقا کی بھیک کو
برگ ہیں پیڑوں کے کیا کیا، ہاتھ پھیلانے لگے
وحشتِ انساں کبھی خبروں میں یوں غالب نہ تھی
لفظ جو بھی کان تک پہنچے وہ دہلانے لگے
چھُو کے وسطِ عمر کو ہم بھی شروع عمر کے
ابّ و جدّ جیسے عجب قصّے ہیں دہرانے لگے
اینٹ سے ماجدؔ نیا ایکا دکھا کر اینٹ کا
جتنے بَونے تھے ہمیں نیچا وہ دکھلانے لگے
ماجد صدیقی

پتا پتا موسمِ گل بھی بکھر جانے لگا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 30
اے صنم اب اور کس رُت میں ہے تُو آنے لگا
پتا پتا موسمِ گل بھی بکھر جانے لگا
تُوبھی ایسی کوئی فرمائش کبھی ہونٹوں پہ لا
دیکھ بھنورا کس طرح پھولوں کو سہلانے لگا
تُوبھی ایسے میں مرے آئینۂ دل میں اتر
چند رماں بھی دیکھ پھر جھیلوں میں لہرانے لگا
میں بھلاکب اہل، تجھ سے یہ شرف پانے کا ہوں
تُو بھلا کیوں حسن کاہُن ،مجھ پہ برسانے لگا
عندلیبوں کو گلاب اور تُومجھے مل جائے گا
موسم گل، دیکھ! کیا افواہ پھیلانے لگا
ماجد صدیقی

ہم کیوں اپنے ہونے پر شرمانے لگے ہیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 43
جبر وہ کیا ہے جس سے آنکھ چرانے لگے ہیں
ہم کیوں اپنے ہونے پر شرمانے لگے ہیں
نیل کا فرعونوں سے ہُوا جب سے سمجھوتہ
جتنے حقائق تھے سارے افسانے لگے ہیں
غاصب اُس کے ہاتھوں میں بارود تھما کر
لَا وارث بچے کو لو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بہلانے لگے ہیں
دھونس جما کر ہاں ۔ ۔ ۔ ریوڑ سے دُور بھگا کر
بھیڑ یے بھیڑ پہ اپنی دھاک بٹھانے لگے ہیں
وہ جب چاہیں میں اُن کا لقمہ بن جاؤں
جابر مجھ سے عہد نیا ٹھہرانے لگے ہیں
پیروں تلے مسل کے مری رائے کی پرچی
زور آور اپنا پرچم لہرانے لگے ہیں
چندا تو کیا گردشِ وقت کے ہاتھوں اب کے
چاند نگر تک بھی ماجد گہنانے لگے ہیں
ماجد صدیقی