ٹیگ کے محفوظات: عتاب

ہوئی ہے مدّت ہی ہاتھ میں وہ کتاب آئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 10
وُہ رُوئے روشن، وُہ حسن کا انتخاب آئے
ہوئی ہے مدّت ہی ہاتھ میں وہ کتاب آئے
سوال جو بھی کرو گے اس گنبدِ فلک میں
تمہارا اپنا کہا ہی بن کر جواب آئے
وُہ گل بہ شاخِ نظر ہو یا آس کا ثمر ہو
جِسے بھی آنا ہے پاس اپنے شتاب آئے
کھِنچا کھنچا سا لگے وُہ سانسوں میں بسنے والا
برس ہوئے ہیں ہمِیں پہ اِک یہ عتاب آئے
جھُلانے آئیں نہ رات کی رانیوں سی نیندیں
نہ لوریوں کو کہیں کوئی ماہتاب آئے
فلک سے اُتری ہے برق کب بُوند بُوند ماجدؔ
زدستِ انساں ہی خاک پر ہر عذاب آئے
ماجد صدیقی

کمیاب ہے لعلِ ناب سا وُہ

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 15
سر سے تا پا حجاب سا وُہ
کمیاب ہے لعلِ ناب سا وُہ
اُبھرے بھی جو سطحِ آرزُو پر
رُوکے نہ رُکے حباب سا وُہ
خوشبُو سا خیال میں دَر آئے
آنکھوں میں بسے گلاب سا وُہ
سب تلخ حقیقتوں پہ حاوی
رہتا ہے نظر میں خواب سا وُہ
حاصل ہے سرشکِ لالہ رُو کا
محجوب سا‘ دُرِّ آب سا وُہ
چھایا ہے بہ لُطف ہر ادا سے
خواہش پہ مری نقاب سا وُہ
ہُوں جیسے، اُسی کے دم سے قائم
تھامے ہے مجھے طناب سا وُہ
بارانِ کرم مرے لئے ہے
غیروں کے لئے عتاب سا وُہ
ماجدؔ ہو یہ جسُتجو مُبارک
ہاتھ آ ہی گیا سراب سا وُہ
ماجد صدیقی

کچھ اس طلب میں خسارے کا بھی حساب کریں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 1
یونہی نہ ہم بھی تمنّائے لعلِ نابِ کریں
کچھ اس طلب میں خسارے کا بھی حساب کریں
تنے بھی خیر سے زد میں اِسی ہوا کی ہیں
شکست شاخ سے اندازۂ عتاب کریں
لکھے ہیں شعر تو چھپوا کے بیچئے بھی انہیں
یہ کاروبار بھی اب خیر سے جناب کریں
بدل گیا ہے جو مفہوم ہی مروّت کا
تو کیوں نہ ایسی برائی سے اجتناب کریں
ٹھہر سکیں تو ٹھہر جائیں اب کہیں ماجدؔ
ہمِیں نہ پیروئِ جنبشِ حباب کریں
ماجد صدیقی

مرے خدا یہ مجھی پر عتاب سا کیا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 2
یہ روز و شب مرے سر ہی عذاب سا کیا ہے
مرے خدا یہ مجھی پر عتاب سا کیا ہے
یہی متاع‘ یہی آرزو ہے دان ترا
یہ میری سطح پہ پھٹتا حباب سا کیا ہے
کہوں نہ کیوں ترے منہ پر جو مجھ پہ گزرے ہے
مجھے یہ باک سا تجھ سے حجاب سا کیا ہے
ہوئی نہ سیر کہیں بھی مری عمق نظری
مری نظر سے گزرتا یہ خواب سا کیا ہے
ملا ہے جو بھی رُتوں سے، پڑے گا لوٹانا
نمو طلب تھے تو اب سے پیچ و تاب سا کیا ہے
قرارِ جاں ہے تو ماجدؔ اُسے تلاش بھی کر
حصولِ یار سے یہ اجتناب سا کیا ہے
ماجد صدیقی

