ٹیگ کے محفوظات: لباس

یہ کیا کہ قائم و دائم مرے حواس نہیں؟

افق میں ڈوبتا سورج لگا اداس نہیں
یہ کیا کہ قائم و دائم مرے حواس نہیں؟
میں زرد گرد سی پیلاہٹوں کا عکس سہی
خزاں کی اوڑھنی لیکن مرا لباس نہیں
وہ چہچہاتا پرندہ تو کر گیا ہجرت
مگر وداع سے اس کے کوئی اداس نہیں
یقین اور گماں سب حواس کے دھوکے
میں ہوں بھی یا کہ نہیں ہوں کوئی قیاس نہیں
مجھے بہت ہے مری اپنی ذات کا صحرا
تو بحر ہے کہ ہے دریا۔۔۔ مُجھی کو پیاس نہیں
ملا وہ اشک جو بہنے ہی میں نہیں آیا
ملا وہ درد کہ جس کا کوئی نکاس نہیں
اساسِ عزت و تکریم ہیں حوالے یہاں
اور اپنا ایک حوالہ بھی میرے پاس نہیں
میں عکس ہوں کہ نہیں جس کا کوئی بھی موجود
میں آسمان ہوں میری کوئی اساس نہیں
یاور ماجد

کہ اس نگر میں بجھی مشعلوں کی باس تو ہے

میں خندہ لَب نہ سہی، میرا دل اداس تو ہے
کہ اس نگر میں بجھی مشعلوں کی باس تو ہے
میں اپنے چَاک گریباں پہ مضمحل کیوں ہوں !
اس آئنے میں مری روح بے لباس تو ہے
میں کیوں بُجھاؤں کسی گل کے عارضوں کے چراغ
یہ زدر رنگ میری زندگی کو راس تو ہے
شکیب جلالی

ایک مرکز پہ آگئے ہیں حواس

جب کبھی بڑھ گیا ہے خوف و ہراس
ایک مرکز پہ آگئے ہیں حواس
رات تارے بھی میرے ساتھ رہے
مضمحل مضمحل اُداس اُداس
نرم و نازک سے آبگینے ہیں
ان کی دوشیزگی، مرا احساس
جب اُجالوں کے تیر چلتے ہیں
چاک ہوتا ہے ظُلمتوں کا لباس
چاند کی پُربہار وادی میں
ایک دوشیزہ چُن رہی ہے کپاس
خار تو شہرِ گُل کی رونق تھے!
کس نے خاروں کو دے دیا بن باس
شکیب جلالی

مُرجھا کے آ گرا ہوں مگر سرد گھاس میں

میں شاخ سے اڑا تھا ستاروں کی آس میں
مُرجھا کے آ گرا ہوں مگر سرد گھاس میں
سوچو تو سِلوٹوں سے بھری ہے تمام روح
دیکھو تو اک شکن بھی نہیں ہے لباس میں
صحرا کی بُود و باش ہے‘ اچھی نہ کیوں لگے
سُوکھی ہوئی گلاب کی ٹہنی گلاس میں
چمکے نہیں نظر میں ابھی نقش دُور کے
مصروف ہوں ابھی عملِ اِنعکاس میں
دھوکے سے اس حسیں کو اگر چُوم بھی لیا
پاؤ گے دل کا زہر لَبوں کی مٹھاس میں
تارہ کوئی رِدائے شبِ ابر میں نہ تھا
بیٹھا تھا میں اداس بیابانِ یاس میں
جُوئے روانِ دشت! ابھی سُوکھنا نہیں
ساون ہے دُور اور وہی شدّت ہے پیاس میں
رہتا تھا سامنے ترا چہرہ کھلا ہُوا
پڑھتا تھا میں کتاب یہی ہر کلاس میں
کانٹوں کی باڑ پھاند گیا تھا مگر‘ شکیبؔ
رستہ نہ مل سکا مجھے پھولوں کی باس میں
شکیب جلالی

