ٹیگ کے محفوظات: قراری

دل فریبی کی لگاوٹ، یہ تمہاری ہے عبث

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 42
اُس وفا کی مجھ سے پھر امیدواری ہے عبث
دل فریبی کی لگاوٹ، یہ تمہاری ہے عبث
دشمنی کو جو کہ احساں جانتا ہو ناز سے
اس ستم ایجاد سے امیدِ یاری ہے عبث
غمزہ ہائے دوست بعد از مرگ بھی نظروں میں ہیں
وہمِ راحت سے عدو کو بے قراری ہے عبث
سرو میں کب پھل لگا، تاثیر کیا ہو آہ میں
چشمِ تر کی صورتِ ابر اشک باری ہے عبث
ہم نے غافل پا کے تجھ کو اور کو دل دے دیا
اے ستم گر اب تری غفلت شعاری ہے عبث
ہجر میں چرخ و اجل نے گر نہ کی یاری تو کیا
دشمنوں سے شیفتہ امیدواری ہے عبث
مصطفٰی خان شیفتہ

پِیا جی کی سواری جا رہی ہے

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 231
چلو بادِ بہاری جا رہی ہے
پِیا جی کی سواری جا رہی ہے
شمالِ جاودانِ سبز جاں سے
تمنا کی عماری جا رہی ہے
فغاں اے دشمنی دارِ دل و جاں
مری حالت سُدھاری جا رہی ہے
جو اِن روزوں مراغم ہے وہ یہ ہے
کہ غم سے بُردباری جا رہی ہے
ہے سینے میں عجب اک حشر برپا
کہ دل سے بے قراری جا رہی ہے
میں پیہم ہار کر یہ سوچتا ہے
وہ کیا شہ ہے جو ہاری جا رہی ہے
دل اُس کے رُوبرو ہے اور گُم صُم
کوئی عرضی گزاری جا رہی ہے
وہ سید بچہ ہو اور شیخ کے ساتھ
میاں عزت ہماری جا رہی ہے
ہے برپا ہر گلی میں شورِ نغمہ
مری فریاد ماری جا رہی ہے
وہ یاد اب ہو رہی ہے دل سے رُخصت
میاں پیاروں کی پیاری جا رہی ہے
دریغا ! تیری نزدیکی میاں جان
تری دوری پہ واری جا رہی ہے
بہت بدحال ہیں بستی ترے لوگ
تو پھر تُو کیوں سنواری جا رہی ہے
تری مرہم نگاہی اے مسیحا!
خراشِ دل پہ واری جا رہی ہے
خرابے میں عجب تھا شور برپا
دلوں سے انتظاری جا رہی ہے
جون ایلیا

اب تعلق میں بردباری چھوڑ

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 256
وحشتیں اوڑھ، انتظاری چھوڑ
اب تعلق میں بردباری چھوڑ
دیکھنا چاند کیا سلاخوں سے
کج نظر سارتر سے یاری چھوڑ
دستِ ابلیس سے ثواب نہ پی
یہ تہجد کی بادہ خواری چھوڑ
زندہ قبروں پہ پھول رکھنے آ
مرنے والوں کی غم گساری چھوڑ
مردہ کتے کا دیکھ لے انجام
مشورہ مان، شہریاری چھوڑ
کچھ تو اعمال میں مشقت رکھ
یہ کرم کی حرام کاری چھوڑ
صبح کی طرح چل! برہنہ ہو
یہ اندھیرے کی پردہ داری چھوڑ
توڑ دے ہجر کے کواڑوں کو
اب دریچوں سے چاند ماری چھوڑ
بھونک اب جتنا بھونک سکتا ہے
ظلم سے التجا گزاری چھوڑ
آج اس سے تُو معذرت کر لے
یہ روایت کی پاس داری چھوڑ
رکھ بدن میں سکوت مٹی کا
یہ سمندر سی بے قراری چھوڑ
چھوڑ آسانیاں مصائب میں
دشت میں اونٹ کی سواری چھوڑ
یہ سفیدی پھری ہوئی قبریں
چھوڑ عیسیٰ کے یہ حواری چھوڑ
شہرِ غالب سے بھاگ جا منصور
میر جیسی غزل نگاری چھوڑ
منصور آفاق

ہم نے تیری نظر اتاری دوست

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 141
کر کے آنکھوں سے بادہ خواری دوست
ہم نے تیری نظر اتاری دوست
اک تعلق ہے خواب کا اس سے
وہ زیادہ نہیں ہماری دوست
زد میں آیا ہوا نہیں نکلا
شور کرتے رہے شکاری دوست
اس کی اک اک نظر میں لکھا تھا
میں تمہاری ہوں بس تمہاری دوست
کیوں مہکتی ہے تیز بارش میں
اک دہکتی ہوئی کنواری دوست
راہ بنتی ہے آنے جانے سے
اور بناتے ہیں باری باری دوست
کچھ عجب ہے تمہارے لہجے میں
بڑھتی جاتی ہے بے قراری دوست
ہم اداسی پہن کے پھرتے ہیں
کچھ ہماری بھی غم گساری دوست
ہم اکیلے ہیں اپنے پہلو میں
ایسی ہوتی ہے دوست داری دوست
رات بھر بیچتے تھے جو سورج
اب کہاں ہیں وہ کاروباری دوست
کیا ہیں کٹھ پتلیاں قیامت کی
برگزیدہ ہوئے مداری دوست
حق ہمارا تھا جس کے رنگوں پر
تم نے وہ زندگی گزاری دوست
ہر طرف ہجرتیں ہیں بستی میں
کیا تمہاری ہے شہریاری دوست
دشتِ دل میں تمہاری ایڑی سے
ہو گیا چشمہ ایک جاری دوست
ہجر کی بالکونی کی شاید
میلوں لمبی ہے راہداری دوست
زندگی نام کی کہیں منصور
ایک ہے دوجہاں سے پیاری دوست
منصور آفاق