ٹیگ کے محفوظات: قرار

ہم غمِ بے کنار کھو بیٹھے

آپ کی یادگار کھو بیٹھے
ہم غمِ بے کنار کھو بیٹھے
اب بہاریں ہوں لاکھ جلوہ کناں
جوہرِ اعتبار کھو بیٹھے
ان کے جلووں کو زندگی کہہ کر
ہم نظر کا وقار کھو بیٹھے
آپ سے مل کے ہم نے کیا پایا
اپنے دل کا قرار کھو بیٹھے
خارزاروں سے اس طرح اُلجھے
ہم خلوصِ بہار کھو بیٹھے
غم کی تشنہ لَبی تو قائم ہے
آپ سا غم گُسار کھو بیٹھے
ان سے ہم اس قدر قریب ہوئے
زندگی کا وقار کھو بیٹھے
ہر حقیقت فریب لگتی ہے
جب کوئی اعتبار کھو بیٹھے
جس پہ نازاں ہیں قُربتیں بھی، شکیبؔ
وہ شبِ انتظار کھو بیٹھے
شکیب جلالی

وہ چار پھول کہ جو حاصلِ بہار رہے

کلی کلی کی نگاہوں میں مثلِ خار رہے
وہ چار پھول کہ جو حاصلِ بہار رہے
وہ جھرمٹوں میں ستاروں کے جلوہ گر ہیں آج
بَلا سے ان کی اگر کوئی اشک بار رہے
طِلسم اثر ہے فضا، چاندنی فسوں انداز
حضورِ دوست یہ ممکن نہیں قرار رہے
سیاہیوں کے بگولے چراغِ رَہ بن جائیں
جو حوصلہ شبِ غربت میں پختہ کار رہے
اب انتہاے اَلَم بھی گراں نہیں دل پر
مگر وہ غم جو ترے رُخ پہ جلوہ بار رہے
وہ بات کیا تھی ہمیں خود بھی اب تو یاد نہیں
نہ پوچھ ہم ترے کس درجہ راز دار رہے
خلوصِ عشق کے جذبات عام کرنا ہیں
کچھ اور دن یہ فضا مجھ کو سازگار رہے
یہ کشمکش، یہ بھلاوے حیات پرور ہیں
کسی کے دل میں اگر عشق کا وقار رہے
کسی کا قُرب اگر قُربِ عارضی ہے، شکیبؔ
فراقِ دوست کی لذّت ہی پائدار رہے
شکیب جلالی

بس اک نگاہِ کرم کا اُمیدوار ہوں میں

تمھارے عشق میں مجبور و بے قرار ہوں میں
بس اک نگاہِ کرم کا اُمیدوار ہوں میں
مسرّتیں ہیں زمانے کو، اور الَم مجھ کو
کسی نرالے مصوّر کا شاہکار ہوں میں
کسی کی شانِ کریمی کی لاج رہ تو گئی
گُنَہ نہ کرنے کا بے شک گناہ گار ہوں میں
ستم ظریفیِ دوراں، ارے معاذ اللہ
گُلوں کی طرح سے اک قلبِ داغ دار ہوں میں
تری نگاہِ کرم نے شگفتگی دے دی
وگرنہ دیر کی اُجڑی ہوئی بہار ہوں میں
چلے بھی آئیں خدارا کہ وقتِ آخر ہے
ازل سے آپ کی تصویرِ انتظار ہوں میں
نہ جانے لوگ مجھے کیوں شکیبؔ کہتے ہیں
کسی کی یاد میں ہر وقت بے قرار ہوں میں
شکیب جلالی

یہاں بھی ہوتا تھا ایک موسم بہار کر کے

کہاں نجانے چلا گیا انتظار کر کے
یہاں بھی ہوتا تھا ایک موسم بہار کر کے
جو ہم پہ ایسا نہ کارِ دنیا کا جبر ہوتا
تو ہم بھی رہتے یہاں جنوں اختیار کر کے
نجانے کس سمت جا بسی بادِ یاد پرور
ہمارے اطراف خوشبوئوں کا حصار کر کے
کٹیں گی کس دن مدار و محور کی یہ طنابیں
کہ تھک گئے ہم حسابِ لیل و نہار کر کے
تری حقیقت پسند دنیا میں آ بسے ہیں
ہم اپنے خوابوں کی ساری رونق نثار کر کے
یہ دل تو سینے میں کس قرینے سے گونجتا تھا
عجیب ہنگامہ کر دیا بے قرار کر کے
ہر ایک منظر ہر ایک خلوت گنوا چکے ہیں
ہم ایک محفل کی یاد پر انحصار کر کے
تمام لمحے وضاحتوں میں گزر گئے ہیں
ہماری آنکھوں میں اک سخن کو غبار کر کے
یہ اب کھلا ہے کہ اس میں موتی بھی ڈھونڈنے تھے
کہ ہم تو بس آ گئے ہیں دریا کو پار کر کے
بقدرِ خوابِ طلب لہو ہے نہ زندگی ہے
ادا کرو گے کہاں سے اتنا ادھار کر کے
عرفان ستار

میں جو اک شعلہ نژاد تھا ہوسِ قرار میں بجھ گیا

وہ چراغِ جاں کہ چراغ تھا کہیں رہ گزار میں بجھ گیا
میں جو اک شعلہ نژاد تھا ہوسِ قرار میں بجھ گیا
مجھے کیا خبر تھی تری جبیں کی وہ روشنی مرے دم سے تھی
میں عجیب سادہ مزاج تھا ترے اعتبار میں بجھ گیا
مجھے رنج ہے کہ میں موسموں کی توقعات سے کم رہا
مری لَو کو جس میں اماں ملی میں اُسی بہار میں بجھ گیا
وہ جو لمس میری طلب رہا وہ جھلس گیا مری کھوج میں
سو میں اُس کی تاب نہ لا سکا کفِ داغ دار میں بجھ گیا
جنہیں روشنی کا لحاظ تھا جنہیں اپنے خواب پہ ناز تھا
میں اُنہی کی صف میں جلا کِیا میں اُسی قطار میں بجھ گیا
عرفان ستار

ہوا کہیں کی ہو سینہ فگار اپنا ہے

کسی کا درد ہو دل بیقرار اپنا ہے
ہوا کہیں کی ہو سینہ فگار اپنا ہے
ہو کوئی فصل مگر زخم کھل ہی جاتے ہیں
سدا بہار دلِ داغدار اپنا ہے
بلا سے ہم نہ پیئیں میکدہ تو گرم ہوا
بقدرِ تشنگی رنجِ خمار اپنا ہے
جو شاد پھرتے تھے کل آج چھپ کے روتے ہیں
ہزار شکر غمِ پائیدار اپنا ہے
اسی لیے یہاں کچھ لوگ ہم سے جلتے ہیں
کہ جی جلانے میں کیوں اختیار اپنا ہے
نہ تنگ کر دلِ محزوں کو اے غمِ دُنیا
خدائی بھر میں یہی غم گسار اپنا ہے
کہیں ملا تو کسی دن منا ہی لیں گے اُسے
وہ زُود رنج سہی پھر بھی یار اپنا ہے
وہ کوئی اپنے سوا ہو تو اس کا شکوہ کروں
جدائی اپنی ہے اور انتظار اپنا ہے
نہ ڈھونڈ ناصرِ آشفۃ حال کو گھر میں
وہ بوئے گل کی طرح بے قرار اپنا ہے
ناصر کاظمی

بھرپور رہی بہار کچھ دیر

ٹھہرا تھا وہ گلعذار کچھ دیر
بھرپور رہی بہار کچھ دیر
اک دُھوم رہی گلی گلی میں
آباد رہے دیار کچھ دیر
پھر جھوم کے بستیوں پہ برسا
ابرِ سرِ کوہسار کچھ دیر
پھر لالہ و گل کے میکدوں میں
چھلکی مئے مشکبار کچھ دیر
پھر نغمہ و مے کی صحبتوں کا
آنکھوں میں رہا خمار کچھ دیر
پھر شامِ وصالِ یار آئی
بہلا غمِ روزگار کچھ دیر
پھر جاگ اُٹھے خوشی کے آنسو
پھر دل کو ملا قرار کچھ دیر
پھر ایک نشاطِ بے خودی میں
آنکھیں رہیں اشکبار کچھ دیر
پھر ایک طویل ہجر کے بعد
صحبت رہی خوشگوار کچھ دیر
پھر ایک نگاہ کے سہارے
دنیا رہی سازگار کچھ دیر
ناصر کاظمی

ہوتا اگر اختیار کچھ دیر

کرتا اُسے بے قرار کچھ دیر
ہوتا اگر اختیار کچھ دیر
کیا روئیں فریبِ آسماں کو
اپنا نہیں اعتبار کچھ دیر
آنکھوں میں کٹی پہاڑ سی رات
سو جا دلِ بے قرار کچھ دیر
اے شہرِ طرب کو جانے والو
کرنا مرا انتظار کچھ دیر
بے کیفیٔ روز و شب مسلسل
سرمستیٔ انتظار کچھ دیر
تکلیفِ غمِ فراق دائم
تقریبِ وصالِ یار کچھ دیر
یہ غنچہ و گل ہیں سب مسافر
ہے قافلۂ بہار کچھ دیر
دنیا تو سدا رہے گی ناصر
ہم لوگ ہیں یادگار کچھ دیر
ناصر کاظمی

بہت دنوں سے ترا انتظار بھی تو نہیں

نصیبِ عشق دلِ بے قرار بھی تو نہیں
بہت دنوں سے ترا انتظار بھی تو نہیں
تلافیٔ ستمِ روزگار کون کرے
تو ہم سخن بھی نہیں رازدار بھی تو نہیں
زمانہ پرسشِ غم بھی کرے تو کیا حاصل
کہ تیرا غم غمِ لیل و نہار بھی تو نہیں
تری نگاہِ تغافل کو کون سمجھائے
کہ اپنے دل پہ مجھے اختیار بھی تو نہیں
تو ہی بتا کہ تری خامشی کو کیا سمجھوں
تری نگاہ سے کچھ آشکار بھی تو نہیں
وفا نہیں نہ سہی رسم و راہ کیا کم ہے
تری نظر کا مگر اعتبار بھی تو نہیں
اگرچہ دل تری منزل نہ بن سکا اے دوست
مگر چراغِ سرِ رہگزار بھی تو نہیں
بہت فسردہ ہے دل، کون اس کو بہلائے
اُداس بھی تو نہیں بے قرار بھی تو نہیں
تو ہی بتا ترے بے خانماں کدھر جائیں
کہ راہ میں شجرِ سایہ دار بھی تو نہیں
فلک نے پھینک دیا برگِ گل کی چھاؤں سے دُور
وہاں پڑے ہیں جہاں خار زار بھی تو نہیں
جو زندگی ہے تو بس تیرے دردمندوں کی
یہ جبر بھی تو نہیں اختیار بھی تو نہیں
وفا ذریعۂ اظہارِ غم سہی ناصر
یہ کاروبار کوئی کاروبار بھی تو نہیں
ناصر کاظمی

مرے پاس بھی کوئی گلبدن تھا بہار سا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 7
وہ کہ لمس میں تھا حریر، رنگ میں نار سا
مرے پاس بھی کوئی گلبدن تھا بہار سا
کبھی بارشوں میں بھی پھر دکھائی نہ دے سکا
اُسے دیکھنے سے فضا میں تھا جو نکھار سا
مری چاہ کو اُسے چاندنی کی قبائیں دیں
مرا بخت کس نے بنا دیا شبِ تار سا
کوئی آنکھ جیسے کھُلی ہو اِن پہ بھی مدھ بھری
ہے دل و نظر پہ عجب طرح کا خمار سا
لگے پیش خیمۂ قربِ یار گھڑی گھڑی
مری دھڑکنوں میں جو آ چلا ہے، قرار سا
ماجد صدیقی

کسی نے آکر ہمیں ہے کب بے قرار دیکھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 25
نہیں کوئی شہر زلزلے سے دوچار دیکھا
کسی نے آکر ہمیں ہے کب بے قرار دیکھا
الجھ گیا ہے جہاں بھی کانٹوں سے کوئی دامن
بچا بھی گر وہ تو پھراُسے تار تار دیکھا
جگر جو ٹکڑے ہوا تو اُس کی سلامتی کا
رضا پہ بردہ فروش کی، انحصار دیکھا
سگانِ پابند دشت میں جب کبھی کُھلے ہیں
فضا میں آندھی سا ایک اٹھتا غبار دیکھا
رقم جو شیشے پہ بس کے چڑیا ہوئی، کسی نے
کب اُس کے بچوں کا عالمِ انتظار دیکھا
نجانے کتنوں کو ہے وہ نیچا دکھا کے ابھرا
جسے بھی ماجدؔ سرِ نظر تاجدار دیکھا
ماجد صدیقی