شب ہائے ہجر کو بھی رکھوں گر حساب میں

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 168
کب سے ہُوں، کیا بتاؤں جہانِ خراب میں
شب ہائے ہجر کو بھی رکھوں گر حساب میں
ملتی ہے خُوئے یار سے نار التہاب میں
کافر ہوں گر نہ ملتی ہو راحت عزاب میں
تا پھر نہ انتظار میں نیند آئے عمر بھر
آنے کا عہد کر گئے آئے جو خواب میں
قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں
مجھ تک کب ان کی بزم میں آتا تھا دورِ جام
ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں
جو منکرِ وفا ہو فریب اس پہ کیا چلے
کیوں بدگماں ہوں دوست سے دشمن کے باب میں
میں مضطرب ہُوں وصل میں خوفِ رقیب سے
ڈالا ہے تم کو وہم نے کس پیچ و تاب میں
میں اور حظِّ وصل خدا ساز بات ہے
جاں نذر دینی بھول گیا اضطراب میں
ہے تیوری چڑھی ہوئی اندر نقاب کے
ہے اک شکن پڑی ہوئی طرفِ نقاب میں
لاکھوں لگاؤ ایک چُرانا نگاہ کا
لاکھوں بناؤ ایک بگڑنا عتاب میں
وہ نالہ دل میں خس کے برابر جگہ نہ پائے
جس نالے سے شگاف پڑے آفتاب میں
وہ سحر مدعا طلبی میں کام نہ آئے
جس سِحر سے سفینہ رواں ہو سراب میں
غالب چُھٹی شراب پر اب بھی کبھی کبھی
پیتا ہوں روزِ ابر و شبِ ماہتاب میں
مرزا اسد اللہ خان غالب

ہم سے کرتا ہے اب حجاب بہت

دیوان ششم غزل 1816
منھ پہ رکھتا ہے وہ نقاب بہت
ہم سے کرتا ہے اب حجاب بہت
چشمک گل کا لطف بھی نہ اٹھا
کم رہا موسم شباب بہت
دیر بھی کچھ لگی نہ مرتے ہمیں
عمر جاتی رہی شتاب بہت
ڈھونڈتے اس کو کوچے کوچے پھرے
دل نے ہم کو کیا خراب بہت
چلنا اپنا قریب ہے شاید
جاں کرے ہے اب اضطراب بہت
توبہ مے سے بہار میں نہ کروں
گو کرے شیخ احتساب بہت
اس غصیلے سے کیا کسو کی نبھے
مہربانی ہے کم عتاب بہت
کشتن مردماں اگر ہے ثواب
تو ہوا ہے اسے ثواب بہت
دیر تک کعبے میں تھے شب بے ہوش
پی گئے میر جی شراب بہت
میر تقی میر

وہ ہی ناز و عتاب ہے سو ہے

دیوان پنجم غزل 1751
ہم پہ خشم و خطاب ہے سو ہے
وہ ہی ناز و عتاب ہے سو ہے
گرچہ گھبرا کے لب پہ آئی ولے
جان کو اضطراب ہے سو ہے
بس گئی جاں خراب مدت کی
حال اپنا خراب ہے سو ہے
خشکی لب کی ہے تری کیسی
چشم لیکن پرآب ہے سو ہے
خاک جل کر بدن ہوا ہے سب
دل جلا سا کباب ہے سو ہے
کر گئے کاروانیاں شب گیر
وہ گراں مجھ کو خواب ہے سو ہے
یاں تو رسوا ہیں کیسا پردئہ شرم
اس کو ہم سے حجاب ہے سو ہے
دشمن جاں تو ہے دلوں میں بہم
دوستی کا حساب ہے سو ہے
زلفیں اس کی ہوا کریں برہم
ہم کو بھی پیچ و تاب ہے سو ہے
خاک میں مل کے پست ہیں ہم تو
ان کی عالی جناب ہے سو ہے
شہر میں در بدر پھرے ہے عزیز
میر ذلت کا باب ہے سو ہے
میر تقی میر