وہ آئینہ ہوں جسے روشنی ہی راس نہ ہو

کسی بھی رنگ کا، پیکر کا انعکاس نہ ہو
وہ آئینہ ہوں جسے روشنی ہی راس نہ ہو
مجھے تو ایسے ہراک آدمی پہ حیرت ہے
جو ایسے دور میں زندہ تو ہو، اُداس نہ ہو
اُس ایک رات کو یوں عمر پر محیط کیا
کہ جیسے پوری کہانی ہو، اقتباس نہ ہو
غزل میں رمز و کنایہ بہت ضروری ہے
یہی تو حسن ہے غم کا کہ بے لباس نہ ہو
یہ خود اذیتی یہ بے دلی یہ کم سخنی
یہ حال ہوتا جب رنج کا نکاس نہ ہو
عرفان ستار

آج دیکھا انہیں اُداس بہت

کل جنھیں زِندگی تھی راس بہت
آج دیکھا انہیں اُداس بہت
رفتگاں کا نشاں نہیں ملتا
اُگ رہی ہے زمیں پہ گھاس بہت
کیوں نہ روؤُں تری جدائی میں
دِن گزارے ہیں تیرے پاس بہت
چھاؤں مل جائے دامنِ گل کی
ہے غریبی میں یہ لباس بہت
وادیٔ دل میں پاؤں دیکھ کے رکھ
ہے یہاں درد کی اُگاس بہت
سوکھے پتوں کو دیکھ کر ناصر
یاد آتی ہے گل کی باس بہت
ناصر کاظمی

بہت ملول تھا میں بھی، اداس تھا وہ بھی

احمد فراز ۔ غزل نمبر 98
عجیب رت تھی کہ ہر چند پاس تھا وہ بھی
بہت ملول تھا میں بھی، اداس تھا وہ بھی
کسی کے شہر میں کی گفتگو ہواؤں سے
یہ سوچ کر کہ کہیں آس پاس تھا وہ بھی
ہم اپنے زعم میں خوش تھے کہ اس کو بھول چکے
مگر گمان تھا یہ بھی، قیاس تھا وہ بھی
کہاں ہے اب غم دنیا، کہاں ہے اب غم جاں
وہ دن بھی تھے کہ ہمیں یہ بھی راس تھا وہ بھی
فراز تیرے گریباں پہ کل جو ہنستا تھا
اسے ملے تو دریدہ لباس تھا وہ بھی
احمد فراز

جائیں یاں سے جو ہم اداس کہیں

دیوان سوم غزل 1178
جمع ہوتے نہیں حواس کہیں
جائیں یاں سے جو ہم اداس کہیں
دل کی دو اشک سے نہ نکلی بھڑاس
اوسوں بجھتی نہیں ہے پیاس کہیں
بائو خوشبو ہے آئی ہے واں سے
کوئی چھپتی ہے گل کی باس کہیں
اس جنوں میں کہیں ہے سر پر خاک
ٹکڑے ہو کر گرا لباس کہیں
گرد سر یار کے پھریں پہروں
ہم جو ہوں اس کے آس پاس کہیں
سب جگہ لوگ حق و ناحق پر
نہ ملا حیف حق شناس کہیں
ہر طرف ہیں امیدوار یار
اس سے کوئی نہیں نراس کہیں
عشق کا محو دشت شیریں ہوں
جان کا بھی نہیں ہراس کہیں
عرش تک تو خیال پہنچے میر
وہم پھر ہے کہیں قیاس کہیں
میر تقی میر

یا اب پھٹک نہیں ہے کہیں ان کے آس پاس

دیوان دوم غزل 824
رہتے تھے ہم وے آٹھ پہر یا تو پاس پاس
یا اب پھٹک نہیں ہے کہیں ان کے آس پاس
تا لوگ بدگماں نہ ہوں آئے نہ اس کی اور
ہم تو کیا ہے عشق میں دور از قیاس پاس
گر ہی پڑے جو دیکھے ہے تنکا بھی گر کہیں
مایہ نہیں ہے کچھ فلک بے سپاس پاس
شیخ ان لبوں کے بوسے کو اس ریش سے نہ جھک
رکھتا ہے کون آتش سو زندہ گھاس پاس
تم نے تو قدر کی ہے متاع وفا کی خوب
بیچیں گے اب یہ جنس کسو دل شناس پاس
آلودہ کر نہ مستی سے جامے کو جسم کے
ہشیار رہ یہ عاریتی ہے لباس پاس
وحشی ہے میر ربط ہے اس سے خلاف عقل
بیٹھے سو جا کے کیا کوئی ایسے اداس پاس
میر تقی میر

