ٹیگ کے محفوظات: عیادت

درد ہے، درد بھی قیامت کا

پوچھتے کیا ہو دل کی حالت کا؟
درد ہے، درد بھی قیامت کا
یار، نشتر تو سب کے ہاتھ میں ہے
کوئی ماہر بھی ہے جراحت کا؟
اک نظر کیا اٹھی، کہ اس دل پر
آج تک بوجھ ہے مروّت کا
دل نے کیا سوچ کر کیا آخر
فیصلہ عقل کی حمایت کا
کوئی مجھ سے مکالمہ بھی کرے
میں بھی کردار ہوں حکایت کا
آپ سے نبھ نہیں رہی اِس کی؟
قتل کردیجیئے روایت کا
نہیں کُھلتا یہ رشتہِٗ باہم
گفتگو کا ہے یا وضاحت کا؟
تیری ہر بات مان لیتا ہوں
یہ بھی انداز ہے شکایت کا
دیر مت کیجیئے جناب، کہ وقت
اب زیادہ نہیں عیادت کا
بے سخن ساتھ کیا نباہتے ہم؟
شکریہ ہجر کی سہولت کا
کسرِ نفسی سے کام مت لیجے
بھائی یہ دور ہے رعونت کا
مسئلہ میری زندگی کا نہیں
مسئلہ ہے مری طبیعت کا
درد اشعار میں ڈھلا ہی نہیں
فائدہ کیا ہوا ریاضت کا؟
آپ مجھ کو معاف ہی رکھیئے
میں کھلاڑی نہیں سیاست کا
رات بھی دن کو سوچتے گزری
کیا بنا خواب کی رعایت کا؟
رشک جس پر سلیقہ مند کریں
دیکھ احوال میری وحشت کا
صبح سے شام تک دراز ہے اب
سلسلہ رنجِ بے نہایت کا
وہ نہیں قابلِ معافی، مگر
کیا کروں میں بھی اپنی عادت کا
اہلِ آسودگی کہاں جانیں
مرتبہ درد کی فضیلت کا
اُس کا دامن کہیں سے ہاتھ آئے
آنکھ پر بار ہے امانت کا
اک تماشا ہے دیکھنے والا
آئینے سے مری رقابت کا
دل میں ہر درد کی ہے گنجائش
میں بھی مالک ہوں کیسی دولت کا
ایک تو جبر اختیار کا ہے
اور اک جبر ہے مشیّت کا
پھیلتا جا رہا ہے ابرِ سیاہ
خود نمائی کی اِس نحوست کا
جز تری یاد کوئی کام نہیں
کام ویسے بھی تھا یہ فرصت کا
سانحہ زندگی کا سب سے شدید
واقعہ تھا بس ایک ساعت کا
ایک دھوکہ ہے زندگی عرفان
مت گماں اِس پہ کر حقیقت کا
عرفان ستار

خدا کے گھر میں بھی جوتوں کی خود حفاظت کر

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 31
ادائے فرض سے غافل نہ ہو عبادت کر
خدا کے گھر میں بھی جوتوں کی خود حفاظت کر
بس اِس غرض کو کہ کل تیرے کام آئے گا
اُٹھا یہ رنج بھی بیمار کی عیادت کر
جو زیردست ہو ہم جنس، پی لہو اُس کا
تہہِ سپہر خُداوند کی نیابت کر
وہ رزقِ خاص کہ ہاتھ آئے جو خیانت سے
وہ رزق کام میں لا قوم کی قیادت کر
صدائے خلق بنامِ ریا صدا میں مِلا
یہ کاج عیب چھپائے گااِس میں عجلت کر
اتار دھڑکنیں ماجِد سخن کی رگ رگ میں
یہ سُر نِکھار ابھی اور بھی ریاضت کر
ماجد صدیقی