سو سو قاصد جان سے جاویں یک کو ادھر سے جواب نہ ہو

دیوان پنجم غزل 1714
کیونکر مجھ کو نامہ نمط ہر حرف پہ پیچ و تاب نہ ہو
سو سو قاصد جان سے جاویں یک کو ادھر سے جواب نہ ہو
گل کو دیکھ کے گلشن کے دروازے ہی سے پھر آیا
کیا مل بیٹھیے اس سے بھلا جو صحبت ہی کا باب نہ ہو
مستی خرابی سر پر لائی کعبے سے اٹھ دیر گیا
جس کو خدا نے خراب کیا ہو پھر وہ کیونکے خراب نہ ہو
خلع بدن کرنے سے عاشق خوش رہتے ہیں اس خاطر
جان و جاناں ایک ہیں یعنی بیچ میں تن جو حساب نہ ہو
خشم و خطاب جبیں پر چیں تو حسن ہے گل رخساروں کا
وہ محبوب خنک ہوتا ہے جس میں ناز و عتاب نہ ہو
میں نے جو کچھ کہا کیا ہے حد و حساب سے افزوں ہے
روز شمار میں یارب میرے کہے کیے کا حساب نہ ہو
صبر بلا ہاے عشقی پر حوصلے والے کرتے ہیں
رحمت ہے اس خستہ جگر کو دل جس کا بیتاب نہ ہو
جس شب گل دیکھا ہے ہم نے صبح کو اس کا منھ دیکھا
خواب ہمارا ہوا ہوا ہے لوگوں کا سا خواب نہ ہو
نہریں چمن کی بھر رکھی ہیں گویا بادئہ لعلیں سے
بے عکس گل و لالہ الٰہی ان جویوں میں آب نہ ہو
اس دن میں تو مستانہ ہوتا ہوں کوئی کوچہ گدا
جس دن کاسۂ چوبیں میں میرے یک جرعہ بھی شراب نہ ہو
تہ داری کچھ دیدئہ تر کی میر نہیں کم دریا سے
جوشاں شور کناں آجاوے یہ شعلہ سیلاب نہ ہو
میر تقی میر

خوں بستہ ہیں گی آنکھیں آوے گی خواب کیونکر

دیوان پنجم غزل 1614
تڑپے ہے غم زدہ دل لاوے گا تاب کیونکر
خوں بستہ ہیں گی آنکھیں آوے گی خواب کیونکر
پر ناتواں ہوں مجھ پر بھاری ہے جی ہی اپنا
مجھ سے اٹھیں گے اس کے ناز و عتاب کیونکر
اس بحر میں ہے مٹنا شکل حباب ہر دم
ابھرا رہے ہمیشہ نقش پرآب کیونکر
پانی کے دھوکے پیاسے کیا کیا عزیز مارے
سر پر نہ خاک ڈالے اپنے سراب کیونکر
آب رواں نہ تھا کچھ وہ لطف زندگانی
جاتی رہی جوانی اپنی شتاب کیونکر
سینے میں میرے کب سے اک سینک ہی رہے ہے
قلب و کبد نہ ہوویں دونوں کباب کیونکر
شلّاق خواری کی تھی خجلت جو کچھ نہ بولا
منھ کیا ہے نامہ بر کا نکلے جواب کیونکر
سوز دل و جگر سے جلتا ہے تن بدن سب
میں کیا کوئی ہو کھینچے ایسے عذاب کیونکر
چہرہ کتابی اس کا مجموعہ میر کا ہے
اک حرف اس دہن کا ہوتا کتاب کیونکر
میر تقی میر

دل کو میرے ہے اضطراب بہت

دیوان پنجم غزل 1586
چشم رہتی ہے اب پرآب بہت
دل کو میرے ہے اضطراب بہت
دیکھیے رفتہ رفتہ کیا ہووے
تاب دل کم ہے پیچ و تاب بہت
دیر افسوس کرتے رہیے گا
عمر جاتی رہی شتاب بہت
مہر و لطف و کرم عنایت کم
ناز و خشم و جفا عتاب بہت
بے تفاوت ہے فرق آپس میں
وے مقدس ہیں میں خراب بہت
پشت پا پر ہے چشم شوخ اس کی
ہائے رے ہم سے ہے حجاب بہت
دختر رز سے رہتے ہیں محشور
شیخ صاحب ہیں کُس کباب بہت
آویں محشر میں کیوں نہ پاے حساب
ہم یہی کرتے ہیں حساب بہت
واں تک اپنی دعا پہنچتی نہیں
عالی رتبہ ہے وہ جناب بہت
گل کے دیکھے کا غش گیا ہی نہ میر
منھ پہ چھڑکا مرے گلاب بہت
میر تقی میر

