ٹیگ کے محفوظات: قلق

وہ شعلے شفق تا شفق اب کہاں

چمن در چمن وہ رمق اب کہاں
وہ شعلے شفق تا شفق اب کہاں
کراں تا کراں ظلمتیں چھا گئیں
وہ جلوے طبق در طبق اب کہاں
بجھی آتشِ گل اندھیرا ہوا
وہ اُجلے سنہرے ورق اب کہاں
برابر ہے ملنا نہ ملنا ترا
بچھڑنے کا تجھ سے قلق اب کہاں
ناصر کاظمی

سوز دروں سے نامہ کباب ورق ہوا

دیوان دوم غزل 740
ہنگام شرح غم جگر خامہ شق ہوا
سوز دروں سے نامہ کباب ورق ہوا
بندہ خدا ہے پھر تو اگر گذرے آپ سے
مرتا ہے جو کوئی اسے کہتے ہیں حق ہوا
دل میں رہا نہ کچھ تو کیا ہم نے ضبط شوق
یہ شہر جب تمام لٹا تب نسق ہوا
وہ رنگ وہ روش وہ طرح سب گئی بباد
آتے ہی تیرے باغ میں منھ گل کا فق ہوا
برسوں تری گلی میں چمن ساز جو رہا
سو دیدہ اب گداختہ ہوکر شفق ہوا
لے کر زمیں سے تابہ فلک رک گیا ہے آہ
کس دردمندعشق کو یارب قلق ہوا
اس نو ورق میں میر جو تھا شرح و بسط سے
بیٹھا جو دب کے میں تو ترا اک سبق ہوا
میر تقی میر

علم بس عشق کے سبق پر ہے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 613
آنکھ کے قطرۂ عرق پر ہے
علم بس عشق کے سبق پر ہے
منزلِ ہجر سے ذرا آگے
اپنا گھر چشمۂ قلق پر ہے
کوئی آیا ہے میرے آنگن میں
ابر صحرائے لق و دق پر ہے
ایک ہی نام ایک ہی تاریخ
ڈائری کے ورق ورق پر ہے
شامِ غم کے نگار خانے میں
زخم پھیلا ہوا شفق پر ہے
سن رہا ہوں کہ میرے ہونے کی
روشنی چودھویں طبق پر ہے
دیکھ کر کارِ امت شبیر
لگ رہا ہے یزید حق پر ہے
منصور آفاق