ٹیگ کے محفوظات: فشانی

نگاہوں سے بیاں دل کی کہانی اب بھی ہوتی ہے

محبت میں زباں کی بے زبانی اب بھی ہوتی ہے
نگاہوں سے بیاں دل کی کہانی اب بھی ہوتی ہے
سرِ محفل وہ کوئی بات بھی مجھ سے نہیں کرتے
مگر تنہائیوں میں گُل فِشانی اب بھی ہوتی ہے
چُھپاؤ لاکھ بے چینی کو خاموشی کے پردے میں
تمھارے رُخ سے دل کی ترجمانی اب بھی ہوتی ہے
ہمارا حال چُھپ کر پوچھتا تھا کوئی پہلے بھی
ہمارے حال پر یہ مہربانی اب بھی ہوتی ہے
تمھاری ہی کمی محسوس ہوتی ہے مجھے ورنہ
وہ موسم، وہ فضا، وہ رُت سُہانی اب بھی ہوتی ہے
زمانہ دل کی باتوں کو کبھی کُھل کر نہیں کہتا
بہ اندازِ شکایت قدردانی اب بھی ہوتی ہے
نکل آیا زمان و آشیاں کی قید سے لیکن
بقا کی رَہ میں حائل زندگانی اب بھی ہوتی ہے
شکیب جلالی

ایک قصے کی بھلا کتنی کہانی کرتے

راکھ کے ڈھیر پہ کیا شعلہ بیانی کرتے
ایک قصے کی بھلا کتنی کہانی کرتے
حسن اتنا تھا کہ ممکن ہی نہ تھی خود نگری
ایک امکان کی کب تک نگرانی کرتے
شعلہ جاں کو بجھاتے یونہی قطرہ قطرہ
خود کو ہم آگ بناتے تجھے پانی کرتے
پھول سا تجھ کو مہکتا ہوا رکھتے شب بھر
اپنے سانسوں سے تجھے رات کی رانی کرتے
ندیاں دیکھیں تو بس شرم سے پانی ہو جائیں
چشمِ خوں بستہ سے پیدا وہ روانی کرتے
سب سے کہتے کہ یہ قصہ ہے پرانا صاحب
آہ کی آنچ سے تصویر پرانی کرتے
درودیوار بدلنے میں کہاں کی مشکل
گھر جو ہوتا تو بھلا نقل مکانی کرتے؟
کوئی آجاتا کبھی یونہی اگر دل کے قریب
ہم ترا ذکر پئے یاد دہانی کرتے
سچ تو یہ ہے کہ ترے ہجر کا اب رنج نہیں
کیا دکھاوے کے لیے اشک فشانی کرتے؟
دل کو ہر لحظہ ہی دی عقل پہ ہم نے ترجیح
یارِ جانی کو کہاں دشمنِ جانی کرتے
شب اسی طرح بسر ہوتی ہے میری عرفان
حرفِ خوش رنگ کو اندوہِ معانی کرتے
عرفان ستار

ایک قصے کی بھلا کتنی کہانی کرتے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 66
راکھ کے ڈھیر پہ کیا شعلہ بیانی کرتے
ایک قصے کی بھلا کتنی کہانی کرتے
حسن اتنا تھا کہ ممکن ہی نہ تھی خود نگری
ایک امکان کی کب تک نگرانی کرتے
شعلہ جاں کو بجھاتے یونہی قطرہ قطرہ
خود کو ہم آگ بناتے تجھے پانی کرتے
پھول سا تجھ کو مہکتا ہوا رکھتے شب بھر
اپنے سانسوں سے تجھے رات کی رانی کرتے
ندیاں دیکھیں تو بس شرم سے پانی ہو جائیں
چشمِ خوں بستہ سے پیدا وہ روانی کرتے
سب سے کہتے کہ یہ قصہ ہے پرانا صاحب
آہ کی آنچ سے تصویر پرانی کرتے
درودیوار بدلنے میں کہاں کی مشکل
گھر جو ہوتا تو بھلا نقل مکانی کرتے؟
کوئی آجاتا کبھی یونہی اگر دل کے قریب
ہم ترا ذکر پئے یاد دہانی کرتے
سچ تو یہ ہے کہ ترے ہجر کا اب رنج نہیں
کیا دکھاوے کے لیے اشک فشانی کرتے؟
دل کو ہر لحظہ ہی دی عقل پہ ہم نے ترجیح
یارِ جانی کو کہاں دشمنِ جانی کرتے
شب اسی طرح بسر ہوتی ہے میری عرفان
حرفِ خوش رنگ کو اندوہِ معانی کرتے
عرفان ستار

نمک پاشِ خراشِ دل ہے لذّت زندگانی کی

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 196
جنوں تہمت کشِ تسکیں نہ ہو گر شادمانی کی
نمک پاشِ خراشِ دل ہے لذّت زندگانی کی
کشاکش ہائے ہستی سے کرے کیا سعیِ آزادی
ہوئی زنجیر، موجِ@ آب کو فرصت روانی کی
پس از مردن بھی دیوانہ زیارت گاہ طفلاں ہے
شرارِ سنگ نے تربت پہ میری گل فشانی کی
@ نسخۂ طاہر میں ” زنجیرِ موجِ آب”
مرزا اسد اللہ خان غالب