کاے میر کچھ کہیں ہم تجھ کو عتاب کر کر

دیوان چہارم غزل 1390
یہ لطف اور پوچھا مجھ سے خطاب کر کر
کاے میر کچھ کہیں ہم تجھ کو عتاب کر کر
چھاتی جلی ہے کیسی اڑتی جو یہ سنی ہے
واں مرغ نامہ بر کا کھایا کباب کر کر
خوں ریزی سے کچھ آگے تشہیر کر لیا تھا
اس دل زدے کو ان نے مارا خراب کر کر
گنتی میں تو نہ تھا میں پر کل خجل ہوا وہ
کچھ دوستی کا میری دل میں حساب کر کر
روپوش ہی رہا وہ مرنے تک اپنے لیکن
منھ پر نہ رکھا اس کے کچھ میں حجاب کر کر
مستی و بے خودی میں آسودگی بہت تھی
پایا نہ چین میں نے ترک شراب کر کر
کیا جانیے کہ دل پر گذرے ہے میر کیا کیا
کرتا ہے بات کوئی آنکھیں پرآب کر کر
میر تقی میر

آنسو آتے ہیں اب شتاب شتاب

دیوان چہارم غزل 1353
کیا گئی جان و دل سے تاب شتاب
آنسو آتے ہیں اب شتاب شتاب
ہلیں وے پلکیں اور کیے رخنے
حال دل ہو گیا خراب شتاب
یوں صبا بھی سبک نہیں جاتی
جوں گیا موسم شباب شتاب
پیر ہوکر ہوا ہوں یوں غافل
جیسے لڑکوں کو آوے خواب شتاب
مرتے ہیں ہو جواب نامہ وہی
آوے خط کا اگر جواب شتاب
مہربانی تو دیر میں ہے کبھو
ہے دل آزاری و عتاب شتاب
یاں قدم چاہیے رکھیں گن کر
میر لے ہے کوئی حساب شتاب
میر تقی میر

جس سے دل آگ و چشم آب ہے میاں

دیوان سوم غزل 1196
عشق وہ خانماں خراب ہے میاں
جس سے دل آگ و چشم آب ہے میاں
تن میں جب تک ہے جاں تکلف ہے
ہم میں اس میں ابھی حجاب ہے میاں
گو نہیں میں کسو شمار میں یاں
عاقبت ایک دن حساب ہے میاں
کو دماغ و جگر کہاں وہ قلب
یاں عجب ایک انقلاب ہے میاں
زلف بل کھا رہی ہے گو اس کی
دل کو اپنے تو پیچ و تاب ہے میاں
لطف و مہر و وفا وہ کیا جانے
ناز ہے خشم ہے عتاب ہے میاں
لوہو اپنا پیوں ہوں چپکا ہوں
کس کو اس بن سر شراب ہے میاں
چشم وا یاں کی چشم بسمل ہے
جاگنا یہ نہیں ہے خواب ہے میاں
منھ سے کچھ بولتا نہیں قاصد
شاید اودھر سے اب جواب ہے میاں
دل ہی اپنا نہیں فقط بے چین
جی کو بھی زور اضطراب ہے میاں
چاہیے وہ کہے سو لکھ رکھیں
ہر سخن میر کا کتاب ہے میاں
میر تقی میر

دامن پکڑ کے رویئے یک دم سحاب کا

دیوان دوم غزل 730
بالقوہ ٹک دکھایئے چشم پرآب کا
دامن پکڑ کے رویئے یک دم سحاب کا
جو کچھ نظر پڑے ہے حقیقت میں کچھ نہیں
عالم میں خوب دیکھو تو عالم ہے خواب کا
دریا دلی جنھیں ہے نہیں ہوتے کاسہ لیس
دیکھا ہے واژگوں ہی پیالہ حباب کا
شاید کہ قلب یار بھی ٹک اس طرف پھرے
میں منتظر زمانے کے ہوں انقلاب کا
بارے نقاب دن کو جو رکھتا ہے منھ پہ تو
پردہ سا رہ گیا ہے کچھ اک آفتاب کا
تلوار بن نکلتے نہیں گھر سے ایک دم
خوں کر رہو گے تم کسو خانہ خراب کا
یہ ہوش دیکھ آگے مرے ساتھ غیر کے
رکھتا ہے پائوں مست ہو جیسے شراب کا
مجنوں میں اور مجھ میں کرے کیوں نہ فرق عشق
چھپتا نہیں مزہ تو جلے سے کباب کا
رو فرصت جوانی پہ جوں ابر بے خبر
انداز برق کا سا ہے عہد شباب کا
واں سے تو نامہ بر کو ہے کب کا جواب صاف
میں سادگی سے لاگو ہوں خط کے جواب کا
ٹپکاکرے ہے زہر ہی صرف اس نگاہ سے
وہ چشم گھر ہے غصہ و ناز و عتاب کا
لائق تھا ریجھنے ہی کے مصراع قد یار
میں معتقد ہوں میر ترے انتخاب کا
میر تقی میر

