ٹیگ کے محفوظات: لاتا

اشک سا خاک میں سماتا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 60
شاخ پر جو بھی پھول آتا ہے
اشک سا خاک میں سماتا ہے
شیر کس انتقام کی آتش
خون پی پی کے نِت بُجھاتا ہے
کیا یہ شب ہے کہ جس میں جگنو بھی
دُور تک راستہ سُجھاتا ہے
جانے قصّہ ہے کیا قفس میں جسے
نت پرندہ زباں پہ لاتا ہے
اَب تو ماجدؔ بھی چند قبروں کو
چُومتا ہے گلے لگاتا ہے
ماجد صدیقی

پھر جو یاد آتا ہے وہ چپکا سا رہ جاتا ہوں میں

دیوان دوم غزل 871
کیا کہوں اول بخود تو دیر میں آتا ہوں میں
پھر جو یاد آتا ہے وہ چپکا سا رہ جاتا ہوں میں
داغ ہوں کیونکر نہ میں درویش یارو جب نہ تب
بوریا پوشوں ہی میں وہ شعلہ خو پاتا ہوں میں
ہجر میں اس طفل بازی کوش کے رہتا ہوں جب
جا کے لڑکوں میں ٹک اپنے دل کو بہلاتا ہوں میں
ہوں گرسنہ چشم میں دیدار خوباں کا بہت
دیکھنے پر ان کے تلواریں کھڑا کھاتا ہوں میں
آب سب ہوتا ہوں پاکر آپ کو جیسے حباب
یعنی اس ننگ عدم ہستی سے شرماتا ہوں میں
ایک جاگہ کب ٹھہرنے دے ہے مجھ کو روزگار
کیوں تم اکتاتے ہو اتنا آج کل جاتا ہوں میں
ہے کمال عشق پر بے طاقتی دل کی دلیل
جلوئہ دیدار کی اب تاب کب لاتا ہوں میں
آسماں معلوم ہوتا ہے ورے کچھ آگیا
دور اس سے آہ کیسا کیسا گھبراتا ہوں میں
بس چلے تو راہ اودھر کی نہ جائوں لیک میر
دل مرا رہتا نہیں ہر چند سمجھاتا ہوں میں
میر تقی میر

قدم دو ساتھ میری نعش کے جاتا تو کیا ہوتا

دیوان دوم غزل 685
گیا میں جان سے وہ بھی جو ٹک آتا تو کیا ہوتا
قدم دو ساتھ میری نعش کے جاتا تو کیا ہوتا
پھرا تھا دور اس سے مدتوں میں کوہ و صحرا میں
بلاکر پاس اپنے مجھ کو بٹھلاتا تو کیا ہوتا
ہوئے آخر کو سارے کام ضائع ناشکیبی سے
کوئی دن اور تاب ہجر دل لاتا تو کیا ہوتا
دم بسمل ہمارے زیر لب کچھ کچھ کہا سب نے
جو وہ بے رحم بھی کچھ منھ سے فرماتا تو کیا ہوتا
کہے سے غیر کے وہ توڑ بیٹھا ووہیں یاروں سے
کیے جاتا اگر ٹک چاہ کا ناتا تو کیا ہوتا
کبھو سرگرم بازی ہمدموں سے یاں بھی آجاتا
ہمیں یک چند اگر وہ اور بہلاتا تو کیا ہوتا
گئے لے میر کو کل قتل کرنے اس کے در پر سے
جو وہ بھی گھر سے باہر اپنے ٹک آتا تو کیا ہوتا
میر تقی میر

چلا ہے یار کے کوچے کو اور مجھ سے چھپاتا ہے

دیوان اول غزل 631
سبھوں کے خط لیے پوشیدہ قاصد آج جاتا ہے
چلا ہے یار کے کوچے کو اور مجھ سے چھپاتا ہے
تو خاطر جمع رکھ دامن کہ اب شہر گریباں سے
تری خاطر ہزاروں چاک تحفہ ہاتھ لاتا ہے
بتاں کے ہجر میں روتا ہوں شب کو اور سحر ہر دم
ہنسے ہے دور سے مجھ پر خدا یہ دن دکھاتا ہے
میر تقی میر

