ٹیگ کے محفوظات: عیاری

دزد غمزوں کی ویسی عیاری

دیوان ششم غزل 1902
وے سیہ موئی و گرفتاری
دزد غمزوں کی ویسی عیاری
اب کے دل ان سے بچ گیا تو کیا
چور جاتے رہے کہ اندھیاری
اچھا ہونا نہیں مریض عشق
ساتھ جی کے ہے دل کی بیماری
کیوں نہ ابر بہار پر ہو رنگ
برسوں دیکھی ہے میری خوں باری
شور و فریاد و زاری شب سے
شہریوں کو ہے مجھ سے بیزاری
چلے جاتے ہیں رات دن آنسو
دیدئہ تر کی خیر ہے جاری
مر رہیں اس میں یا رہیں جیتے
شیوہ اپنا تو ہے وفاداری
کیونکے راہ فنا میں بیٹھیے گا
جرم بے حد سے ہے گراں باری
واں سے خشم و خطاب و ناز و عتاب
یاں سے اخلاص و دوستی یاری
میر چلنے سے کیوں ہو غافل تم
سب کے ہاں ہو رہی ہے تیاری
میر تقی میر

شرم انکھڑیوں میں جس کی عیاری ہو گئی ہے

دیوان دوم غزل 1048
اس شوخ سے ہمیں بھی اب یاری ہو گئی ہے
شرم انکھڑیوں میں جس کی عیاری ہو گئی ہے
روتا پھرا ہوں برسوں لوہو چمن چمن میں
کوچے میں اس کے یکسر گل کاری ہو گئی ہے
یک جا اٹک کے رہنا ہے ناتمامی ورنہ
سب میں وہی حقیقت یاں ساری ہو گئی ہے
جب خاک کے برابر ہم کو کیا فلک نے
طبع خشن میں تب کچھ ہمواری ہو گئی ہے
مطلق اثر نہ دیکھا مدت کی آہ و زاری
اب نالہ و فغاں سے بیزاری ہو گئی ہے
اس سے دوچار ہونا آتا نہیں میسر
مرنے میں اس سے ہم کو ناچاری ہو گئی ہے
ہر بار ذکر محشر کیا یار کے در اوپر
ایسی تو یاں قیامت سو باری ہو گئی ہے
انداز شوخی اس کے آتے نہیں سمجھ میں
کچھ اپنی بھی طبیعت یاں عاری ہو گئی ہے
شاہی سے کم نہیں ہے درویشی اپنے ہاں تو
اب عیب کچھ جہاں میں ناداری ہو گئی ہے
ہم کو تو درد دل ہے تم زرد کیوں ہو ایسے
کیا میر جی تمھیں کچھ بیماری ہو گئی ہے
میر تقی میر