ٹیگ کے محفوظات: قرانی

ہے ہوا کی نوحہ خوانی آنکھ میں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 341
دشت کی صدیوں پرانی آنکھ میں
ہے ہوا کی نوحہ خوانی آنکھ میں
اسمِ اللہ کے تصور سے گرے
آبشارِ بیکرانی آنکھ میں
لال قلعے سے قطب مینار تک
وقت کی ہے شہ جہانی آنکھ میں
لکھ رہا ہے اس کا آیت سا وجود
ایک تفسیرِ قرانی آنکھ میں
دودھیا باہیں ، سنہری چوڑیاں
گھومتی ہے اک مدھانی آنکھ میں
دیکھتا ہوں جو دکھاتا ہے مجھے
یار کی ہے حکمرانی آنکھ میں
برف رُت کے اس تعلق کی غزل
دھوپ نے ہے گنگنانی آنکھ میں
اجڑے خوابو!، ٹوٹی امیدو!سنو
ایک بستی ہے بسانی آنکھ میں
چل رہی ہے اپنے کرداروں کے ساتھ
فلم کی اب تک کہانی آنکھ میں
چاہتی ہے کیوں بصارت تخلیہ
کون ہے ظلِ ’سبحانی‘ آنکھ میں
کپکپاتے ساحلوں سے ہمکلام
دھوپ ہے کتنی سہانی آنکھ میں
آمد آمد شاہِ نظارہ کی ہے
سرخ مخمل ہے بچھانی آنکھ میں
تجھ سے پہلے توہواکرتے تھے اور
روشنی کے کچھ معانی آنکھ میں
پہلے ہوتے تھے مقاماتِ عدم
اب فقط ہے لا مکانی آنکھ میں
دیکھتے رہنا ہے نقشِ یار بس
بزمِ وحشت ہے سجانی آنکھ میں
بس یہی ہیں یادگاریں اپنے پاس
بس یہی آنسو نشانی آنکھ میں
اُس حویلی کے کھنڈر کی آج بھی
چیختی ہے بے زبانی آنکھ میں
زیرِآب آنے لگی تصویرِیار
پھیلتا جاتا ہے پانی آنکھ میں
شکرہے اُس اعتمادِذات کی
آ گیا ہوں غیر فانی آنکھ میں
دیکھ آئی ہے کسی کو اُس کے ساتھ
اب نہیں ہے خوش گمانی آنکھ میں
منصور آفاق

الفاظ و معانی سے سنوں شورِ انا الحق

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 210
میں کُن کی کہانی سے سنوں شورِ انا الحق
الفاظ و معانی سے سنوں شورِ انا الحق
پانی بھی علیحدہ نہیں سر چشمہ ء کل سے
دریا کی روانی سے سنوں شورِ انا الحق
اڑتے ہوئے پتے بھی تو ہیں پیڑ کا حصہ
موسم کی جوانی سے سنوں شورِ انا الحق
کثرت کو میں وحدت سے جدا کر نہیں سکتا
تخلیقِ جہانی سے سنوں شورِ انا الحق
آواز سے لفظوں کی جدائی نہیں ممکن
آیاتِ قرانی سے سنوں شورِ انا الحق
منصور زمانے کو خدا کہتی ہے دانش
تقویمِ زمانی سے سنوں شورِ انا الحق
منصور آفاق

سخت کم ظرفی ہے اک دو بوند پانی پر گھمنڈ

امیر مینائی ۔ غزل نمبر 21
خنجرِ قاتل نہ کر اتنا روانی پر گھمنڈ
سخت کم ظرفی ہے اک دو بوند پانی پر گھمنڈ
شمع کے مانند کیا آتش زبانی پر گھمنڈ
صورتِ پروانہ کر سوز نہانی پر گھمنڈ
ہے اگر شمشیر قاتل کو روانی پر گھمنڈ
بسملوں کو بھی ہے اپنی سخت جانی پر گھمنڈ
ناز اُٹھانے کا ہے اس کے حوصلہ اے جانِ زار
اب تلک تجھ کو ہے زور ناتوانی پر گھمنڈ
نوبت شاہی سے آتی ہے صدا شام و سحر
اور کر لے چار دن اس دار فانی پر گھمنڈ
دیکھ او نادان کہ پیری کا زمانہ ہے قریب
کیا لڑکپن ہے کہ کرتا ہے جوانی پر گھمنڈ
چار ہی نالے ہمارے سن کے چپکی لگ گئی
تھا بہت بلبل کو اپنی خوش بیانی پر گھمنڈ
عفو کے قابل مرے اعمال کب ہیں اے کریم
تیری رحمت پر ہے تیری مہربانی پر گھمنڈ
شمع محفل شامت آئی ہے تری خاموش ہو
دل جلوں کے سامنے آتش زبانی پر گھمنڈ
طبع شاعر آ کے زوروں پر کرے کیوں کر نہ ناز
سب کو ہوتا ہے جوانی میں جوانی پر گھمنڈ
چار موجوں میں ہماری چشم تر کے رہ گیا
ابر نیساں کو یہی تھا ڈر فشانی پر گھمنڈ
دیکھنے والوں کی آنکھیں آپ نے دیکھی نہیں
حق بجانب ہے اگر ہے لن ترانی پر گھمنڈ
عاشق و معشوق اپنے اپنے عالم میں ہیں مست
واں نزاکت پر تو یاں ہے ناتوانی پر گھمنڈ
تو سہی کلمہ ترا پڑھوا کے چھوڑوں اے صنم
زاہدوں کو ہے بہت تسبیح خوانی پر گھمنڈ
سبزہ خط جلد یارب رخ پر اُس کے ہو نمود
خضر کو ہے اپنی عمر جاودانی پر گھمنڈ
گور میں کہتی ہے عبرت قیصر و فغفور سے
کیوں نہیں کرتے ہو اب صاحب قرانی پر گھمنڈ
ہے یہی تاثیر آبِ خنجر جلّاد میں
چشمۂ حیواں نہ کر تو اپنے پانی پر گھمنڈ
حال پر اجداد و آبا کے تفاخر کیا امیر
ہیں وہ ناداں جن کو ہے قصے کہانی پر گھمنڈ
امیر مینائی