منصور آفاق ۔ غزل نمبر 451
بس کسی اعتراض میں رکھ دی
جاں لباس مجاز میں رکھ دی
رات کھولے تھے کچھ پرانے خط
پھر محبت دراز میں رکھ دی
یادِ یاراں نے پھر وہ چنگاری
ایک مردہ محاذ میں رکھ دی
یوں تو سب کچھ کہا مگر اس نے
راز کی بات راز میں رکھ دی
تان لی تھی رقیب پر بندوق
ربطِ جاں کے لحاظ میں رکھ دی
کس نے تیرے خیال کی دھڑکن
دست طبلہ نواز میں رکھ دی
شرٹ ہینگر پہ ٹانک دی میں نے
اور لڑکی بیاض میں رکھ دی
اس نے پستی گناہ کی لیکن
ساعتِ سرفراز میں رکھ دی
مرنے والا نشے میں لگتا تھا
کیسی مستی نماز میں رکھ دی
رات آتش فشاں پہاڑوں کی
اپنے سوز و گداز میں رکھ دی
کس نے سورج مثال تنہائی
میری چشم نیاز میں رکھ دی
داستاں اور اک نئی اس نے
میرے غم کے جواز میں رکھ دی
مسجدوں میں دھمال پڑتی ہے
کیفیت ایسی ساز میں رکھ دی
پھر ترے شاعرِ عجم نے کوئی
نظم صحنِ عکاظ میں رکھ دی
کس نے پہچان حسن کی منصور
دیدۂ عشق باز میں رکھ دی
منصور آفاق