ٹیگ کے محفوظات: قابل

شعورِ ذات کی منزل کے انتظار میں ہیں

جو لوگ دار و سلاسل کے انتظار میں ہیں
شعورِ ذات کی منزل کے انتظار میں ہیں
نظر میں کوئی نہیں ہے ابھی قد و قامت
وہ اپنے مدِّ مقابل کے انتظار میں ہیں
سہولیات و لوازم سبھی مہیّا ہیں
ہم اب تو جرأتِ قاتل کے انتظار میں ہیں
وہ صبر و چین و سکون و قرار لُوٹ چکے
قرینہ کہتا ہے اب دل کے انتظار میں ہیں
سفر کا شوق ہے جن کو نہ زادِ راہ کی فکر
سنا یہ ہے کہ وہ منزل کے انتظار میں ہیں
فرازِ دار ہے انعام اہلِ علم یہاں
یہ کاخ و کُو کسی جاہل کے انتظار میں ہیں
جنہیں تمیز نہیں دوست اَور دشمن میں
وہ ایک جوہرِ قابل کے انتظار میں ہیں
یہ معجزہ ہے کہ ہم سب سکون سے ضامنؔ!
بھَنوَر میں بیٹھ کے ساحل کے انتظار میں ہیں
ضامن جعفری

ہمارا کیا ہے بھلا ہم کہاں کے کامل تھے

کہاں گئے وہ سخنور جو میرِ محفل تھے
ہمارا کیا ہے بھلا ہم کہاں کے کامل تھے
بھلا ہوا کہ ہمیں یوں بھی کوئی کام نہ تھا
جو ہاتھ ٹوٹ گئے ٹوٹنے کے قابل تھے
حرام ہے جو صراحی کو منہ لگایا ہو
یہ اور بات کہ ہم بھی شریکِ محفل تھے
گزر گئے ہیں جو خوشبوئے رائگاں کی طرح
وہ چند روز مری زِندگی کا حاصل تھے
پڑے ہیں سایہِ گل میں جو سرخرو ہو کر
وہ جاں نثار ہی اے شمع تیرے قاتل تھے
اب اُن سے دُور کا بھی واسطہ نہیں ناصر
وہ ہم نوا جو مرے رتجگوں میں شامل تھے
ناصر کاظمی

کوئی طوفاں ہو گا ناخدا ساحل تو کیا ہو گا

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 22
سکوں بہر محبت میں ہمیں حاصل تو کیا ہو گا
کوئی طوفاں ہو گا ناخدا ساحل تو کیا ہو گا
ترے کہنے سے تیرا نام بھی لوں گا محشر میں
مگر مجھ سے اگر پوچھا گیا قاتل تو کیا ہو گا
قفس سے چھوٹ کر صیاد دیکھ آئینگے گلشن بھی
ہمارا آشیاں رہنے کے اب قابل تو کیا ہو گا
سرِ محشر میں اپنے خون سے انکار تو کر دوں
مگر چھینٹے ہوئے تلوار پر قاتل تو کیا ہو گا
قمر کے نام سے شرمانے والے سیر تاروں کی
نکل آیا جو ایسے میں مہِ کامل تو کیا ہو گا
قمر جلالوی

یوں بے دم ہے اب پہلو میں جوں صید بسمل ہے دل

دیوان چہارم غزل 1425
عشق کی چوٹیں پے درپے جو اٹھائی گئیں گھائل ہے دل
یوں بے دم ہے اب پہلو میں جوں صید بسمل ہے دل
خون ہوا ہے چاک ہوا ہے جلتے جلتے داغ ہوا
خواہش اس کو کیا ہے بارے کس کے لیے بیدل ہے دل
عشق کی بجلی آ کے گری سو داغ ہوا ہے سر تا سر
کیا رووے جوں ابر کوئی اس مزرع کا حاصل ہے دل
یوں تو گرہ سینے میں ہمارے درد و غم کی ہوکے رہا
کس سے ظاہر کرتے جاکر کام بہت مشکل ہے دل
آنکھوں کی دیکھا دیکھی ہرگز دل کو اس سے نہ لگنا تھا
جیسی سزا پہنچاوے کوئی اب اس کے قابل ہے دل
عمر انساں راہ تو ہے تشویش سے طے ہوتی ہے ولے
دل کے تئیں پہنچے جو کوئی چین کی پھر منزل ہے دل
شہد لب سے اس کے چپکا جی کا صرفہ کچھ نہ کیا
میر جو دیکھا اپنے حق میں کیا زہر قاتل ہے دل
میر تقی میر