تمہارے ہوتے ہوئے ہم اُداس کیسے ہوئے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 255
نہ جانے اِتنے وفا ناشناس کیسے ہوئے
تمہارے ہوتے ہوئے ہم اُداس کیسے ہوئے
جو خواب میں نظر آتے تو چونک جاتا تھا
وہ حادثے مری آنکھوں کو راس کیسے ہوئے
دِلوں میں اَب وہ پُرانی کدورتیں بھی نہیں
یہ سایہ دار شجر بے لباس کیسے ہوئے
یہ نرم لہجہ تمہارا چلن نہ تھا عرفانؔ
تم آج ایسے زمانہ شناس کیسے ہوئے
عرفان صدیقی

کچھ گھوم پھر رہے ہیں سٹیچو لباس کے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 571
کچھ ہڈیاں پڑی ہوئی، کچھ ڈھیر ماس کے
کچھ گھوم پھر رہے ہیں سٹیچو لباس کے
فٹ پاتھ بھی درست نہیں مال روڈ کا
ٹوٹے ہوئے ہیں بلب بھی چیرنگ کراس کے
پھر ہینگ اوور ایک تجھے رات سے ملا
پھر پاؤں میں سفر وہی صحرا کی پیاس کے
ہنگامہء شراب کی صبحِ خراب سے
اچھے تعلقات ہیں ٹوٹے گلاس کے
کیوں شور ہو رہا ہے مرے گرد و پیش میں
کیا لوگ کہہ رہے ہیں مرے آس پاس کے
صحراکا حسن لے گئے مجنون کے نقشِ پا
پیوند لگ چکے ہیں وہاں سبز گھاس کے
منصوربس یقین کی گلیاں ہیں اور میں
دروازے بند ہوچلے وہم و قیاس کے
منصور آفاق

ہے عکس ریزچہرہ تمہارا گلاس میں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 310
اس واسطے یہ شدتیں پھرتی ہیں پیاس میں
ہے عکس ریزچہرہ تمہارا گلاس میں
سبزے پہ رنگ آتے ہیں جاتے ہیں عصر سے
شاید چھپی ہوئی کوئی تتلی ہے گھاس میں
میں کر چکا ہوں اس سے ملاقات کتنی بار
آتا نہیں کسی کے جو پانچوں حواس میں
سرکار کا نہ نام لو اے واعظانِ شہر
موتی جڑے ہوئے ہیں تمہارے لباس میں
لایحزنُ کے ساز کو چھیڑو کہ ان دنوں
لپٹا ہوا ہے عہد ہمارا ہراس میں
آنکھوں سے اشک بن کے بہی ہیں عقیدتیں
محصور ہو سکیں نہ گمان و قیاس میں
تیرے حسیں خیال کی ڈھونڈیں نزاکتیں
تاروں کے نور میں کبھی پھولوں کی باس میں
طیبہ کی مے تو دشمنِ عقل و خرد نہیں
ہم لوگ پی کے آئے ہیں ہوش و حواس میں
عریاں ہے پھول چنتی کہیں زندگی کا جسم
منصور گم ہے گوئی سراپا کپاس میں
منصور آفاق

