ٹیگ کے محفوظات: لطافت

ہاتھ لگتے میلے ہوتے ہو لطافت ہائے رے

دیوان دوم غزل 973
بو کیے کمھلائے جاتے ہو نزاکت ہائے رے
ہاتھ لگتے میلے ہوتے ہو لطافت ہائے رے
یار بے پروا و مفتر اور میں بے اختیار
پیش کچھ جاتی نہیں منت سماجت ہائے رے
سختی کھینچی کوہکن نے قیس نے رنج و تعب
کیا گئی برباد ان یاروں کی محنت ہائے رے
شور اٹھتا ہے جو ہوتے جلوہ گر ہو ناز سے
کھینچنا قد کا بلا آفت قیامت ہائے رے
خانقہ والے ہی کچھ تنہا نہیں الفت میں خوار
کیسے کیسوں کی گئی ہے مفت عزت ہائے رے
عشق میں افسوس سا افسوس اپنا کرچکے
زیر لب کہتے رہے ہم ایک مدت ہائے رے
ریجھنے ہی کے ہے قابل یار کی ترکیب میر
واہ وا رے چشم و ابرو قد و قامت ہائے رے
میر تقی میر

شجر ایسے تعلق کی ضرورت کم نہ ہونے دو

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 226
ہوائے نرم خُو کو اپنی عادت کم نہ ہونے دو
شجر ایسے تعلق کی ضرورت کم نہ ہونے دو
ابھی گلدان میں رہنے دو یہ بکھری ہوئی کلیاں
ابھی اس کے بچھڑنے کی اذیت کم نہ ہونے دو
دئیوں کی لو رکھو اونچی دیارِ درد میں منصور
اندھیروں کے خلاف اپنی بغاوت کم نہ ہونے دو
مرے دھکے ہوئے جذبوں کی شدت کم نہ ہونے دو
تعلق چاہے کم رکھو، محبت کم نہ ہونے دو
ذرا رکھو خیال اپنے نشاط انگیز پیکر کا
مری خاطر لب و رخ کی صباحت کم نہ ہونے دو
مسلسل چلتے رہنا ہو طلسمِ ذات میں مجھ کو
رہو آغوش میں چاہے مسافت کم نہ ہونے دو
مجھے جو کھینچ لاتی ہے تری پُر لمس گلیوں میں
وہ رخساروں کی پاکیزہ ملاحت کم نہ ہونے دو
رکھو موجِ صبا کی وحشتیں جذبوں کے پہلو میں
تلاطم خیز دھڑکن کی لطافت کم نہ ہونے دو
منصور آفاق