دل داغ گشتہ کباب ہے جگر گداختہ آب ہے

دیوان اول غزل 571
رمق ایک جان وبال ہے کوئی دم جو ہے تو عذاب ہے
دل داغ گشتہ کباب ہے جگر گداختہ آب ہے
مری خلق محو کلام سب مجھے چھوڑتے ہیں خموش کب
مرا حرف رشک کتاب ہے مری بات لکھنے کا باب ہے
جو وہ لکھتا کچھ بھی تو نامہ بر کوئی رہتی منھ میں ترے نہاں
تری خامشی سے یہ نکلے ہے کہ جواب خط کا جواب ہے
رہے حال دل کا جو ایک سا تو رجوع کرتے کہیں بھلا
سو تو یہ کبھو ہمہ داغ ہے کبھو نیم سوز کباب ہے
کہیں گے کہو تمھیں لوگ کیا یہی آرسی یہی تم سدا
نہ کسو کی تم کو ہے ٹک حیا نہ ہمارے منھ سے حجاب ہے
چلو میکدے میں بسر کریں کہ رہی ہے کچھ برکت وہیں
لب ناں تو واں کا کباب ہے دم آب واں کا شراب ہے
نہیں کھلتیں آنکھیں تمھاری ٹک کہ مآل پر بھی نظر کرو
یہ جو وہم کی سی نمود ہے اسے خوب دیکھو تو خواب ہے
گئے وقت آتے ہیں ہاتھ کب ہوئے ہیں گنوا کے خراب سب
تجھے کرنا ہو وے سو کر تو اب کہ یہ عمر برق شتاب ہے
کبھو لطف سے نہ سخن کیا کبھو بات کہہ نہ لگا لیا
یہی لحظہ لحظہ خطاب ہے وہی لمحہ لمحہ عتاب ہے
تو جہاں کے بحر عمیق میں سرپرہوا نہ بلند کر
کہ یہ پنج روزہ جو بود ہے کسو موج پر کا حباب ہے
رکھو آرزو مئے خام کی کرو گفتگو خط جام کی
کہ سیاہ کاروں سے حشر میں نہ حساب ہے نہ کتاب ہے
مرا شور سن کے جو لوگوں نے کیا پوچھنا تو کہے ہے کیا
جسے میر کہتے ہیں صاحبو یہ وہی تو خانہ خراب ہے
میر تقی میر

پر تمامی عتاب ہیں دونوں

دیوان اول غزل 366
لب ترے لعل ناب ہیں دونوں
پر تمامی عتاب ہیں دونوں
رونا آنکھوں کا رویئے کب تک
پھوٹنے ہی کے باب ہیں دونوں
ہے تکلف نقاب وے رخسار
کیا چھپیں آفتاب ہیں دونوں
تن کے معمورے میں یہی دل و چشم
گھر تھے دو سو خراب ہیں دونوں
کچھ نہ پوچھو کہ آتش غم سے
جگر و دل کباب ہیں دونوں
سو جگہ اس کی آنکھیں پڑتی ہیں
جیسے مست شراب ہیں دونوں
پائوں میں وہ نشہ طلب کا نہیں
اب تو سرمست خواب ہیں دونوں
ایک سب آگ ایک سب پانی
دیدہ و دل عذاب ہیں دونوں
بحث کاہے کو لعل و مرجاں سے
اس کے لب ہی جواب ہیں دونوں
آگے دریا تھے دیدۂ تر میر
اب جو دیکھو سراب ہیں دونوں
میر تقی میر

