ٹیگ کے محفوظات: عریاں

کیجیے خم کار زلفوں کو پریشان کیجیے

اپنی ذہنی کشمکش کو اب نمایاں کیجیے
کیجیے خم کار زلفوں کو پریشان کیجیے
اس طرح شاید نکھر جائے یہ پھیکی چاندنی
اپنی زُلفوں کے گھنے سایے پریشان کیجیے
روکیے بڑھتی ہوئی تاریکیوں کو روکیے
کیجیے اپنے رخِ تاباں کو عریاں کیجیے
جو کہ ہمت ہار جائیں ، آ کے ساحل کے قریب
ایسی نازک کشتیوں کو نذرِ طوفاں کیجیے
رنج کا احساس دل سے مٹ نہیں سکتا کبھی
آپ کتنا بھی تبسم کو نمایاں کیجیے
کچھ نہ کچھ تو آپ کو مجھ سے تعلق ہے ضرور
مجھ کو رسوا کر کے یوں خود کو نہ عریاں کیجیے
پھر بھی ان کی یاد آتی ہی رہے گی، اے شکیبؔ
جس قدر بھی ہو خیالوں کو پریشاں کیجیے
شکیب جلالی

داغِ جگر کو رشکِ گُلستاں بنا دیا

گلہائے صبر و ضبط کا خواہاں بنا دیا
داغِ جگر کو رشکِ گُلستاں بنا دیا
پابندیوں نے موت کا ساماں بنا دیا
قلبِ حزیں کو تلخیِ زنداں بنا دیا
جلووں نے ان کی دید کا ساماں بنا دیا
میرے تصوّرات کو عُریاں بنا دیا
منظور تھی جو شانِ کریمی کو بندگی
خالق نے مُشتِ خاک کو انساں بنا دیا
مایوسیوں نے دل کا سَفینہ ڈبو کے آج
افسوس ایک موج کو طوفاں بنا دیا
اللہ رے فریبِ تصوّر کی خوبیاں
دشواریِ فراق کو آساں بنا دیا
دیکھا شکیبؔ! نقطے جما کر بنائے حَرف
حَرفوں سے شعر، شعر سے دیواں بنا دیا
شکیب جلالی

چنگاری کو رقصاں دیکھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 71
اُس کا حسنِ درخشاں دیکھا
چنگاری کو رقصاں دیکھا
تھوڑ ہی تھوڑ رہی خوشیوں کی
رنج ہی رنج فراواں دیکھا
چاند اُسے ہی رگیدنے آیا
جو تارا بھی نمایاں دیکھا
جسم پگھل کے چٹختا لاگے
روح کو جب سے پرِیشاں دیکھا
گل پہ نجانے اوس پڑی کیا
صبح اسے بھی گریاں دیکھا
بام و افق سے ہم نے اکثر
حسن کو آنکھ پہ عریاں دیکھا
وجد سے پھر نکلا نہ وہ جس نے
ماجد! تجھ کو غزلخواں دیکھا
ماجد صدیقی

پر شہِ بے پیرہن کو میں نے عریاں کہہ دیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 46
خلق نے تو اس کو ایسے میں بھی ذی شاں کہہ دیا
پر شہِ بے پیرہن کو میں نے عریاں کہہ دیا
رزق نے جس کے مجھے پالا ہے جس کا رزق ہوں
کہہ دیا اس خاک کو میں نے رگِ جاں کہہ دیا
اِس تمنّا پر کہ ہاتھ آ جائے نخلستاں کوئی
خود غرض نے دیکھ صحرا کو گلستاں کہہ دیا
ہمزبانِ شاہ وہ بھی تھے جنہوں نے آز میں
رات تک کو، یار کی زلفِ پریشاں کہہ دیا
میں وہ خوش خُو جس نے دو ٹانگوں پہ چلتا دیکھ کر
شہر کے بن مانسوں تک کو بھی انساں کہہ دیا
کیا کہوں کیوں میں نے سادہ لوح چڑیوں کی طرح
وقفۂ شب کو بھی تھا صبحِ درخشاں کہہ دیا
اس کے ناطے، درگزر جو محض عُجلت میں ہوئی
گرگ کو بھی بھیڑ نے ماجدؔ پشیماں کہہ دیا
ماجد صدیقی