چمن سے جھونکا جو ہو کے آیا لگا ہمیں سوگوار کیا کیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 110
جلو میں اپنی رُتوں کے ہاتھوں سمیٹ لایا غبار کیا کیا
چمن سے جھونکا جو ہو کے آیا لگا ہمیں سوگوار کیا کیا
زبان پر ذہن سے نہ اُترے جو آ چکے تو اُسے چھپائیں
کہیں تو کس سے کہ بات کرنے کا ہے ہمیں اختیار کیا کیا
اُٹھا جو پانی کی سطح پر تو دکھائی دیتا تھا بلبلہ بھی
گرفت میں آب جُو کو لانے کے واسطے بے قرار کیا کیا
ہمارا دل ہی یہ بات جانے کہ حق سرائی کے بعد اِس کی
ہر ایک جانب اُٹھا کئے ہیں حقارتوں کے حصار کیا کیا
ہوا ہو یا برق و ابر اِن کا سلوک خستہ تنوں سے پوچھو
فتور رکھتے ہیں کھوپڑی میں چمن کے یہ تاجدار کیا کیا
کہیں جو بچپن کے آنگنوں میں اُتار لی تھی لہو میں ماجدؔ!
دل و نظر میں مچل رہی ہے ابھی وُہ سپنوں کی نار کیا کیا
ماجد صدیقی

چرخ کرتا ہے اُس پہ گرد نثار

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 117
جب بھی آئے کبھی چمن پہ نکھار
چرخ کرتا ہے اُس پہ گرد نثار
جس شجر پر سجے تھے برگ اور بار
رہ گئے اُس پہ عنکبوت کے تار
دامنِ وقت جو نہ تھام سکے
عمر بھر کاٹتا ہے وہ بیگار
شیر اُنہیں بھی ہے چاٹنے نکلا
میرے خوں سے بنے جو نقش و نگار
دشت میں تشنہ کام ہرنوں کو
آب ملتا تو ہے مگر اُس پار
سر پہ جب تک ہے آسماں ماجدؔ
آشیاں بھی کہاں ہے جائے قرار
ماجد صدیقی

گرد آئے جہاں غبار آئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 150
اُس چمن پر کہاں نکھار آئے
گرد آئے جہاں غبار آئے
ہم ہیں محصور اُس گلستاں میں
عمر گزری جہاں بہار آئے
کس کو اپنی غرض عزیز نہیں
کس کی باتوں پہ اعتبار آئے
ایسا بگڑا نظام اعضا کا
نت کُمک کو ہمیں بخار آئے
رن میں آئین تھا وفا کا یہی
جو بھی مشکل پڑی گزار آئے
ہم ہیں وہ لوگ جو کہ شانوں پر
سر کے ہمراہ لے کے دار آئے
چھِن گئے جن سے پیرہن ماجدؔ
ایسی شاخوں کو کیا قرار آئے
ماجد صدیقی

کسے بزم شوق میں لائیں ہم دل بے قرار کوئی تو ہو

احمد فراز ۔ غزل نمبر 53
نہ حریف جاں نہ شریک غم شب انتظار کوئی تو ہو
کسے بزم شوق میں لائیں ہم دل بے قرار کوئی تو ہو
کسے زندگی ہے عزیز اب، کسے آرزوئے شب طرب
مگر اے نگار وفا طلب ترا اعتبار کوئی تو ہو
کہیں تار دامن گل ملے تو یہ مان لیں کہ چمن کھلے
کہ نشان فصل بہار کا سر شاخسار کوئی تو ہو
یہ اداس اداس سے بام و در یہ اجاڑ اجاڑ سی رہگزر
چلو ہم نہیں نہ سہی مگر سر کوئے یار کوئی تو ہو
یہ سکون جاں کی گھڑی ڈھلے تو چراغ دل ہی نہ بجھ چلے
وہ بلا سے ہو غم عشق یا غم روزگار کوئی تو ہو
سر مقتل شب آرزو رہے کچھ تو عشق کی آبرو
جو نہیں عدو تو فراز تو کہ نصیب دار کوئی تو ہو
احمد فراز

یہاں بھی ہوتا تھا ایک موسم بہار کر کے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 72
کہاں نجانے چلا گیا انتظار کر کے
یہاں بھی ہوتا تھا ایک موسم بہار کر کے
جو ہم پہ ایسا نہ کارِ دنیا کا جبر ہوتا
تو ہم بھی رہتے یہاں جنوں اختیار کر کے
نجانے کس سمت جا بسی بادِ یاد پرور
ہمارے اطراف خوشبوئوں کا حصار کر کے
کٹیں گی کس دن مدار و محور کی یہ طنابیں
کہ تھک گئے ہم حسابِ لیل و نہار کر کے
تری حقیقت پسند دنیا میں آ بسے ہیں
ہم اپنے خوابوں کی ساری رونق نثار کر کے
یہ دل تو سینے میں کس قرینے سے گونجتا تھا
عجیب ہنگامہ کر دیا بے قرار کر کے
ہر ایک منظر ہر ایک خلوت گنوا چکے ہیں
ہم ایک محفل کی یاد پر انحصار کر کے
تمام لمحے وضاحتوں میں گزر گئے ہیں
ہماری آنکھوں میں اک سخن کو غبار کر کے
یہ اب کھلا ہے کہ اس میں موتی بھی ڈھونڈنے تھے
کہ ہم تو بس آ گئے ہیں دریا کو پار کر کے
بقدرِ خوابِ طلب لہو ہے نہ زندگی ہے
ادا کرو گے کہاں سے اتنا ادھار کر کے
عرفان ستار

میں جو اک شعلہ نژاد تھا ہوسِ قرار میں بجھ گیا

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 19
وہ چراغِ جاں کہ چراغ تھا کہیں رہ گزار میں بجھ گیا
میں جو اک شعلہ نژاد تھا ہوسِ قرار میں بجھ گیا
مجھے کیا خبر تھی تری جبیں کی وہ روشنی مرے دم سے تھی
میں عجیب سادہ مزاج تھا ترے اعتبار میں بجھ گیا
مجھے رنج ہے کہ میں موسموں کی توقعات سے کم رہا
مری لَو کو جس میں اماں ملی میں اُسی بہار میں بجھ گیا
وہ جو لمس میری طلب رہا وہ جھلس گیا مری کھوج میں
سو میں اُس کی تاب نہ لا سکا کفِ داغ دار میں بجھ گیا
جنہیں روشنی کا لحاظ تھا جنہیں اپنے خواب پہ ناز تھا
میں اُنہی کی صف میں جلا کِیا میں اُسی قطار میں بجھ گیا
عرفان ستار

اے سرو آ تجھے بھی دلا دوں ہزار پھول

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 48
سب نے کیے ہیں باغ میں ان پر نثار پھول
اے سرو آ تجھے بھی دلا دوں ہزار پھول
لاتا نہیں کوئی مری تربت پہ چار پھول
نا پیدا ایسے ہو گئے پروردگار پھول
جاتی نہیں شباب میں بھی کم سِنی کی بو
ہاروں میں ان کے چار ہیں کلیاں تو چار پھول
کب حلق کٹ گیا مجھے معلوم بھی نہیں
قاتل کچھ ایسی ہو گئے خنجر کی دھار پھول
یہ ہو نہ ہو مزار کسی مضطرب کا ہے
جب سے چڑھے ہیں قبر پہ ہیں بے قرار پھول
یا رب یہ ہار ٹوٹ گیا کس کا راہ میں
اڑ اڑ کے آ رہے ہیں جو سوئے مزار پھول
او محوِ بزمِ غیر تجھے کچھ خبر بھی ہے
گلشن میں کر رہے ہیں ترا انتظار پھول
اتنے ہوئے ہیں جمع مری قبر پر قمر
تاروں کی طرح ہو نہیں سکتے شمار پھول
قمر جلالوی

میں تو تہِ مزار ہوں تم تو ہو مزار پر

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 44
کیونکر رکھو گے ہاتھ دلِ بے قرار پر
میں تو تہِ مزار ہوں تم تو ہو مزار پر
یہ دیکھنے، قفس میں بنی کیا ہزار پر
نکہت چلی ہے دوشِ نسیم بہار پر
گر یہ ہی جور و ظلم رہے خاکسار پر
منہ ڈھک کے روئے گا تو کسی دن مزار پر
ابرو چڑھے ہوئے ہیں دلِ بے قرار پر
دو دو کھنچی ہوئی ہیں کمانیں شکار پر
رہ رہ گئی ہیں ضعف سے وحشت میں حسرتیں
رک رک گیا ہے دستِ جنوں تار تار پر
شاید چمن میں فصلِ بہاری قریب ہے
گرتے ہیں بازوؤں سے مرے بار بار پر
یاد آئے تم کو اور پھر آئے مری وفا
تم آؤ رونے اور پھر آؤ مزار پر
کس نے کئے یہ جور، حضور آپ نے کئے
کس پر ہوئے یہ جور، دلِ بے قرار پر
سمجھا تھا اے قمر یہ تجلی انھیں کی ہے
میں چونک اٹھا جو چاندنی آئی مزار پر
قمر جلالوی

مجھ پر گلہ رہا ستمِ روزگار کا

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 11
سب حوصلہ جو صرف ہوا جورِ یار کا
مجھ پر گلہ رہا ستمِ روزگار کا
تھا کیا ہجوم بہرِ زیارت ہزار کا
گل ہو گیا چراغ ہمارے مزار کا
جور و جفا بھی غیر پر اے یارِ دل شکن
کچھ بھی خیال ہے دلِ امیدوار کا
کھلنے لگے ہیں از سرِ نو غنچہائے زخم
یہ فیض ہے صبا کے دمِ مشک بار کا
گر چاہتے ہو جامہ نہ ہو چاک ناصحو
منگوا دو پیرہن مجھے اس گل عذار کا
ہر کوچہ میں کھلی ہے جو دکانِ مے فروش
کیا فصل ہے شراب کی، موسم بہار کا؟
گھبرا کے اور غیر کے پہلو سے لگ گئے
دیکھا اثر یہ نالۂ بے اختیار کا
وہ آتے آتے غیر کے کہنے سے تھم گئے
اب کیا کروں علاج دلِ بے قرار کا
آزاد ہے عذابِ دو عالم سے شیفتہ
جو ہے اسیر سلسلۂ تاب دار کا!
مصطفٰی خان شیفتہ

تمام رات قیامت کا انتظار کیا

داغ دہلوی ۔ غزل نمبر 25
غضب کیا تیرے وعدے کا اعتبار کیا
تمام رات قیامت کا انتظار کیا
کسی طرح جو نہ اس بت نے اعتبار کیا
مری وفا نے مجھے خوب شرمسار کیا
وہ دل کو تاب کہاں ہے کہ ہو مال اندیش
انہوں نے وعدہ کیا اس نے اعتبار کیا
نہ اس کے دل سے مٹایا کہ صاف ہو جاتا
صبا نے خاک پریشاں مرا غبار کیا
تری نگاہ کے تصور میں ہم نے اے قاتل
لگا لگا کے گلے سے چھری کو پیار کیا
ہوا ہے کوئی مگر اس کا چاہنے والا
کہ آسماں نے ترا شیوہ اختیار کیا
نہ پوچھ دل کی حقیقت مگر یہ کہتے ہیں
وہ بے قرار رہے جس نے بے قرار کیا
وہ بات کر جو کبھی آسماں سے ہو نہ سکے
ستم کیا تو بڑا تو نے افتخار کیا
داغ دہلوی

کبھی جان صدقے ہوتی، کبھی دل نثار ہوتا

داغ دہلوی ۔ غزل نمبر 2
عجب اپنا حال ہوتا، جو وصال یار ہوتا
کبھی جان صدقے ہوتی، کبھی دل نثار ہوتا
کوئی فتنہ تا قیامت نہ پھر آشکار ہوتا
ترے دل پہ کاش ظالم مجھے اختیار ہوتا
جو تمہاری طرح تم سے کوئی جھوٹے وعدے کرتا
تمہیں منصفی سے کہہ دو تمہیں اعتبار ہوتا
غمِ عشق میں مزا تھا جو اسے سمجھ کے کھاتے
یہ وہ زہر ہے کہ آخر مے خوشگوار ہوتا
یہ مزہ تھا دل لگی کا، کہ برابر ٓاگ لگتی
نہ تجھے قرار ہوتا، نہ مجھے قرار ہوتا
یہ مزا ہے دشمنی میں، نہ ہے لطف دوستی میں
کوئی غیر غیر ہوتا، کوئی یار یار ہوتا
ترے وعدے پر ستمگر، ابھی اور صبر کرتے
مگر اپنی زندگی کا، ہمیں اعتبار ہوتا
یہ وہ دردِ دل نہیں ہے کہ ہو چارہ ساز کوئی
اگر ایک بار مٹتا تو ہزار بار ہوتا
گئے ہوش تیرے زاہد جو وہ چشمِ مست دیکھی
مجھے کیا الٹ نہ دینے جو نہ بادہ خوار ہوتا
مجھے مانتے سب ایسا کہ عدو بھی سجدے کرتے
درِ یار کعبہ بنتا جو مرا مزار ہوتا
تمہیں ناز ہو نہ کیونکر کہ لیا ہے داغ کا دل
یہ رقم نہ ہاتھ لگتی نہ یہ افتخار ہوتا
داغ دہلوی