محتسب کو کباب کرتا ہوں

دیوان اول غزل 324
عام حکم شراب کرتا ہوں
محتسب کو کباب کرتا ہوں
ٹک تو رہ اے بناے ہستی تو
تجھ کو کیسا خراب کرتا ہوں
بحث کرتا ہوں ہو کے ابجدخواں
کس قدر بے حساب کرتا ہوں
کوئی بجھتی ہے یہ بھڑک میں عبث
تشنگی پر عتاب کرتا ہوں
سر تلک آب تیغ میں ہوں غرق
اب تئیں آب آب کرتا ہوں
جی میں پھرتا ہے میر وہ میرے
جاگتا ہوں کہ خواب کرتا ہوں
میر تقی میر

جاتا ہے جی چلا ہی مرا اضطراب میں

دیوان اول غزل 288
آیا کمال نقص مرے دل کی تاب میں
جاتا ہے جی چلا ہی مرا اضطراب میں
دوزخ کیا ہے سینہ مرا سوز عشق سے
اس دل جلے ہوئے کے سبب ہوں عذاب میں
مت کر نگاہ خشم یہی موت ہے مری
ساقی نہ زہر دے تو مجھے تو شراب میں
بیدار شور حشر نے سب کو کیا ولے
ہیں خون خفتہ اس کے شہیدوں کے خواب میں
دل لے کے رو بھی ٹک نہیں دیتے کہیں گے کیا
خوبان بد معاملہ یوم الحساب میں
جاکر در طبیب پہ بھی میں گرا ولے
جز آہ ان نے کچھ نہ کیا میرے باب میں
عیش و خوشی ہے شیب میں ہو گوپہ وہ کہاں
لذت جو ہے جوانی کے رنج و عتاب میں
دیں عمر خضر موسم پیری میں تو نہ لے
مرنا ہی اس سے خوب ہے عہد شباب میں
آنکلے تھے جو حضرت میر اس طرف کہیں
میں نے کیا سوال یہ ان کی جناب میں
حضرت سنو تو میں بھی تعلق کروں کہیں
فرمانے لاگے روکے یہ اس کے جواب میں
تو جان لیک تجھ سے بھی آئے جو کل تھے یاں
ہیں آج صرف خاک جہان خراب میں
میر تقی میر

تو ہنس کے بولے وہ منہ قابل نقاب نہ تھا

امیر مینائی ۔ غزل نمبر 9
کہا جو میں نے کہ یوسف کو یہ حجاب نہ تھا
تو ہنس کے بولے وہ منہ قابل نقاب نہ تھا
شب وصال بھی وہ شوخ بے حجاب نہ تھا
نقاب اُلٹ کے بھی دیکھا تو بے نقاب نہ تھا
لپٹ کے چوم لیا منہ، مٹا دیا انکار
نہیں کا اُن کے سوا اس کے کچھ جواب نہ تھا
مرے جنازے پہ اب آتے شرم آتی ہے
حلال کرنے کو بیٹھے تھے جب حجاب نہ تھا
نصیب جاگ اُٹھے سو گئے جو پانوں مرے
تمہارے کوچے سے بہتر مقام خواب نہ تھا
غضب کیا کہ اسے تو نے محتسب توڑا
ارے یہ دل تھا مرا شیشۂ شراب نہ تھا
زمانہ وصل میں لیتا ہے کروٹیں کیا کیا
فراق یار کے دن ایک انقلاب نہ تھا
تمہیں نے قتل کیا ہے مجھے جو تنتے ہو
اکیلے تھے ملک الموت ہم رکاب نہ تھا
دعائے توبہ بھی ہم نے پڑھی تو مے پی کر
مزہ بھی ہم کو کسی شے کا بے شراب نہ تھا
میں روئے یار کا مشتاق ہو کے آیا تھا
ترے جمال کا شیدا تو اے نقاب نہ تھا
بیاں کی جو شبِ غم کی بے کسی، تو کہا
جگر میں درد نہ تھا، دل میں اضطراب نہ تھا
وہ بیٹھے بیٹھے جو دے بیٹھے قتل عام کا حکم
ہنسی تھی اُن کی کسی پر کوئی عتاب نہ تھا
جو لاش بھیجی تھی قاصد کی ، بھیجتے خط بھی
رسید وہ تو مرے خط کی تھی ، جواب نہ تھا
سرور قتل سے تھی ہاتھ پانوں کو جنبش
وہ مجھ پہ وجد کا عالم تھا، اضطراب نہ تھا
ثبات بحر جہاں میں نہیں کسی کو امیر
اِدھر نمود ہوا اور اُدھر حباب نہ تھا
امیر مینائی