جھیل میں اُس کو میں نے عریاں دیکھ لیا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 20
مجھ سے تھا، جو چاند گریزاں دیکھ لیا ہے
جھیل میں اُس کو میں نے عریاں دیکھ لیا ہے
دیکھ لیا ہے، تنکے کو، پانی پر بہتے
دل نے ہو کر، عدل کا خواہاں دیکھ لیا ہے
راحت کا عرفان بھلا کیا اور مجھے ہو
برگ پہ قطرہ اوس کا رقصاں دیکھ لیا ہے
آخر کو ہونٹوں پر لا کر، حرف دُعا کا
ایک بگولا سا، پرافشاں دیکھ لیا ہے
آز میں خواہش کی تکمیل کے، پڑ کر ماجدؔ
جبر کا کیا کیا بار، سرِ جاں دیکھ لیا ہے
ماجد صدیقی

کافر لگے ہوئے ہیں مسلماں کے ساتھ ساتھ

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 84
گیسو ہیں ان کے عارضِ تاباں کے ساتھ ساتھ
کافر لگے ہوئے ہیں مسلماں کے ساتھ ساتھ
سامان خاک آیا تھا انساں کے ساتھ ساتھ
صرف ایک روح تھی تنِ عریاں کے ساتھ ساتھ
اے ناخدا وہ حکمِ خدا تھا جو بچ گئی
کشتی کو اب تو چھوڑ دے دے طوفاں کے ساتھ ساتھ
اے باغباں گلوں پہ ہی بجلی نہیں گری
ہم بھی لٹے ہیں تیرے گلستاں کے ساتھ ساتھ
جب لطف ہو جنوں تو کہیں زنداں سے لے اڑے
وہ ڈھونڈتے پھریں مجھے درباں کے ساتھ ساتھ
دو چار ٹانکے اور لگے ہاتھ بخیر گر
دامن بھی کچھ پھٹا ہے گریباں کے ساتھ ساتھ
تم میرا خوں چھپا تو رہے ہو خبر بھی ہے
دو دو فرشتے رہتے ہیں انساں کے ساتھ ساتھ
اہلِ قفس کا اور تو کچھ بس نہ چل سکا
آہیں بھریں نسیمِ گلستاں کے ساتھ ساتھ
دیوانے شاد ہیں کہ وہ آئے ہیں دیکھنے
تقدیر کھل گئے درِ زنداں کے ساتھ ساتھ
واعظ مٹے گا تجھ سے غمِ روزگار کیا
ساغر چلے گا گردشِ دوراں کے ساتھ ساتھ
اک شمع کیا کوئی شبِ فرقت نہیں قمر
تارے بھی چھپ گئے ہیں مہِ تاباں کے ساتھ ساتھ
قمر جلالوی

خموشی ریشۂ صد نیستاں سے خس بدنداں ہے

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 260
ہجومِ نالہ، حیرت عاجزِ عر ضِ یک افغاں ہے
خموشی ریشۂ صد نیستاں سے خس بدنداں ہے
تکلف بر طرف، ہے جانستاں تر لطفِ بد خویاں
نگاہِ بے حجابِ ناز تیغِ تیزِ عریاں ہے
ہوئی یہ کثرتِ غم سے تلف کیفیّتِ شادی
کہ صبحِ عید مجھ کو بدتر از چاکِ گریباں ہے
دل و دیں نقد لا، ساقی سے گر سودا کیا چاہے
کہ اس بازار میں ساغر متاعِ دست گرداں ہے
غم آغوشِ بلا میں پرورش دیتا ہے عاشق کو
چراغِ روشن اپنا قلزمِصرصر کا مرجاں ہے
مرزا اسد اللہ خان غالب

آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 71
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
گریہ چاہے ہے خرابی مرے کاشانے کی
در و دیوار سے ٹپکے ہے بیاباں ہونا
وائے دیوانگئ شوق کہ ہر دم مجھ کو
آپ جانا اُدھر اور آپ ہی حیراں@ ہونا
جلوہ از بسکہ تقاضائے نگہ کرتا ہے
جوہرِ آئینہ بھی چاہے ہے مژگاں ہونا
عشرتِ قتل گہِ اہل تمنا، مت پوچھ
عیدِ نظّارہ ہے شمشیر کا عریاں ہونا
لے گئے خاک میں ہم داغِ تمنائے نشاط
تو ہو اور آپ بہ صد رنگِ گلستاں ہونا
عشرتِ پارۂ دل، زخمِ تمنا کھانا
لذت ریشِ جگر، غرقِ نمکداں ہونا
کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
حیف اُس چار گرہ کپڑے کی قسمت غالب!
جس کی قسمت میں ہو عاشق کا گریباں ہونا
@ نسخۂ طاہر میں ” پریشاں”
مرزا اسد اللہ خان غالب

قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 67
شوق، ہر رنگ رقیبِ سروساماں نکلا
قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا
زخم نے داد نہ دی تنگئ دل کی یارب
تیر بھی سینۂ بسمل سے پَرافشاں نکلا
بوئے گل، نالۂ دل، دودِ چراغِ محفل
جو تری بزم سے نکلا، سو پریشاں نکلا
دلِ حسرت زدہ تھا مائدۂ لذتِ درد
کام یاروں کا بہ قدرٕ لب و دنداں نکلا
اے نو آموزِ فنا ہمتِ دشوار پسند!
سخت مشکل ہے کہ یہ کام بھی آساں نکلا
دل میں پھر گریے نے اک شور اٹھایا غالب
آہ جو قطرہ نہ نکلا تھا سُو طوفاں نکلا
شوخئِ رنگِ حنا خونِ وفا سے کب تک
آخر اے عہد شکن! تو بھی پشیماں نکلا
مرزا اسد اللہ خان غالب

نکالا سر سے میرے جاے مو خار مغیلاں کو

دیوان اول غزل 377
فلک نے گر کیا رخصت مجھے سیر بیاباں کو
نکالا سر سے میرے جاے مو خار مغیلاں کو
وہ ظالم بھی تو سمجھے کہہ رکھا ہے ہم نے یاراں کو
کہ گورستان سے گاڑیں جدا ہم اہل ہجراں کو
نہیں یہ بید مجنوں گردش گردون گرداں نے
بنایا ہے شجر کیا جانیے کس مو پریشاں کو
ہوئے تھے جیسے مرجاتے پر اب تو سخت حسرت ہے
کیا دشوار نادانی سے ہم نے کار آساں کو
کہیں نسل آدمی کی اٹھ نہ جاوے اس زمانے میں
کہ موتی آب حیواں جانتے ہیں آب انساں کو
تجھے گر چشم عبرت ہے تو آندھی اور بگولے سے
تماشا کر غبار افشانی خاک عزیزاں کو
لباس مرد میداں جوہر ذاتی کفایت ہے
نہیں پرواے پوشش معرکے میں تیغ عریاں کو
ہواے ابر میں گرمی نہیں جو تو نہ ہو ساقی
دم افسردہ کردے منجمد رشحات باراں کو
جلیں ہیں کب کی مژگاں آنسوئوں کی گرم جوشی سے
اس آب چشم کی جوشش نے آتش دی نیستاں کو
وہ کافر عشق کا ہے دل کہ میری بھی رگ جاں تک
سدا زنار ہی تسبیح ہے اس نامسلماں کو
غرور ناز سے آنکھیں نہ کھولیں اس جفا جونے
ملا پائوں تلے جب تک نہ چشم صد غزالاں کو
نہ سی چشم طمع خوان فلک پر خام دستی سے
کہ جام خون دے ہے ہر سحر یہ اپنے مہماں کو
زبس صرف جنوں میرے ہوا آہن عجب مت کر
نہ ہو گر حلقۂ در خانۂ زنجیر سازاں کو
بنے ناواقف شادی اگر ہم بزم عشرت میں
دہان زخم دل سمجھے جو دیکھا روے خنداں کو
نہیں ریگ رواں مجنوں کے دل کی بے قراری نے
کیا ہے مضطرب ہر ذرئہ گرد بیاباں کو
کسی کے واسطے رسواے عالم ہو پہ جی میں رکھ
کہ مارا جائے جو ظاہر کرے اس راز پنہاں کو
گری پڑتی ہے بجلی ہی تبھی سے خرمن گل پر
ٹک اک ہنس میرے رونے پر کہ دیکھے تیرے دنداں کو
غرور ناز قاتل کو لیے جا ہے کوئی پوچھے
چلا تو سونپ کر کس کے تئیں اس صید بے جاں کو
وہ تخم سوختہ تھے ہم کہ سرسبزی نہ کی حاصل
ملایا خاک میں دانہ نمط حسرت سے دہقاں کو
ہوا ہوں غنچۂ پژمردہ آخر فصل کا تجھ بن
نہ دے برباد حسرت کشتۂ سردرگریباں کو
غم و اندوہ و بیتابی الم بے طاقتی حرماں
کہوں اے ہم نشیں تاچند غم ہاے فراواں کو
گل وسرو وسمن گر جائیں گے مت سیرگلشن کر
ملا مت خاک میں ان باغ کے رعنا جواناں کو
بہت روئے جو ہم یہ آستیں رکھ منھ پہ اے بجلی
نہ چشم کم سے دیکھ اس یادگارچشم گریاں کو
مزاج اس وقت ہے اک مطلع تازہ پہ کچھ مائل
کہ بے فکرسخن بنتی نہیں ہرگز سخنداں کو
میر تقی میر

