ٹیگ کے محفوظات: عیار

تو بھی ٹک آن کھڑا ہوجو گنہگار کے پاس

دیوان دوم غزل 822
جب بٹھاویں مجھے جلاد جفاکار کے پاس
تو بھی ٹک آن کھڑا ہوجو گنہگار کے پاس
دردمندوں سے تمھیں دور پھرا کرتے ہو کچھ
پوچھنے ورنہ سبھی آتے ہیں بیمار کے پاس
چشم مست اپنی سے صحبت نہ رکھاکر اتندی
بیٹھیے بھی تو بھلا مردم ہشیار کے پاس
خندہ و چشمک و حرف و سخن زیرلبی
کہیے جو ایک دو افسون ہوں دلدار کے پاس
داغ ہونا نظر آتا ہے دلوں کا آخر
یہ جو اک خال پڑا ہے ترے رخسار کے پاس
خط نمودار ہوئے اور بھی دل ٹوٹ گئے
یہ بلا نکلی نئی زلف شکن دار کے پاس
در گلزار پہ جانے کے نصیب اپنے کہاں
یوں ہی مریے گا قفس کی کبھو دیوار کے پاس
کیا رکھا کرتے ہو آئینے سے صحبت ہر دم
ٹک کبھو بیٹھو کسی طالب دیدار کے پاس
دل کو یوں لیتے ہو کھٹکا نہیں ہونے پاتا
تربیت پائی ہے تم نے کسو عیار کے پاس
مورچہ جیسے لگے تنگ شکر کو آکر
خط نمودار ہے یوں لعل شکر بار کے پاس
جس طرح کفر بندھا ہے گلے اسلام کہاں
یوں تو تسبیح بھی ہم رکھتے ہیں زنار کے پاس
ہم نہ کہتے تھے نہ مل مغبچوں سے اے زاہد
ابھی تسبیح دھری تھی تری دستار کے پاس
نارسائی بھی نوشتے کی مرے دور کھنچی
اتنی مدت میں نہ پہنچا کوئی خط یار کے پاس
اختلاط ایک تمھیں میر ہی غم کش سے نہیں
جب نہ تب یوں تو نظر آتے ہو دوچار کے پاس
میر تقی میر

ہوا ابر رحمت گنہگار سا

دیوان دوم غزل 737
بندھا رات آنسو کا کچھ تار سا
ہوا ابر رحمت گنہگار سا
کوئی سادہ ہی اس کو سادہ کہے
لگے ہے ہمیں تو وہ عیار سا
محبت ہے یا کوئی جی کا ہے روگ
سدا میں تو رہتا ہوں بیمار سا
گل و سرو اچھے سبھی ہیں ولے
نہ نکلا چمن میں کوئی یار سا
جو ایسا ہی تم ہم کو سمجھو ہو سہل
ہمیں بھی یہ جینا ہے دشوار سا
فلک نے بہت کھینچے آزار لیک
نہ پہنچا بہم اس دل آزار سا
مگر آنکھ تیری بھی چپکی کہیں
ٹپکتا ہے چتون سے کچھ پیار سا
چمن ہووے جو انجمن تجھ سے واں
لگے آنکھ میں سب کی گل خار سا
کھڑے منتظر ضعف جو آگیا
گرا اس کے در پر میں دیوار سا
دکھائوں متاع وفا کب اسے
لگا واں تو رہتا ہے بازار سا
عجب کیا جو اس زلف کا سایہ دار
پھرے راتوں کو بھی پری دار سا
نہیں میر مستانہ صحبت کا باب
مصاحب کرو کوئی ہشیار سا
میر تقی میر

جی ہی جاتے نظر آئے ہیں اس آزار کے ساتھ

دیوان اول غزل 429
کیا موافق ہو دوا عشق کے بیمار کے ساتھ
جی ہی جاتے نظر آئے ہیں اس آزار کے ساتھ
رات مجلس میں تری ہم بھی کھڑے تھے چپکے
جیسے تصویر لگا دے کوئی دیوار کے ساتھ
مر گئے پر بھی کھلی رہ گئیں آنکھیں اپنی
کون اس طرح موا حسرت دیدار کے ساتھ
شوق کا کام کھنچا دور کہ اب مہر مثال
چشم مشتاق لگی جائے ہے طومار کے ساتھ
راہ اس شوخ کی عاشق سے نہیں رک سکتی
جان جاتی ہے چلی خوبی رفتار کے ساتھ
وے دن اب سالتے ہیں راتوں کو برسوں گذرے
جن دنوں دیر رہا کرتے تھے ہم یار کے ساتھ
ذکر گل کیا ہے صبا اب کہ خزاں میں ہم نے
دل کو ناچار لگایا ہے خس و خار کے ساتھ
کس کو ہر دم ہے لہو رونے کا ہجراں میں دماغ
دل کو اک ربط سا ہے دیدئہ خونبار کے ساتھ
میری اس شوخ سے صحبت ہے بعینہ ویسی
جیسے بن جائے کسو سادے کو عیار کے ساتھ
دیکھیے کس کو شہادت سے سر افراز کریں
لاگ تو سب کو ہے اس شوخ کی تلوار کے ساتھ
بے کلی اس کی نہ ظاہر تھی جو تو اے بلبل
دم کش میر ہوئی اس لب و گفتار کے ساتھ
میر تقی میر

