ٹیگ کے محفوظات: علاوہ

میری حالت تو کوئی دیکھنے والا سمجھے

جو ہو خود ایک تماشا وہ بھلا کیا سمجھے
میری حالت تو کوئی دیکھنے والا سمجھے
مجھ میں آباد ہے اک شہر، ترے حُسن کا شہر
وہ جو باہر سے مجھے دیکھے وہ تنہا سمجھے
مجھ سے ممکن یہ نہیں ہے کہ میں کھل کر کہہ دوں
اس کے بس میں یہ نہیں ہے کہ اشارہ سمجھے
آہ ایسی، کہ سنے کوئی تو سمجھے نغمہ
اشک ایسا، کوئی دیکھے تو ستارا سمجھے
ٹھیک ہے دشت بھی ہوں، باغ بھی ہوں، دریا بھی
جس کو جیسا نظر آؤں مجھے ویسا سمجھے
لفظ پردہ ہیں، اسے کاش بتا دے کوئی
اس کو سمجھائے کہ سمجھے، مرا لہجہ سمجھے
بس یہی ہے جو میّسر ہے مرے قرب کے ساتھ
جو مرے دل میں بسے وہ اِسے دنیا سمجھے
سانحہ کرکے سنایا تھا اُسے رنجِ فراق
سُن کے بس اتنا کہا اُس نے کہ ’’اچھا۔ ۔ ۔ سمجھے‘‘
دل کسی حرفِ ملائم سے سنبھل بھی جاتا
میرے سینے میں اچھلتا ہے بگولا، سمجھے؟
وصل سے اِن کے نمو پاتی ہے اک کیفیۤت
کوئی الفاظ و معانی کا یہ رشتہ سمجھے
اتنا دشوار ہوں کیا میں جو کسی پر نہ کھلوں؟
کوئی تو ہو مجھے میرے علاوہ سمجھے
ابھی سمجھو تو میں کیا خوب سخن تم سے کروں
بعد میرے مجھے سمجھے بھی تو پھر کیا سمجھے
تُو سمجھتا ہے اُسے، شکر بجا لا عرفان
وہ جسے دیر نہ کعبہ، نہ کلیسا سمجھے
عرفان ستار

میری حالت تو کوئی دیکھنے والا سمجھے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 74
جو ہو خود ایک تماشا وہ بھلا کیا سمجھے
میری حالت تو کوئی دیکھنے والا سمجھے
مجھ میں آباد ہے اک شہر، ترے حُسن کا شہر
وہ جو باہر سے مجھے دیکھے وہ تنہا سمجھے
مجھ سے ممکن یہ نہیں ہے کہ میں کھل کر کہہ دوں
اس کے بس میں یہ نہیں ہے کہ اشارہ سمجھے
آہ ایسی، کہ سنے کوئی تو سمجھے نغمہ
اشک ایسا، کوئی دیکھے تو ستارا سمجھے
ٹھیک ہے دشت بھی ہوں، باغ بھی ہوں، دریا بھی
جس کو جیسا نظر آؤں مجھے ویسا سمجھے
لفظ پردہ ہیں، اسے کاش بتا دے کوئی
اس کو سمجھائے کہ سمجھے، مرا لہجہ سمجھے
بس یہی ہے جو میّسر ہے مرے قرب کے ساتھ
جو مرے دل میں بسے وہ اِسے دنیا سمجھے
سانحہ کرکے سنایا تھا اُسے رنجِ فراق
سُن کے بس اتنا کہا اُس نے کہ ’’اچھا۔ ۔ ۔ سمجھے‘‘
دل کسی حرفِ ملائم سے سنبھل بھی جاتا
میرے سینے میں اچھلتا ہے بگولا، سمجھے؟
وصل سے اِن کے نمو پاتی ہے اک کیفیۤت
کوئی الفاظ و معانی کا یہ رشتہ سمجھے
اتنا دشوار ہوں کیا میں جو کسی پر نہ کھلوں؟
کوئی تو ہو مجھے میرے علاوہ سمجھے
ابھی سمجھو تو میں کیا خوب سخن تم سے کروں
بعد میرے مجھے سمجھے بھی تو پھر کیا سمجھے
تُو سمجھتا ہے اُسے، شکر بجا لا عرفان
وہ جسے دیر نہ کعبہ، نہ کلیسا سمجھے
عرفان ستار

کچھ بھی تمہارے غم کے علاوہ نہیں رہا

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 12
اب دردِ دل کا کوئی مداوا نہیں رہا
کچھ بھی تمہارے غم کے علاوہ نہیں رہا
وہ دن بھی تھے کہ میں بھی بہت خوش لباس تھا
اب کیا کہ جب وہ دیکھنے والا نہیں رہا
میری دعا ہے تجھ سے یہ دنیا وفا کرے
میرا تو تجربہ کوئی اچھا نہیں رہا
ماحول میرے گھر کا بدلتا رہا، سو اب
میرے مزاج کا تو ذرا سا نہیں رہا
کہتے نہ تھے ہمیشہ رہے گا نہ اتنا رنج
گزرے ہیں چند سال ہی، دیکھا، نہیں رہا
کیا سانحہ ہوا ہے یہ آنکھوں کو کیا خبر
منظر نہیں رہا، کہ اجالا نہیں رہا
کیوں دل جلائیں کرکے کسی سے بھی اب سخن
جب گفتگو کا کوئی سلیقہ نہیں رہا
میں چاہتا ہوں دل بھی حقیقت پسند ہو
سو کچھ دنوں سے میں اسے بہلا نہیں رہا
دھندلا سا ایک نقش ہے، جیسے کہ کچھ نہ ہو
موہوم سا خیال ہے، گویا نہیں رہا
ویسے تو اب بھی خوبیاں اُس میں ہیں ان گنت
جیسا مجھے پسند تھا، ویسا نہیں رہا
عرفان، دن پھریں گے ترے، یوں نہ رنج کر
کیا، میری بات کا بھی بھروسہ نہیں رہا؟
عرفان ستار