بیقراری قرار ہے اماں ہاں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 87
جبر پُر اختیار ہے اماں ہاں
بیقراری قرار ہے اماں ہاں
ایزدِ ایزداں ہے تیرا انداز
اہرمن دل فگار ہے اماں ہاں
میرے آغوش میں جو ہے اُس کا
دَم بہ دَم انتظار ہے اماں ہاں
ہے رقیب اُس کا دوسرا عاشق
وہی اِک اپنا یار ہے اماں ہاں
یار زردی ہے رنگ پر اپنے
سو خزاں تو بہار ہے اماں ہاں
لب و پستان و ناف اس کے نہ پوچھ
ایک آشوبِ کار ہے اماں ہاں
سنگ در کے ہوں یا ہوں دار کے لوگ
سب پہ شہوت سوار ہے اماں ہاں
اب تو انساں کے معجزے ہیں عام
اور انسان خوار ہے اماں ہاں
جون ایلیا

نافہ دماغِ آہوئے دشتِ تتار ہے

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 259
جس جا نسیم شانہ کشِ زلفِ یار ہے
نافہ دماغِ آہوئے دشتِ تتار ہے
کس کا سرا غِ جلوہ ہے حیرت کو اے خدا
آیئنہ فرشِ شش جہتِ انتظار ہے
ہے ذرہ ذرہ تنگئِ جا سے غبارِ شوق
گردام یہ ہے و سعتِ صحرا شکار ہے
دل مدّعی و دیدہ بنا مدّعا علیہ
نظارے کا مقدّمہ پھر روبکار ہے
چھڑکے ہے شبنم آئینۂ برگِ گل پر آب
اے عندلیب وقتِ ود اعِ بہار ہے
پچ آپڑی ہے وعدۂ دلدار کی مجھے
وہ آئے یا نہ آئے پہ یاں انتظار ہے
بے پردہ سوئے وادئِ مجنوں گزر نہ کر
ہر ذرّے کے نقاب میں دل بے قرار ہے
اے عندلیب یک کفِ خس بہرِ آشیاں
طوفانِ آمد آمدِ فصلِ بہار ہے
دل مت گنوا، خبر نہ سہی سیر ہی سہی
اے بے دماغ آئینہ تمثال دار ہے
غفلت کفیلِ عمر و اسدؔ ضامنِ نشاط
اے مر گِ ناگہاں تجھے کیا انتظار ہے
مرزا اسد اللہ خان غالب

حیراں کیے ہوئے ہیں دلِ بے قرار کے

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 231
سیماب پشت گرمیِ آئینہ دے ہے ہم
حیراں کیے ہوئے ہیں دلِ بے قرار کے
آغوشِ گل کشودہ برائے وداع ہے
اے عندلیب چل! کہ چلے دن بہار کے
مرزا اسد اللہ خان غالب

ایسی طرح روزگار دیکھیے کب تک رہے

دیوان ششم غزل 1910
چرخ پر اپنا مدار دیکھیے کب تک رہے
ایسی طرح روزگار دیکھیے کب تک رہے
سہرے کہاں تک پڑیں آنسوئوں کے چہرے پر
گریہ گلے ہی کا ہار دیکھیے کب تک رہے
ضعف سے آنکھیں مندیں کھل نہ گئیں پھر شتاب
غش یہ ہمیں اب کی بار دیکھیے کب تک رہے
لب پہ مرے آن کر بارہا پھر پھر گئی
جان کو یہ اضطرار دیکھیے کب تک رہے
اس سے تو عہد و قرار کچھ بھی نہیں درمیاں
دل ہے مرا بے قرار دیکھیے کب تک رہے
اس سرے سے اس سرے داغ ہی ہیں صدر میں
ان بھی گلوں کی بہار دیکھیے کب تک رہے
آنکھیں تو پتھرا گئیں تکتے ہوئے اس کی راہ
شام و سحر انتظار دیکھیے کب تک رہے
آنکھ ملاتا نہیں ان دنوں وہ شوخ ٹک
بے مزہ ہے ہم سے یار دیکھیے کب تک رہے
روے سخن سب کا ہے میری غزل کی طرف
شعر ہی میرا شعار دیکھیے کب تک رہے
گیسو و رخسار یار آنکھوں ہی میں پھرتے ہیں
میر یہ لیل و نہار دیکھیے کب تک رہے
میر تقی میر

کہ دیکھا جب تجھے تب جی کو مار مار رہے

دیوان ششم غزل 1883
کہو تو کب تئیں یوں ساتھ تیرے پیار رہے
کہ دیکھا جب تجھے تب جی کو مار مار رہے
ادا و ناز سے دل لے چلا تو ہنس کے کہا
کہ میرے پاس تمھارا بھی یادگار رہے
ہم آپ سے جو گئے ہیں گئے ہیں مدت کے
الٰہی اپنا ہمیں کب تک انتظار رہے
ہوس اسیروں کے ٹک دل کی نکلے کچھ شاید
کوئی دن اور اگر موسم بہار رہے
اٹھا جو باغ سے میں بے دماغ تو نہ پھرا
ہزار مرغ گلستاں مجھے پکار رہے
لیا تو جاوے بھلا نام منھ سے یاری کا
جو ہم ستم زدوں سے یار کچھ بھی یار رہے
وصال ہجر ٹھہر جاوے کچھ نہ کچھ آخر
جو بیقرار مرے دل کو بھی قرار رہے
کریں گے چھاتی کو گلزار ہم جلاکر داغ
جو گل کے سینے میں ایسا ہی خار خار رہے
تکوں ہوں ایک سا میں گرد راہ کو اس کی
نہ کیونکے دونوں مری آنکھوں میں غبار رہے
نہ کریے گریۂ بے اختیار ہرگز میر
جو عشق کرنے میں دل پر کچھ اختیار رہے
میر تقی میر

تو کیا رہیں گے جیتے ہم اس روزگار میں

دیوان ششم غزل 1856
گر روزگار ہے یہی ہجران یار میں
تو کیا رہیں گے جیتے ہم اس روزگار میں
کچھ ڈر نہیں جو داغ جنوں ہو گئے سیاہ
ڈر دل کے اضطراب کا ہے اس بہار میں
کیا بیقرار دل کی تسلی کرے کوئی
کچھ بھی ثبات ہے ترے عہد و قرار میں
بیتاب دل نہ دفن ہو اے کاش میرے ساتھ
رہنے نہ دے گا لاش کوئی دن مزار میں
وہ سنگ دل نہ آیا بہت دیکھی اس کی راہ
پتھرا چلی ہیں آنکھیں مری انتظار میں
تھمتا نہیں ہے رونا علی الاتصال کا
کیا اختیار گریۂ بے اختیار میں
مربوط کیسے کیسے کہے ریختے ولے
سمجھا نہ کوئی میری زباں اس دیار میں
تھی بزم شعر رات کو شاعر بہت تھے جمع
دو باتیں ہم نے ایسے نہ کیں چار چار میں
دنبالہ گردی قیس نے بہتیری کی ولے
آیا نظر نہ محمل لیلیٰ غبار میں
اب ذوق صید اس کو نہیں ورنہ پیش ازیں
اودھم تھا وحش و طیر سے اس کے شکار میں
منھ چاہیے جو کوئی کسو سے حساب لے
ناکس سے گفتگو نہیں روز شمار میں
گنتی کے لوگوں کی وہاں صف ہووے گی کھڑی
تو میر کس شمار میں ہے کس قطار میں
میر تقی میر

نیند آتی ہے دل جمعی میں سو تو دل کو قرار نہیں

دیوان ششم غزل 1852
آنکھ لگی ہے جب سے اس سے آنکھ لگی زنہار نہیں
نیند آتی ہے دل جمعی میں سو تو دل کو قرار نہیں
وصل میں اس کے روز و شب کیا خوب گذرتی تھی اپنی
ہجراں کا کچھ اور سماں ہے اب وہ لیل و نہار نہیں
خالی پڑے ہیں دام کہیں یا صید دشتی صید ہوئے
یا جس صید افگن کے لیے تھے اس کو ذوق شکار نہیں
سبزہ خط کا گرد گل رو بڑھ کانوں کے پار ہوا
دل کی لاگ اب اپنی ہو کیونکر وہ اس منھ پہ بہار نہیں
لطف عمیم اس کا ہی ہمدم کیوں نہ غنیمت جانیں ہم
ربط خاص کسو سے اسے ہو یہ تو طور یار نہیں
عشق میں اس بے چشم و رو کے طرفہ رویت پیدا کی
کس دن اودھر سے اب ہم پر گالی جھڑکی مار نہیں
مشتاق اس کے راہ گذر پر برسوں کیوں نہ بیٹھیں میر
ان نے راہ اب اور نکالی ایدھر اس کا گذار نہیں
میر تقی میر

ہم پھینک دیں اسے ترے منھ پر نثار کر

دیوان ششم غزل 1829
گل کیا جسے کہیں کہ گلے کا تو ہار کر
ہم پھینک دیں اسے ترے منھ پر نثار کر
آغوشیں جیسے موجیں الٰہی کشادہ ہیں
دریاے حسن اس کا کہیں ہم کنار کر
یاں چلتے دیر کچھ نہیں لگتی ہے میری جاں
رخت سفر کو اپنے شتابی سے بار کر
مختار رونے ہنسنے میں تجھ کو اگر کریں
تو اختیار گریۂ بے اختیار کر
مشق ستم ہوئی ہے بہت صاف یار کی
پشتے لگائے ان نے جوانوں کو مار کر
صیادی میں علوے تقدس تو اس کا دیکھ
روح القدس کو مار رکھا ہے شکار کر
بہنے لگی ہے تیغ کی جدول تو تیری تیز
دشمن کا کام وار میں پہلے ہی پار کر
میں بیقرار خاک میں کب تک ملا کروں
کچھ ملنے کا نہ ملنے کا تو بھی قرار کر
میں رفتہ میر مجلس تصویر کا گیا
تو بیٹھا میرا حشر تک اب انتظار کر
میر تقی میر

اس سے کیا جانوں کیا قرار ہوا

دیوان ششم غزل 1804
دل جو ناگاہ بے قرار ہوا
اس سے کیا جانوں کیا قرار ہوا
شب کا پہنا جو دن تلک ہے مگر
ہار اس کے گلے کا ہار ہوا
گرد سر اس کے جو پھرا میں بہت
رفتہ رفتہ مجھے دوار ہوا
بستر خواب سے جو اس کے اٹھا
گل تر سوکھ سوکھ خار ہوا
مجھ سے لینے لگے ہیں عبرت لوگ
عاشقی میں یہ اعتبار ہوا
روز و شب روتے کڑھتے گذرے ہے
اب یہی اپنا روزگار ہوا
روؤں کیا اپنی سادگی کو میر
میں نے جانا کہ مجھ سے یار ہوا
میر تقی میر

دور سے دیکھتے ہی پیار آیا

دیوان ششم غزل 1799
دیر بدعہد وہ جو یار آیا
دور سے دیکھتے ہی پیار آیا
بیقراری نے مار رکھا ہمیں
اب تو اس کے تئیں قرار آیا
گرد رہ اس کی اب اٹھو نہ اٹھو
میری آنکھوں ہی پر غبار آیا
اک خزاں میں نہ طیر بھی بولا
میں چمن میں بہت پکار آیا
ہار کر میں تو کاٹتا تھا گلا
وہ قماری گلے کا ہار آیا
طائر عمر کو نظر میں رکھ
غیب سے ہاتھ یہ شکار آیا
موسم آیا تو نخل دار میں میر
سر منصور ہی کا بار آیا
میر تقی میر