آئینہ ہو تو قابل دیدار کیوں نہ ہو

دیوان اول غزل 396
دل صاف ہو تو جلوہ گہ یار کیوں نہ ہو
آئینہ ہو تو قابل دیدار کیوں نہ ہو
عالم تمام اس کا گرفتار کیوں نہ ہو
وہ ناز پیشہ ایک ہے عیار کیوں نہ ہو
مستغنیانہ تو جو کرے پہلے ہی سلوک
عاشق کو فکر عاقبت کار کیوں نہ ہو
رحمت غضب میں نسبت برق و سحاب ہے
جس کو شعور ہو تو گنہگار کیوں نہ ہو
دشمن تو اک طرف کہ سبب رشک کا ہے یاں
در کا شگاف و رخنۂ دیوار کیوں نہ ہو
آیات حق ہیں سارے یہ ذرات کائنات
انکار تجھ کو ہووے سو اقرار کیوں نہ ہو
ہر دم کی تازہ مرگ جدائی سے تنگ ہوں
ہونا جو کچھ ہے آہ سو یک بار کیوں نہ ہو
موے سفید ہم کو کہے ہے کہ غافلاں
اب صبح ہونے آئی ہے بیدار کیوں نہ ہو
نزدیک اپنے ہم نے تو سب کر رکھا ہے سہل
پھر میر اس میں مردن دشوار کیوں نہ ہو
میر تقی میر

ولے کم ہیں بہت وے لوگ جن کو یار کہتے ہیں

دیوان اول غزل 344
تجھے بھی یار اپنا یوں تو ہم ہر بار کہتے ہیں
ولے کم ہیں بہت وے لوگ جن کو یار کہتے ہیں
جہاں کے مصطبے میں مست طافح ہی نظر آئے
نہ تھا اس دور میں آیا جسے ہشیار کہتے ہیں
سمجھ کر ذکر کر آسودگی کا مجھ سے اے ناصح
وہ میں ہی ہوں کہ جس کو عافیت بیزار کہتے ہیں
مسافر ہووے جی اس کا خراماں دیکھ کر تجھ کو
جسے میرے وطن میں کبک خوش رفتار کہتے ہیں
معاذ اللہ دخل کفر ہو اسلام میں کیوں ہی
غلط اور پوچ نامعقول بعضے یار کہتے ہیں
علم کو کب ہے وجہ تسمیہ لازم سمجھ دیکھو
سلیمانی میں کیا زنار ہے زنار کہتے ہیں
تری آنکھوں کو آئوں دیکھنے میں تو عجب مت کر
کہ بہتر ہے عیادت اور انھیں بیمار کہتے ہیں
عجب ہوتے ہیں شاعر بھی میں اس فرقے کا عاشق ہوں
کہ بے دھڑکے بھری مجلس میں یہ اسرار کہتے ہیں
مزے ان کے اڑا لیکن نہ یہ سمجھیں تو بہتر ہے
کہ خوباں بھی بہت اپنے تئیں عیار کہتے ہیں
سگ کو میر میں اس شیر حق کا ہوں کہ جس کو سب
نبیؐ کا خویش و بھائی حیدر کرار کہتے ہیں
میر تقی میر

کرتا ہے چرخ مجھ سے نئے یار ایک طرح

دیوان اول غزل 195
خاطر کرے ہے جمع وہ ہر بار ایک طرح
کرتا ہے چرخ مجھ سے نئے یار ایک طرح
میں اور قیس و کوہکن اب جو زباں پہ ہیں
مارے گئے ہیں سب یہ گنہگار ایک طرح
منظور اس کو پردے میں ہیں بے حجابیاں
کس سے ہوا دوچار وہ عیار ایک طرح
سب طرحیں اس کی اپنی نظر میں تھیں کیا کہیں
پر ہم بھی ہو گئے ہیں گرفتار ایک طرح
گھر اس کے جاکے آتے ہیں پامال ہوکے ہم
کریے مکاں ہی اب سر بازار ایک طرح
گہ گل ہے گاہ رنگ گہے باغ کی ہے بو
آتا نہیں نظر وہ طرحدار ایک طرح
نیرنگ حسن دوست سے کر آنکھیں آشنا
ممکن نہیں وگرنہ ہو دیدار ایک طرح
سو طرح طرح دیکھ طبیبوں نے یہ کہا
صحت پذیر ہوئے یہ بیمار ایک طرح
سو بھی ہزار طرح سے ٹھہراوتے ہیں ہم
تسکین کے لیے تری ناچار ایک طرح
بن جی دیے ہو کوئی طرح فائدہ نہیں
گر ہے تو یہ ہے اے جگر افگار ایک طرح
ہر طرح تو ذلیل ہی رکھتا ہے میر کو
ہوتا ہے عاشقی میں کوئی خوار ایک طرح
میر تقی میر