اور اس کے بعد کمرے میں آتا تھا کون شخص

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 196
راتوں میں کھڑکیوں کو بجاتا تھا کون شخص
اور اس کے بعد کمرے میں آتا تھا کون شخص
قوسِ قزح پہ کیسے مرے پاؤں چلتے تھے
دھیمے سروں میں رنگ بہاتا تھا کون شخص
مٹی ہوں جانتا ہوں کہاں کوزہ گر کا نام
یہ یاد کب ہے چاک گھماتا تھا کون شخص
بادل برستے رہتے تھے جو دل کے آس پاس
پچھم سے کھینچ کر انہیں لاتا تھا کون شخص
ہوتا تھا دشت میں کوئی اپنا جنوں نواز
شب بھر متاعِ درد لٹاتا تھا کون شخص
کوئی دعا تھی، یا کوئی نیکی نصیب کی
گرتا تھا میں کہیں تو اٹھاتا تھا کون شخص
اس کہنہ کائنات کے کونے میں بیٹھ کر
کارِ ازل کے کشف کماتا تھا کون شخص
بہکے ہوئے بدن پہ بہکتی تھی بھاپ سی
اور جسم پر شراب گراتا تھا کون شخص
ہونٹوں کی سرخیوں سے مرے دل کے چاروں اور
داغِ شبِ فراق مٹاتا تھا کون شخص
پاؤں سے دھوپ گرتی تھی جس کے وہ کون تھا
کرنوں کو ایڑیوں سے اڑاتا تھا کون شخص
وہ کون تھا جو دیتا تھا اپنے بدن کی آگ
بے رحم سردیوں سے بچاتا تھا کون شخص
ماتھے پہ رکھ کے سرخ لبوں کی قیامتیں
سورج کو صبح صبح جگاتا تھا کون شخص
منصور بار بار ہوا کون کرچیاں
مجھ کو وہ آئینہ سا دکھاتا تھا کون شخص
منصور آفاق

شام ہے لالی شگنوں والی، رات ہے کالی ماتا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 1
درد مرا شہباز قلندر، دکھ ہے میرا داتا
شام ہے لالی شگنوں والی، رات ہے کالی ماتا
اک پگلی مٹیار نے قطرہ قطرہ سرخ پلک سے
ہجر کے کالے چرخِ کہن پر شب بھر سورج کاتا
پچھلی گلی میں چھوڑ آیا ہوں کروٹ کروٹ یادیں
اک بستر کی سندر شکنیں کون اٹھا کر لاتا
شہرِ تعلق میں اپنے دو ناممکن رستے تھے
بھول اسے میں جاتا یا پھر یاد اسے میں آتا
ہجرت کر آیا ہے ایک دھڑکتا دل شاعر کا
پاکستان میں کب تک خوف کو لکھتا موت کو گاتا
مادھو لال حسین مرا دل، ہر دھڑکن منصوری
ایک اضافی چیز ہوں میں یہ کون مجھے سمجھاتا
وارث شاہ کا وہ رانجھا ہوں ہیر نہیں ہے جس کی
کیسے دوہے بُنتا کیسے میں تصویر بناتا
ہار گیا میں بھولا بھالا ایک ٹھگوں کے ٹھگ سے
بلھے شاہ سا ایک شرابی شہر کو کیا بہکاتا
میری سمجھ میں آ جاتا گر حرف الف سے پہلا
باہو کی میں بے کا نقطہ بن بن کر مٹ جاتا
ذات محمد بخش ہے میری۔۔۔ شجرہ شعر ہے میرا
اذن نہیں ہے ورنہ ڈیرہ قبرستان لگاتا
میں موہن جو داڑو، مجھ میں تہذبیوں کی چیخیں
ظلم بھری تاریخیں مجھ میں ، مجھ سے وقت کا ناتا
ایک اکیلا میں منصور آفاق کہاں تک آخر
شہرِ وفا کے ہر کونے میں تیری یاد بچھاتا
منصور آفاق