ٹیگ کے محفوظات: لڑی

نَظَر نے جھُکنا ابھی تَو سیکھا ہے جب سے یہ کچھ بڑی ہُوئی ہے

اَزَل سے حُسن اَور چَشمِ حیَراں کو اپنی اپنی پڑی ہُوئی ہے
نَظَر نے جھُکنا ابھی تَو سیکھا ہے جب سے یہ کچھ بڑی ہُوئی ہے
ضمیرِ انساں نے حَدِّ امکاں کی رفعتوں پر پُہنچ کے دیکھا
جِلَو میں اس کے کوئی نہ کوئی اِک آرزو بھی کھَڑی ہُوئی ہے
بَتائے کوزہ گروں کو کوئی کہ زینتِ چاک اَور کیا ہے
وہ مُشتِ خاک اُن کے راستوں میں جو ہر قَدَم پر پَڑی ہُوئی ہے
یہ رُوح و تَن کا مُناقَشہ جو اَزَل سے ہے تا اَبَد رہے گا
نہ رُوح بھاگی نہ تَن دَبا ہے نَظَر نَظَر سے لَڑی ہُوئی ہے
یہ احسن الخلق یا اِلٰہی کہیں نہ ہو سعیِ رایگاں ہی
کہ اس کی فطرت جہاں تھی پہلے وَہیں ابھی تک گَڑی ہُوئی ہے
ہُوئی نہ باغِ عَدَم میں سَرزَد خَطا کَبھی کوئی ہَم سے ضامنؔ
ہُوئی بھی ہو تَو یہ قیدِ ہَستی سَزا زِیادَہ کَڑی ہُوئی ہے
ضامن جعفری

ہر شاخ گل چمن میں بھیچک ہوئی کھڑی ہے

دیوان دوم غزل 1045
کس فتنہ قد کی ایسی دھوم آنے کی پڑی ہے
ہر شاخ گل چمن میں بھیچک ہوئی کھڑی ہے
واشد ہوئی نہ بلبل اپنی بہار میں بھی
کیا جانیے کہ جی میں یہ کیسی گل جھڑی ہے
نادیدنی دکھاوے کیونکر نہ عشق ہم کو
کس فتنۂ زماں سے آنکھ اپنی جا لڑی ہے
وے دن گئے کہ پہروں کرتے نہ ذکر اس کا
اب نام یار اپنے لب پر گھڑی گھڑی ہے
آتش سی پھک رہی ہے سارے بدن میں میرے
دل میں عجب طرح کی چنگاری آ پڑی ہے
کیا کچھ ہمیں کو اس کی تلوار کھا گئی ہے
ایسی ہی اک جڑی ہے اس نے جہاں جڑی ہے
کیا میر سر جھکاویں ہر کم بغل کے آگے
نام خدا انھوں کی عزت بہت بڑی ہے
میر تقی میر

وہ طبع تو نازک ہے کہانی یہ بڑی ہے

دیوان دوم غزل 1044
کیا حال بیاں کریے عجب طرح پڑی ہے
وہ طبع تو نازک ہے کہانی یہ بڑی ہے
کیا فکر کروں میں کہ ٹلے آگے سے گردوں
یہ گاڑی مری راہ میں بے ڈول اڑی ہے
ہے چشمک انجم طرف اس مہ کے اشارہ
دیکھو تو مری آنکھ کہاں جاکے لڑی ہے
کیا اپنی شررریزی کہیں پلکوں کی صف کی
ہم جانتے ہیں ہم پہ جو یہ باڑھ جھڑی ہے
وے دن گئے جو پہروں لگی رہتی تھیں آنکھیں
اب یاں ہمیں مہلت کوئی پل کوئی گھڑی ہے
ایسا نہ ہوا ہو گا کوئی واقعہ آگے
اک خواہش دل ساتھ مرے جیتی گڑی ہے
کیا نقش میں مجنوں ہی کے تھی رفتگی عشق
لیلیٰ کی بھی تصویر تو حیران کھڑی ہے
جاتے ہیں چلے متصل آنسو جو ہمارے
ہر تار نگہ آنکھوں میں موتی کی لڑی ہے
کھنچتا ہی نہیں ہم سے قدخم شدہ ہرگز
یہ سست کماں ہاتھ پر اب کتنی کڑی ہے
گل کھائے ہیں افراط سے میں عشق میں اس کے
اب ہاتھ مرا دیکھو تو پھولوں کی چھڑی ہے
وہ زلف نہیں منعکس دیدئہ تر میر
اس بحر میں تہ داری سے زنجیر پڑی ہے
میر تقی میر

