ٹیگ کے محفوظات: قلندر

سودا بھی وہم ہے اور سر بھی کچھ نہیں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 134
طفلانِ کوچہ گرد کے پتھر بھی کچھ نہیں
سودا بھی وہم ہے اور سر بھی کچھ نہیں
میں اور خود سے تجھ کو چھپاؤں گا ، یعنی میں
لے دیکھ لے میاں میرے اندر بھی کچھ نہیں
بس اک غبارِ غم ہے ایک کوچہ گرد کا
دیوارِ بود کچھ نہیں اور گھر بھی کچھ نہیں
یہ شہرِ دارِ محتسب و مولوی ہی کیا
پیرِمغاں و رند و قلندر بھی کچھ نہیں
شیخِ حرم لقمہ کی پروا ہے کیوں نہیں
مسجد بھی اس کی کچھ نہیں ممبر بھی کچھ نہیں
مقدور اپنا کچھ بھی نہیں اس دِیار میں
شاید وہ جبر ہے کے مقدر بھی کچھ نہیں
جانی میں تیرے ناف پیالے پہ ہوں فدا
یہ اور بات ہے تیرا پیکر بھی کچھ نہیں
یہ شب کا رقص و رنگ تو کیا سن میرے کوہان
صبح شتاب کوش کا دفتر بھی کچھ نہیں
بس اک غبارِ طور گماں کا بھی تہ با تہ
یعنی نظر بھی کچھ نہیں ، منظر بھی کچھ نہیں
ہے اب تو اک حالِ سکونِ ہمیشیگی
پرواز کا تو ذکر ہی کیا ، پر بھی کچھ نہیں
پہلو میں ہے جو میرے کہیں اور ہے وہ شخص
یعنی وفاِ عہد کا بستر بھی کچھ نہیں
گزرے گی جون شہر میں رشتوں کے کس طرح
دل میں بھی کچھ نہیں ہے اور زباں پر بھی کچھ نہیں
جون ایلیا

دل اپنا تو بجھا سا دیا ہے جان چراغ مضطر ہے

دیوان سوم غزل 1262
دیکھیے کیا ہو سانجھ تلک احوال ہمارا ابتر ہے
دل اپنا تو بجھا سا دیا ہے جان چراغ مضطر ہے
خاطر اپنی اتنی پریشاں آنکھیں پھریں ہیں اس بن حیراں
تم نے کہا دل چاہے تو بیٹھو دل کیا جانے کیدھر ہے
تاب و تواں کا حال وہی ہے آج تنک ہم چیتے ہیں
تم پوچھو تو اور کہیں کیا نسبت کل کی بہتر ہے
اس بے مہر صنم کی خاطر سختی سی سختی کھینچی ہم
جی پگھلے کیا اس کا ہم پر رحم کہاں وہ پتھر ہے
سر نہ بڑے کے چڑھیے اس میں ہرگز زیاں ہے سر ہی کا
سمجھے نہ سمجھے کوئی اسے یہ پہاڑ کی آخر ٹکر ہے
جب سے ملا اس آئینہ رو سے خوش کی ان نے نمد پوشی
پانی بھی دے ہے پھینک شبوں کو میر فقیر قلندر ہے
میر تقی میر

جی میں ہم نے یہ کیا ہے اب مقرر ہو سو ہو

دیوان دوم غزل 921
رکھیے گردن کو تری تیغ ستم پر ہو سو ہو
جی میں ہم نے یہ کیا ہے اب مقرر ہو سو ہو
قطرہ قطرہ اشک باری تو کجا پیش سحاب
ایک دن تو ٹوٹ پڑ اے دیدئہ تر ہو سو ہو
بند میں ناز و نعم ہی کے رہے کیونکر فقیر
یہ فضولی ہے فقیری میں میسر ہو سو ہو
آ کے کوچے سے ترے جاتا ہوں کب جوں ابرشب
تیر باراں ہو کہ برسے تیغ یک سر ہو سو ہو
صاحبی کیسی جو تم کو بھی کوئی تم سا ملا
پھر تو خواری بے وقاری بندہ پرور ہو سو ہو
کب تلک فریاد کرتے یوں پھریں اب قصد ہے
داد لیجے اپنی اس ظالم سے اڑ کر ہو سو ہو
بال تیرے سر کے آگے تو جیوں کے ہیں وبال
سر منڈاکر ہم بھی ہوتے ہیں قلندر ہو سو ہو
سختیاں دیکھیں تو ہم سے چند کھنچواتا ہے عشق
دل کو ہم نے بھی کیا ہے اب تو پتھر ہو سو ہو
کہتے ہیں ٹھہرا ہے تیرا اور غیروں کا بگاڑ
ہیں شریک اے میر ہم بھی تیرے بہتر ہو سو ہو
میر تقی میر

