خواب رُخصت نہیں کروں گا میں
ایسی غفلت نہیں کروں گا میں
مُردہ بھائی کا گوشت اُف اللّہ!
یار! غِیبت نہیں کروں گا میں
اچھّے لوگوں سے معذرت میری
اب سیاست نہیں کروں گا میں
جان دے دوں گا اے یزیدِ وقت!
تیری بیعت نہیں کروں گا میں
جلتے خِیموں کا ذکر کرتے ہوئے
غم تِلاوت نہیں کروں گا میں
بات کیسے بڑھے گی بگڑے گی؟
جب شکایت نہیں کروں گا میں
لوگ مارے گئے اگر میرے
پھر رعایت نہیں کروں گا میں
کام سارے کروں گا مرضی کے
بس! محبّت نہیں کروں گا میں
دل سے چاہے نکال دو مجھ کو
دل سے ہجرت نہیں کروں گا میں
تجھ پہ مرتا ہوں بات سچّی ہے
پھر بھی مِنّت نہیں کروں گا میں
اُس نے میرے وطن کو گالی دی
کیسے غیرت نہیں کروں گا میں!!
افتخار فلک