وہی چہرے تھے مرے دیدہ حیراں والے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 276
رات پھر جمع ہوئے شہر گریزاں والے
وہی چہرے تھے مرے دیدہ حیراں والے
سارے آشفتہ سراں اُن کے تعاقب میں رواں
وحشتیں کرتے ہوئے چشم غزالاں والے
چاند تاروں کی رداؤں میں چھپائے ہوئے جسم
اور انداز وہی خنجر عریاں والے
پاسداروں کا سرا پردۂ دولت پہ ہجوم
سلسلے چھت کی فصیلوں پہ چراغاں والے
نارسائی پہ بھی وہ لوگ سمجھتے تھے کہ ہم
شہر بلقیس میں ہیں ملک سلیماں والے
پھر کچھ اس طرح پڑے حلقہ زنجیر میں پاؤں
سب جنوں بھول گئے دشت و بیاباں والے
میں بھی اک شام ملاقات کا مارا ہوا ہوں
مجھ سے کیا پوچھتے ہیں وادئ ہجراں والے
اَب اُنہیں ڈُھونڈ رہا ہوں جو صدا دیتے تھے
’’اِدھر آبے ابے او چاک گریباں والے‘‘
عرفان صدیقی

کوئی دلچسپی، کوئی ربطِ دل و جاں جاناں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 266
صحبتِ قوسِ قزح کا کوئی امکاں جاناں
کوئی دلچسپی، کوئی ربطِ دل و جاں جاناں
میرے اندازِ ملاقات پہ ناراض نہ ہو
مجھ پہ گزرا ہے ابھی موسمِ ہجراں جاناں
جو مرے نام کو دنیا میں لیے پھرتے ہیں
تیری بخشش ہیں یہ اوراقِ پریشاں جاناں
آ مرے درد کے پہلو میں دھڑک کہ مجھ میں
بجھتی جاتی ہے تری یادِ فروزاں جاناں
تیری کھڑکی کہ کئی دن سے مقفل مجھ پر
جیسے کھلتا نہیں دروازئہ زنداں جاناں
تیری گلیاں ہیں ترا شہر ہے تیرا کوچہ
میں ، مرے ساتھ ترا وعدہ و پیماں جاناں
پھر کوئی نظم لٹکتی ہے ترے کعبہ پر
پھر مرے صبر کی بے چارگی عنواں جاناں
ہجر کا ایک تعلق ہے اسے رہنے دے
میرے پہلو میں تری یاد ہراساں جاناں
ہم فرشتوں کی طرح گھر میں نہیں رہ سکتے
ہاں ضروری ہے بہت رشتہء انساں جاناں
زخم آیا تھا کسی اور کی جانب سے مگر
میں نے جو غور کیا تیرا تھا احساں جاناں
اس تعلق میں کئی موڑ بڑے نازک ہیں
اور ہم دونوں ابھی تھوڑے سے ناداں جاناں
دشت میں بھی مجھے خوشبو سے معطر رکھے
دائم آباد رہے تیرا گلستاں جاناں
ویسا الماری میں لٹکا ہے عروسی ملبوس
بس اسی طرح پڑا ہے ترا ساماں جاناں
مجھ کو غالب نے کہا رات فلک سے آ کر
تم بھی تصویر کے پردے میں ہو عریاں جاناں
وہ جو رُوٹھی ہوئی رت کو بھی منا لیتے ہیں
بس وہی شعرِ فراز اپنا دبستاں جاناں
روشنی دل کی پہنچ پائی نہ گھر تک تیرے
میں نے پلکوں پہ کیا کتنا چراغاں جاناں
کیا کہوں ہجر کہاں وصل کہاں ہے مجھ میں
ایک جیسے ہیں یہاں شہر و بیاباں جاناں
چھت پہ چڑھ کے میں تمہیں دیکھ لیا کرتا تھا
تم نظر آتی تھی بچپن سے نمایاں جاناں
اک ذرا ٹھہر کہ منظر کو گرفتار کروں
کیمرہ لائے ابھی دیدئہ حیراں جاناں
مانگ کر لائے ہیں آنسو مری چشمِ نم سے
یہ جو بادل ہیں ترے شہر کے مہماں جاناں
لڑکیاں فین ہیں میری انہیں دشنام نہ دے
تتلیاں پھول سے کیسے ہوں گریزاں جاناں
آگ سے لختِ جگر اترے ہیں تازہ تازہ
خانہء دل میں ہے پھر دعوتِ مژگاں جاناں
زخم در زخم لگیں دل کی نمائش گاہیں
اور ہر ہاتھ میں ہے ایک نمکداں جاناں
تھم نہیں سکتے بجز تیرے کرم کے، مجھ میں
کروٹیں لیتے ہوئے درد کے طوفاں جاناں
بلب جلتے رہیں نیلاہٹیں پھیلاتے ہوئے
میرے کمرے میں رہے تیرا شبستاں جاناں
رات ہوتے ہی اترتا ہے نظر پر میری
تیری کھڑکی سے کوئی مہرِ درخشاں جاناں
تُو کہیں بستر کمخواب پہ لیٹی ہو گی
پھر رہا ہوں میں کہیں چاک گریباں جاناں
نذرِ احمد فراز
منصور آفاق