درد ہے، درد بھی قیامت کا

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 5
پوچھتے کیا ہو دل کی حالت کا؟
درد ہے، درد بھی قیامت کا
یار، نشتر تو سب کے ہاتھ میں ہے
کوئی ماہر بھی ہے جراحت کا؟
اک نظر کیا اٹھی، کہ اس دل پر
آج تک بوجھ ہے مروّت کا
دل نے کیا سوچ کر کیا آخر
فیصلہ عقل کی حمایت کا
کوئی مجھ سے مکالمہ بھی کرے
میں بھی کردار ہوں حکایت کا
آپ سے نبھ نہیں رہی اِس کی؟
قتل کردیجیئے روایت کا
نہیں کُھلتا یہ رشتہِٗ باہم
گفتگو کا ہے یا وضاحت کا؟
تیری ہر بات مان لیتا ہوں
یہ بھی انداز ہے شکایت کا
دیر مت کیجیئے جناب، کہ وقت
اب زیادہ نہیں عیادت کا
بے سخن ساتھ کیا نباہتے ہم؟
شکریہ ہجر کی سہولت کا
کسرِ نفسی سے کام مت لیجے
بھائی یہ دور ہے رعونت کا
مسئلہ میری زندگی کا نہیں
مسئلہ ہے مری طبیعت کا
درد اشعار میں ڈھلا ہی نہیں
فائدہ کیا ہوا ریاضت کا؟
آپ مجھ کو معاف ہی رکھیئے
میں کھلاڑی نہیں سیاست کا
رات بھی دن کو سوچتے گزری
کیا بنا خواب کی رعایت کا؟
رشک جس پر سلیقہ مند کریں
دیکھ احوال میری وحشت کا
صبح سے شام تک دراز ہے اب
سلسلہ رنجِ بے نہایت کا
وہ نہیں قابلِ معافی، مگر
کیا کروں میں بھی اپنی عادت کا
اہلِ آسودگی کہاں جانیں
مرتبہ درد کی فضیلت کا
اُس کا دامن کہیں سے ہاتھ آئے
آنکھ پر بار ہے امانت کا
اک تماشا ہے دیکھنے والا
آئینے سے مری رقابت کا
دل میں ہر درد کی ہے گنجائش
میں بھی مالک ہوں کیسی دولت کا
ایک تو جبر اختیار کا ہے
اور اک جبر ہے مشیّت کا
پھیلتا جا رہا ہے ابرِ سیاہ
خود نمائی کی اِس نحوست کا
جز تری یاد کوئی کام نہیں
کام ویسے بھی تھا یہ فرصت کا
سانحہ زندگی کا سب سے شدید
واقعہ تھا بس ایک ساعت کا
ایک دھوکہ ہے زندگی عرفان
مت گماں اِس پہ کر حقیقت کا
عرفان ستار

واں میں بھی ہوں مدام شہادت کے واسطے

دیوان دوم غزل 984
کھینچے جہاں تو تیغ جلادت کے واسطے
واں میں بھی ہوں مدام شہادت کے واسطے
سجدہ کوئی کرے تو در یار پر کرے
ہے جاے پاک شرط عبادت کے واسطے
آئے نہ تم تو درپس دیوار مجھ تلک
کھینچے ہیں لوگ رنج عیادت کے واسطے
خوش طالعی صبح جو اس منھ پہ ہے سفید
پھرتا ہے مہ بھی اس ہی سعادت کے واسطے
ہے میر پیر لیک سوے میکدہ مدام
جاتا ہے مغبچوں کی ارادت کے واسطے
میر تقی میر

شعلۂ آہ دل گرم محبت سے اٹھا

دیوان اول غزل 148
جب کہ تابوت مرا جاے شہادت سے اٹھا
شعلۂ آہ دل گرم محبت سے اٹھا
عمر گذری مجھے بیمار ہی رہتے ہے بجا
دل عزیزوں کا اگر میری عیادت سے اٹھا
میر تقی میر

عیادت

پت جھڑ کے موسم میں تجھ کو

کون سے پُھول کا تحفہ بھیجوں

میر ا آنگن خالی ہے

لیکن میری آنکھوں میں

نیک دُعاؤں کی شبنم ہے

شبنم کا ہرتارہ

تیراآنچل تھام کے کہتا ہے

خوشبو،گیت ہَوا،پانی اور رنگ کو چاہنے والی لڑکی!

جلدی سے اچھی ہو جا

صبحِ بہار کی آنکھیں کب سے

تیری نرم ہنسی کا رستہ دیکھ رہی ہیں !

آئینہ

لڑکی سرکوجُھکائے بیٹھی

کافی کے پیالے میں چمچہ ہلا رہی ہے

لڑکا،حیرت اور محبت کی شدت سے پاگل

لانبی پلکوں کے لرزیدہ سایوں کو

اپنی آنکھ سے چُوم رہا ہے

دونوں میری نظر بچا کر

اک دُوجے کو دیکھتے ہیں ہنس دیتے ہیں !

میں دونوں سے دُور

دریچے کے نزدیک

اپنی ہتھیلی پراپنا چہرہ رکھے

کھڑکی سے باہر کا منظر دیکھ رہی ہوں

سوچ رہی ہوں

گئے دنوں میں ہم بھی یونہی ہنستے تھ

پروین شاکر