ٹیگ کے محفوظات: عداوت

ہر اِک، اظہارِ حیرت کر رہا ہے

وہ مجھ پر کیوں عنایت کر رہا ہے
ہر اِک، اظہارِ حیرت کر رہا ہے
یہ انساں کس لئے، قبل از قیامت
قیامت پر قیامت کر رہا ہے
ہر اِک طاقِ اَنا پر، ایک بُت ہے
ہر اِک اپنی عبادت کر رہا ہے
جسے ، احساسِ عزت ہی نہیں ہے
وہ، کیسے میری عزت کر رہا ہے
ہوئے ہم جب سے رسوائے زمانہ
ہر اِک آ آ کے بیعت کر رہا ہے
ہم اچھے تَو نہیں لگنے لگے ہیں
وہ ہم سے کیوں عداوت کر رہا ہے
نگاہ و دل سمجھتے ہی نہیں ہیں
یقیناً وہ مروّت کر رہا ہے
ہر اِک سُو گرمی ِٔ بازارِ وحشت
ہر اِک اُس سے محبت کر رہا ہے
بُرا مت مان ضامنؔ کی نظر کا
یہ دل اتمامِ حجّت کر رہا ہے
ضامن جعفری

نیند آنے لگی ہے فرقت میں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 101
سر ہی اب پھوڑیے ندامت میں
نیند آنے لگی ہے فرقت میں
ہیں دلیلیں تیرے خلاف مگر
سوچتا ہوں تیری حمایت میں
روح نے عشق کا فریب دیا
جسم کا جسم کی عداوت میں
اب فقط عادتوں کی ورزش ہے
روح شامل نہیں شکایت میں
عشق کو درمیاں نہ لاؤ کہ میں
چیختا ہوں بدن کی عسرت میں
یہ کچھ آسان تو نہیں ہے کہ ہم
روٹھتے اب بھی ہیں مروت میں
وہ جو تعمیر ہونے والی تھی
لگا گئی آگ اس عمارت میں
اپنے حجرہ کا کیا بیاں کہ یہاں
خون تھوکا گیا شرارت میں
وہ خلا ہے کہ سوچتا ہوں میں
اس سے کیا گفتگو ہو خلوت میں
زندگی کس طرح بسر ہو گی
دل نہیں لگ رہا محبت میں
حاصلِ ’’کُن‘‘ ہے یہ جہانِ خراب
یہی ممکن تھا اتنی عجلت میں
پھر بنایا خدا نے آدم کو
اپنی صورت پہ، ایسی صورت میں
اور پھر آدمی نے غور کیا
چھپکلی کی لطیف صنعت میں
اے خدا (جو کہیں نہیں موجود)
کیا لکھا ہے ہماری قسمت میں؟
جون ایلیا

میری وحشت تری شہرت ہی سہی

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 203
عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی
میری وحشت تری شہرت ہی سہی
قطع کیجے نہ تعلّق ہم سے
کچھ نہیں ہے تو عداوت ہی سہی
میرے ہونے میں ہے کیا رسوائی
اے وہ مجلس نہیں خلوت ہی سہی
ہم بھی دشمن تو نہیں ہیں اپنے
غیر کو تجھ سے محبّت ہی سہی
اپنی ہستی ہی سے ہو جو کچھ ہو
آگہی گر نہیں غفلت ہی سہی
عمر ہر چند کہ ہے برق خرام
دل کے خوں کرنے کی فرصت ہی سہی
ہم کوئی ترکِ وفا کرتے ہیں
نہ سہی عشق مصیبت ہی سہی
کچھ تو دے اے فلکِ نا انصاف
آہ و فریاد کی رخصت ہی سہی
ہم بھی تسلیم کی خو ڈالیں گے
بے نیازی تری عادت ہی سہی
یار سے چھیڑ چلی جائے اسدؔ
گر نہیں وصل تو حسرت ہی سہی
مرزا اسد اللہ خان غالب

کیجے ہمارے ساتھ، عداوت ہی کیوں نہ ہو

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 148
وارستہ اس سے ہیں کہ محبّت ہی کیوں نہ ہو
کیجے ہمارے ساتھ، عداوت ہی کیوں نہ ہو
چھوڑا نہ مجھ میں ضعف نے رنگ اختلاط کا
ہے دل پہ بار، نقشِ محبّت ہی کیوں نہ ہو
ہے مجھ کو تجھ سے تذکرۂ غیر کا گلہ
ہر چند بر سبیلِ شکایت ہی کیوں نہ ہو
پیدا ہوئی ہے، کہتے ہیں، ہر درد کی دوا
یوں ہو تو چارۂ غمِ الفت ہی کیوں نہ ہو
ڈالا نہ بیکسی نے کسی سے معاملہ
اپنے سے کھینچتا ہوں خجالت ہی کیوں نہ ہو
ہے آدمی بجائے خود اک محشرِ خیال
ہم انجمن سمجھتے ہیں خلوت ہی کیوں نہ ہو
ہنگامۂ زبونئِ ہمّت ہے، انفعال
حاصل نہ کیجے دہر سے، عبرت ہی کیوں نہ ہو
وارستگی بہانۂ بیگانگی نہیں
اپنے سے کر، نہ غیر سے، وحشت ہی کیوں نہ ہو
مٹتا ہے فوتِ فرصتِ ہستی کا غم کوئی ؟
عمرِ عزیز صَرفِ عبادت ہی کیوں نہ ہو
اس فتنہ خو کے در سے اب اٹھتے نہیں اسدؔ
اس میں ہمارے سر پہ قیامت ہی کیوں نہ ہو
مرزا اسد اللہ خان غالب