ٹیگ کے محفوظات: فرات

پھر ایک پوری دیانت سے رات پوری کی

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 465
اک ایک سایہ ء ہجراں کے ساتھ پوری کی
پھر ایک پوری دیانت سے رات پوری کی
میں ایک کُن کی صدا تھا سو عمر بھر میں نے
ادھوری جو تھی پڑی کائنات پوری کی
عجیب عالمِ وحشت، عجیب دانائی
کبھی بکھیرا، کبھی اپنی ذات پوری کی
تھلوں کی ریت میں بو بو کے پیاس کے کربل
پھر آبِ سندھ نے رسمِ فرات پوری کی
پلک پلک پہ ستارے رکھے سہاگ کی رات
نہ پوچھ چاند کی کیسے برات پوری کی
کئی برس سے ادھوری پڑی تھی، سو میں نے
یہ مانگ تانگ کے سانسیں ، حیات پوری کی
یہ اور بات کہ دل میں اتر گیا پھر بھی
کسی سے ملتے ہوئے احتیاط پوری کی
یہ اور بات کہ آنسو ورق ورق پہ رکھے
کتابِ فلسفہء انبساط پوری کی
یہ اور بات کہ کام آ گئی کوئی نیکی
اُس اجنبی نے مگر واردات پوری کی
ہزار کہہ کے بھی میں کچھ نہ کہہ سکا منصور
کہا نہ کچھ بھی مگر اس نے بات پوری کی
منصور آفاق

میں خدا اور کائنات

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 3
چل رہے ہیں ایک ساتھ
میں خدا اور کائنات
عرش پر بس بیٹھ کر
کن فکاں کا چرخہ کات
مرد و زن کا اجتماع
بیچ صدیوں کی قنات
دو وجودوں میں جلی
سردیوں کی ایک رات
بند ذرے میں کوئی
کائناتی واردات
آسیا میں قطب کی
سو گئیں سولہ جہات
پانیوں پر قرض ہے
فدیۂ نہر فرات
تُو پگھلتی تارکول
میں سڑک کا خشک پات
تیرا چہرہ جاوداں
تیری زلفوں کو ثبات
رحمتِ کن کا فروغ
جشن ہائے شب برات
شب تھی خالی چاند سے
دل رہا اندیشوں وات
نت نئے مفہوم دے
تیری آنکھوں کی لغات
آنکھ سے لکھا گیا
قصۂ نا ممکنات
گر پڑی ہے آنکھ سے
اک قیامت خیز بات
تیرے میرے درد کا
ایک شجرہ، ایک ذات
کٹ گئے ہیں روڈ پر
دو ہوا بازوں کے ہاتھ
لکھ دی اک دیوار پر
دل کی تاریخِ وفات
موت تک محدود ہیں
ڈائری کے واقعات
منصور آفاق