دیوان پنجم غزل 1677
ڈول لگائے بہتیرے پر ڈھب پہ کبھو نہیں آتے تم
آنا یک سو کب دیکھو ہو ایدھر آتے جاتے تم
ہر صورت کو دیکھ رہو ہو ہر کوچے کو جھانکو ہو
آگے عشق کیا ہوتا تو پھرتے جی نہ کھپاتے تم
چاہت آفت الفت کلفت مہر و وفا و رنج وبلا
عشق ہی کے سب نام ہیں یہ دل کاش کہیں نہ لگاتے تم
شائق ہو مرغان قفس کے آئے گھر صیادوں کے
پھول اک دو تسکین کو ان کی کاش چمن سے لاتے تم
دونوں طرف سے کشش رہتی تھی نیا نیا تھا عشق اپنا
دھوپ میں آتے داغ ہوئے تو گرمی سے گل کھاتے تم
کیدھر اب وہ یک رنگی جو دیکھ نہ سکتے دل تنگی
رکتے پاتے ٹک جو ہمیں تو دیر تلک گھبراتے تم
کیا کیا شکلیں محبوبوں کی پردئہ غیب سے نکلی ہیں
منصف ہو ٹک اے نقاشاں ایسے چہرے بناتے تم
شاید شب مستی میں تمھاری گرم ہوئی تھیں آنکھیں کہیں
پیش از صبح جو آئے ہو تو آئے راتے ماتے تم
کب تک یہ دزدیدہ نگاہیں عمداً آنکھیں جھکا لینا
دلبر ہوتے فی الواقع تو آنکھیں یوں نہ چھپاتے تم
بعد نماز دعائیں کیں سو میر فقیر ہوئے تم تو
ایسی مناجاتوں سے آگے کاشکے ہاتھ اٹھاتے تم
میر تقی میر
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