دل کلیجے کے پار ہوتا ہے

دیوان پنجم غزل 1771
نالہ جب گرم کار ہوتا ہے
دل کلیجے کے پار ہوتا ہے
مار رہتا ہے اس کو آخرکار
عشق کو جس سے پیار ہوتا ہے
سب مزے درکنار عالم کے
یار جب ہم کنار ہوتا ہے
دام گہ کا ہے اس کے عالم اور
ایک عالم شکار ہوتا ہے
بے قراری ہو کیوں نہ چاہت میں
ہم دگر کچھ قرار ہوتا ہے
جبر ہے قہر ہے قیامت ہے
دل جو بے اختیار ہوتا ہے
راہ تکتے ہی بیٹھیں ہیں آنکھیں
اس کا جب انتظار ہوتا ہے
شاخ گل لچکے ہے تو جانوں ہوں
جلوہ گر یوں ہی یار ہوتا ہے
کس کو پوچھے ہے کوئی دنیا میں
دیر یاں اعتبار ہوتا ہے
آہ کس جاے بار کھولا میر
یاں تو جینا بھی بار ہوتا ہے
میر تقی میر

آزردہ دل ستم زدہ و بے قرار دل

دیوان پنجم غزل 1675
مدت سے اب وہی ہے مرا ہم کنار دل
آزردہ دل ستم زدہ و بے قرار دل
جو کہیے ہے فسردہ و مردہ ضعیف و زار
ناچار دیر ہم رہے ہیں مار مار دل
دو چار دل سے راضی نہیں ہوتے دلبراں
شاید تسلی ان کی ہو جو لیں ہزار دل
خود گم ہے ناشکیب و مکدر ہے مضطرب
کب تک رکھوں گا ہاتھ تلے پر غبار دل
ہے میر عشق حسن کے بھی جاذبے کے تیں
کھنچتا ہے سوے یار ہی بے اختیار دل
میر تقی میر

آندھی سی آوے نکلے کبھو جو غبار دل

دیوان پنجم غزل 1673
ہر لحظہ ہے کدورت خاطر سے بار دل
آندھی سی آوے نکلے کبھو جو غبار دل
تربندی خشک بندی نمک بندی ہوچکی
بے ڈول پھیلتا سا چلا ہے فگار دل
جوں رنگ لائے سیب ذقن باغ حسن میں
ووں ہیں ریاض عشق میں صد چاک انار دل
باہر ہیں حد و حصر سے کھینچے جو غم الم
کیا ہوسکے حساب غم بے شمار دل
لاکھوں جتن کیے نہ نبھی دل سے یار کے
اس کا جفا شعار وفا ہے شعار دل
اس کی گلی میں صبح دلوں کا شکار تھا
نکلا ہزار ناز سے بہر شکار دل
کیا میر پھر ثبات سے رو سوے دل کریں
ایسے نہیں گئے ہیں سکون و قرار دل
میر تقی میر

اس کا ہو جاتا دل شکار اے کاش

دیوان پنجم غزل 1637
ادھر آتا بھی وہ سوار اے کاش
اس کا ہو جاتا دل شکار اے کاش
زیر دیوار خانہ باغ اس کے
ہم کو جا ملتی خانہ وار اے کاش
کب تلک بے قرار رہیے گا
کچھ تو ملنے کا ہو قرار اے کاش
راہ تکتے تو پھٹ گئیں آنکھیں
اس کا کرتے نہ انتظار اے کاش
اس کی پامالی سرفرازی ہے
راہ میں ہو مری مزار اے کاش
پھول گل کچھ نہ تھے کھلی جب چشم
اور بھی رہتی اک بہار اے کاش
اب وہی میر جی کھپانا ہے
ہم کو ہوتا نہ اس سے پیار اے کاش
میر تقی میر

گل کو دیکھا بھی نہ ہزار افسوس

دیوان پنجم غزل 1632
آنکھ کھلتے گئی بہار افسوس
گل کو دیکھا بھی نہ ہزار افسوس
جس کی خاطر ہوئے کنارہ گزیں
نہ ہوئے اس سے ہم کنار افسوس
نہ معرف نہ آشنا کوئی
ہم ہیں بے یار و بے دیار افسوس
بے قراری نے یوں ہی جی مارا
اس سے نے عہد نے قرار افسوس
خوں ہوئی دل ہی میں امید وصال
مر رہے جی کو مار مار افسوس
چارۂ اشتیاق کچھ نہ ہوا
وہ نہ ہم سے ہوا دوچار افسوس
اک ہی گردش میں اس کی آنکھوں کی
پھر گیا ہم سے روزگار افسوس
گور اپنی رہی گذرگہ میں
نہ ہوا یار کا گذار افسوس
منتظر ہی ہم اس کے میر گئے
یاں تک آیا کبھو نہ یار افسوس
میر تقی میر

دشتی وحش وطیر اس کے سر تیزی ہی میں شکار ہے آج

دیوان پنجم غزل 1590
شہر سے یار سوار ہوا جو سواد میں خوب غبار ہے آج
دشتی وحش وطیر اس کے سر تیزی ہی میں شکار ہے آج
برافروختہ رخ ہے اس کا کس خوبی سے مستی میں
پی کے شراب شگفتہ ہوا ہے اس نو گل پہ بہار ہے آج
اس کا بحرحسن سراسر اوج و موج و تلاطم ہے
شوق کی اپنے نگاہ جہاں تک جاوے بوس و کنار ہے آج
آنکھیں اس کی لال ہوئیں ہیں اور چلے جاتے ہیں سر
رات کو دارو پی سویا تھا اس کا صبح خمار ہے آج
گھر آئے ہو فقیروں کے تو آئو بیٹھو لطف کرو
کیا ہے جان بن اپنے کنے سو ان قدموں پہ نثار ہے آج
کیا پوچھو ہو سانجھ تلک پہلو میں کیا کیا تڑپا ہے
کل کی نسبت دل کو ہمارے بارے کچھ تو قرار ہے آج
مت چوکو اس جنس گراں کو دل کی وہیں لے جائو تم
ہندستان میں ہندوبچوں کی بہت بڑی سرکار ہے آج
خوب جو آنکھیں کھول کے دیکھا شاخ گل سا نظر آیا
ان رنگوں پھولوں میں ملا کچھ محوجلوئہ یار ہے آج
جذب عشق جدھر چاہے لے جائے ہے محمل لیلیٰ کا
یعنی ہاتھ میں مجنوں کے ناقے کی اس کے مہار ہے آج
رات کا پہنا ہار جو اب تک دن کو اتارا ان نے نہیں
شاید میر جمال گل بھی اس کے گلے کا ہار ہے آج
میر تقی میر

یا تجھ کو دل شکستوں سے اخلاص پیار ہو

دیوان چہارم غزل 1471
تو وہ نہیں کسو کا تہ دل سے یار ہو
یا تجھ کو دل شکستوں سے اخلاص پیار ہو
کیا فکر میں ہو اپنی طرحداری ہی کی تم
ہم دردمند لوگوں کے بیمار دار ہو
مصروف احتیاط رہا کرتے رات دن
دینے میں دل کے اپنا جو کچھ اختیار ہو
دل میں کدر سے آندھی سی اٹھنے لگی ہے اب
نکلے گلے کی راہ تو رفع غبار ہو
کھا زہر مر رہیں کہیں کیا زندگی ہے یہ
زلفیں تنک چھوئیں تو ہمیں مار مار ہو
اے آہوان کعبہ نہ اینڈو حرم کے گرد
کھائو کسو کی تیغ کسو کے شکار ہو
منھ سے لگی گلابی ہوا کچھ شگفتہ تو
تھوڑی شراب اور بھی پی جو بہار ہو
بہتی ہے تیز جدول تیغ جفاے یار
یعنی کہ اک ہی وار لگے کام پار ہو
چھڑیوں سے کر قرار مدار اس کو لایئے
جو میر پھر لڑا نہ کریں بے قرار ہو
میر تقی میر

رہ رہ گئے مہ و خور آئینہ وار دونوں

دیوان چہارم غزل 1466
کیا کیا جھمک گئے ہیں رخسار یار دونوں
رہ رہ گئے مہ و خور آئینہ وار دونوں
تصویر قیس و لیلیٰ ٹک ہاتھ لے کے دیکھو
کیسے ہیں عاشقی کے حیران کار دونوں
دست جنوں نے اب کے کپڑوں کی دھجیاں کیں
دامان و جیب میرے ہیں تار تار دونوں
پر سال کی سی بارش برسوں میں پھر ہوئی تھی
ابر اور دیدئہ تر روتے ہیں زار دونوں
دن ہیں بڑے کبھو کے راتیں بڑی کبھو کی
رہتے نہیں ہیں یکساں لیل و نہار دونوں
دل اور برق ابر و فصل گل ایک سے ہیں
یعنی کہ بے کلی سے ہیں بے قرار دونوں
خوش رنگ اشک خونیں گرتے رہے برابر
باغ و بہار ہیں اب جیب و کنار دونوں
اس شاخ گل سے قد کی کیا چوٹ لگ گئی ہے
جو دل جگر ہوئے ہیں خون ایک بار دونوں
چلتے جو اس کو دیکھا جی اپنے کھنچ گئے ہیں
ہم اور میر یاں ہیں بے اختیار دونوں
میر تقی میر

دیوانہ دل بلا زدہ دل بے قرار دل

دیوان چہارم غزل 1429
کھنچتا ہے اس طرف ہی کو بے اختیار دل
دیوانہ دل بلا زدہ دل بے قرار دل
سمجھا بھی تو کہ دل کسے کہتے ہیں دل ہے کیا
آتا ہے جو زباں پہ تری بار بار دل
آزردہ خاطری کا ہماری نہ کر عجب
اک عمر ہم رہا کیے ہیں مار مار دل
واشد فسردگی سے تری اس چمن میں ہے
دل جو کھلا تو جیسے گل بے بہار دل
میر اس کے اشتیاق ہم آغوشی میں نہ پوچھ
جاتا ہے اب تو جی ہی رہا درکنار دل
میر تقی میر

دل وہی بے قرار ہے تا حال

دیوان چہارم غزل 1428
حال تو حال زار ہے تا حال
دل وہی بے قرار ہے تا حال
بڑھتی ہے حال کی خرابی روز
گرچہ کچھ روزگار ہے تا حال
خستہ جانی نے ننگ خلق کیا
پر اسے مجھ سے عار ہے تا حال
حال فکر سخن میں کچھ نہ رہا
شعر میرا شعار ہے تا حال
حال مستی جوانی تھی سو گئی
میر اس کا خمار ہے تا حال
آنکھیں بدحالی سے ٹھہرتیں نہیں
شوق دیدار یار ہے تا حال
غم سے حالانکہ خون دل سوکھا
چشم تر اشکبار ہے تا حال
میر تقی میر

منھ کرے ٹک ادھر بہار اے کاش

دیوان چہارم غزل 1403
نکلے پردے سے روے یار اے کاش
منھ کرے ٹک ادھر بہار اے کاش
کچھ وسیلہ نہیں جو اس سے ملوں
شعر ہو یار کا شعار اے کاش
کہیں اس بحر حسن سے بھر جائے
موج ساں میری بھی کنار اے کاش
برق ساں ہو چکوں تڑپ کر میں
یوں ہی آوے مجھے قرار اے کاش
اعتمادی نہیں ہے یاری غیر
یار سے ہم سے ہووے پیار اے کاش
آوے سررشتۂ جنوں کچھ ہاتھ
ہو گریبان تار تار اے کاش
میر جنگل تمام بس جاوے
بن پڑے ہم سے روزگار اے کاش
میر تقی میر

دل کا بیٹھا نہیں غبار ہنوز

دیوان چہارم غزل 1398
خاک ہوکر اڑیں ہیں یار ہنوز
دل کا بیٹھا نہیں غبار ہنوز
نہ جگر میں ہے خوں نہ دل میں خوں
درپئے خوں ہے روزگار ہنوز
دست بر دل ہوں مدتوں سے میر
دل ہے ویسا ہی بے قرار ہنوز
میر تقی میر

نہ گیا دل سے روے یار ہنوز

دیوان چہارم غزل 1396
گرچہ آتے ہیں گل ہزار ہنوز
نہ گیا دل سے روے یار ہنوز
بے قراری میں ساری عمر گئی
دل کو آتا نہیں قرار ہنوز
خاک مجنوں جہاں ہے صحرا میں
واں سے اٹھتا ہے اک غبار ہنوز
کب سے ہے وہ خلاف وعدہ ولے
دل کو اس کا ہے اعتبار ہنوز
قیس و فرہاد پر نہیں موقوف
عشق لاتا ہے مردکار ہنوز
برسوں گذرے ہیں اس سے ملتے ولے
صحبت اس سے نہیں برآر ہنوز
عشق کرتے ہوئے تھے بے خود میر
اپنا ان کو ہے انتظار ہنوز
میر تقی میر

