ٹیگ کے محفوظات: قریں

کوئی ان دیکھا گُماں اس میں مکیں رہتا ہے

دل کو ہر لمحہ یہی ایک یقیں رہتا ہے
کوئی ان دیکھا گُماں اس میں مکیں رہتا ہے
خوش نظر آؤں کسی وقت تو حیرت کیسی؟
چاند بھی کونسا ہر وقت مُبِیں رہتا ہے؟
ساتھ تم ہو بھی تو قربت ہے کہاں اپنا نصیب
دوریوں کا ہی اک احساس، قریں رہتا ہے
دل کی دیواروں سے باہر نہ اُسے ڈھونڈو تم
وہ جو اک دشمنِ جاں ہے، وہ یہیں رہتا ہے
بانٹتا رہتا ہے ہر وقت ہی خوشیاں یاؔور
اور اک خود ہے کہ ہر لمحہ حزیں رہتا ہے
یاور ماجد

زخمِ جگر و داغِ جبیں میرے لیے ہے

یہ پھول نہ وہ ماہِ مبیں میرے لیے ہے
زخمِ جگر و داغِ جبیں میرے لیے ہے
پلکوں پہ سجاؤں کہ اسے دل میں چُھپاؤں
شبنم کا گُہرتاب نگیں میرے لیے ہے
اپنے کسی دُکھ پر مری آنکھیں نہیں چھلکیں
روتا ہوں کہ وہ آج غمیں میرے لیے ہے
دیوار جُدائی کی اٹھاتی رہے دنیا
اب وہ رگِ جاں سے بھی قریں میرے لیے ہے
آتی ہے ترے پائے حنائی کی مہک سی
مخمل سے سوا فرشِ زمیں میرے لیے ہے
رقصاں ہیں بہر گام تری یاد کے جگنو
اب دشت بھی فردوسِ بریں میرے لیے ہے
چاہے گا اسے کون، شکیبؔ اتنی لگن سے
وہ شمعِ فروزاں ہو کہیں، میرے لیے ہے
شکیب جلالی

کوئی خنجر رگ گردن کے قریں آگیا ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 326
شور کرنا ہمیں بے وجہ نہیں آگیا ہے
کوئی خنجر رگ گردن کے قریں آگیا ہے
کو بہ کو صید چلے آتے ہیں گردن ڈالے
شہر میں کون شکاری سرزیں آگیا ہے
اور کیجیے ہنر خوش بدناں کی تعریف
وہ بدن آگ لگانے کو یہیں آگیا ہے
دل برباد زمانے سے الگ ہے شاید
سارا عالم تو ترے زیر نگیں آگیا ہے
ان کے نزدیک یہ ساری سخن آرائی تھی
تجھ کو دیکھا ہے تو لوگوں کو یقیں آگیا ہے
اب کسی خیمہ گہ ناز میں جاتے نہیں ہم
بیچ میں کب سے کوئی خانہ نشیں آگیا ہے
عرفان صدیقی

درخت چھوڑ کے اپنی زمیں نہیں جاتے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 258
کہیں خرابۂ جاں کے مکیں نہیں جاتے
درخت چھوڑ کے اپنی زمیں نہیں جاتے
تھکے ہوئے کسی لمبے سفر سے لوٹے ہیں
ہوائے تازہ ابھی ہم کہیں نہیں جاتے
بہت یقیں ترے دستِ رفو پہ ہے لیکن
میں کیا کروں مرے زخمِ یقیں نہیں جاتے
یہ کون ہیں جو ببولوں سے چھاؤں مانگتے ہیں
اُدھر جو ایک شجر ہے وہیں نہیں جاتے
میں تم سے ملنے کو اس شہرِ شب سے آتا ہوں
جہاں تم ایسے ستارہ جبیں نہیں جاتے
یہ جانتے ہوئے ہم پانیوں میں اترے ہیں
کہ ڈرنے والے بھنور کے قریں نہیں جاتے
عرفان صدیقی

برقِ تجلیٰ اوڑھ لی سورج نشیں ہوا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 54
جب قریہء فراق مری سرزمیں ہوا
برقِ تجلیٰ اوڑھ لی سورج نشیں ہوا
جا کر تمام زندگی خدمت میں پیش کی
اک شخص ایک رات میں اتنا حسیں ہوا
میں نے کسی کے جسم سے گاڑی گزار دی
یہ حادثہ بھی روح کے اندر کہیں ہوا
ڈر ہے کہ بہہ نہ جائیں در و بام آنکھ کے
اک اشک کے مکاں میں سمندر مکیں ہوا
ہمت ہے میرے خانہء دل کی کہ بار بار
لٹنے کے باوجود بھی خالی نہیں ہوا
منظر جدا نہیں ہوا اپنے مقام سے
ہونا جہاں تھا واقعہ بالکل وہیں ہوا
کھڑکی سے آرہا تھا ابھی تو نظر مجھے
یہ خانماں خراب کہاں جاگزیں ہوا
چھونے لگی ہے روح کا پاتال کوئی سانس
منصور کون یاد کے اتنے قریں ہوا
منصور آفاق

زیست ہر بات پہ کیوں چیں بہ جبیں ہوتی ہے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 256
لہر حالات کی اک زیر زمیں ہوتی ہے
زیست ہر بات پہ کیوں چیں بہ جبیں ہوتی ہے
زندگی بھی تو الجھتی ہے سیاست کی طرح
شعلہ ہوتا ہے کہیں آگ کہیں ہوتی ہے
روشنی رنگ بدلتی ہے تمنا کی طرح
ہم بھٹک جاتے ہیں منزل تو وہیں ہوتی ہے
فاصلہ بھی ہے نگاہوں کے لئے اک جادو
ہاتھ جو آ نہ سکے چیز حسیں ہوتی ہے
بیٹھے بیٹھے چمک اٹھتی ہیں نگاہیں باقیؔ
دور کی شمع کہیں اتنی قریں ہوتی ہے
باقی صدیقی