اور پھر وہ بھی زبانی میری

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 192
کب وہ سنتا ہے کہانی میری
اور پھر وہ بھی زبانی میری
خلشِ غمزۂ خوں ریز نہ پوچھ
دیکھ خوں نابہ فشانی میری
کیا بیاں کر کے مرا روئیں گے یار
مگر آشفتہ بیانی میری
ہوں ز خود رفتۂ بیدائے خیال
بھول جانا ہے نشانی میری
متقابل ہے مقابل میرا
رک گیا دیکھ روانی میری
قدرِ سنگِ سرِ رہ رکھتا ہوں
سخت ارزاں ہے گرانی میری
گرد بادِ رہِ بیتابی ہوں
صرصرِ شوق ہے بانی میری
دہن اس کا جو نہ معلوم ہوا
کھل گئی ہیچ مدانی میری
کر دیا ضعف نے عاجز غالب
ننگِ پیری ہے جوانی میری
مرزا اسد اللہ خان غالب

مری زیست ہے مہربانی کے ساتھ

دیوان سوم غزل 1248
نہ باتیں کرو سرگرانی کے ساتھ
مری زیست ہے مہربانی کے ساتھ
نہ اٹھ کر در یار سے جاسکے
یہ کم لطف ہے ناتوانی کے ساتھ
فرو درد آنسو پیے کچھ ہوا
دوا جیسے پیتے ہیں پانی کے ساتھ
کہے میں نے اشعار ہر بحر میں
ولیکن قیامت روانی کے ساتھ
شتابی گئی اس روش فصل گل
کہ جوں رفتگی ہو جوانی کے ساتھ
بکھیرے ہے جوں لخت دل آہ صبح
ہوا کب ہے اس گل فشانی کے ساتھ
جلا جی بہت قصۂ میر سن
بلا سوز تھا اس کہانی کے ساتھ
میر تقی میر

اللہ اللہ رے طبیعت کی روانی اس کی

دیوان دوم غزل 949
میر دریا ہے سنے شعر زبانی اس کی
اللہ اللہ رے طبیعت کی روانی اس کی
خاطر بادیہ سے دیر میں جاوے گی کہیں
خاک مانند بگولے کے اڑانی اس کی
ایک ہے عہد میں اپنے وہ پراگندہ مزاج
اپنی آنکھوں میں نہ آیا کوئی ثانی اس کی
مینھ تو بوچھار کا دیکھا ہے برستے تم نے
اسی انداز سے تھی اشک فشانی اس کی
بات کی طرز کو دیکھو تو کوئی جادو تھا
پر ملی خاک میں کیا سحر بیانی اس کی
کرکے تعویذ رکھیں اس کو بہت بھاتی ہے
وہ نظر پائوں پہ وہ بات دوانی اس کی
اس کا وہ عجز تمھارا یہ غرور خوبی
منتیں ان نے بہت کیں پہ نہ مانی اس کی
کچھ لکھا ہے تجھے ہر برگ پہ اے رشک بہار
رقعہ واریں ہیں یہ اوراق خزانی اس کی
سرگذشت اپنی کس اندوہ سے شب کہتا تھا
سو گئے تم نہ سنی آہ کہانی اس کی
مرثیے دل کے کئی کہہ کے دیے لوگوں کو
شہر دلی میں ہے سب پاس نشانی اس کی
میان سے نکلی ہی پڑتی تھی تمھاری تلوار
کیا عوض چاہ کا تھا خصمی جانی اس کی
آبلے کی سی طرح ٹھیس لگی پھوٹ بہے
دردمندی میں گئی ساری جوانی اس کی
اب گئے اس کے جز افسوس نہیں کچھ حاصل
حیف صد حیف کہ کچھ قدر نہ جانی اس کی
میر تقی میر

اے عمر گذشتہ میں تری قدر نہ جانی

دیوان اول غزل 466
غفلت میں گئی آہ مری ساری جوانی
اے عمر گذشتہ میں تری قدر نہ جانی
تھی آبلۂ دل سے ہمیں تشنگی میں چشم
پھوٹا تو نہ آیا نظر اک بوند بھی پانی
مدت سے ہیں اک مشت پر آوارہ چمن میں
نکلی ہے یہ کس کی ہوس بال فشانی
بھاتی ہے مجھے اک طلب بوسہ میں یہ آن
لکنت سے الجھ جا کے اسے بات نہ آنی
کیا جانیے کیا کیا میں لکھوں شوق میں قاصد
پڑھنا نہ کرے خط کا کہیں اس پہ گرانی
تکلیف نہ کر نامہ کے لکھنے کی تو مجھ کو
آجائے جو کچھ جی میں ترے کہیو زبانی
یہ جان اگر بید مولہ کہیں دیکھے
باقی ہے کسو موے پریشاں کی نشانی
دیکھیں تو سہی کب تئیں نبھتی ہے یہ صحبت
ہم جی سے ترے دوست ہیں تو دشمن جانی
مجنوں بھی نہ رسواے جہاں ہوتا نہ وہ آپ
مکتب میں جو کم آتی پہ لیلیٰ تھی دوانی
اک شخص مجھی سا تھا کہ وہ تجھ پہ تھا عاشق
وہ اس کی وفاپیشگی وہ اس کی جوانی
یہ کہہ کے جو رویا تو لگا کہنے نہ کہہ میر
سنتا نہیں میں ظلم رسیدوں کی کہانی
میر تقی میر

