ٹیگ کے محفوظات: فگن

چمن میں خوش نوایانِ چمن کی آزمائش ہے

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 277
حضورِ شاہ میں اہلِ سخن کی آزمائش ہے
چمن میں خوش نوایانِ چمن کی آزمائش ہے
قد و گیسو میں ، قیس و کوہکن کی آزمائش ہے
جہاں ہم ہیں ، وہاں دار و رسن کی آزمائش ہے
کریں گے کوہکن کے حوصلے کا امتحاں آخر
ہنوز اُس خستہ کے نیروئے تن کی آزمائش ہے
نسیمِ مصر کو کیا پیرِ کنعاں کی ہوا خواہی!
اُسے یوسف کی بُوئے پیرہن کی آزمائش ہے
وہ آیا بزم میں ، دیکھو ، نہ کہیو پھر کہ ”غافل تھے“
شکیب و صبرِ اہلِ انجمن کی آزمائش ہے
رہے دل ہی میں تیر @، اچھا ، جگر کے پار ہو ، بہتر
غرض شِستِ بُتِ ناوک فگن کی آزمائش ہے
نہیں کچھ سُبحۂ و زُنّار کے پھندے میں گیرائی
وفاداری میں شیخ و برہمن کی آزمائش ہے
پڑا رہ ، اے دلِ وابستہ ! بیتابی سے کیا حاصل؟
مگر پھر تابِ زُلفِ پُرشکن کی آزمائش ہے
رگ و پَے میں جب اُترے زہرِ غم ، تب دیکھیے کیا ہو!
ابھی تو تلخئ کام و دہن کی آزمائش ہے
وہ آویں گے مِرے گھر ، وعدہ کیسا ، دیکھنا ، غالب!
نئے فتنوں میں اب چرخِ کُہن کی آزمائش@ ہے
@ نسخۂ مہرمیں "رہے گر دل میں تیر” @ اصل نسخوں میں آزمایش ہے لیکن ہم نے موجودہ املا کو ترجیح دے کر آزمائش لکھا ہے۔
مرزا اسد اللہ خان غالب

ہم عجب پھول ترے صحنِ چمن سے نکلے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 559
اوس سے اخذ ہوئے، پہلی کرن سے نکلے
ہم عجب پھول ترے صحنِ چمن سے نکلے
ہم نے اس کے گل و گلزار سے کیا لینا ہے
اپنے اجداد تھے جس باغِ عدن سے نکلے
رات بھر قوسِ قزح پھیلی رہی کمرے میں
رنگ کیا کیا تری خوشبوئے بدن سے نکلے
دیکھ اے دیدئہ عبرت مرے چہرے کی طرف
ایسے وہ ہوتا ہے جو اپنے وطن سے نکلے
سائباں دھوپ کے ہی صرف نہیں وحشت میں
درد کے پیڑ بھی کچھ سایہ فگن سے نکلے
بستیاں ہیں مری، ماضی کے کھنڈر پر آباد
ذہن کیسے بھلا آسیبِ کہن سے نکلے
فوج اب ختم کرے اپنا سیاسی کردار
یہ مرا ملک خداداد گھٹن سے نکلے
یوں جہنم کو بیاں کرتے ہیں کرنے والے
جیسے پھنکار لپکتے ہوئے پھن سے نکلے
تیرے اشعار تغزل سے ہیں خالی منصور
ہم سخن فہم تری بزم سخن سے نکلے
منصور آفاق