ابھی تو کھیت میں دو دن کی گھاس ہے سائیاں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 267
دوبارہ کاٹنے آؤ گے… آس ہے سائیاں
ابھی تو کھیت میں دو دن کی گھاس ہے سائیاں
مری دعاؤں پہ چیلیں جھپٹنے والی ہیں
یہ ایک چیخ بھری التماس ہے سائیاں
عجیب شہد سا بھرنے لگا ہے لہجے میں
یہ حرفِ میم میں کیسی مٹھاس ہے سائیاں
تمہارے قرب کی مانگی تو ہے دعا میں نے
مگر یہ ہجر جو برسوں سے پاس ہے سائیاں
جسے ملو وہی پیاسا دکھائی دیتا ہے
بھرا ہوا بھی کسی کا گلاس ہے سائیاں
ترے بغیر کسی کا بھی دل نہیں لگتا
مرے مکان کی ہر شے اداس ہے سائیاں
ٹھہر نہ جائے خزاں کی ہوا اسے کہنا
ابھی شجر کے بدن پر لباس ہے سائیاں
کوئی دیا کہیں مصلوب ہونے والا ہے
بلا کا رات پہ خوف و ہراس ہے سائیاں
نجانے کون سی کھائی میں گر پڑے منصور
یہ میرا وقت بہت بد حواس ہے سائیاں
منصور آفاق

کہ آپ چل کے کنواں آئے پاس ایسا ہو

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 232
یہ لب سمیٹ لیں صحرا کی پیاس ایسا ہو
کہ آپ چل کے کنواں آئے پاس ایسا ہو
کری گلاس میں ڈالے پلیٹ میں پانی
میں چاہتا ہوں کہ وہ بدحواس ایسا ہو
تمام رات رہے مال روڈ پر بجلی
تمام رات یہ چیرنگ کراس ایسا ہو
مری گلی میں شعاعوں کی بھیڑ لگ جائے
اُس آئینے سے کوئی انعکاس ایسا ہو
وہ خوش خرام بدن نرم گرم جیسا ہے
مرے بدن کا بھی کوئی لباس ایسا ہو
ملال سسکیاں گلیوں میں بھرتے پھرتے ہوں
یہ شہر ہجر میں تیرے اداس ایسا ہو
کوئی بھی راستہ پاؤں کی دسترس میں نہ ہو
ہرایک راہ میں اگ آئے گھاس ایسا ہو
جو دیکھ سکتا ہومنظر نہیں پسِ منظر
کوئی تو شہر میں چہرہ شناس ایسا ہو
وہ بار بار پڑھے رات دن جسے منصور
کتابِ دل کا کوئی اقتباس ایسا ہو
منصور آفاق

ہجر کو وصل پر قیاس کیا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 121
یوں خیالوں نے بد حواس کیا
ہجر کو وصل پر قیاس کیا
اپنی پہچان کے عمل نے مجھے
روئے جاناں سے روشناس کیا
کچھ فسردہ زمیں سے تھے لیکن
آسماں نے بہت اداس کیا
ہم نے ہر اک نماز سے پہلے
زیبِ تن خاک کا لباس کیا
بھول آئے ہیں ہم وہاں منصور
کیا بسیرا کسی کے پاس کیا
منصور آفاق

تیرا فیضان بے قیاس ملا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 38
جب مجھے حسنِ التماس ملا
تیرا فیضان بے قیاس ملا
گھر میں صحرا دکھائی دیتا ہے
شیلف سے کیا ابو نواس ملا
جب بھی کعبہ کو ڈھونڈنا چاہا
تیرے قدموں کے آس پاس ملا
تیری رحمت تڑپ تڑپ اٹھی
جب کہیں کوئی بھی اداس ملا
تیری توصیف رب پہ چھوڑی ہے
بس وہی مرتبہ شناس ملا
یوں بدن میں سلام لہرایا
جیسے کوثر کا اک گلاس ملا
تیری کملی کی روشنائی سے
زندگی کو حسیں لباس ملا
ابنِ عربی کی بزم میں منصور
کیوں مجھے احترامِ خاص ملا
منصور آفاق

سنبھل سنبھل کے ٹھکانے مرے حواس آئے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 182
کچھ اس طرح وہ مری زندگی کے پاس آئے
سنبھل سنبھل کے ٹھکانے مرے حواس آئے
تو ہی بتا کہ اسے کس طرح میں سمجھاؤں
تری شکایتیں لے کر جو میرے پاس آئے
حیات راس نہ آئی اگرچہ دل میں مرے
بدل بدل کے امیدوں کا وہ لباس آئے
کل ان کی بزم میں گزری ہے تم پہ کیا باقیؔ
کہ شاد شاد گئے اور اداس اداس آئے
باقی صدیقی