دل ہمارا ہے بے قرار عبث

دیوان چہارم غزل 1367
عہد اس کا غلط قرار عبث
دل ہمارا ہے بے قرار عبث
ہم گلا کاٹتے ہی تھے اپنا
تو گلے کا ہوا ہے ہار عبث
لوہو رونے نے سب نچوڑ لیا
اب پیے خون روزگار عبث
آہ وہ کس قدر ہے مستغنی
لوگ اس کے ہوئے شکار عبث
ہم تو آگے ہی مر رہے ہیں میر
تیغ کھینچے پھرے ہے یار عبث
میر تقی میر

مکر ہے عہد سب قرار فریب

دیوان چہارم غزل 1359
یار میرا بہت ہے یار فریب
مکر ہے عہد سب قرار فریب
راہ رکھتے ہیں اس کے دام سے صید
ہے بلا کوئی وہ شکار فریب
عہدے سے نکلیں کس طرح عاشق
ایک ادا اس کی ہے ہزار فریب
التفات زمانہ پر مت جا
میر دیتا ہے روزگار فریب
میر تقی میر

رات دن ہم امیدوار رہے

دیوان سوم غزل 1275
برسوں تک جی کو مار مار رہے
رات دن ہم امیدوار رہے
موسم گل تلک رہے گا کون
چبھتے ہی دل کو خار خار رہے
وصل یا ہجر کچھ ٹھہر جاوے
دل کو اپنے اگر قرار رہے
خوش نوا کیسے کیسے طائر قدس
اس جفا پیشہ کے شکار رہے
اس کی آنکھوں کی مستی سے عاشق
چاہیے یوں کہ ہوشیار رہے
دل لگے پر رہا نہیں جاتا
رہیے اپنا جو اختیار رہے
کم ہے کیا لذت ہم آغوشی
سب مزے میر درکنار رہے
میر تقی میر

دن آج کا بھی سانجھ ہوا انتظار میں

دیوان سوم غزل 1204
دور اس سے جی چکے ہیں ہم اس روزگار میں
دن آج کا بھی سانجھ ہوا انتظار میں
داغوں سے بھر گیا ہے مرا سینۂ فگار
گل پھول زور زور کھلے اس بہار میں
کیا اعتبار طائر دل کی تڑپ کا اب
مذبوحی سی ہے کچھ حرکت اس شکار میں
بوسہ لبوں کا مانگتے ہی تم بگڑ گئے
بہتیری باتیں ہوتی ہیں اخلاص پیار میں
دل پھر کے ہم سے خانۂ زنجیر کے قریب
ٹک پہنچتا ہی ہے شکن زلف یار میں
اس بحرحسن پاس نہ خنجر تھا کل نہ تیغ
میں جان دی ہے حسرت بوس و کنار میں
چلتا ہے ٹک تو دیکھ کے چل پائوں ہر نفس
آنکھیں ہی بچھ گئی ہیں ترے رہگذار میں
کس کس ادا سے ریختے میں نے کہے ولے
سمجھا نہ کوئی میری زبان اس دیار میں
تڑپے ہے متصل وہ کہاں ایسے روز و شب
ہے فرق میر برق و دل بے قرار میں
میر تقی میر

چشم پرخوں فگار کے سے رنگ

دیوان سوم غزل 1162
چاک دل ہے انار کے سے رنگ
چشم پرخوں فگار کے سے رنگ
کام میں ہے ہواے گل کی موج
تیغ خوں ریز یار کے سے رنگ
تاب ہی میں رہے ہے اس کی زلف
افعی پیچ دار کے سے رنگ
کیا جو افسردگی کے ساتھ کھلا
دل گل بے بہار کے سے رنگ
برق ابر بہار نے بھی لیے
اب دل بے قرار کے سے رنگ
کنج نخچیرگہ میں ہیں مامون
ہم بھی لاغر شکار کے سے رنگ
عمر کا بھی سرنگ جاتا ہے
ابلق روزگار کے سے رنگ
برگ گل میں نہ دل کشی ہو گی
کف پاے نگار کے سے رنگ
اس بیاباں میں میر محو ہوئے
ناتواں اک غبار کے سے رنگ
میر تقی میر

میں اور یار اور مرا کاروبار اور

دیوان سوم غزل 1137
مذہب سے میرے کیا تجھے میرا دیار اور
میں اور یار اور مرا کاروبار اور
چلتا ہے کام مرگ کا خوب اس کے دور میں
ہوتی ہے گرد شہر کے روز اک مزار اور
بندے کو ان فقیروں میں گنیے نہ شہر کے
صاحب نے میرے مجھ کو دیا اعتبار اور
دل کو تو لاگ ہی ہے تکوں راہ کب تلک
اس پر ہے یک عذاب شدید انتظار اور
بسمل پسند کر کے تڑپنا نہ دیکھنا
ہے میرے صیدپیشہ کا طور شکار اور
میں اس کی گرد رہ کا رہا منتظر بہت
سو آنکھیں دونوں لائیں مری اک غبار اور
درد سر اب جو عشق کا ہے گور تک ہے ساتھ
کچھ یہ نشہ ہی اور ہے اس کا خمار اور
کاہے کو اس قرار سے تھا اضطراب قلب
ہوتا ہے ہاتھ رکھنے سے دل بے قرار اور
کس کو فقیری میں سر و دل حرف کا ہے میر
کرتے ہیں اس دماغ پہ ہم انکسار اور
میر تقی میر

ٹک سوچ بھی ہزار ہیں دشمن ہزار دوست

دیوان سوم غزل 1114
مانند مرغ دوست نہ کہہ بار بار دوست
ٹک سوچ بھی ہزار ہیں دشمن ہزار دوست
کھڑکے ہے پات بھی تو لگا بیٹھتا ہے چوٹ
رم خوردہ وہ غزال بہت ہے شکار دوست
سب کو ہے رشک مجھ میں جو تجھ میں ہے اختلاط
دشمن ہوئے ہیں دوستی سے تیری یار دوست
تجھ سے ہزار ان نے بنا کر دیے بگاڑ
مت جان سادگی سے کہ ہے روزگار دوست
یہ تو کچھ آگے دشمن جانی سے بھی چلا
میں جانتا تھا ہو گا دل بے قرار دوست
بیگانگی خلق جہاں جاے خوف ہے
سو دشمنوں میں کیا ہے جو نکلے بھی چار دوست
مجھ بے نوا کی یاد رہے میر یہ صدا
اس میکدے میں رہیو بہت ہوشیار دوست
میر تقی میر

پر جانیں جو گئی ہیں سو رہ پر غبار ہے

دیوان دوم غزل 1034
جانے میں قتل گہ سے ترا اختیار ہے
پر جانیں جو گئی ہیں سو رہ پر غبار ہے
ہم آپ سے گئے سو الٰہی کہاں گئے
مدت ہوئی کہ اپنا ہمیں انتظار ہے
بس وعدئہ وصال سے کم دے مجھے فریب
آگے ہی مجھ کو تیرا بہت اعتبار ہے
سرتابی اس سے طائر قدسی نہ کر سکے
اس ترک صید بند کا وہ تو شکار ہے
مائل نہیں ہے سرو ہی تنہا تری طرف
گل کو بھی تیرے دیکھنے کا خار خار ہے
پیوند میں زمیں کا ہوا اس گلی میں لیک
یوں بھی کہا نہ ان نے یہ کس کا مزار ہے
کل سرو ناز باغ میں آیا نظر مجھے
میں نے فریب شوق سے جانا کہ یار ہے
اب دیکھ کر قرار کیا کر وصال کا
دل کو بغیر تیرے تنک بھی قرار ہے
مت فکر خانہ سازی میں منعم ہلاک ہو
بنیاد زندگانی کی ناپائدار ہے
کب تک ستم کبھو تو دلاسا بھی دیجیے
بالفرض میر ایسا ہی تقصیروار ہے
میر تقی میر

لیلیٰ کا ایک ناقہ سو کس قطار میں یاں

دیوان دوم غزل 886
محمل نشیں ہیں کتنے خدام یار میں یاں
لیلیٰ کا ایک ناقہ سو کس قطار میں یاں
سن شور کل قفس میں دل داغ سب ہوا ہے
کیا پھول گل کھلے ہیں اب کے بہارمیں یاں
کب روشنی ہو میرے رونے میں ابر تجھ سے
دریا بھرے ہیں ایک اک دامن کے تار میں یاں
تم تو گئے دکھاکر ٹک برق کے سے جھمکے
آیا بہت تفاوت صبر و قرار میں یاں
ہم مر گئے ولیکن سوز دروں وہی ہے
ایک آگ لگ اٹھی ہے کنج مزار میں یاں
ہجراں کی ہر گھڑی ہے سو سو برس تعب سے
روز شمار یارو ہے کس شمار میں یاں
جن راتوں میر ہم کو رونے کا مشغلہ تھا
رہتا تھا بحر اعظم سو تو کنار میں یاں
میر تقی میر

اب جو کھلا سو جیسے گل بے بہار دل

دیوان دوم غزل 852
مدت تو وا ہوا ہی نہ یہ غنچہ وار دل
اب جو کھلا سو جیسے گل بے بہار دل
ہے غم میں یاد کس کو فراموش کار دل
اب آ بنی ہے جی پہ رہا درکنار دل
دشوار ہے ثبات بہت ہجر یار میں
یاں چاہیے ہے دل سو کہاں میرے یار دل
وہ کون سی امید برآئی ہے عشق میں
رہتا ہے کس امید پہ امیدوار دل
ظالم بہت ضرور ہے ان بیکسوں کا پاس
ناچار اپنے رہتے ہیں جو مار مار دل
تم پر تو صاف میری کدورت کھلی ہے آج
مدت سے ہے ملال کے زیر غبار دل
مائل ادھر کے ہونے میں مجبور ہیں سبھی
کھنچتا ہے اس کی اور کو بے اختیار دل
حد ہے گی دلبری کی بھی اے غیرت چمن
ہو آدمی صنوبر اگر لاوے بار دل
داخل یہ اضطراب تنک آبیوں میں ہے
رکھتی نہیں ہے برق ہی کچھ بے قرار دل
کیا ہیں گرسنہ چشم دل اب کے یہ دلبراں
تسکین ان کی ہو نہ جو لیویں ہزار دل
جوں سیب ہیں ذقن کے چمن زار حسن میں
یوں باغ حسن میں بھی ہیں رنگیں انار دل
ہم سے جو عشق کشتہ جئیں تو عجب ہے میر
چھاتی ہے داغ ٹکڑے جگر کے فگار دل
میر تقی میر

اک جھمکے میں کہاں پھر صبر و قرار عاشق

دیوان دوم غزل 836
اے رشک برق تجھ سے مشکل ہے کار عاشق
اک جھمکے میں کہاں پھر صبر و قرار عاشق
خاک سیہ سے یکساں تیرے لیے ہوا ہوں
تو بھی تو ایک شب ہو شمع مزار عاشق
اے بحر حسن ہووے یہ آگ سرد ٹک تب
جوں موج ہو لبالب تجھ سے کنار عاشق
دلخواہ کوئی دلبر ملتا تو دل کو دیتے
گر چاہنے میں ہوتا کچھ اختیار عاشق
پلکوں کی اس کی کاوش ہر دم جب ایسی ہووے
مشکل کہ جی سے جاوے پھر خار خار عاشق
کیا جانے محو جو ہو اپنے ہی رو و مو کا
گذرے ہے کس طرح سے لیل و نہار عاشق
خواری کا موجب اپنی ہے اضطراب ہر دم
دل سمجھے تو رہے بھی کچھ اعتبار عاشق
آنکھوں تلے سے سرکے وہ چشم مست ٹک تو
جاتا دکھائی دیوے رنج و خمار عاشق
کیا بوجھ بھاری سے میں ناکام کاٹتا ہوں
دنیا سے ہے نرالا کچھ کاروبار عاشق
اس پردے میں غم دل کہتا ہے میر اپنا
کیا شعر و شاعری ہے یارو شعار عاشق
میر تقی میر

یک جان و صد تمنا یک دل ہزار خواہش

دیوان دوم غزل 826
کیا کہیے کیا رکھیں ہیں ہم تجھ سے یار خواہش
یک جان و صد تمنا یک دل ہزار خواہش
لے ہاتھ میں قفس ٹک صیاد چل چمن تک
مدت سے ہے ہمیں بھی سیر بہار خواہش
نے کچھ گنہ ہے دل کا نے جرم چشم اس میں
رکھتی ہے ہم کو اتنا بے اختیار خواہش
حالانکہ عمر ساری مایوس گذری تس پر
کیا کیا رکھیں ہیں اس کے امیدوار خواہش
غیرت سے دوستی کی کس کس سے ہوجے دشمن
رکھتا ہے یاری ہی کی سارا دیار خواہش
ہم مہرورز کیونکر خالی ہوں آرزو سے
شیوہ یہی تمنا فن و شعار خواہش
اٹھتی ہے موج ہر یک آغوش ہی کی صورت
دریا کو ہے یہ کس کا بوس و کنار خواہش
صد رنگ جلوہ گر ہے ہر جادہ غیرت گل
عاشق کی ایک پاوے کیونکر قرار خواہش
یک بار بر نہ آئی اس سے امید دل کی
اظہار کرتے کب تک یوں بار بار خواہش
کرتے ہیں سب تمنا پر میر جی نہ اتنی
رکھے گی مار تم کو پایان کار خواہش
میر تقی میر