طرف ہوا نہ کبھو ابر دیدئہ تر کا

دیوان دوم غزل 753
ٹپکتی پلکوں سے رومال جس گھڑی سرکا
طرف ہوا نہ کبھو ابر دیدئہ تر کا
کبھو تو دیر میں ہوں میں کبھو ہوں کعبے میں
کہاں کہاں لیے پھرتا ہے شوق اس در کا
غم فراق سے پھر سوکھ کر ہوا کانٹا
بچھا جو پھول اٹھا کوئی اس کے بستر کا
اسیر جرگے میں ہوجائوں میں تو ہوجائوں
وگرنہ قصد ہو کس کو شکار لاغر کا
ہمیں کہ جلنے سے خوگر ہیں آگ میں ہے عیش
محیط میں تو تلف ہوتا ہے سمندر کا
قریب خط کا نکلنا ہوا سو خط موقوف
غبار دور ہو کس طور میرے دلبر کا
بتا کے کعبے کا رستہ اسے بھلائوں راہ
نشاں جو پوچھے کوئی مجھ سے یار کے گھر کا
کسو سے مل چلے ٹک وہ تو ہے بہت ورنہ
سلوک کاہے کو شیوہ ہے اس ستمگر کا
شکستہ بالی و لب بستگی پر اب کی نہ جا
چمن میں شور مرا اب تلک بھی ہے پر کا
تلاش دل نہیں کام آتی اس زنخ میں گئے
کہ چاہ میں تو ہے مرنا برا شناور کا
پھرے ہے خاک ملے منھ پہ یا نمد پہنے
یہ آئینہ ہے نظر کردہ کس قلندر کا
نہ ترک عشق جو کرتا تو میر کیا کرتا
جفا کشی نہیں ہے کام ناز پرور کا
میر تقی میر

کچھ مزاج ان دنوں مکدر تھا

دیوان اول غزل 107
دل جو زیرغبار اکثر تھا
کچھ مزاج ان دنوں مکدر تھا
اس پہ تکیہ کیا تو تھا لیکن
رات دن ہم تھے اور بستر تھا
سرسری تم جہان سے گذرے
ورنہ ہر جا جہان دیگر تھا
دل کی کچھ قدر کرتے رہیو تم
یہ ہمارا بھی ناز پرور تھا
بعد یک عمر جو ہوا معلوم
دل اس آئینہ رو کا پتھر تھا
بارے سجدہ ادا کیا تہ تیغ
کب سے یہ بوجھ میرے سر پر تھا
کیوں نہ ابر سیہ سفید ہوا
جب تلک عہد دیدئہ تر تھا
اب خرابہ ہوا جہان آباد
ورنہ ہر اک قدم پہ یاں گھر تھا
بے زری کا نہ کر گلہ غافل
رہ تسلی کہ یوں مقدر تھا
اتنے منعم جہان میں گذرے
وقت رحلت کے کس کنے زر تھا
صاحب جاہ و شوکت و اقبال
اک ازاں جملہ اب سکندر تھا
تھی یہ سب کائنات زیر نگیں
ساتھ مور و ملخ سا لشکر تھا
لعل و یاقوت ہم زر و گوہر
چاہیے جس قدر میسر تھا
آخر کار جب جہاں سے گیا
ہاتھ خالی کفن سے باہر تھا
عیب طول کلام مت کریو
کیا کروں میں سخن سے خوگر تھا
خوش رہا جب تلک رہا جیتا
میر معلوم ہے قلندر تھا
میر تقی میر

تیرے بن باسیوں کا یہ گھر تھا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 81
ہجر تھل ریت کا سمندر تھا
تیرے بن باسیوں کا یہ گھر تھا
آدھے حصے میں رنگ تھے موجود
آدھا خالی گلی کا منظر تھا
چھت بھی بیٹھی ہوئی تھی کمرے کی
اور دل کا گرا ہوا در تھا
اک سلگتی سڑک پہ بچے کے
پاؤں میں ایک ہی سلیپر تھا
مملکت کی خراب حالت تھی
میں اکیلا وہاں قلندر تھا
وہ تھی یونان کی کوئی دیوی
اور قسمت کا میں سکندر تھا
ایک بس وہ خدا نہ تھا منصور
ورنہ ہر چیز پہ وہ قادر تھا
منصور آفاق