ٹیگ کے محفوظات: لگی

عشق ہوتا تو کوئی بات بھی تھی

آج تو بے سبب اُداس ہے جی
عشق ہوتا تو کوئی بات بھی تھی
جلتا پھرتا ہوں میں دوپہروں میں
جانے کیا چیز کھو گئی میری
وہیں پھرتا ہوں میں بھی خاک بسر
اس بھرے شہر میں ہے ایک گلی
چھپتا پھرتا ہے عشق دُنیا سے
پھیلتی جا رہی ہے رُسوائی
ہم نشیں کیا کہوں کہ وہ کیا ہے
چھوڑ یہ بات نیند اُڑنے لگی
آج تو وہ بھی کچھ خموش سا تھا
میں نے بھی اُس سے کوئی بات نہ کی
ایک دم اُس کے ہونٹ چوم لیے
یہ مجھے بیٹھے بیٹھے کیا سوجھی
ایک دم اُس کا ہاتھ چھوڑ دیا
جانے کیا بات درمیاں آئی
تو جو اِتنا اُداس ہے ناصر
تجھے کیا ہو گیا بتا تو سہی
ناصر کاظمی

چاند خود محوِ چاندنی ہے آج

یوں فضا آئنہ بنی ہے آج
چاند خود محوِ چاندنی ہے آج
جس سے ملنے کو میں ترستا تھا
اُس نے خود مجھ سے بات کی ہے آج
کتنی مدت کے بعد لوگوں نے
کوئی سچی خبر سنی ہے آج
ایک بھی آشیاں نہیں محفوظ
آگ کچھ اِس طرح لگی ہے آج
آنکھ دھندلا گئی تو غم کیسا
دلِ پرشوق تو وہی ہے آج
صاف ظاہر ہے تیری صورت سے
تیری نیت بدل گئی ہے آج
باصر کاظمی

اک سارے تن بدن میں مرے پھک رہی ہے آگ

دیوان دوم غزل 847
کیا عشق خانہ سوز کے دل میں چھپی ہے آگ
اک سارے تن بدن میں مرے پھک رہی ہے آگ
گلشن بھرا ہے لالہ و گل سے اگرچہ سب
پر اس بغیر اپنے تو بھائیں لگی ہے آگ
پائوں میں پڑ گئے ہیں پھپھولے مرے تمام
ہر گام راہ عشق میں گویا دبی ہے آگ
جل جل کے سب عمارت دل خاک ہو گئی
کیسے نگر کو آہ محبت نے دی ہے آگ
اب گرم و سرد دہر سے یکساں نہیں ہے حال
پانی ہے دل ہمارا کبھی تو کبھی ہے آگ
کیونکر نہ طبع آتشیں اس کی ہمیں جلائے
ہم مشت خس کا حکم رکھیں وہ پری ہے آگ
کب لگ سکے ہے عشق جہاں سوز کو ہوس
ماہی کی زیست آب سمندر کا جی ہے آگ
روز ازل سے آتے ہیں ہوتے جگر کباب
کیا آج کل سے عشق کی یارو جلی ہے آگ
انگارے سے نہ گرتے تھے آگے جگر کے لخت
جب تب ہماری گود میں اب تو بھری ہے آگ
یارب ہمیشہ جلتی ہی رہتی ہیں چھاتیاں
یہ کیسی عاشقوں کے دلوں میں رکھی ہے آگ
افسردگی سوختہ جاناں ہے قہر میر
دامن کو ٹک ہلا کہ دلوں کی بجھی ہے آگ
میر تقی میر

ننگی تلواریں ہیں دونوں وہ کوئی آنکھیں ہیں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 376
رات جن کاجلی آنکھوں سے لڑی آنکھیں ہیں
ننگی تلواریں ہیں دونوں وہ کوئی آنکھیں ہیں
آنکھ جھپکوں تو نکل آتی ہیں دیواروں سے
میرے کمرے میں دو آسیب بھری آنکھیں ہیں
ہجر کی جھیل ترا دکھ بھی ہے معلوم مگر
یہ کوئی نہر نہیں ہے یہ مری آنکھیں ہیں
دیکھتے ہیں کہ یہ سیلاب اترتا کب ہے
دیر سے ایک ہی پانی میں کھڑی آنکھیں ہیں
جن کی مژگاں پہ نمی دیکھ کے تُو روتی تھی
تیز بارش میں ترے در پہ وہی آنکھیں ہیں
کون بچھڑا ہے کہ گلیوں میں مرے چاروں طرف
غم زدہ چہرے ہیں او ر ر وتی ہوئی آنکھیں ہیں
انتظاروں کی دو شمعیں ہیں کہ بجھتی ہی نہیں
میری دہلیز پہ برسوں سے دھری آنکھیں ہیں
اب ٹھہر جا اے شبِ غم کہ کئی سال کے بعد
اک ذرا دیر ہوئی ہے یہ لگی آنکھیں ہیں
باقی ہر نقش اُسی کا ہے مرے سنگ تراش
اتنا ہے اس کی ذرا اور بڑی آنکھیں ہیں
خوف آتا ہے مجھے چشمِ سیہ سے منصور
دیکھ تو رات کی یہ کتنی گھنی آنکھیں ہیں
منصور آفاق

میں روتا ہوں، اس کو ہنسی سوجھتی ہے

امیر مینائی ۔ غزل نمبر 49
جو کچھ سوجھتی ہے نئی سوجھتی ہے
میں روتا ہوں، اس کو ہنسی سوجھتی ہے
تمہیں حور اے شیخ جی سوجھتی ہے
مجھے رشک حور اک پری سوجھتی ہے
یہاں تو میری جان پر بن رہی ہے
تمہیں جانِ من دل لگی سوجھتی ہے
جو کہتا ہوں ان سے کہ آنکھیں ملاؤ
وہ کہتے ہیں تم کو یہی سوجھتی ہے
یہاں تو ہے آنکھوں میں اندھیر دنیا
وہاں ان کو سرمہ مسی سوجھتی ہے
جو کی میں نے جوبن کی تعریف بولے
تمہیں اپنے مطلب کی ہی سوجھتی ہے
امیر ایسے ویسے تو مضموں ہیں لاکھوں
نئی بات کوئی کبھی سوجھتی ہے
امیر مینائی