تصدیع کھینچی ہم نے یہ کام اختیار کر

دیوان دوم غزل 813
آخر دکھائی عشق نے چھاتی فگار کر
تصدیع کھینچی ہم نے یہ کام اختیار کر
اس باعث حیات سے کیا کیا ہیں خواہشیں
پر دم بخود ہی رہتے ہیں ہم جی کو مار کر
ٹک سامنے ہوا کہ نہ ایماں نہ دین و دل
کافر کو بھی نہ اس سے الٰہی دوچار کر
جا شوق پر نہ جا تن زار و نزار پر
اے ترک صید پیشہ ہمیں بھی شکار کر
وہ سخت باز دائو میں آتا نہیں ہے ہائے
کس طور جی کو ہم نہ لگا بیٹھیں ہار کر
ہم آپ سے گئے تو گئے پر بسان نقش
بیٹھا تو روز حشر تئیں انتظار کر
کن آنکھوں دیکھیں رنگ خزاں کے کہ باغ سے
گل سب چلے ہیں رخت سفر اپنا بار کر
جل تھل بھریں نہ جب تئیں دم تب تئیں نہ لیں
ہم اور ابر آج اٹھے ہیں قرار کر
اک صبح میری چھاتی کے داغوں کو دیکھ تو
یہ پھول گل بھی زور رہے ہیں بہار کر
مرتے ہیں میر سب پہ نہ اس بیکسی کے ساتھ
ماتم میں تیرے کوئی نہ رویا پکار کر
میر تقی میر

کہیو ہم صحرانوردوں کا تمامی حال زار

دیوان دوم غزل 804
اے صبا گر شہر کے لوگوں میں ہو تیرا گذار
کہیو ہم صحرانوردوں کا تمامی حال زار
خاک دہلی سے جدا ہم کو کیا یک بارگی
آسماں کو تھی کدورت سو نکالا یوں غبار
منصب بلبل غزل خوانی تھا سو تو ہے اسیر
شاعری زاغ و زغن کا کیوں نہ ہووے اب شعار
طائر خوش زمزمہ کنج قفس میں ہے خموش
چہچہے چہیاں کریں ہیں صحن گلشن میں ہزار
برگ گل سے بھی کیا نہ ایک نے ٹک ہم کو یاد
نامہ و پیغام و پرسش بے مراتب درکنار
بے خلش کیونکر نہ ہو گرم سخن گلزار میں
میں قفس میں ہوں کہ میرا تھا دلوں میں خارخار
بلبل خوش لہجہ کے جائے پہ گو غوغائیاں
طرح غوغا کی چمن میں ڈالیں پر کیا اعتبار
طائران خوش لب و لہجہ نہیں رہتے چھپے
شور سے ان کے بھرے ہیں قریہ و شہر و دیار
شہر کے کیا ایک دو کوچوں میں تھی شہرت رہی
شہروں شہروں ملکوں ملکوں ہے انھوں کا اشتہار
کیا کہوں سوے چمن ہوتا جو میں سرگرم گشت
پھول گل جب کھلنے لگتے جوش زن ہوتی بہار
شور سن سن کر غزل خوانی کا میری ہم صفیر
غنچہ ہو آتے جو ہوتا آب و رنگ شاخسار
خوش نوائی کا جنھیں دعویٰ تھا رہ جاتے خموش
جن کو میں کرتا مخاطب ان کو ہوتا افتخار
بعضوں کو رشک قبول خاطر و لطف سخن
بعضوں کا سینہ فگار و بعضوں کا دل داغدار
ایکوں کے ہونٹوں کے اوپر آفریں استاد تھا
ایک کہتے تھے رسوخ دل ہے اپنا استوار
ربط کا دعویٰ تھا جن کو کہتے تھے مخلص ہیں ہم
جانتے ہیں ذات سامی ہی کو ہم سب خاکسار
نقل کرتے کیا یہ صحبت منعقد جب ہوتی بزم
بیٹھ کر کہتے تھے منھ پر میرے بعضے بعضے یار
بندگی ہے خدمت عالی میں ہم کو دیر سے
کر رکھی ہے جان اپنی ہم نے حضرت پر نثار
سو نہ خط ان کا نہ کوئی پرچہ پہنچا مجھ تلک
واہ وا ہے رابطہ رحمت ہے یہ اخلاص و پیار
رفتہ رفتہ ہو گئیں آنکھیں مری دونوں سفید
بسکہ نامے کا کیا یاروں کے میں نے انتظار
لکھتے گر دو حرف لطف آمیز بعد از چند روز
تو بھی ہوتا اس دل بے تاب و طاقت کو قرار
سو تو یک ننوشتہ کاغذ بھی نہ آیا میرے پاس
ان ہم آوازوں سے جن کا میں کیا ربط آشکار
خط کتابت سے یہ کہتے تھے نہ بھولیں گے تجھے
آویں گے گھر بار کی تیرے خبر کو بار بار
جب گیا میں یاد سے تب کس کا گھر کاہے کا پاس
آفریں صد آفریں اے مردمان روزگار
اب بیاباں در بیاباں ہے مرا شور و فغاں
گو چمن میں خوش کی تم نے میری جاے نالہ وار
ہے مثل مشہور یہ عمر سفر کوتاہ ہے
طالع برگشتہ بھی کرتے ہیں اب امداد کار
اک پر افشانی میں بھی ہے یہ وطن گلزار سا
سامعوں کی چھاتیاں نالوں سے ہوویں گی فگار
منھ پہ آویں گے سخن آلودئہ خون جگر
کیونکہ یاران زماں سے چاک ہے دل جوں انار
لب سے لے کر تا سخن ہیں خونچکاں شکوے بھرے
لیک ہے اظہار ہر ناکس سے اپنا ننگ و عار
چپ بھلی گو تلخ کامی کھینچنی اس میں پڑے
بیت بحثی طبع نازک پر ہے اپنی ناگوار
آج سے کچھ بے حسابی جور کن مردم نہیں
ان سے اہل دل سدا کھینچے ہیں رنج بے شمار
بس قلم رکھ ہاتھ سے جانے بھی دے یہ حرف میر
کاہ کے چاہے نہیں کہسار ہوتے بے وقار
کام کے جو لوگ صاحب فن ہیں سو محسود ہیں
بے تہی کرتے رہیں گے حاسدان نابکار
میر تقی میر

چاک ہے دل انار کے مانند

دیوان دوم غزل 797
تجھ بن اے نوبہار کے مانند
چاک ہے دل انار کے مانند
پہنچی شاید جگر تک آتش عشق
اشک ہیں سب شرار کے مانند
کو دماغ اس کی رہ سے اٹھنے کا
بیٹھے اب ہم غبار کے مانند
کوئی نکلے کلی تو لالے کی
اس دل داغدار کے مانند
سرو کو دیکھ غش کیا ہم نے
تھا چمن میں وہ یار کے مانند
ہار کر شب گلے پڑے اس کے
ہم بھی پھولوں کے ہار کے مانند
برق تڑپی بہت ولے نہ ہوئی
اس دل بے قرار کے مانند
ان نے کھینچی تھی صیدگہ میں تیغ
برق ابر بہار کے مانند
اس کے گھوڑے کے آگے سے نہ ٹلے
ہم بھی دبلے شکار کے مانند
زخم کھا بیٹھیو جگر پر مت
تو بھی مجھ دل فگار کے مانند
اس کی سرتیز ہر پلک ہے میر
خنجر آبدار کے مانند
میر تقی میر

پر منھ پہ آ ہی جاتی ہے بے اختیار بات

دیوان دوم غزل 783
سنتا نہیں اگرچہ ہمارا نگار بات
پر منھ پہ آ ہی جاتی ہے بے اختیار بات
بلبل کے بولنے سے ہے کیوں بے دماغ گل
آپس میں یوں تو ہوتی ہے یارو ہزار بات
منھ تک رہو جو ہو وہ فریبندہ حرف زن
اس تھوڑے سن و سال میں یہ پیچدار بات
بوسہ دے چپکے لب کا کہ تب کچھ مزہ نہیں
پاوے گی سارے شہر میں جب اشتہار بات
ہے کس کی صوت انکر اصوات واعظا
کب آدمی کی جنس کرے ہے پکار بات
آہو کو اس کی چشم سخن گو سے مت ملا
شہری سے کرسکے ہے کہیں بھی گنوار بات
یوں بار گل سے اب کے جھکے ہیں نہال باغ
جھک جھک کے جیسے کرتے ہیں دوچار یار بات
آزردہ دل کو حرف پہ لانے کا لطف کیا
کرتی ہے خونچکاں مرے لب سے گذار بات
مرجاں کوئی کہے ہے کوئی ان لبوں کو لعل
کچھ رفتہ رفتہ پا ہی رہے گی قرار بات
یوں چپکے چپکے میر تلف ہو گا کب تلک
کچھ ہووے بھڑ کر اس سے بھی کر ایک بار بات
میر تقی میر

گل اشتیاق سے میرے گلے کا ہار ہوا

دیوان دوم غزل 704
چمن میں جاکے جو میں گرم وصف یار ہوا
گل اشتیاق سے میرے گلے کا ہار ہوا
تمھارے ترکش مژگاں کی کیا کروں تعریف
جو تیر اس سے چلا سو جگر کے پار ہوا
ہماری خاک پہ اک بیکسی برستی ہے
ادھر سے ابر جب آیا تب اشکبار ہوا
کریں نہ کیونکے یہ ترکاں بلندپروازی
انھوں کا طائر سدرہ نشیں شکار ہوا
کبھو بھی اس کو تہ دل سے ملتے پایا پھر
فریب تھا وہ کوئی دن جو ہم سے یار ہوا
بہت دنوں سے درونے میں اضطراب سا تھا
جگر تمام ہوا خون تب قرار ہوا
شکیب میر جو کرتا تو وقر رہ جاتا
ادھر کو جاکے عبث یہ حبیب خوار ہوا
میر تقی میر

اس وہم کی نمود کا ہے اعتبار کیا

دیوان دوم غزل 698
پھرتا ہے زندگی کے لیے آہ خوار کیا
اس وہم کی نمود کا ہے اعتبار کیا
کیا جانیں ہم اسیر قفس زاد اے نسیم
گل کیسے باغ کہتے ہیں کس کو بہار کیا
آنکھیں برنگ نقش قدم ہو گئیں سفید
پھر اور کوئی اس کا کرے انتظار کیا
سیکھی ہے طرح سینہ فگاری کی سب مری
لائے تھے ساتھ چاک دل ایسا انار کیا
سرکش کسو سے ایسی کدورت رکھے وہ شوخ
ہم اس کی خاک راہ ہیں ہم سے غبار کیا
نے وہ نگہ چبھی ہے نہ وے پلکیں گڑ گئیں
کیا جانیے کہ دل کو ہے یہ خار خار کیا
لیتا ہے ابر اب تئیں اس ناحیے سے آب
روئے ہیں ہم بھی برسوں تئیں زار زار کیا
عاشق کے دل سے رکھ نہ تسلی کی چشم داشت
ہے برق پارہ یہ اسے آوے قرار کیا
صحبت رہی بگڑتی ہی اس کینہ ور سے آہ
ہم جانتے نہیں ہیں کہ ہوتا ہے پیار کیا
مارا ہو ایک دو کو تو ہو مدعی کوئی
کشتوں کا اس کے روز جزا میں شمار کیا
مدت سے جرگہ جرگہ سرتیر ہیں غزال
کم ہو گیا ہے یاروں کا ذوق شکار کیا
پاتے ہیں اپنے حال میں مجبور سب کو ہم
کہنے کو اختیار ہے پر اختیار کیا
آخر زمانہ سازی سے کھویا نہ وقر میر
یہ اختیار تم نے کیا روزگار کیا
میر تقی میر

