دیوان ششم غزل 1825
آیا ہے ابر قبلہ چلا خانقاہ پر
صوفی ہوا کو دیکھ کے کاش آوے راہ پر
وہ آنکھ اٹھا کے شرم سے کب دیکھے ہے ولے
ہوتے ہیں خون نیچی بھی اس کی نگاہ پر
بالفرض چاہتا ہے گنہ لیک میری جاں
واجب ہے خون کرنا کہاں اس گناہ پر
کیا بحث میرے وقر سے میں ہوں فقیر محض
ہے اس گلی میں حرف و سخن عزشاہ پر
تہ سے سخن کے لوگ نہ تھے آشنا عبث
جاگہ سے تم گئے انھوں کی واہ واہ پر
ڈر چشم شور چرخ سے گل پھول یک طرف
آنکھ اس دنی کی دوڑے ہے اک برگ کاہ پر
دیکھی ہے جن نے یار کے رخسار کی جھمک
اس کی نظر گئی نہ شب مہ میں ماہ پر
ہم جاں بہ لب پتنگوں کی سدھ لیجیو شتاب
موقوف اپنا جانا ہے اب ایک آہ پر
کہتے تو ہیں کہ ہم بھی تمھیں چاہتے ہیں میر
پر اعتماد کس کو ہے خوباں کی چاہ پر
میر تقی میر