یہ دوانہ بائولا عاقل ہے میاں

دیوان دوم غزل 904
کیا عبث مجنوں پئے محمل ہے میاں
یہ دوانہ بائولا عاقل ہے میاں
قند کا کون اس قدر مائل ہے میاں
جو ہے ان ہونٹوں ہی کا قائل ہے میاں
ہم نے یہ مانا کہ واعظ ہے ملک
آدمی ہونا بہت مشکل ہے میاں
چشم تر کی خیر جاری ہے سدا
سیل اس دروازے کا سائل ہے میاں
مرنے کے پیچھے تو راحت سچ ہے لیک
بیچ میں یہ واقعہ حائل ہے میاں
دل کی پامالی ستم ہے قہر ہے
کوئی یوں دلتا ہے آخر دل ہے میاں
آج کیا فرداے محشر کا ہراس
صبح دیکھیں کیا ہو شب حامل ہے میاں
دل تڑپتا ہی نہیں کیا جانیے
کس شکار انداز کا بسمل ہے میاں
چاہیے پیش از نماز آنکھیں کھلیں
حیف اس کا وقت جو غافل ہے میاں
رنگ بے رنگی جدا تو ہے ولے
آب سا ہر رنگ میں شامل ہے میاں
سامنے سے ٹک ٹلے تو دق نہ ہو
آسماں چھاتی پر اپنی سل ہے میاں
دل لگی اتنی جہاں میں کس لیے
رہگذر ہے یہ تو کیا منزل ہے میاں
بے تہی دریاے ہستی کی نہ پوچھ
یاں سے واں تک سو جگہ ساحل ہے میاں
چشم حق بیں سے کرو ٹک تم نظر
دیکھتے جو کچھ ہو سب باطل ہے میاں
دردمندی ہی تو ہے جو کچھ کہ ہے
حق میں عاشق کے دوا قاتل ہے میاں
برسوں ہم روتے پھرے ہیں ابر سے
زانو زانو اس گلی میں گل ہے میاں
کہنہ سالی میں ہے جیسے خورد سال
کیا فلک پیری میں بھی جاہل ہے میاں
کیا دل مجروح و محزوں کا گلہ
ایک غمگیں دوسرے گھائل ہے میاں
دیکھ کر سبزہ ہی خرم دل کو رکھ
مزرع دنیا کا یہ حاصل ہے میاں
مستعدوں پر سخن ہے آج کل
شعر اپنا فن سو کس قابل ہے میاں
کی زیارت میر کی ہم نے بھی کل
لاابالی سا ہے پر کامل ہے میاں
میر تقی میر

کنارے آ لگے عمرِ رواں یا دل ٹھہر جائے

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 32
کہیں تو کاروانِ درد کی منزل ٹھہر جائے
کنارے آ لگے عمرِ رواں یا دل ٹھہر جائے
اماں کیسی کہ موجِ خوں ابھی سر سے نہیں گزری
گزر جائے تو شاید بازوئے قاتل ٹھہر جائے
کوئی دم بادبانِ کشتیِ صہبا کو تہہ رکھو
ذرا ٹھہرو غبارِ خاطرِ محفل ٹھہر جائے
خُمِ ساقی میں جز زہرِ ہلاہل کچھ نہیں باقی
جو ہو محفل میں اس اکرام کے قابل، ٹھہر جائے
ہماری خامشی بس دل سے لب تک ایک وقفہ ہے
یہ طوفاں ہے جو پل بھر بر لبِ ساحل ٹھہر جائے
نگاہِ منتظر کب تک کرے گی آئینہ بندی
کہیں تو دشتِ غم میں یار کا محمل ٹھہر جائے
فیض احمد فیض

تم مسیحا نہیں ہوتے ہو تو قاتل ہو جاؤ

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 8
میرے ہونے میں کسی طور سے شامل ہوجاؤ
تم مسیحا نہیں ہوتے ہو تو قاتل ہو جاؤ
دشت سے دور بھی کیا رنگ دکھاتا ہے جنوں
دیکھنا ہے تو کسی شہر میں داخل ہو جاؤ
جس پہ ہوتا ہی نہیں خونِ دو عالم ثابت
بڑھ کے اک دن اسی گردن میں حمائل ہو جاؤ
وہ ستم گر تمہیں تسخیر کیا چاہتا ہے
خاک بن جاؤ اور اس شخص کو حاصل ہو جاؤ
عشق کیا کارِ ہوس بھی کوئی آسان نہیں
خیر سے پہلے اسی کام کے قابل ہو جاؤ
ابھی پیکر ہی جلا ہے تویہ عالم ہے میاں
آگ یہ روح میں لگ جائے تو کامل ہو جاؤ
میں ہوں یا موجِ فنا اور یہاں کوئی نہیں
تم اگر ہو تو ذرا راہ میں حائل ہو جاؤ
عرفان صدیقی