آج کل مجھ کو مار رہتا ہے

دیوان اول غزل 600
دل جو پر بے قرار رہتا ہے
آج کل مجھ کو مار رہتا ہے
تیرے بن دیکھے میں مکدر ہوں
آنکھوں پر اب غبار رہتا ہے
جبر یہ ہے کہ تیری خاطر دل
روز بے اختیار رہتا ہے
دل کو مت بھول جانا میرے بعد
مجھ سے یہ یادگار رہتا ہے
دور میں چشم مست کے تیری
فتنہ بھی ہوشیار رہتا ہے
بسکہ تیرا ہوا بلا گرداں
سر کو میرے دوار رہتا ہے
ہر گھڑی رنجش ایسی باتوں میں
کوئی اخلاص و پیار رہتا ہے
تجھ بن آئے ہیں تنگ جینے سے
مرنے کا انتظار رہتا ہے
دل کو گو ہاتھ میں رکھو اب تم
کوئی یہ بے قرار رہتا ہے
غیر مت کھا فریب خلق اس کا
کوئی دم میں وہ مار رہتا ہے
پی نہ ہرگز شراب جیسا چاہ
اس کے نشے کا تار رہتا ہے
پر ہو پیمانہ عمر کا جب تک
تب تلک یہ خمار رہتا ہے
دلبرو دل چراتے ہو ہر دم
یوں کہیں اعتبار رہتا ہے
کیوں نہ ہووے عزیز دلہا میر
کس کے کوچے میں خوار رہتا ہے
میر تقی میر

درد بے اختیار اٹھتا ہے

دیوان اول غزل 525
جب کہ پہلو سے یار اٹھتا ہے
درد بے اختیار اٹھتا ہے
اب تلک بھی مزار مجنوں سے
ناتواں اک غبار اٹھتا ہے
ہے بگولا غبار کس کا میر
کہ جو ہو بے قرار اٹھتا ہے
میر تقی میر

رکھے خدا جہاں میں دل بے قرار کو

دیوان اول غزل 385
آرام ہوچکا مرے جسم نزار کو
رکھے خدا جہاں میں دل بے قرار کو
پانی پہ جیسے غنچۂ لالہ پھرے بہا
دیکھا میں آنسوئوں میں دل داغدار کو
برسا تو میرے دیدئہ خوں بار کے حضور
پر اب تک انفعال ہے ابربہار کو
ہنستا ہی میں پھروں جو مرا کچھ ہو اختیار
پر کیا کروں میں دیدئہ بے اختیار کو
آیا جہاں میں دوست بھی ہوتے ہیں یک دگر
مجھ سے جو دشمنی ہی رہی میرے یار کو
سو باریوں تو غیروں سے کرتے ہو ہنس کے بات
کچھ منھ بنا رہو ہو ہماری ہی بار کو
سر گشتگی سوائے نہ دیکھا جہاں میں کچھ
اک عمر خضر سیر کیا اس دیار کو
کس کس کی خاک اب کی ملانی ہے خاک میں
جاتی ہے پھر نسیم اسی رہگذار کو
اے وہ کوئی جو آج پیے ہے شراب عیش
خاطر میں رکھیو کل کے بھی رنج و خمار کو
خوباں کا کیا جگر جو کریں مجھ کو اپنا صید
پہچانتا ہے سب کوئی تیرے شکار کو
جیتے جی فکر خوب ہے ورنہ یہ بدبلا
رکھے گا حشر تک تہ و بالا مزار کو
گر ساتھ لے گڑا تو دل مضطرب تو میر
آرام ہوچکا ترے مشت غبار کو
میر تقی میر

تو بھی ہم دل کو مار رکھتے ہیں

دیوان اول غزل 362
آرزوئیں ہزار رکھتے ہیں
تو بھی ہم دل کو مار رکھتے ہیں
برق کم حوصلہ ہے ہم بھی تو
دلک بے قرار رکھتے ہیں
غیر ہی مورد عنایت ہے
ہم بھی تو تم سے پیار رکھتے ہیں
نہ نگہ نے پیام نے وعدہ
نام کو ہم بھی یار رکھتے ہیں
ہم سے خوش زمزمہ کہاں یوں تو
لب و لہجہ ہزار رکھتے ہیں
چوٹٹے دل کے ہیں بتاں مشہور
بس یہی اعتبار رکھتے ہیں
پھر بھی کرتے ہیں میرصاحب عشق
ہیں جواں اختیار رکھتے ہیں
میر تقی میر

زمانہ ہووے مساعد تو روزگار کریں

دیوان اول غزل 356
نہ کیونکے شیخ توکل کو اختیار کریں
زمانہ ہووے مساعد تو روزگار کریں
گیا وہ زمزمۂ صبح فصل گل بلبل
دعا نہ پہنچے چمن تک ہم اب ہزار کریں
تمام صید سر تیر جمع ہیں لیکن
نصیب اس کے کہ جس کو ترا شکار کریں
تسلی تو ہو دل بے قرار خوباں سے
یہ کاش ملنے نہ ملنے کا کچھ قرار کریں
ہمیں تو نزع میں شرمندہ آ کے ان نے کیا
رہا ہے ایک رمق جی سو کیا نثار کریں
رہی سہی بھی گئی عمر تیرے پیچھے یار
یہ کہہ کہ آہ ترا کب تک انتظار کریں
کریں ہیں حادثے ہر روز وار آخر تو
سنان آہ دل شب کے ہم بھی پار کریں
یہ قتل غیر ہے کیا کام ہم نشیناں آج
جو دشمنی نہ کرے وہ تو اس کو یار کریں
ہوا ہوں خاک رہ اس واسطے کہ خوباں میر
گذار گور پہ میری بھی ایک بار کریں
میر تقی میر

وہ کوئی اور ہیں جو اعتبار پاتے ہیں

دیوان اول غزل 323
بہت ہی اپنے تئیں ہم تو خوار پاتے ہیں
وہ کوئی اور ہیں جو اعتبار پاتے ہیں
تری گلی میں میں رویا تھا دل جلا یک شب
ہنوز واں سے دل داغدار پاتے ہیں
نہ ہوویں شیفتہ کیوں اضطراب پر عاشق
کہ جی کو کھوکے دل بے قرار پاتے ہیں
گلہ عبث ہے تری آستانہ بوسی کا
مسیح و خضر بھی واں کم ہی بار پاتے ہیں
تڑپ ہے قیس کے دل میں تہ زمیں اس سے
غزال دشت نشان مزار پاتے ہیں
وگرنہ خاک ہوئے کتنے ہی محبت میں
کسی کا بھی کہیں مشت غبار پاتے ہیں
شتابی آوے اجل میر جاوے یہ رونا
کہ میرے شور سے تصدیع یار پاتے ہیں
میر تقی میر

سرو و قمری شکار ہوتے ہیں

دیوان اول غزل 315
خوش قداں جب سوار ہوتے ہیں
سرو و قمری شکار ہوتے ہیں
تیرے بالوں کے وصف میں میرے
شعر سب پیچ دار ہوتے ہیں
آئو یاد بتاں پہ بھول نہ جائو
یہ تغافل شعار ہوتے ہیں
دیکھ لیویں گے غیر کو تجھ پاس
صحبتوں میں بھی یار ہوتے ہیں
صدقے ہولیویں ایک دم تیرے
پھر تو تجھ پر نثار ہوتے ہیں
تو کرے ہے قرار ملنے کا
ہم ابھی بے قرار ہوتے ہیں
ہفت اقلیم ہر گلی ہے کہیں
دلی سے بھی دیار ہوتے ہیں
رفتہ رفتہ یہ طفل خوش ظاہر
فتنۂ روزگار ہوتے ہیں
اس کے نزدیک کچھ نہیں عزت
میرجی یوں ہی خوار ہوتے ہیں
میر تقی میر

آہ افسوس صد ہزار افسوس

دیوان اول غزل 238
مر گیا میں ملا نہ یار افسوس
آہ افسوس صد ہزار افسوس
ہم تو ملتے تھے جب اہا ہاہا
نہ رہا ووہیں روزگار افسوس
یوں گنواتا ہے دل کوئی مجھ کو
یہی آتا ہے بار بار افسوس
قتل کر تو ہمیں کرے گا خوشی
یہ توقع تھی تجھ سے یار افسوس
رخصت سیر باغ تک نہ ہوئی
یوں ہی جاتی رہی بہار افسوس
خوب بدعہد تو نہ مل لیکن
میرے تیرے تھا یہ قرار افسوس
خاک پر میر تیری ہوتا ولے
نہ ہوا اتنا اقتدار افسوس
میر تقی میر

ہاتھ سے جائے گا سررشتۂ کار آخرکار

دیوان اول غزل 221
رہنے کا پاس نہیں ایک بھی تار آخرکار
ہاتھ سے جائے گا سررشتۂ کار آخرکار
لوح تربت پہ مری پہلے یہ لکھیو کہ اسے
یار دشمن ہو گیا جان سے مار آخرکار
مشت خاک اپنی جو پامال ہے یاں اس پہ نہ جا
سر کو کھینچے گا فلک تک یہ غبار آخرکار
سیر کر کثرت عالم کی مری جان کہ پھر
تن تنہا ہے تو اور کنج مزار آخرکار
چشم وا دیکھ کے اس باغ میں کیجو نرگس
آنکھوں سے جاتی رہے گی یہ بہار آخرکار
ابتدا ہی میں محبت کی ہوئے ہم تو تمام
ہوتا ہو گا یہی کچھ عشق میں یار آخرکار
اول کار محبت تو بہت سہل ہے میر
جی سے جاتا ہے ولے صبر و قرار آخرکار
میر تقی میر

اس آستاں پہ مری خاک سے غبار رہا

دیوان اول غزل 64
موا میں سجدے میں پر نقش میرا بار رہا
اس آستاں پہ مری خاک سے غبار رہا
جنوں میں اب کے مجھے اپنے دل کا غم ہے پہ حیف
خبر لی جب کہ نہ جامے میں ایک تار رہا
بشر ہے وہ پہ کھلا جب سے اس کا دام زلف
سر رہ اس کے فرشتے ہی کا شکار رہا
کبھو نہ آنکھوں میں آیا وہ شوخ خواب کی طرح
تمام عمر ہمیں اس کا انتظار رہا
شراب عیش میسر ہوئی جسے اک شب
پھر اس کو روز قیامت تلک خمار رہا
بتاں کے عشق نے بے اختیار کر ڈالا
وہ دل کہ جس کا خدائی میں اختیار رہا
وہ دل کہ شام و سحر جیسے پکا پھوڑا تھا
وہ دل کہ جس سے ہمیشہ جگر فگار رہا
تمام عمر گئی اس پہ ہاتھ رکھتے ہمیں
وہ دردناک علی الرغم بے قرار رہا
ستم میں غم میں سر انجام اس کا کیا کہیے
ہزاروں حسرتیں تھیں تس پہ جی کو مار رہا
بہا تو خون ہو آنکھوں کی راہ بہ نکلا
رہا جو سینۂ سوزاں میں داغ دار رہا
سو اس کو ہم سے فراموش کاریوں لے گئے
کہ اس سے قطرئہ خوں بھی نہ یادگار رہا
گلی میں اس کی گیا سو گیا نہ بولا پھر
میں میر میر کر اس کو بہت پکار رہا
میر تقی میر

دل نے اب زور بے قرار کیا

دیوان اول غزل 58
تابہ مقدور انتظار کیا
دل نے اب زور بے قرار کیا
دشمنی ہم سے کی زمانے نے
کہ جفا کار تجھ سا یار کیا
یہ توہم کا کارخانہ ہے
یاں وہی ہے جو اعتبار کیا
ایک ناوک نے اس کی مژگاں کے
طائر سدرہ تک شکار کیا
صدرگ جاں کو تاب دے باہم
تیری زلفوں کا ایک تار کیا
ہم فقیروں سے بے ادائی کیا
آن بیٹھے جو تم نے پیار کیا
سخت کافر تھا جن نے پہلے میر
مذہب عشق اختیار کیا
میر تقی میر

کبھو درد تھا کبھو داغ تھا کبھو زخم تھا کبھو وار تھا

دیوان اول غزل 45
کئی دن سلوک وداع کا مرے درپئے دل زار تھا
کبھو درد تھا کبھو داغ تھا کبھو زخم تھا کبھو وار تھا
دم صبح بزم خوش جہاں شب غم سے کم نہ تھی مہرباں
کہ چراغ تھا سو تو دود تھا جو پتنگ تھا سو غبار تھا
دل خستہ لوہو جو ہو گیا تو بھلا ہوا کہ کہاں تلک
کبھو سوز سینہ سے داغ تھا کبھو درد و غم سے فگار تھا
دل مضطرب سے گذر گئی شب وصل اپنی ہی فکر میں
نہ دماغ تھا نہ فراغ تھا نہ شکیب تھا نہ قرار تھا
جو نگاہ کی بھی پلک اٹھا تو ہمارے دل سے لہو بہا
کہ وہیں وہ ناوک بے خطا کسو کے کلیجے کے پار تھا
یہ تمھاری ان دنوں دوستاں مژہ جس کے غم میں ہے خوں چکاں
وہی آفت دل عاشقاں کسو وقت ہم سے بھی یار تھا
نہیں تازہ دل کی شکستگی یہی درد تھا یہی خستگی
اسے جب سے ذوق شکار تھا اسے زخم سے سروکار تھا
کبھو جائے گی جو ادھر صبا تو یہ کہیو اس سے کہ بے وفا
مگر ایک میر شکستہ پا ترے باغ تازہ میں خار تھا
میر تقی میر

