ٹیگ کے محفوظات: فرسا

کہ چشمِ تنگ شاید کثرتِ نظّارہ سے وا ہو

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 143
حسد سے دل اگر افسردہ ہے، گرمِ تماشا ہو
کہ چشمِ تنگ شاید کثرتِ نظّارہ سے وا ہو
بہ قدرِ حسرتِ دل چاہیے ذوقِ معاصی بھی
بھروں یک گوشۂ دامن گر آبِ ہفت دریا ہو
اگر وہ سرو قد گرمِ خرامِ ناز آ جاوے
کفِ ہر خاکِ گلشن، شکلِ قمری، نالہ فرسا ہو
مرزا اسد اللہ خان غالب

تنہا گئے کیوں؟ اب رہو تنہا کوئی دن اور

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 121
لازم تھا کہ دیکھو مرا رستہ کوئی دِن اور
تنہا گئے کیوں؟ اب رہو تنہا کوئی دن اور
مٹ جائےگا سَر ،گر، ترا پتھر نہ گھِسے گا
ہوں در پہ ترے ناصیہ فرسا کوئی دن اور
آئے ہو کل اور آج ہی کہتے ہو کہ ’جاؤں؟‘
مانا کہ ھمیشہ نہیں اچھا کوئی دن اور
جاتے ہوئے کہتے ہو ’قیامت کو ملیں گے‘
کیا خوب! قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور
ہاں اے فلکِ پیر! جواں تھا ابھی عارف
کیا تیرا بگڑ تا جو نہ مرتا کوئی دن اور
تم ماہِ شبِ چار دہم تھے مرے گھر کے
پھر کیوں نہ رہا گھر کا وہ نقشا کوئی دن اور
تم کون سے ایسے تھے کھرے داد و ستد کے
کرتا ملکُ الموت تقاضا کوئی دن اور
مجھ سے تمہیں نفرت سہی، نیر سے لڑائی
بچوں کا بھی دیکھا نہ تماشا کوئی دن اور
گزری نہ بہرحال یہ مدت خوش و ناخوش
کرنا تھا جواں مرگ گزارا کوئی دن اور
ناداں ہو جو کہتے ہو کہ ’کیوں جیتے ہیں غالب‘
قسمت میں ہے مرنے کی تمنا کوئی دن اور
مرزا اسد اللہ خان غالب

گہر میں محو ہوا اضطراب دریا کا

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 87
گلہ ہے شوق کو دل میں بھی تنگئ جا کا
گہر میں محو ہوا اضطراب دریا کا
یہ جانتا ہوں کہ تو اور پاسخِ مکتوب!
مگر ستم زدہ ہوں ذوقِ خامہ فرسا کا
حنائے پائے خزاں ہے بہار اگر ہے یہی
دوامِ کلفتِ خاطر ہے عیش دنیا کا
غمِ فراق میں تکلیفِ سیرِ باغ نہ دو
مجھے دماغ نہیں خندہ@ ہائے بے جا کا
ہنوز محرمئ حسن کو ترستا ہوں
کرے ہے ہر بُنِ مو کام چشمِ بینا کا
دل اس کو، پہلے ہی ناز و ادا سے، دے بیٹھے
ہمیں دماغ کہاں حسن کے تقاضا کا
نہ کہہ کہ گریہ بہ مقدارِ حسرتِ دل ہے
مری نگاہ میں ہے جمع و خرچ دریا کا
فلک کو دیکھ کے کرتا ہوں اُس کو یاد اسدؔ
جفا میں اس کی ہے انداز کارفرما کا
@نسخۂ نظامی کی املا ہے ’خند ہائے‘
مرزا اسد اللہ خان غالب

رحمت خدا کی تجھ کو اے ابر زور برسا

دیوان دوم غزل 669
دامن وسیع تھا تو کاہے کو چشم تر سا
رحمت خدا کی تجھ کو اے ابر زور برسا
شاید کباب کر کر کھایا کبوتر ان نے
نامہ اڑا پھرے ہے اس کی گلی میں پر سا
وحشی مزاج ازبس مانوس بادیہ ہیں
ان کے جنوں میں جنگل اپنا ہوا ہے گھر سا
جس ہاتھ میں رہا کی اس کی کمر ہمیشہ
اس ہاتھ مارنے کا سر پر بندھا ہے کر سا
سب پیچ کی یہ باتیں ہیں شاعروں کی ورنہ
باریک اور نازک مو کب ہے اس کمر سا
طرز نگاہ اس کی دل لے گئی سبھوں کے
کیا مومن و برہمن کیا گبر اور ترسا
تم واقف طریق بے طاقتی نہیں ہو
یاں راہ دو قدم ہے اب دور کا سفر سا
کچھ بھی معاش ہے یہ کی ان نے ایک چشمک
جب مدتوں ہمارا جی دیکھنے کو ترسا
ٹک ترک عشق کریے لاغر بہت ہوئے ہم
آدھا نہیں رہا ہے اب جسم رنج فرسا
واعظ کو یہ جلن ہے شاید کہ فربہی سے
رہتا ہے حوض ہی میں اکثر پڑا مگر سا
انداز سے ہے پیدا سب کچھ خبر ہے اس کو
گو میر بے سر و پا ظاہر ہے بے خبر سا
میر تقی میر