پھر اسی باغ سے یہ میرا دبستاں نکلا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 42
پیڑ پر شام کھلی، شاخ سے ہجراں نکلا
پھر اسی باغ سے یہ میرا دبستاں نکلا
رات نکلی ہیں پرانی کئی چیزیں اس کی
اور کچھ خواب کے کمرے سے بھی ساماں نکلا
نقش پا دشت میں ہیں میرے علاوہ کس کے
کیا کوئی شہر سے پھر چاک گریباں نکلا
خال و خد اتنے مکمل تھے کسی چہرے کے
رنگ بھی پیکرِ تصویر سے حیراں نکلا
لے گیا چھین کے ہر شخص کا ملبوس مگر
والیء شہر پناہ ، بام پہ عریاں نکلا
صبح ہوتے ہی نکل آئے گھروں سے پھر لوگ
جانے کس کھوج میں پھر شہرِ پریشاں نکلا
وہ جسے رکھا ہے سینے میں چھپا کر میں نے
اک وہی آدمی بس مجھ سے گریزاں نکلا
زخمِ دل بھرنے کی صورت نہیں کوئی لیکن
چاکِ دامن کے رفو کا ذرا امکاں نکلا
تیرے آنے سے کوئی شہر بسا ہے دل میں
یہ خرابہ تو مری جان ! گلستاں نکلا
زخم کیا داد وہاں تنگیء دل کی دیتا
تیر خود دامنِ ترکش سے پُر افشاں نکلا
رتجگے اوڑھ کے گلیوں کو پہن کے منصور
جو شبِ تار سے نکلا وہ فروزاں نکلا
منصور آفاق

یا ہم شریک دیدہ حیراں نہیں رہے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 259
شام و سحر کے رنگ نمایاں نہیں رہے
یا ہم شریک دیدہ حیراں نہیں رہے
پانی کی موج بن گیا انساں کا ہر لباس
عریاں ہوئے ہم اتنے کہ عریاں نہیں رہے
کیوں لفظ بے صدا ہوئے، کیوں حرف بجھ گئے
کیا ہم کسی فسانے کا عنواں نہیں رہے
باقیؔ قدم قدم پہ لہو مانگتے ہیں لوگ
اب مرحلے حیات کے آساں نہیں رہے
باقی صدیقی