ٹیگ کے محفوظات: فرمایا

جی الجھتا ہے بہت مت بال سلجھایا کرو

دیوان سوم غزل 1233
سر پہ عاشق کے نہ یہ روز سیہ لایا کرو
جی الجھتا ہے بہت مت بال سلجھایا کرو
تاب مہ کی تاب کب ہے نازکی سے یار کو
چاندنی میں آفتابی کا مگر سایہ کرو
گرچہ شان کفر ارفع ہے ولے اے راہباں
ایک دو ہم سوں کو بھی زنار بندھوایا کرو
شوق سے دیدار کے بھی آنکھوں میں کھنچ آیا جی
اس سمیں میں دیکھنے ہم کو بہت آیا کرو
کوہکن کی ہے قدم گاہ آخر اے اہل وفاق
طوف کرنے بے ستوں کا بھی کبھی جایا کرو
فرق یار و غیر میں بھی اے بتاں کچھ چاہیے
اتنی ہٹ دھرمی بھی کیا انصاف فرمایا کرو
کب میسر اس کے منھ کا دیکھنا آتا ہے میر
پھول گل سے اپنے دل کو تم بھی بہلایا کرو
میر تقی میر

صنم خانہ ہی یاں اے شیخ تونے کیوں نہ بنوایا

دیوان اول غزل 130
مجھے زنہار خوش آتا نہیں کعبے کا ہمسایا
صنم خانہ ہی یاں اے شیخ تونے کیوں نہ بنوایا
زہے اے عشق کی نیرنگ سازی غیر کو ان نے
جلایا بات کہتے واں ہمیں مرنے کو فرمایا
بھری ہے آگ تیرے درد دل میں میر ایسی تو
کہ کہتے روبرو اس شوخ کے قاصد کا منھ آیا
میر تقی میر

کیسا جشن منایا ہم نے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 280
جام تہی لہرایا ہم نے
کیسا جشن منایا ہم نے
رات ہوا کے ساتھ نکل کر
حلقۂ در کھڑکایا ہم نے
چپ گلیوں میں دیں آوازیں
شہر میں شور مچایا ہم نے
خاک تھے لیکن لہر میں آکر
رقصِ جنوں فرمایا ہم نے
دیکھیں کب ہوں عشق میں کندن
راکھ تو کردی کایا ہم نے
عمرِ شرر بیکار نہ گزری
پل بھر تو چمکایا ہم نے
سب کو نشانہ کرتے کرتے
خود کو مار گرایا ہم نے
تم سے ملے تو خود سے زیادہ
تم کو اکیلا پایا ہم نے
اپنے سر کی آن پہ واری
پاؤں سے لپٹی مایا ہم نے
اے شبِ ہجراں، اب تو اجازت
اتنا ساتھ نبھایا ہم نے
عرفان صدیقی