ایک تجھ کو ہزار میں دیکھا

دیوان اول غزل 44
گل و بلبل بہار میں دیکھا
ایک تجھ کو ہزار میں دیکھا
جل گیا دل سفید ہیں آنکھیں
یہ تو کچھ انتظار میں دیکھا
جیسا مضطر تھا زندگی میں دل
ووہیں میں نے قرار میں دیکھا
آبلے کا بھی ہونا دامن گیر
تیرے کوچے کے خار میں دیکھا
تیرہ عالم ہوا یہ روز سیاہ
اپنے دل کے غبار میں دیکھا
ذبح کر میں کہا تھا مرتا ہوں
دم نہیں مجھ شکار میں دیکھا
جن بلائوں کو میر سنتے تھے
ان کو اس روزگار میں دیکھا
میر تقی میر

القصہ میر کو ہم بے اختیار پایا

دیوان اول غزل 23
مانند شمع مجلس شب اشکبار پایا
القصہ میر کو ہم بے اختیار پایا
احوال خوش انھوں کا ہم بزم ہیں جو تیرے
افسوس ہے کہ ہم نے واں کا نہ بار پایا
چیتے جو ضعف ہوکر زخم رسا سے اس کے
سینے کو چاک دیکھا دل کو فگار پایا
شہر دل ایک مدت اجڑا بسا غموں میں
آخر اجاڑ دینا اس کا قرار پایا
اتنا نہ تجھ سے ملتے نے دل کو کھوکے روتے
جیسا کیا تھا ہم نے ویسا ہی یار پایا
کیا اعتبار یاں کا پھر اس کو خوار دیکھا
جس نے جہاں میں آکر کچھ اعتبار پایا
آہوں کے شعلے جس جا اٹھتے تھے میر سے شب
واں جا کے صبح دیکھا مشت غبار پایا
میر تقی میر

تا بہ روح الامیں شکار ہوا

دیوان اول غزل 22
سنیو جب وہ کبھو سوار ہوا
تا بہ روح الامیں شکار ہوا
اس فریبندہ کو نہ سمجھے آہ
ہم نے جانا کہ ہم سے یار ہوا
نالہ ہم خاکساروں کا آخر
خاطر عرش کا غبار ہوا
جو نہ کہنا تھا سو بھی میں نے کہا
دل کی بے طاقتی سے خوار ہوا
پھر گیا ہے زمانہ کیا کہ مجھے
ہوتے خوار ایک روزگار ہوا
مر چلے بے قرار ہوکر ہم
اب تو تیرے تئیں قرار ہوا
وہ جو خنجر بکف نظر آیا
میر سو جان سے نثار ہوا
میر تقی میر

تلاش میں ہے سحر، بار بار گزری ہے

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 15
تم آئے ہو، نہ شبِ انتظار گزری ہے
تلاش میں ہے سحر، بار بار گزری ہے
جنوں میں جتنی بھی گزری، بکار گزری ہے
اگرچہ دل پہ خرابی ہزار گزری ہے
ہوئی ہے حضرتِ ناصح سے گفتگو جس شب
وہ شب ضرور سرِ کوئے یار گزری ہے
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات اُن کو بہت ناگوار گزری ہے
نہ گل کھلے ہیں، نہ اُن سے ملے، نہ مے پی ہے
عجیب رنگ میں اب کے بہار گزری ہے
چمن میں غارتِ گلچیں سے جانے کیا گزری
قفس سے آج صبا بے قرار گزری ہے
فیض احمد فیض

فیض احمد فیض ۔ قطعات

فیض احمد فیض ۔ قطعات
رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے
جیسے صحراؤں میں ہولے سے چلے باد نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے
**
دل رہین غم جہاں ہے آج
ہر نفس تشنۂ فغاں ہے آج
سخت ویراں ہے محفل ہستی
اے غم دوست! تو کہاں ہے آج

**

وقف حرمان و یاس رہتا ہے
دل ہے اکثر اداس رہتا ہے
تم تو غم دے کے بھول جاتے ہو
مجھ کو احساں کا پاس رہتا ہے
**
فضائے دل پر اداسی بکھرتی جاتی ہے
فسردگی ہے کہ جاں تک اترتی جاتی ہے
فریب زیست سے قدرت کا مدعا معلوم
یہ ہوش ہے کہ جوانی گزرتی جاتی ہے
متفرق اشعار
فیض احمد فیض

اب کسی پر کوئی اعتبار نہیں ہے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 624
مان لیا وہ بھی میرا یار نہیں ہے
اب کسی پر کوئی اعتبار نہیں ہے
جاگ رہا ہوں میں کتنے سال ہوئے ہیں
کیسے کہوں اس کا انتظار نہیں ہے
ٹوٹ گئے ہیں دو پھر امید بھرے دل
ٹکڑے ہیں اتنے کہ کچھ شمار نہیں ہے
میرا بدن برف ہے یا تیرِ نظر میں
پہلے پہل والی اب کے مار نہیں ہے
عہدِ خزاں میں ہے میرا باغ کہ جیسے
دامنِ تقدیر میں بہار نہیں ہے
سنگ اچھالے ہیں اس نے بام سے مجھ پر
جیسے گلی اس کی رہگزار نہیں ہے
ایک دعا بس ہے میرے پاس عشاء کی
رات! مرا کوئی غمگسار نہیں ہے
صرف گھٹا ہے جو دل میں روئے برس کے
اور کوئی چشمِ اشکبار نہیں ہے
سرخ ہے بے شک نمود چہرئہ تاریخ
دامنِ تہذیب داغ دار نہیں ہے
سنگ زدہ اس کے رنگ ڈھنگ ہیں لیکن
آدمی ہے کوئی کوہسار نہیں ہے
پار کروں گا میں اپنی آگ کا دریا
دیکھ رہا ہوں یہ بے کنار نہیں ہے
وقت نہیں آج اس کے پاس ذرا بھی
اور یہاں رنگِ اختصار نہیں ہے
مست ہوائیں بھی ماہتاب بھی لیکن
رات بھری زلفِ آبشار نہیں ہے
گھوم رہا ہوں فصیلِ ذات کے باہر
کوئی بھی دروازئہ دیار نہیں ہے
ایک نہیں قحط عشق صرف یہاں پر
شہر میں کوئی بھی کاروبار نہیں ہے
پھیر ہی جا مجھ پہ اپنا دستِ کرامت
آ کہ مری جان کو قرار نہیں ہے”
درج ہے نیلی بہشتِ خواب کا منظر
آنکھ میں منصور کی غبار نہیں ہے
بنام غالب
منصور آفاق

آنکھوں سے گرپڑے کئی نیلم کے آبشار

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 7
میں جا رہا تھا دیکھنے فرودسِ بے کنار
آنکھوں سے گرپڑے کئی نیلم کے آبشار
شادابیوں کی آخری حد، وادئ گریز
پاؤں کے انتظار میں صدیوں سے اشکبار
ہلمت کی بے پناہ بلندی پہ تیز آب
پھرتا ہے بادلوں کے دریچوں میں بے قرار
لاکھوں برس قدیم گھنے جنگلوں کا کیل
اور اس کے بیچ زندگی باردو کا شکار
کیوں صحنِ شاردا میں ہوئی بدھ کی آتما
کتنے کروڑ لوگوں کے اشکوں سے داغدار
معصوم داؤکھن کی مقدس سفیدیاں
اک دورِ جاھلاں میں رسولوں میں انتظار
شمشہ بری کے پیچھے چناروں کا سرخ روپ
بادل بھری شعاعوں کامقتل پسِ بہار
اڑتے ہیں دھیر کوٹ کی گلیوں میں برگ و بار
جیسے بدلنے لگتی ہے تہذیبِ برف زار
شبنم کے موتیوں سے بھرا راولہ کا کوٹ
ہر سنگ میں دکھاتا ہے اک چشمِ آب دار
بنجوسہ جیسے آب درختوں کے تھال میں
بس گھومتی ہے روح میں خاموش سی پکار
دریائے تند سو گئے منگلا کی گود میں
منصور ڈھونڈتا رہا کشمیر کے سوار
منصور آفاق

وہ حوصلہ رہا نہیں صبر و قرار کا

الطاف حسین حالی ۔ غزل نمبر 19
اک خوشی ہو گئی ہے تحمل کی ورنہ اب
وہ حوصلہ رہا نہیں صبر و قرار کا
آؤ مٹا بھی دو خلش آرزوئے قتل
کیا اعتبار زندگی مستعار کا
سمجھو مجھے اگر ہے تمہیں آدمی کی قدر
میرا اک التفات نہ مرنا ہزار کا
گر صبح تک وفا نہ ہوا وعدہ وصال
سن لیں گے وہ مآل شب انتظار کا
ہر سمت گرد ناقۂ لیلیٰ بلند ہے
پہنچے جو حوصلہ ہو کسی شہسوار کا
حالیؔ بس اب یقین ہے کہ دلی کے ہو رہے
ہے ذرہ ذرہ مہر فزا اس دیار کا
الطاف حسین حالی

غم سے بے اختیار سا ہے کچھ

امیر مینائی ۔ غزل نمبر 35
دل جو سینے میں زار سا ہے کچھ
غم سے بے اختیار سا ہے کچھ
رخت ہستی بدن پہ ٹھیک نہیں
جامۂ مستعار سا ہے کچھ
چشم نرگس کہاں وہ چشم کہاں
نشہ کیسا خمار سا ہے کچھ
نخل اُمید میں نہ پھول نہ پھل
شجرِ بے بہار سا ہے کچھ
ساقیا ہجر میں یہ ابر نہیں
آسمان پر غبار سا ہے کچھ
کل تو آفت تھی دل کی بیتابی
آج بھی بے قرار سا ہے کچھ
مردہ ہے دل تو گور ہے سینہ
داغ شمع مزار سا ہے کچھ
اِس کو دنیا کی اُس کو خلد کی حرص
رند ہے کچھ نہ پارسا ہے کچھ
پہلے اس سے تھا ہوشیار امیر
اب بے اختیار سا ہے کچھ
امیر مینائی

دیر تک رہگزار کو دیکھا

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 58
کارواں یا غبار کو دیکھا
دیر تک رہگزار کو دیکھا
پھول سا رنگ، خار سے انداز
تجھ کو دیکھا بہار کو دیکھا
زلف و رُخ کے طلسم سے نکلے
حسنِ لیل و نہار کو دیکھا
دل آزاد کا خیال آیا
اپنے ہر اختیار کو دیکھا
ہر ستارے سے روشنی مانگی
ہر شبِ انتظار کو دیکھا
کسی لمحے پہ اپنا نام نہ تھا
گردش روزگار کو دیکھا
پھر تسلی کسی کی یاد آئی
پھر دل بے قرار کو دیکھا
ہر گل تر تھا ایک داغِ نمو
ہم نے ہر شاخسار کو دیکھا
دھیان میں آئی زندگی باقیؔ
رقص میں اک شرار کو دیکھا
باقی صدیقی

کہیں کہاں ترا دیوانہ شرمسار ہوا

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 41
کبھی حرم پہ کبھی بتکدے پہ بار ہوا
کہیں کہاں ترا دیوانہ شرمسار ہوا
گزر گیا ہے محبت کا مرحلہ شاید
ترے خیال سے بھی دل نہ بے قرار ہوا
تمہاری بزم میں جب آرزو کی بات چھڑی
ہمارا ذکر بھی یاروں کو ناگوار ہوا
چمن کی خاک سے پیدا ہوا ہے کانٹا بھی
یہ اور بات کہ حالات کا شکار ہوا
نسیم صبح کی شوخی میں تو کلام نہیں
مگر وہ پھول جو پامالِ رہگزار ہوا
روش روش پہ سلگتے ہوئے شگوفوں سے
کبھی کبھی ہمیں اندازۂ بہار ہوا
فسانہ خواں کوئی دنیا میں مل گیا جس کو
اسی کی ذکر فسانوں میں بار بار ہوا
کس انجمن میں جلایا ہے تو نے اے باقیؔ
ترا چراغ، چراغِ سرِ مزار ہوا
باقی صدیقی