شاخ پر اب بھی کوئی پنکھڑی لگ سکتی ہے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 631
آگ میں برگ وسمن کی جھڑی لگ سکتی ہے
شاخ پر اب بھی کوئی پنکھڑی لگ سکتی ہے
یہ بھی ہوسکتا ہے آنے کی خوشی میں اسکے
بام پہ قمقموں کی اک لڑی لگ سکتی ہے
اس کے وعدہ پہ مجھے پورا یقیں ہے لیکن
لوٹ آنے میں گھڑی دو گھڑی لگ سکتی ہے
رک بھی سکتی ہے یہ چلتی ہوئی اپنی گاڑی
میخ ٹائر میں کہیں بھی پڑی لگ سکتی ہے
جب کوئی ساتھ نہ دینے کا ارداہ کر لے
ایک نالی بھی ندی سے بڑی لگ سکتی ہے
دامِ ہمرنگ زمیں غیر بچھا سکتے ہیں
کوچۂ یار میں دھوکا دھڑی لگ سکتی ہے
اِس محبت کے نتائج سے ڈر آتا ہے مجھے
اِس شگوفے پہ کوئی پھلجھڑی لگ سکتی ہے
میں میانوالی سے آسکتاہوں ہر روز یہاں
خوبصورت یہ مجھے روکھڑی لگ سکتی ہے
جرم یک طرفہ محبت ہے ازل سے منصور
اِس تعلق پہ تجھے ہتھکڑی لگ سکتی ہے
منصور آفاق

لیکن نہ میرے ہاتھ کوئی پنکھڑی لگے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 584
باغِ جہاں میں لالہ و گل کی جھڑی لگے
لیکن نہ میرے ہاتھ کوئی پنکھڑی لگے
ہوتی مکین سے ہے مکانوں کی اہمیت
اُس کا نیا محل بھی مجھے جھوپڑی لگے
جو خواب میں دکھائی دے پچھلے سمے مجھے
اس کے بریدہ دھڑ پہ کوئی کھوپڑی لگے
عیار ہی نہیں ہے وہ دلدار نازنیں
کچھ شکل سے بھی رنگ بھری لومڑی لگے
میری گلی میں ہوکوئی تازہ کہکشاں
دوچار قمقموں کی اِ دھر بھی لڑی لگے
ہوتے ہیں بس غریب گرفتار آئے دن
منصور اہلِ زر کو کبھی ہتھکڑی لگے
منصور آفاق

دیکھتی تھی مجھے ٹیرس پہ کھڑی حیرت سے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 541
لوٹ آئی ہوئی اک گزری گھڑی حیرت سے
دیکھتی تھی مجھے ٹیرس پہ کھڑی حیرت سے
کوئی آیا کسی کمرے میں کرامت کی طرح
اور تصویر کوئی بول پڑی حیرت سے
اک بگولے کی طرح اڑتے ہوئے دیکھتی تھی
درد کی دھول کو ساون کی جھڑی حیرت سے
تک رہی تھی کسی بنتے ہوئے ہیکل کے کلس
ایک دیمک زدہ لکڑی کی چھڑی حیرت سے
عشق اسرارِ لب و رخ سے کیا ہجر کی رات
رات بھر اپنی تو بس آنکھ لڑی حیرت سے
جلد میں اتنی بھی ہوتی ہے سفیدی منصور
چھو کے دیکھا تھا اسے میں نے بڑی حیرت سے
منصور آفاق

شہر میں رات کی جھڑی ہے ابھی

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 481
روشنی سائے میں کھڑی ہے ابھی
شہر میں رات کی جھڑی ہے ابھی
دیکھنا ہے اسے مگر اپنی
آنکھ دیوار میں گڑی ہے ابھی
آسماں بھی مرا مخالف ہے
ایک مشکل بہت بڑی ہے ابھی
ایک بجھتے ہوئے تعلق میں
شام کی آخری گھڑی ہے ابھی
ہم سے مایوس آسماں کیا ہو
موتیوں سے زمیں جڑی ہے ابھی
ایک ٹوٹے ہوئے ستارے کی
میرے ہاتھوں میں ہتھکڑی ہے ابھی
موسمِ گل ہے میرے گلشن میں
شاخ پر ایک پنکھڑی ہے ابھی
وہ کھلی ہے گلاب کی کونپل
میری قسمت کہاں سڑی ہے ابھی
سایہء زلف کی تمازت ہے
رات کی دوپہر کڑی ہے ابھی
اس میں بچپن سے رہ رہا ہوں میں
آنکھ جس خواب سے لڑی ہے ابھی
میں کھڑا ہوں کہ میرے ہاتھوں میں
ایک دیمک زدہ چھڑی ہے ابھی
آگ دہکا نصیب میں منصور
برف خاصی گری پڑی ہے ابھی
منصور آفاق

دل کے قہوہ خانے میں بحث بھی بڑی ہوئی

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 439
یاد کے فلور پرچائے ہے پڑی ہوئی
دل کے قہوہ خانے میں بحث بھی بڑی ہوئی
پھانسیوں پہ جھولتی اک خبرہے موت کی
اپنی اپنی طے شدہ سوچ میں گڑی ہوئی
بدمزاج وقت ہے کچھ ملال خیز سا
اختتامِ سال سے شام ہے لڑی ہوئی
آتے جاتے دیکھ کر درد کچھ مرے ہوئے
اک الست مست کی ذات میں جھڑی ہوئی
بولتے تھے عادتاً کم بھرے ہوئے دماغ
دانش و شعور کی شوخ پنکھڑی ہوئی
آتی جاتی گاڑیاں موڑ کاٹنے لگیں
چلتے چلتے وہ گلی روڈ پر کھڑی ہوئی
چلنے والا تار پرمسخروں میں کھو گیا
جب صراطِ وقت پر آخری گھڑی ہوئی
آدمی کے گوشت کی ریشہ رشہ داستاں
صدرِ امن گاہ کے دانت میں اڑی ہوئی
منصور آفاق