احمد فراز ۔ غزل نمبر 132
ہر ایک بات نہ کیوں زہر سی ہماری لگے
کہ ہم کو دستِ زمانہ کے زخم کاری لگے
اداسیاں ہوں مسلسل تو دل نہیں روتا
کبھی کبھی ہو تو یہ کیفیت بھی پیاری لگے
بظاہر ایک ہی شب ہے فراقِ یار مگر
کوئی گزارنے بیٹھے تو عمر ساری لگے
علاج اس دلِ درد آشنا کا کیا کیجئے
کہ تیر بن کے جسے حرفِ غمگساری لگے
ہماری پاس بھی بیٹھو بس اتنا چاہتے ہیں
ہمارے ساتھ طبیعت اگر تمہاری لگے
فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ
یہ کیا ضرور وہ صورت سبھی کو پیاری لگے
احمد فراز