تخلیہ اے زندگانی تخلیہ

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 430
دھڑکنوں کی بدزبانی تخلیہ
تخلیہ اے زندگانی تخلیہ
ظلِ سبحانی ہیں آئے درد کے
اے کنیزِ شادمانی تخلیہ
آرہا ہے وہ چراغِ صبح پا
چاند تارو ، مہربانی ، تخلیہ
مہ وشو!اب یاسمن کے باغ کی
دیکھتے ہیں گل فشانی ، تخلیہ
بجلیو! موسیٰ کلیم اللہ سے میں
سن رہاہوں لن ترانی تخلیہ
بارگاہِ دل میں شرمندہ نہ کر
لمس کی اندھی جوانی تخلیہ
ہے دمِ عارف نسیمِ صبح دم
اے کلیمی اے شبانی تخلیہ
زندگی سے بھر گیا دل حسرتو!
اب کہانی کیا بڑھانی تخلیہ
واہ ، آئی ہے کئی صدیوں کے بعد
پھر صدائے کن فکانی تخلیہ
جائیے کہ آئینے کے سامنے
شکلِ ہستی ہے بنانی تخلیہ
جارہا ہوں میں عدم کے باغ میں
موسموں کی میزبانی تخلیہ
آرہا ہے مجھ سے ملنے آفتاب
بادلوں کی سائبانی تخلیہ
ملنا ہے منصور نے منصور سے
گم کرو اب شکل یعنی تخلیہ
منصور آفاق

سخت کم ظرفی ہے اک دو بوند پانی پر گھمنڈ

امیر مینائی ۔ غزل نمبر 21
خنجرِ قاتل نہ کر اتنا روانی پر گھمنڈ
سخت کم ظرفی ہے اک دو بوند پانی پر گھمنڈ
شمع کے مانند کیا آتش زبانی پر گھمنڈ
صورتِ پروانہ کر سوز نہانی پر گھمنڈ
ہے اگر شمشیر قاتل کو روانی پر گھمنڈ
بسملوں کو بھی ہے اپنی سخت جانی پر گھمنڈ
ناز اُٹھانے کا ہے اس کے حوصلہ اے جانِ زار
اب تلک تجھ کو ہے زور ناتوانی پر گھمنڈ
نوبت شاہی سے آتی ہے صدا شام و سحر
اور کر لے چار دن اس دار فانی پر گھمنڈ
دیکھ او نادان کہ پیری کا زمانہ ہے قریب
کیا لڑکپن ہے کہ کرتا ہے جوانی پر گھمنڈ
چار ہی نالے ہمارے سن کے چپکی لگ گئی
تھا بہت بلبل کو اپنی خوش بیانی پر گھمنڈ
عفو کے قابل مرے اعمال کب ہیں اے کریم
تیری رحمت پر ہے تیری مہربانی پر گھمنڈ
شمع محفل شامت آئی ہے تری خاموش ہو
دل جلوں کے سامنے آتش زبانی پر گھمنڈ
طبع شاعر آ کے زوروں پر کرے کیوں کر نہ ناز
سب کو ہوتا ہے جوانی میں جوانی پر گھمنڈ
چار موجوں میں ہماری چشم تر کے رہ گیا
ابر نیساں کو یہی تھا ڈر فشانی پر گھمنڈ
دیکھنے والوں کی آنکھیں آپ نے دیکھی نہیں
حق بجانب ہے اگر ہے لن ترانی پر گھمنڈ
عاشق و معشوق اپنے اپنے عالم میں ہیں مست
واں نزاکت پر تو یاں ہے ناتوانی پر گھمنڈ
تو سہی کلمہ ترا پڑھوا کے چھوڑوں اے صنم
زاہدوں کو ہے بہت تسبیح خوانی پر گھمنڈ
سبزہ خط جلد یارب رخ پر اُس کے ہو نمود
خضر کو ہے اپنی عمر جاودانی پر گھمنڈ
گور میں کہتی ہے عبرت قیصر و فغفور سے
کیوں نہیں کرتے ہو اب صاحب قرانی پر گھمنڈ
ہے یہی تاثیر آبِ خنجر جلّاد میں
چشمۂ حیواں نہ کر تو اپنے پانی پر گھمنڈ
حال پر اجداد و آبا کے تفاخر کیا امیر
ہیں وہ ناداں جن کو ہے قصے کہانی پر گھمنڈ
امیر مینائی